• 16 جولائی, 2025

اے ماں تجھے سلام

محبتوں بھرے احسان
اے ماں تجھے سلام

کچھ دن ہوئے محترم ایڈیٹر صاحب الفضل (آن لائن) نے مجھے ایک مضمون بعنوان ’دلچسپ خود نوشت حالات، قربانیاں اور افضال الہٰی‘ کمپوز کرنے کےلئے بھیجا۔ جو مکرم حامد کریم محمود صاحب کا اپنے والد محترم چوہدری فضل کریم صاحب کے ذکر خیر کے بارے میں تھا۔

جب مَیں نے لکھنا شروع کیا تو نہ میں مضمون نگار کو جانتی تھی اور نہ ہی ان کے والد صاحب کو۔ میں تو حرف حرف جوڑ کر الفاظ بنانے بیٹھی تھی لیکن جوں جوں میں مضمون کے ساتھ آگے بڑھتی گئی۔ اسی میں کھو گئی۔ اس میں کچھ نام ایسے تھے جن کے ساتھ کچھ یادیں جڑی تھیں۔ تحریر نے سارے دریچے کھول دئے اپنی کرسی پر بیٹھی کمپیوٹر پر پوروں سے بٹن دباتی ہوئی میں 70 سال پُرانے زمانے میں پہنچ گئی بہت سی دُھندلی یادوں کے سوئے جا گے خوشبوؤں میں بسے مہکتے باغ میں پہنچ گئی۔ انسان خوشی کا وقت جلدی بھول سکتا ہے مگر تکلیفیں درد جگاتی رہتی ہیں۔ اب سنئے! مجھے کیا یاد آیا تھا۔

پارٹیشن کے بعد میری امی جان ہم بچوں کے ساتھ لاہور سے اپنی بڑی بہن خالہ جی صالحہ (مرحومہ) کے پاس پنڈی بھٹیاں آ گئیں اور میرے اباجان فیصل آباد (لائل پور) چلے گئے۔ وہاں اُ نہوں نے ایک گھر اور ایک دکان امین پور گول بازار اپنی احمدیہ مسجد کے عین سامنے اپنے نام الاٹ کرو الی۔ اور ہمیں پنڈی بھٹیاں سے غالباً 1949ء کے شروع میں اپنے پاس لائل پور بلوا لیا۔ پارٹیشن کے بعد بے حد غربت کا زمانہ تھا۔ اباجان جو بھی کام شروع کرتے کامیابی نہ ہوتی۔ ہم سب چھوٹے چھوٹے بچے تھے ہمارے والدین نہ جانے کیسے ہمارے لئے دانہ دُنکا ڈھونڈ کر لاتے۔ انہیں دنوں فرقان فورس کے لئے رضا کاروں کی تحریک شروع ہوئی تو محاذ پر جانے کے لئے مکرم عبد الرحمٰن صاحب (گڈیاں والے) کا نام تجویز ہوا۔ وہ اپنی کاروباری مصروفیت کی وجہ سے نہیں جاسکتے تھے لہذا میرے اباجان کا نام پیش ہوگیا اُس وقت میرے بھائی محمد اسلم خالد کی پیدائش کے دن قریب تھے لیکن پھر بھی میری بہادر اُمی جان نے یہ کہہ کر کہ محاز پر جانے کے لئے ضرورت پڑی ہے تو ضرور جائیں دُنیا میں ایسی عورتیں بھی تو ہیں جو بچے جنگلوں میں پیدا کرتی ہیں اُن کو جانے کی اجازت دے دی۔

عبدالرحمٰن صاحب نے ہمارے خرچے کا بوجھ اُٹھانے کی ذمہ داری لے لی۔ ہمارے گھر کے سامنے مسجد احمدیہ تھی مسجد کے اُوپر والے حصے میں مبلغ انچارج محترم محمد اسماعیل دیالگڑھی صاحب اپنی فیملی کے ساتھ قیام پزیر تھے اور نیچے جو میری یاد میں دو دکانیں ہیں وہ چاچا جی فضل کریم صاحب اور چاچا جی محمد یوسف صاحب کی تھیں، یہ سب لوگ ہمارے محا فظ بن گئے۔ اور ایک میرے اباجان کے کزن بھائی تایا جی شیخ غلام محمد صاحب ساتھ والے گاؤں (تروڑھ) میں رہتے تھے وہ بھی ہمارا سہارا بنے رہے بلکہ بہت ساتھ دیا۔ اللہ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

