• 23 جون, 2025

ماہ رمضان المبارک کا عشرہ رحمت

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہترہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کئے ہیں۔ اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے… ھُوَ شَھْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَاٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔ کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے …اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔

(صحیح ابن خزیمہ کتاب الصیام)

دراصل انسان ابتدا میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے قدموں میں سیکھتا ہے اور ہم عشّاق رسول اللہ ﷺ نے ایک عظیم سبق اپنی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے سیکھاہے چنانچہ حضرت ہشام بن عامربیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ام المؤمنین حضرت عائشہ کے پاس آیااور کہا:

يَآ أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ! أَخْبِرِيْنِيْ بِخُلُقِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺقَالَتْ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْاٰنَ،أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ، قَوْلَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ:وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ

(القلم: 4)

اے امّ المؤمنین! مجھے حضورﷺ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق کچھ بتائیں۔ تو اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کے اخلاق تو قرآن ہیں۔ فرمایا کہ کیا تم قرآن میں خدا تعالیٰ کا یہ قول نہیں پڑھتے۔ کہ اے نبیؐ یقینا آپ عظیم الشان اخلاق فاضلہ پر قائم ہیں۔

(مسند الإمام أحمد بن حنبل۔مسند النساء۔مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا)

اس ماہ رمضان میں رحمت الہی کا حصول کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے کہ محبّ خدا ہونے کے لیے محبّ رسول،جو کہ رحمت العالمین ہے، ہونا لازم ہے اور اس رحمت العالمین رسول کے محبوب ہونے کے لیے مطیع رسول ہونا ضروری ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۲﴾ قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۳﴾

(آل عمران: 32-33)

ترجمہ: تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو مىرى پىروى کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تُو کہہ دے اللہ کى اطاعت کرو اور رسول کى پس اگر وہ پِھر جائىں تو ىقىناً اللہ کافروں کو پسند نہىں کرتا۔

اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کا حصول، آپﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی سے ہی ممکن ہے۔ چنانچہ فرمایا

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا۔

(الاحزاب: 22)

ىقىناً تمہارے لئے اللہ کے رسول مىں نىک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور ىومِ آخرت کى امىد رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو ىاد کرتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے أسوہ حسنہ کا حصول کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا رسول کریں اور عملی نمونہ انسانیت کے لیے مہیا کریں اور جن چیزوں سے منع کریں اور جن کاموں سے روکیں اُن سے رکنا ضروری ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا

(الحشر: 8)

ترجمہ: رسول جو تمہىں عطا کرےتو اسے لے لو اور جس سے تمہىں روکے اُس سے رُک جاؤ۔

حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایاہے کہ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ کہ میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ بلاشبہ آپؐ نے مکارم اخلاق کے بہترین نمونے قائم کرنے کا حق ادا کر کے دکھادیا اور ہر خُلق کو اُس کی معراج تک پہنچا دیا۔تبھی تو عرش کے خدا نے اس پر گواہی دی کہ

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ

(القلم: 6)

نبّوت کے تھے جس قدر بھی کمال
وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لامحال
صفاتِ جمال اور صفات جلال
ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال

یہ ماہ رحمت دراصل انسان کے لیے بمطابق فرمان نبوی ﷺ ’’اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ‘‘

(ترمزی،باب ماجاء فی فضل الصوم)

اس میں کوئی شک نہیں کہ روزہ ایک ڈھال ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمارے آقا ﷺ نے ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ روزے کو رحمت کا موجب اور برائیوں سے ڈھال کیسے بنانا ہے اور کیسے روزے سے اپنے تقویٰ پیدا کرنا ہے۔

اس روزہ کی ڈھال سے بچنے کے طریق بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ گناہوں سے بچو، گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو اور اس طرح بچو جس طرح کسی ڈھال کے پیچھے چھپ کے بچا جاتا ہے۔ اور انسان جب کسی چیز کے پیچھے چھپ کر بچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں ایک خوف بھی ہوتا ہے۔ جس حملے سے بچ رہا ہوتا ہے اس کے خوف کی وجہ سے وہ پیچھے چھپتا ہے۔ تو فرمایا کہ روزے رکھو اور روزے رکھنے کا جو حق ہے اس کوادا کرتے ہوئے رکھو تو تقویٰ میں ترقی کرو گے۔۔۔۔ رمضان میں روزہ رکھنے کا حق ادا کرتے ہوئے میری خاطر تم جائز باتوں سے بھی پرہیز کر رہے ہوتے ہو اور تمہاری اس کوشش کی وجہ سے مَیں بھی تم پر رحمت کی نظر ڈالتا ہوں اور شیطان کو جکڑ دیتا ہوں۔ تاکہ تم جس خوف کی وجہ سے روزہ رکھتے ہو اور روزہ رکھتے ہوئے اس ڈھال کے پیچھے آتے ہو، تقویٰ اختیار کرتے ہو تاکہ اس میں تم محفوظ رہو، اور تمہیں شیطان کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔‘‘

