صبح کی نماز
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔ ’’صبح کی نماز کو چھوڑنا اس مرکزی نیکی کو چھوڑنا ہے جس پر باقی نیکیاں قائم ہیں۔ اگر یہ ہاتھ سے جاتی رہے تو باقی سب نمازیں ہاتھ سے جاتی رہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 10؍اکتوبر 1997ء)
نیکیوں کے مرکز پر قائم ہو جانا ہی انسان کو عبادات میں دوام بخشتا ہے۔
صبح کے وقت کی گہری نیند سے بیدار ہو کر رب کے حضور کھڑے ہو جانا گویا تمام دن کی عبادات کے لیے تیاری کا اہتمام کرنا ہےاور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دن کے آغازمیں دعا سے تمام دن کی عبادات کے لیےتوفیق مانگناافضل قرار دیا گیا ہے۔ عموماً رات کو دیر تک کمپیوٹر اور ٹی وی پر گیمز اور پروگرامز دیکھتے رہنے کی عادت کی وجہ سےیا اسکول و کالج کی رات گئے تک پڑھائی کی خاطرخصوصاً نو جوان طبقہ صبح کی نماز کی مرکزی نیکی کے ثواب اور اہمیت سے بے پرواہی برت رہا ہے، دیر سے اٹھ کر جلدی میں نماز کی ٹھونگیں مارنا ایک عام عادت بن گئی ہے۔ رات گئے تک کئے جانے والے مشاغل اگر جلدی نمٹا لیے جائیں اس خیال سے کہ نماز ِ فجر وقت پر ادا ہو جائے تو صبح کے وقت کی گئی پڑھائی بھی کامیابی اور خیر و بر کت کا باعث بن جائے گی۔
(مرسلہ: ناصرہ احمد۔ کینیڈا)