ہم چار بہنیں اپنی اُمی جان کے پَر بن گئیں۔ بڑی بہن گھر میں اُمی جان کے ساتھ کام میں مدد کرتیں۔ میں چونکہ نُو یا دس سال کی تھی اس لئے باہر کے کام میرے ذمہ ہو گئے جو میں بھاگم بھاگ کرتی۔ چھوٹی دونوں بہنیں ایک چھ سال کی جو اکثر میرے ساتھ اُنگلی پکڑے باہر کے کاموں میں ساتھ دیتی اور چھوٹی اُمی جان کے ساتھ گھر پر رہتی۔

اباجان کشمیر ہی میں تھے کے میرے بھائی کی پیدائش کا وقت آ گیا۔ جانے سے پہلے اباجان نے مجھے وہ گھر دکھا دیا تھا جہاں دائی اماں رہتی تھیں۔ رات کے وقت جب میری امی جان کو ضرورت محسوس ہوئی تو میں محترم خالوجی محمد اسماعیل دیالگڑھی صاحب کے ساتھ دائی اماں کو بلانے چلی گئی اُس بے حد مشکل وقت میں خالہ جی (اہلیہ مشنری محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی) میری اُمی جان کے پاس تھیں۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم چار بہنوں کے بعد بھائی کی شکل میں نعمت عطا فر مائی۔ میرے اباجان تین ماہ کے بعد کشمیر سے واپس آئے تو مالی مشکلات ویسے کی ویسے ہی مُنہ کھولے کھڑی تھیں۔ ماشاء اللہ فیملی بھی بڑی ہوگئی تھی۔ اباجان کے چار بھائی پہلے سے ہی افریقہ میں مقیم تھے اُنہوں نے اباجان کو بھی وہاں بلوا لیا تاکہ مالی مشکلات کم ہوں اُس دوران میں ہماری اُمی جان نے کن مشکلات سے وقت گزارا اور ہمارے چاچاجی فضل کریم صاحب نے اور چاچاجی شیخ محمد یوسف صاحب نے اور ہمارے اباجان کے کزن بھائی نے کس کس طرح ہمارا ساتھ دیا۔ یہ احسانات زندگی بھر نہیں بھولے جا سکتے۔ اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند فر مائے۔ آمین

چاچا جی محمد یوسف صاحب کا غالباً چینی کا ڈیپو ہوتا تھا جہاں راشن پر چینی ملتی تھی اور چینی موٹے سے کپڑوں کے تھیلوں میں ہوتی تھی اُمی نے محترم چاچاجی سے ایک بار وہ تھیلے لئے تھے۔ ، اُمی جان نے اُن کو اچھی طرح دھو لیا اور میری بڑی بہن کے برقعہ کے لئے تیار کر لیا۔ کپڑے سینے کی مشین ابھی بھی ہمارے پاس نہیں تھی اور اب سلائی کے لئے مَیں چاچا جی فضل کریم کے پاس جاکر بتاتی کہ اُمی جان نے کپڑے سینے ہیں تو ہمیں مشین چاہیئے۔ پھر چاچاجی محترم فضل کریم صاحب رات کو مشین ہمارے گھر کی سیڑھیوں پر رکھ دیتے ہم اُوپر لے آتے میری ماں رات بھر ہمارے کپڑے سیتیں اور صبح سویرے مشین واپس کر دی جاتی۔ امی جان مشین استعمال کر کے اسے اچھی طرح صاف ستھرا کر تیں اور اُس کے کَل پرُزوں کو تیل وغیرہ دے کر واپس کرتیں جس پر چچا فضل کریم صاحب بہت خوش ہوتے کہ مشین ہلکی ہو گئی ہے۔