(از خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 2004ء بحوالہ خطبات مسرور جلد دوئم صفحہ740)

رحمت والی ڈھال جو انسان کو شیطان اور دیگر کمزوریوں سے بچانے کا کام کرتی ہیں کہ متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

’’وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ‘‘

(بخاری کتاب الصوم،باب وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ)

اور جو کوئی رمضان کے روزے اِیمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھے گا، اُس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

رمضان میں اس ’’اِیمان‘‘ کو ترقی دینے کے لیے ایک بہت ہی پیارا اصول رسول اللہ ﷺ نے اپنے عملی نمونہ سے یہ پیش کیا کہ

’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُوْنُ فِيْ رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ، وَكَانَ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِيْ رَمَضَانَ، حَتّٰى يَنْسَلِخَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القُرْاٰنَ، فَإِذَا لَقِيَهٗ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ‘‘

(بخاری کتاب الصوم، بَابٌ: أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)

نبی ﷺ نیکی میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں بہت ہی سخاوت کرتے تھے۔ جب حضرت جبرائیل ؑ آپؐ سے ملتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپؐ سے ملاقات کرتے تھے، یہاں تک کہ (رمضان) گزر جاتا۔ نبیﷺ قرآن کا دَور کرتے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملتے تو آپؐ نیکی میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے۔

یعنی اگر حقیقت میں رحمت خداوندی حاصل کرنی ہے تو خصوصیت سے تلاوت قرآن پڑھیں، چنانچہ اس متذکرہ حدیث میں رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کریم کی حکمت وبرکت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم (ﷺ) قرآن کریم کا رمضان میں دَور کیا کرتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی آپ کو دَور کرانے کے لئے آیا کرتے تھے۔ اس کے اندر حکمت یہ ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنے کو تیار ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے حرام موت مرنے سے روکا ہے اس لئے وہ افطار کرتا ہے اسی لئے روزہ کا بدلہ خدا تعالیٰ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ موت کے بعد ہی ملتا ہے۔ آگے زندگی کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ خود زندہ رہنا اور دوسرے اپنے بعد نسل چھوڑجانا۔ اور روزہ میں انسان پر موت کی یہ دونوں صورتیں وارد ہوتی ہیں۔ یعنی وہ کھانا پینا ترک کرکے اپنی موت پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے اور بیوی سے تعلقات قطع کرکے اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنی نسل کو بھی برباد کر دینے کے لئے تیار ہے اور روزہ میں موت کی ان دونوں اقسام کے نمونے وہ پیش کرتا ہے اور اس طرح خدا کی ملاقات کا مستحق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لقاء کا بہترین ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا کلا م نازل ہو۔قرآن کریم اگرچہ رسول کریم (ﷺ) پر نازل ہو چکا ہے لیکن جب انسان اس کی تلاوت کرتا ہے تو اس پر بھی ایک نیم وحی کی حالت ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ اس کے لئے ہی نازل ہو رہا ہے۔پس رمضان شریف میں تلاوت قرآن کریم مسنون ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد12 صفحہ61۔62)

باقی ماہ رمضان کیفیات ’’أَجْوَدُ مَاکَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ‘‘ یعنی نبی ﷺ سب سے زیادہ جو د وسخاوت کرتے تو رمضان میں کرتے رمضان میں بحالت روزہ آنحضرت ﷺ کے اسوئہ حسنہ سے اس کی غرض و غایت واضح ہو جاتی ہے۔ یعنی روزے سے نفس بشری کی اَخلاقی اصلاح اور روحانی وقلبی ماہیت مقصود بالذات ہے۔ آنحضرتﷺ کی پاکیزہ فطرت کا خمیر سراسر نیکی سے اُٹھایا گیا تھا اور نیکی ہی آپؐ کے تمام اعمال میں غالب تھی اور رمضان میں آپؐ کی یہ پاکیزہ حالت زیادہ نمایاں نظر آجاتی۔ نیز یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ قرآن کریم میں صرف انفاق فی سبیل اللہ ایک نیکی ہے،جس کے لیے خاص طور پر یہ الفاظ آئے ہیں کہ اس بغیر حقیقی مقصود حاصل ہوہی نہیں سکتا۔چنانچہ فرمایا کہ لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (آل عمران: 93)

