اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رُو سے کہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10) اِس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4) کا مِصداق اور موعُود ہے۔ وُہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔ میں پھر رسُول کریم ﷺ کی پیشین گوئی کی طرف عَود کر کے کہتا ہوں کہ آپؐ نے اس زمانہ کی ہی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیں گے، لیکن وُہ اُن کے حق سے نیچے نہ اُترے گا۔ اب ہمارے مخالف۔ نہیں نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے اور رسول اللہ ﷺ کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے خوب گلے مروڑ مروڑ کر یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران: 56) اور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی (المائدہ: 118) قرآن میں عجیب لہجہ سے پڑھتے ہیں، لیکن سمجھتے نہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ اگر کوئی ناصِح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ60 ایڈیشن 1988ء)