عید ہو یا ویسے ہی ہم بچوں کے کپڑے بنانے ہوں تو چاچا جی فضل کریم صاحب کی مشین رات کو ہمیں مل جاتی لیکن یقین مانیں مجھے نہیں یاد کہ رات بھر کبھی مجھے یہ یاد ہو کہ رات کو مشین کی کبھی آواز مجھے سنائی دی ہو کیونکہ ہم بچوں کی نیند ہی ایسی ہوتی ہےمگر قربان جاؤں اُس ماں کے جو پوری رات جاگ کر ہمارے کپڑے سیتی تھیں اور دن بھر ہم بچوں کی دیکھ بھال کھانا پکانا اور ضروریات زندگی پوری کرتیں۔ میری اُمی جان اپنے حلقہ میں چندہ لیا کرتی تھیں۔ ایک دن میری اُمی جان محترم شیخ محسن صاحب کے گھر چندہ کے لئے گئیں تو بیگم صاحبہ نے پوچھ لیا کہ کیا آپ جلسہ سالانہ پر ربوہ جارہی ہیں؟ میری اُمی جان نےنہیں میں جواب دیا وہ زیرک خاتون تھیں سمجھ گئیں کہ کیو ں نہیں جا رہیں اُسی وقت کچھ رقم میری اُمی جان کے ہاتھ پر رکھی اور کہا آپ جلسہ پر ضرور جائیں۔ کس احمدی کا دل نہیں چاہتا کہ جلسہ ہو اور وہ اپنے مرکز میں نہ جائے اور وہ بھی پارٹیشن کے بعد غالباً پہلا یا دوسرا جلسہ تھا۔ گھر آ کر میری اُمی جان نے ربوہ جلسہ پر جانے کا پروگرام بنا لیا اور تیاری شروع کر دی ہم پانچ بچے اور اُمی جان ہو سکتا ہے رقم کچھ کم ہو تو اس لئے اُنہوں نے اپنے سونے کے کلپ چاچاجی محمدیوسف صاحب کے پاس گروی رکھنے کی درخواست کی جو اس لئے قبول نہ ہوئی کہ میرے پاس تو اتنی رقم نہیں ہے جو میں آپ کو دے سکوں۔ پھر دوسرے چاچاجی فضل کریم صاحب کے پاس وہ کلپ بھجوائے تو اُنہوں نے کلپ واپس کر دئے اور 40 روپے بھی ساتھ دیئےکہ آپ لوگ آرام سے جلسہ پر جائیں۔ غالباً 1950ء کی یہ بات ہے کہ جلسہ سالانہ کے دن قریب تھے تا یاجی غلام محمد صاحب ہمیں جلسہ پر ربوہ جانے کے لئے فیصل آباد اسٹیشن ٹرین پر چڑھانے آئے۔ ہمیں جلدی جلدی گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی چل پڑی ٹکٹ اور باقی رقم تایا جی کی جیب میں واپس چلے گئے اور ہم سب بغیر ٹکٹ اور رقم کے ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ اب سوچتی ہوں اُس وقت میری اُمی جان کتنی اذیت میں ہونگی جب بغیر ٹکٹ سفر کر رہے ہوں گے! وہ تو گاڑی ہمارے احمدیوں سے بھری ہوئی تھی اور اگر ٹکٹ چیکر آ جاتا تو بہت مشکل ہو جاتی۔ خیر ربوہ کا اسٹیشن آیا جلدی جلدی بچوں کو اُتارا اور گاڑی چل پڑی میری اُمی ٹرین میں ہی رہ گئیں اللہ کا شکر ہے کہ گارڈ نے جلدی سے زنجیر کھینچی اور ٹرین رُک گئی۔ تب تک اسٹیشن خالی ہو چکا تھا اور اس طرح اللہ نے میری اُمی جان کی مدد فر مائی اور ہم بے ٹکٹے ربوہ پہنچ گئے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے یہ مشکلات کا دور قریباً ڈیڑھ دوسال تک رہا ہوگا۔ کیونکہ جب اباجان افریقہ چلے گئے تو کچھ عرصہ بعد ہم سب ربوہ شفٹ ہوگئے۔ اباجان کی طرف سے منی آرڈر بھی آ نے شروع ہوگئے۔ مالی حالات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر سے بہتر ہونے لگے۔ افریقہ جاتے ہوئے اباجان اپنی دکان تایا جی غلام محمد صاحب کو دے گئے تھے جس کا ذکر حامد کریم صاحب نے کیا ہے کہ آدھی دوکان شیخ غلام محمد صاحب کی کرایہ پر لے لی۔ جب ہم ربوہ شفٹ ہوئے تو مکان بھی اپنے تایا جی شیخ غلام محمد صاحب کے حوالے کردیا تھا۔ مَیں نے نَو دس سال کی عمر میں فیصل آباد چھوڑا تھا دوبارہ ایک دو بار فیصل آباد گئی ضرور ہوں مگر کبھی وہ گھر یا وہ مقام نہیں دیکھے جہاں میری ماں نے تکلیف دہ دن گزارے تھے۔

اُن ڈیڑھ دو سالوں کا اب سوچتی ہوں تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں کہ ہماری اُمی جان نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیسے اتنی ہمت اور حوصلے سے وقت گزارا ہوگا۔ اور اُن محسنوں کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے اُس مشکل ترین وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمارے تمام محسنوں کے درجات بلند فرمائے اور اُن کی تمام اولاد کو خوشیاں اور سکون عطا فر مائے۔ آمین

(صفیہ بشیر سامی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مارچ 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات