رمضان کے ذکر میں قرآن کریم نے ’’ایاما معدودات‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ الفاظ ہر دو کیلئے ہیں جو اس تعلق میں نئے ہیں اور روزہ کا خوف کھاتے ہیں۔ جن کو نیکیوں کی عادت نہیں، خدا کی راہ میں قربانیاں دینے کی مشق نہیں ہے ان کیلئے یہ بات کیسے پیارے انداز سے ایک سہارا ہے کہ چند دن کی بات ہے کچھ کرلو،اس سے تمہیں فائدہ پہنچے گا اور چند دن کی قربانی تمہارے لئے دائمی برکتیں لے کر آئے گی۔
دوسرا پہلو نیکیوں کے عادی اور خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے رہنے والوں کے تعلق میں کہ افسوس کہ یہ چند دن کی باتیں ہیں بہت پُر بہار موسم آنے والا ہے مگروہ لوگ جن کو محبت ہو، جن کو رمضان سے گزرنے کے بعد ایسے روحانی تجربات ہوئے ہوں، ایسے لُطف انہوں نے اٹھائے ہوں تو وہ جب رمضان گزرنے لگتا ہے پھر حسرت سے دیکھتے ہوئے یہ کہتے ہیں چند دن کی باتیں تھیں جو گزر گئیں۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دی تھی۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خَلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے‘‘
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت185)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں۔ ان کو باربار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بے حقیقت بلکہ باطل ہے۔ ایک ایسی چیزہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شمارمیں نہیں آئے گی۔ اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مرکرمٹی ہو جاؤ گے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ جانور تو مرکر نجات پا جاتے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدان میں حاضر کئے جاؤگے۔ پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرناہے اور رمضانِ مبارک میں ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ فضا سازگار ہو جاتی ہے۔
رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں مسجدوں میں، جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دئے اور ان کو دیکھ کر دل میں کسی قسم کی تحقیر کے جذبے نہیں پیدا ہوتے۔ کیونکہ اگر انسان ان چہروں کو دیکھے اور تحقیر کی نظر سے کہ اب آگیا ہے رمضان میں، پہلے کہاں تھا تو میرا یہ ایمان ہے کہ ایسی نظرسے دیکھنے والے کی اپنی عبادتیں بھی سب باطل ہو جائیں گی اور ضائع ہو جائیں گی۔ کیونکہ اللہ کے دربار میں اگر کوئی حاضر ہوتاہے، ایک دفعہ بھی حاضر ہوتاہے اگر آپ کو اللہ سے محبت ہے تو پیار کی نظر ڈالنی چاہئے اس پر اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس کو اور قریب کریں اور اس کو بتائیں کہ الحمدللہ تمہیں دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی ہے۔ تم اٹھے، تکلیف کی ہے، پہلے عادت نہیں تھی۔ اب آ گئے ہو ’’بسم اللہ جی آیاں نوں‘‘ کہو اس کو اور اس کو پیار کے ساتھ سینے سے لگائیں تا کہ آپ کے ذریعے سے اور آپ کے اخلاص کے اظہار کے ذریعے سے وہ ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو جائے۔
یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں۔ جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہونگی۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔
پس رمضان اس پہلو سے کاشتکاری کا مہینہ ہے۔ آپ نے بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت کے بیج بونے ہیں۔ اس طریق پر ان کی آبیاری کرنی ہے یعنی روزمرہ ان کو نیک باتیں بتابتا کر کہ ان بیجوں سے بڑی سرسبز خوشنما کونپلیں پھوٹیں اور رفتہ رفتہ وہ بچے ایک شجر ہ طیبہ کی صورت اختیار کر جائیں جس کی جڑیں تو زمین میں پیوستہ ہوتی ہیں مگر شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔
تو رمضان مبارک کو روزوں کے لحاظ سے جیسے گزارنا ہے وہ تو عام طورپر سب جانتے ہی ہیں مگر میں ان فائدوں پر نگاہ رکھ رہاہوں جو رمضان میں خاص طورپر ہجوم کر کے آ جاتے ہیں اور اس وقت آ پ اس ہجوم سے استفادہ کریں اور زیادہ سے زیادہ برکتیں لوٹ لیں۔ یہ مقصد ہے اس نصیحت کا جس کے لئے میں آج آ پ کو متوجہ کر رہا ہوں۔ بعض لوگ جانتے ہیں کنکوے اڑائے جاتے ہیں مگر بسنت میں جوکنکووں کے اڑنے کا عالَم ہے وہ چیز ہی اور ہو جاتی ہے۔ پس خدا کی یادوں کے لئے یہ مہینہ بسنت بن گیا ہے اور باربار ذکرالٰہی کے جوگیت ہیں وہ گھر گھرسے بلند ہوتے ہیں۔ مختلف وقتوں میں اٹھتے ہیں، صبح و شام تلاوت کی آوازیں آتی ہیں اور طرح طرح سے انسان اللہ کی یاد کو زندہ اور تازہ اور دائم کرنے کی کوشش کرتاہے تاکہ جو یاد آئے وہ پھر ہاتھ سے نکل نہ جائے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء)
’’دوسری بات رمضان میں یہ ہے کہ بچوں کو سحری کے وقت اٹھا کر کھانے سے پہلے نوافل پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔ قادیان میں یہی دستور تھا جو بہت ہی ضروری اور مفید تھا۔ جسے اب بہت سے گھرو ں میں ترک کر دیا گیا ہے۔ قادیان میں یہ بات رائج تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو عین اس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کاوقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ بچہ کم سے کم دو چار نوافل پڑھ لے۔ چنانچہ مائیں بچوں کو کھانا نہیں دیتی تھیں جب تک پہلے نفل پڑھنے سے فارغ نہ ہو جائیں۔
سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر ان کو نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتہ لگے کہ روزہ کااصل مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ اس امر کا اہتمام کیا جاتا تھاکہ بچے پہلے تہجد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھر کھانے پہ آئیں۔ اور اکثر اوقات الا ما شاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتاتھا۔ کھاناتو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے کھا کرفارغ ہو جاتے تھے جب کہ تہجد کے لئے ان کو آدھ پون گھنٹہ مل جاتا تھا۔ اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے اور اہتمام کے ساتھ روزہ نہیں رکھوایا جاتا بلکہ آخری منٹوں میں جب کہ کھانے کا وقت ہوتاہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن کم روی کا مذہب تو نہیں۔ اس لئے میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔ جہاں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے وہاں فرض سمجھنا چاہئے۔ جہاں روزہ فرض قرار نہیں دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطراستفادہ کرنا چاہئے۔ یہ نیکی ہے۔ اسکا نام میانہ روی ہے۔ اس لئے جماعت کو اپنے روز مرہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کھلوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 30مئی 1986ء)
فرمایا: ’’دیکھو رمضان میں کیسے اعلیٰ اعلیٰ مواقع آپ کو نصیب ہوتے ہیں اور کس طرح روزمرہ آپ کی اولاد کی تربیت آپ کے لئے آسان ہو جاتی ہے۔ ایک ماحول بنا ہوا ہے، اٹھ رہے ہیں روزوں کے وقت، افطاری کے وقت اکٹھے ہو رہے ہیں اس وقت عام طو ر پرلوگ گپیں مارکے اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ سحری کے وقت بھی میں نے دیکھا ہے یہ رجحان ہے کہ ہلکی پھلکی باتیں کرکے توہنسی مذاق یا دوسری باتوں میں سحری کے وقت کو ٹال دیتے ہیں اور ضائع کردیتے ہیں۔ اسی طرح افطاری کا حال۔ تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے سحری اور افطاری کو تربیت کے لئے استعمال کریں اور تربیت کے مضمون کی باتیں کیا کریں‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء)
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں ان باتوں کو سمجھ کران سے حتی المقدور استفادہ کی کوشش کرنے والے ہوں۔ خدا کرے کہ یہ رمضان ہمارے لئے ایسا زندہ ہوجائے کہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی دے کر جائے۔ آمین
(احتشام الحسن۔مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)