تم ہرگز نىکى کو پا نہىں سکو گے ىہاں تک کہ تم اُن چىزوں مىں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھى خرچ کرتے ہو تو ىقىناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

معاشرہ میں امن و آشتی اور رحمت بکھیرنے کے لیے اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کی رمضان میں خصوصی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ کہ ’’كُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ لَهٗٓ إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهٗ لِيْ وَأَنَا أَجْزِيْ بِهٖ‘‘ ابن آدم کا ہر عمل اُس کی ذات کے لئے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ پس روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے اور میں ہی اِس کی جزا بنوں گا۔ اسی طرح فرمایا کہ
’’وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ‘‘ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بے ہودہ بات کرے ’’وَلَا يَصْخَبْ‘‘ اور نہ شور شرابہ کرے ’’فَإِنْ سَآبَّهٗٓ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهٗ فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَآئِمٌ‘‘ اور جب کوئی اُسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں تو روزہ دار شخص ہوں۔

(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم)

رمضان کی یہ رحمتیں حاصل کرنے کا گُراور طریق بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان کرتے ہیں:
’’رمضان کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکات اور خاص رحمتیں لے کر آتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کے انعام اور احسان کے دروازے ہر وقت ہی کھلے رہتے ہیں اور انسان جب چاہے ان سے حصہ لے سکتا ہے صرف مانگنے کی دیر ہوتی ہے ورنہ اس کی طرف سے دینے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ خداتعالیٰ اپنے بندہ کو کبھی نہیں چھوڑتا۔ ہاں بندہ خداتعالیٰ کو چھوڑ کر بعض دفعہ دوسروں کے دروازہ پر چلا جاتا ہے… سو اس رحیم و کریم ہستی سے تعلق پیدا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ ہر گھڑی رمضان کی گھڑی ہو سکتی ہے۔ اورہر لمحہ قبولیت دعا کا لمحہ بن سکتا ہے۔ اگر دیر ہوتی ہے تو بندہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کے احسانات میں سے ہی ہے کہ اُس نے رمضان کا یک مہینہ مقرر کر دیا تاکہ وہ لوگ جو خود نہیں اٹھ سکتے ان کو ایک نظام کے ماتحت اٹھنے کی عادت ہو جائے اور ان کی غفلتیں اُن کی ہلاکت کا موجب نہ ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ382-383)

رمضان کے روزوں سے جس قسم کا نیک ماحول پیدا ہوتا ہے اور نیکی کے محرکات جو اس وقت جمع ہوجاتے ہیں۔ اگر اُن سے بھی کسی شخص کےاندر نیک تبدیلی پیدا نہیں ہوتی تو اُس کی اصلاح کی کیا امید ہوسکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی علت غائی نہایت صاف الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فِی الصَّوْمِ‘‘

(بخاری کتاب الصوم،باب مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ)

یعنی جو بندہ روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا جو نہ چھوڑے اللہ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ لوگ بھوکے پیاسے تو رہیں لیکن بدی ترک نہ کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ 439۔440)

اسی طرح آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلی قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھُلے کہ خدا کو دیکھ لیوے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ561۔562)

رمضان کی فضائل و برکات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’گویا یہ ایک قسم کی چلہ کشی ہوتی ہے۔انسان عموماً تیس دن چِلہ کشی کرتا ہے اور اپنے آپ کو ایک حد تک لذایذ سے روکتا ہے اس سے اس میں روحانی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔انسان کے لئے حکم ہے کہ وہ اخلاقِ الٰہیہ اپنے اندر پیدا کرے اور روزہ رکھنے سے ایک رنگ میں خدا تعالیٰ سے مشابہت پیدا ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات کھانے پینے سے کُلّی طور پر منزہ ہے لیکن انسان چونکہ کُلّی طور پر کھانا پینا ترک نہیں کر سکتا اس لئے روزہ سے اُسے اس حد تک اللہ تعالیٰ سے مشابہت پیدا کرنے کا موقع دیا گیا ہے جس حد تک اس کے لئے ممکن ہے۔گویا ان دنوں میں انسان ایک رنگ میں ملائکہ سے مشابہ ہوتا ہے جو مادی غذاؤں سے پاک ہیں اور ایک رنگ میں خدا تعالیٰ سے جو کھانے پینے سے بکلی پاک ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد12 صفحہ273)

