حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعات اور روایات کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اُس کے مَیں نے مختلف عنوان بنائے تھے، جو بیان ہوتے رہے۔ آج کا خطبہ اس سلسلہ کا آخری خطبہ ہو گا۔ ویسے مَیں نے متعلقہ لوگوں کو کہا ہے کہ رجسٹر دوبارہ چیک کر لیں۔ اگر کچھ روایات رہ گئی ہوئیں توپھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی۔
یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ یہ خطبات فروری کے مہینہ میں ختم ہو رہے ہیں اور جن روایات پر ختم ہو رہے ہیں اُن کا تعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ ایک دو روایات مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کر دی تھیں اور آج تقریباً ساری ہی وہ روایات ہیں یا رؤیا ہیں، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہیں۔ پانچ دن کے بعد یومِ مصلح موعود بھی منایا جائے گا۔ 20؍فروری کو جماعت میں منایا جاتا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ مصلح موعود کی پیدائش تھی بلکہ اس لئے کہ 20؍فروری کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مصلح موعود کی جو پیشگوئی فرمائی تھی، یہ اُس کا دن ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دلیل ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش تو 20؍فروری کی نہیں تھی۔
بہرحال یہ جو روایات مَیں بیان کرنے لگا ہوں ان میں حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے بارے میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تسلیاں دلوائیں۔ جو لوگ پہلے غیر مبائعین میں شامل ہوئے تھے اُن کی پھر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور وہ دوبارہ بیعت میں آ گئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا زمانہ گزارا ہے تو وہ بڑی سختیوں اور پریشانی کا دَور تھا۔ شروع میں انتخابِ خلافت کے وقت جو فتنہ اُٹھا، اس میں جو بڑے بڑے علماء کہلاتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے قریبی بھی تھے وہ جماعت سے علیحدہ ہو گئے، خزانہ لے کے چلے گئے اور پھر مختلف وقتوں میں اندرونی اور بیرونی فتنے بھی اُٹھتے رہے۔ لیکن ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شاملِ حال رہی۔ یہ اولوالعزم ہر فتنہ اور ہر سختی کا بڑا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ آخر وہی جماعت ترقی کرتی رہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اور جو خلافت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح ترقی کر رہی ہے۔
آج کی جو روایات ہیں، اب مَیں بیان کرتا ہوں۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں۔ انہوں نے 1894ء میں بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے رؤیا میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں دیکھا تھا جو حضرت محمود کی خلافت کے متعلق تھا۔ جب حضرت خلیفہ اوّل ؓ کو چوٹ لگی اور آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی۔ (یہ بیماری ہے خون کے دباؤ میں یا جسم میں کسی وجہ سے سوجن وغیرہ ہو جاتی ہے اور پیٹ کی بھی خرابی ہوتی ہے) بہرحال کہتے ہیں آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی تو مَیں نے حضرت محمودؓ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ اقرار کیا تھا کہ مَیں آپ کاپہلا غلام ہوں۔ تو مجھے آپ نے فرمایا کہ سمجھ میں نہیں آیا۔ تو جناب شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی نے بتلایا کہ ان کو بذریعہ رؤیا اور الہام کے یہ بتلایا گیا ہے کہ ہم نے محمود کو خلیفہ بنا دیا ہے۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 75-76 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)
