تلخ یادوں نے نوک پر رکھا
ہاں مگر وعدہ معتبر رکھا
دوستوں سے تو کہہ نہیں پائی
دشمنوں سے بچا کے گھر رکھا
لوگ ڈرتے تھے میرے قاتل سے
اور الزام میرے سر رکھا
دشت در دشت پیاس ملنی تھی
قطرہ قطرہ سنبھال کر رکھا
خواب اشکوں میں بہ نہ جائیں کہیں
بیتے لمحوں کا ان میں ڈر رکھا
اس قدر زندگی ہوئی آسان
دل میں غم تیرا جس قدر رکھا
جانے کیا سوچ کر دیاؔ ! اس نے
مجھ کو مجھ سے ہی بےخبر رکھا
(دیا جیم۔ فیجی)