ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ ہی جہاں تو ایک طرف انسانی طبیعت کا فوری طور پر اِس کی برکتوں، رحمتوں اور سعادتوں کی جانب مبذول ہونا ایک طبعی اور فطری عمل ہے وہیں دوسری طرف مسائل رمضان کی بابت بھی متفرق سوالات ذہن میں اُبھرنا معمولِ عام ہے۔ اِسی ضمن میں ایک سوال جو اکثر بطورِ والدین یا دیگر حیثیتوں میں ہمارے سامنے، بچوں کی جانب سے اُٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم روزہ کس عمر سے رکھ سکتے ہیں۔بحرکیف نیکی کی طرف توجہ و تحریک پیدا ہونا انتہائی قابلِ تحسین اور حوصلہ افزاءاَمر ہے اور ہو بھی کیوں نہ، یہ مبارک مہینہ تو ہے ہی روحانیت کا موسمِ بہار تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ہمارے بچے اِس پاک ماحول اور اِس کے نیک اثرات سے باہر رہیں جہاں تہجّد، سحری و افطاری، پنجوقتہ باجماعت نمازوں، نوافل اور صدقات خیرات نیز تلاوت کلامِ پاک، دُرُوسِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہؐ اور ملفوظات کا باقاعدگی اور زور و شور سے بالخصوص عام دنوں کے بالمقابل بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا جا رہا ہو۔
بایں ہمہ آج کل مادیّت کا دور دَورہ ہے اور میڈیا کی ہر طرف یلغار ہے، اِسی کے زیرِ اثر عمومی طور پر کہیں سحری ٹرانسمیشن تو کہیں افطار نشریات کاکسی نہ کسی رنگ میں نظروں کے سامنے سے گزر ہوتا رہتا ہے۔ بچے اپنی معصومیت اور حساسیّت کی بناء پر وہاں دکھائے جانے والے مناظر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے، انہی میں نابالغ کم سِن بچوں کے روزہ رکھنے پر روزہ کشائی کی شکل میں دکھائے جانے والے پروگرام بھی شامل ہیں جو غیر اَحمدی میڈیا کے اِن دنوں زینتِ عام ہوتے ہیں۔
بچوں کے روزہ رکھنے کی نسبت صحیح البخاری میں تذکرہ
بچوں کے روزہ رکھنے کی نسبت یعنی اِس کی تائید میں عمومی طور پر صحیح البخاری کی جلد سوم، کتاب الصّوم؍ باب صَوْمُ الصِّبْیَانِ (بچوں کا روزہ) کے تحت عنوانِ باب میں حضرت عمر فاروقؓ کے قول اورنقل کی گئی جس روایت کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے، قارئین کی دلچسپی کی غرض سے پہلے اِن کو بالترتیب درج کیا جاتا ہے۔ پھر اِن روایات کے متعلق حضرت سیّد زین العابدین ولی الله شاہ صاحِبؓ کی تحریر فرمودہ تشریح کو تاکہ بااعتبارِ سیاق و سباق اِس تناظر میں بفضلہٖ تعالیٰ تشفی ممکن ہو سکے۔
کم بخت! ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں
’’حضرت عمرؓ نے رمضان میں ایک شخص سے جو شراب کے نشہ میں تھا کہا، کم بخت! ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں اور اُسے بڑی سزاء دی۔
ہم اِس کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو رکھواتے
حضرت رُبَیّع بنتِ مُعوِّذؓ سے مروی ہےکہ نبی صلی الله علیہ و سلم نے عاشورہ کی صبح کو انصار کی بستیوں میں کہلا بھیجا جو آج صبح روزہ دار نہیں تو وہ اپنا باقی دن (بغیر کھائے) پورا کرے اور جس نے صبح روزہ رکھا ہو چاہئے کہ وہ روزہ رکھے۔ وہ کہتے تھے ہم اِس کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو رکھواتے اور اُن کےلیئے اُون کا ایک کھلونا بنا دیتے۔ جب اُن میں سے کوئی کھانے کے لیئے روتا تو ہم وہ اُسے دے دیتے یہاں تک کہ اُس کے لیئے اِفطار کا وقت ہو جاتا۔
مذہبِ جمہور، بچے جب تک جوان نہ ہو جائیں اُن پر روزہ واجب نہیں باب صَوْمُ الصِّبْیَانِ کی تشریح میں حضرت سیّد زین العابدین ولی الله شاہ صاحِبؓ تحریر فرماتے ہیں۔
صَوْمُ الصِّبْیَانِ: عنوانِ باب کے تحت جو روایت نقل کی گئی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو جو روزہ رکھوایا گیا وہ احکامِ رمضان نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اہلِ مدینہ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے جیسا کہ یہود رکھتے تھے۔۔۔ لیکن آیا رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی بچوں کو روزہ رکھوایا گیا یا نہیں؟ اِس بارہ میں چونکہ کوئی مستند روایت نہیں۔ اِس لیئے عنوانِ باب میں حضرت عمرؓ کے قول کا حوالہ دیا گیا ہے جو سعید بن منصورؒ نے موصولًا نقل کیا ہے۔ اِس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابۂ کرامؓ بعد کو بھی بچوں کو روزہ رکھوایا کرتے تھے تاکہ بچپن ہی سے نیکی کی عادت اُن میں پیدا ہو۔ ورنہ کم سِن بچے احکامِ شریعت کے مکلّف نہیں۔ اِس بارہ میں جمہور کا یہی مذہب ہے کہ بچے جب تک جوان نہ ہو جائیں اُن پر روزہ واجب نہیں۔ امام شافعیؒ نے دس، بارہ سال کی عمر تجویز کی ہے جس میں بچوں پر روزہ واجب ہوتا ہے لیکن وجوب یا عدمِ وجوب کا تعلق اُن کی حالتِ صحت سے ہے۔
(فتح الباری جزء4 صفحہ255تا256)