نیز فرمایا ’’رمضان کی ایک برکت تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اور ملائکہ سے مشابہت پیدا ہوتی ہے دوسرے خدا تعالیٰ کی قربت حاصل ہوجاتی ہے اور تیسرے یہ کہ دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد12 صفحہ274)

نیز فرمایا:
ایک قومی فائدہ یہ ہے کہ قوم میں غریب،امیر ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں غرباء بیچارے سارا سال تنگی سے گزارا کرتے ہیں اور انہیں کئی فاقے آتے ہیں مگر وہ ان کے لئے کسی ثواب کا موجب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے ذریعہ انہیں توجہ دلائی ہے کہ وہ ان فاقوں سے بھی ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ میں انہیں یہ گر بتایا ہے کہ اگر اسی فقروفاقہ کی زندگی کو وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلائیں تو یہی انہیں خدا تعالیٰ سے ملا سکتی ہے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد12 صفحہ58)

فرمایا: امراء کے لئے بھی روزہ حصولِ تقویٰ کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے دلوں میں غرباء کی خبر گیری کا شوق پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح روزے قوم میں قربانی کی عادت پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں۔

(خطباتِ محمود جلد12 صفحہ60)

حضر ت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’صوم ایک محبت ِالٰہی کا بڑا نشان ہے۔ روزہ دار آدمی کسی کی محبت میں سرشار ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بیوی کے تعلقات اس سے بھول جاتے ہیں۔ یہ روزہ اسی حالت کا اظہار ہے۔ یہ بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد1 صفحہ303)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالَم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کااثر ہے جو تجربے سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو، پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں،جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ102)

ہمارے پیارے اِمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’روزہ ڈھال ہے۔ حفاظت کا ایک ایسا مضبوط ذریعہ ہے جس کے پیچھے چھپ کر تم اپنے آپ کو شیطان کے حملوں سے محفوظ کر سکتے ہو … یہ قلعہ تو ہے لیکن اس ڈھال کے پیچھے اور اس قلعہ کے اندر کب تک اس قلعے میں حفاظت ہوتی رہے گی، کب تک محفوظ رہو گے…جب تک اس کو جھوٹ یا غیبت کے ذریعے سے پھاڑ نہیں دیتے۔ تو رمضان میں روزوں کی جو برکتیں ہیں اُسی وقت حاصل ہوں گی جب یہ چھوٹی چھوٹی برائیاں بھی جو بعض بظاہر چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں، آدمی معمولی سمجھ رہا ہوتا ہے… اُن میں بہت بڑی برائی جو ہے جس کو آدمی محسوس نہیں کرتا وہ جھوٹ ہے۔ اگر جھوٹ بول رہے ہو تواس ڈھال کو پھاڑ دیتے ہو۔ لوگوںکی غیبت کر رہے ہو چغلیاں کر رہے ہو، پیچھے بیٹھ کے ان کی باتیں کر رہے ہو تو یہ بھی تمہارے روزے کی ڈھال کو پھاڑنے والی ہیں۔ تو روزہ اگر تمام لوازمات کے ساتھ رکھا جائے تو ڈھال بنے گا…اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کو تمام شرائط کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خا لصۃً اللہ تعالیٰ کی خاطر روزے رکھنے والے ہوں نہ کہ دنیا کے دکھاوے کے لئے۔ کوئی نفس کا بہانہ ہمارے روزے رکھنے میں حائل نہ ہو اور اِس مہینے میں اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرنے والے ہوں… رمضان میں دعائیں کرتے رہنا چاہئے کہ نیکیاں … ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہیں۔ اور ہم میں سے ہرایک اللہ تعالیٰ کے پیاروں میں شامل ہو، اُس کا پیار حاصل کرنے والا ہو اور ہمیشہ اُس کی پیار کی نظر ہم پر پڑتی رہے۔ اوریہ رمضان ہمارے لئے، جماعت کے لئے غیرمعمولی فتوحات لانے والا ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین‘‘

(خطبات مسرورجلد2صفحہ748و753۔754)

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی جملہ برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

(رحمت اللہ بندیشہ۔استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ یکم؍ اپریل 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