حضرت امیر محمد خان صاحب ؓ۔ پچھلی روایتوں میں بھی ان کی روایتیں، امیر خان صاحب کے نام سے پڑھتا رہا ہوں۔ ان کے کسی عزیز نے مجھے لکھا کہ ان کا نام امیر محمد خان تھا۔ تو بہرحال روایت میں لکھنے والے نے تو شروع میں امیر خان ہی لکھا ہے لیکن آگے روایتوں میں ان کے ایک خط کا ذکر آتا ہے اُس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل نام ان کا امیر محمد خان ہی ہے۔ بہرحال انہوں نے 1903ء میں بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ 23؍نومبر 1913ء کو مَیں نے خواب کے اندر ایک سرس کا درخت دیکھا جس کے ساتھ کچھ بڑی بڑی خشک پھلیاں لٹک رہی تھیں جس کی کھڑ کھڑاہٹ سے اس قدر شور پڑ رہا تھا کہ کسی کو آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جس سے وہ تمام سوکھی ہوئی پھلیاں جھڑ گئیں۔ اس پر حضرت اولوالعزم نے فرمایا(یعنی حضرت مصلح موعود نے خواب میں ہی فرمایا) کہ شیطان کا گھر اُجڑ گیا، برباد ہو گیا۔ اب زمین سے سبزہ اُگے گا اور غلبہ پیدا ہو گا اور میوے لگیں گے۔ اس پر بعض اشخاص نے ان خشک پھلیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ نے ان کو شیطان کا گھر کیوں کہا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اولوالعزم نے فرمایاکہ انہیں مَیں نے شیطان کا گھر نہیں کہا، انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شیطان کا گھر ہی کہا ہے۔ اس کے بعد مَیں نے حکیم محمد عمر صاحب کو بڑی بلند آواز کے ساتھ(یہ خواب کا ذکر کر رہے ہیں، خواب میں ہی) حضرت صاحب کی پیشگوئیاں لوگوں کو سناتے دیکھا جو کہ پوری ہو چکی تھیں اور جن کو آئندہ کی پیشگوئی کی صداقت میں بطور دلیل کے پیش کر رہے تھے۔ جن کے سننے سے سامعین کے دلوں میں ایک سکینت اور سرور پیدا ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں سو الحمد للہ! یہ خواب تقرر خلافتِ ثانیہ کے وقت ہو بہو پورا ہوا اور مولوی محمد علی صاحب مع اپنے رفقاء کے، جنہوں نے خلافت کے خلاف شور برپا کر رکھا تھا، جماعت سے الگ ہو گئے بلکہ قادیان سے بھی نکل گئے۔ جن کے نکلنے کے بعد احمدیت خلافتِ ثانیہ کے ذریعہ چاردانگِ عالم میں پھیل گئی۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر6 صفحہ147-148 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
حضرت امیر محمد خان صاحبؓ ہی بیان فرماتے ہیں کہ 24؍ فروری 1912ء بدھ وار کی رات خواب کے اندر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ (یہ جس خواب کا ذکر کر رہے ہیں، یہ حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی کی خواب ہے) کہ جب مبارک موعود آئے گا تو تخت نشین کیا جائے گا۔ اس سے مراد ہم تو جارج پنجم کی تخت نشینی لیتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ مبارک موعود سے مراد صاحبزادہ میاں محمود احمد ہیں اور تخت نشینی سے مراد آپ کی خلافت ہے۔ پھر خیال ہوا کہ آپ کی خلافت کے وقت تو دنیا میں کوئی زبردست زمینی یا آسمانی نشان ظاہر ہونا چاہئے تھے۔ تب تفہیم ہوئی کہ نشان بھی پورا ہو جائے گا۔ صاحبزادہ صاحب کی خلافت کے ذکر سے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ بشاش ہو رہا تھا اور مَیں بھی خوش ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں تو مبارک موعود کا ظہور کسی دُور کے زمانے میں سمجھتا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ خوش وقت بھی میری زندگی میں ہی مجھے نصیب ہوا۔ پھر خواب کے اندر خیال پیدا ہوا کہ خلیفہ تو حضرت مولوی صاحب ہیں، میاں صاحب کس طرح خلیفہ ہو گئے۔ تب تفہیم ہوئی کہ خلیفہ اوّل نے تو بہت بوڑھے ہونا نہیں کیونکہ خدا کے پیارے ارزل عمر کو نہیں پہنچتے۔
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 142-143 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
بعض لوگ موعود کا سوال اُٹھا دیتے ہیں تو ان کو اُس زمانے میں بھی خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا۔
(خطبہ جمعہ 15؍ فروری 2013ء)