قرطبیؒ کے نزدیک یہ روایت غریب ہے۔ مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاری عورتیں کم سِن بچوں کو روزہ رکھواتیں اور اُن کے روزے پر اُنہیں گڑیوں سے بہلایا کرتی تھیں مگر اُن کا یہ عمل حجّت نہیں۔ اِس لیئے امام بخاریؒ نے عنوانِ باب صَوْمُ الصِّبْیَانِ بغیر کسی خبر کے مطلق رکھا ہے۔ ابنِ خزیمہؒ وغیرہ نے رُزَینہؓ سے جو آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کی خادمہ تھیں، روایت نقل کی ہے کہ عاشورہ میں آنحضرتؐ دودھ پیتے معصوم بچوں کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈالتے اور اُن کی ماؤں سے فرماتے کہ رات تک اِنہیں دودھ نہ پلایا جائے۔ قرطبیؒ کے نزدیک یہ روایت غریب ہے۔ اِس باب میں اِس قسم کی کمزور روایتوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اِن روایتوں سے کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں میں عاشورہ کی پابندی اور اِس دن روزہ کی عظمت پائی جاتی تھی حتّی کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی وہ اِس میں شریک رکھتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاری جلدسوم، صفحہ236-237)
مسئلہ کا فقہی حل اور فیصلہ
کسی بھی سوال یا مسئلہ کے حل کے لیئے ہمیں کہاں سے مدد لینی چاہئے؟ اِس بارہ میں اصولی رہنمائی ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ کے متبرک اور پُرحکمت الفاظ میں بحوالہ ماہِ رمضان المبارک، روزوں کے متعلق بعض چھوٹے چھوٹے سوال اور اُن کے حل کی بابت پیشِ خدمت ہے۔
’’اسلام کے بنیادی جو رکن ہیں اُن کے مسائل کا علم ہونا ضروری ہے۔ اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام کو بھیجا ہے اور حَکَم اور عدل بنا کر بھیجا ہے جنہوں نے اسلام کی تعلیم پر بنیاد رکھتے ہوئے ہر معاملے کا فیصلہ کرنا تھا اور کیا اور ہر مسئلے کا حل بتانا تھا اور بتایا۔ پس اِس لحاظ سے اِس زمانے میں ہمیں اپنے مسائل کا حل اور علم میں اضافے کے لیئےآپ علیہ السّلام کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس زمانے میں شرعی احکامات کے بارے میں آپ علیہ السّلام کا حکم یا نظریہ ہی ہمارے لیئے اُس مسئلے کا فقہی حل اور فیصلہ ہے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ3 جون 2016ء)
شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو
روزہ رکھنے سے منع کیا ہے
چھوٹے بچوں کے روزہ رکھنے کی شرعی ممانعت نیز بلوغت کے قریب بچوں کو اِس کی مشق کروانے کےنفسِ مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’یہ اَمریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب اُنہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ، سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اُس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے۔
بارہ تیرہ سال کے قریب
کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے
حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ، تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے۔ اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت مسیح ِموعودعلیہ السّلام نے دی تھی۔ اِس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے۔ اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ اُنہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اِس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اِس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رُک جانا چاہئے
اِسی طرح بعض بچے خَلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لیئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اِس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات، آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسے بچے روزہ کے لیئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا ِس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔
بہرحال اِن باتوں میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رُک جانا چاہئے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہئے مگر مسلمان اِس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں‘‘
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ جلد دوم صفحہ 385سورۃ البقرہ زیرِ آیت 185)
کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا
پسند نہیں کرتے تھے
سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ بیان فرماتی ہیں۔
’’قبلِ بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت امّاں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ اِفطار دی تھی۔ یعنی جو خواتینِ جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔ اِس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں مَیں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام کو بتایا کہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے، پاس اسٹول پر دو پان لگے رکھے تھے، غالبًا حضرت امّاں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔ آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔ تم کمزور ہو، ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔ مَیں نے پان تو کھا لیا مگر آپؑ سے کہا کہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ) نے بھی رکھا ہے، اُن کا بھی تُڑوادیں۔ فرمایا! بلاؤ اُس کو ابھی، مَیں بُلا لائی۔ وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھا کر دیا اور فرمایا! لو یہ کھالو، تمہارا روزہ نہیں ہے۔ میری عمر دس ّسال کی ہوگی غالبًا۔‘‘
(تحریراتِ مبارکہؓ بحوالہ فقہ المسیح صفحہ214 باب روزہ اور رمضان)
بچوں کا روزہ نہیں ہوتا
حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز روایاتِ صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایمان افروز تذکرہ کرتے ہوئے حضرت محمد یحيٰ صاحِب ؓ ولد مولوی انوار حسین صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہردوئی کی بابت بیان فرماتے ہیں۔
’’یہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم حضورؑ کے ہمراہ نہر تک گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا پیاس لگی ہوئی تھی، حضور ؑ کو معلوم ہو گیا کہ بعض چھوٹے بچوں کا روزہ ہے تو حضورؑ نے فرمایا اِن کا روزہ تُڑوا دو، بچوں کا روزہ نہیں ہوتا۔ اِس حکم پر ہم نے نہر سے خوب پانی پی کر پیاس بجھائی اور حضور ؑسے رخصت ہو کرقادیان واپس چلے آئے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 8؍اپریل2011ء)
روزہ کے لیئے بچپن
عمومًا کم عمر بچوں سے روزہ رکھوانے کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ جب نماز فرض ہے تو پھر روزہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا، حضرت مصلح موعودؓ اِس عُذر کا انتہائی لطیف انداز میں رفع کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
’’روزہ کا بچپن اور ہے اور نماز کے لیئے اور۔۔۔ نماز کے لیئے تو دسّ، گیارہ سال سے ہی بچپن ختم ہو جاتا ہے لیکن روزہ کے لیئے بچپن اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک بچہ پوری پوری طاقت حاصل نہیں کر لیتا۔ اِس وجہ سے مختلف بچوں کے یہ بچپن مختلف ہوتا ہے جو پندرہ سے بیس سال کا ہوتا ہے۔ ہاں اگر بچپن کی عمر میں بچے تھوڑے تھوڑے روزے ہر سال رکھیں تو اچھا ہے، اِس طرح اِنہیں عادت ہو جائے گی۔ مگر بہت چھوٹی عمر میں اِس طرح بھی روزہ نہیں رکھوانا چاہئے، یہ شریعت پر عمل کرانا نہیں بلکہ بچہ کو بیمار کر کے ہمیشہ کے لیئے ناقابل بنانا ہے۔ یہ غلط خیال پھیلا ہؤا ہے کہ بچہ کا روزہ ماں، باپ کو مِل جاتا ہے، حالانکہ ایسے بچے سے روزہ رکھوانا جو کمزور ہو اور اپنی جسمانی صحت کے لحاظ سے استوار نہ ہو چکا ہو، ثواب نہیں بلکہ گناہ کا ارتکاب کرنا ہے۔
بچوں کو بتدریج روزہ کا عادی بنایا جائے
پھر آپؓ بچوں کو بتدریج روزہ کا عادی بنانے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
ہاں جب بچہ کی ضروری قوتیں نشوونما پاچکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ عادت ہوجائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا پھر دو، تین چھوڑ دئیے۔ پھر دوسری دفعہ رکھوایا، ایک چھڑوادِیا۔ میرے نزدیک بعض بچے تو پندرہ سال کی عمر میں اِس حدّ کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ اُن کے لیئے فرض ہوجاتا ہے۔ بعض سولہ، سترہ، اٹھارہ، اُنیس اور حدّ بیس سال تک اِس حالت کو پہنچتے ہیں، اُس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے۔ پس یاد رکھو روزہ فرض ہونے کی حالت میں بلاوجہ روزہ نہ رکھنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 26؍مارچ 1926 ء بحوالہ خطبات محمود جلد10 صفحہ119)
حدّ بلوغت سے قبل بچوں سے
روزہ رکھوانا صحت پر بُرا اَثر ڈالتا ہے
حضرت مصلح موعودؓ اِس حوالہ سے ارشاد فرماتے ہیں۔
’’پھر کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لیئے الگ الگ حدّیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ پندرہ یا اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ میرے نزدیک روزوں کا حکم پندرہ سے اٹھارہ سال کی تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حدّ ہے۔ میرے نزدیک اِس سے پہلے بچوں سے روزہ رکھوانا اُن کی صحت پر بُرا اثر ڈالتا ہے جس میں وہ طاقت اور قوّت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ پس جس زمانہ میں کہ وہ طاقت اور قوّت کے ذخیرہ کو جمع کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت اُن کی طاقت کو دبانا اور بڑھنے نہ دینا اُن کے لیئے سخت مضر ہے۔۔۔ پس جس زمانہ میں بچہ طاقت پیدا کر رہا ہو اُس کو روزہ نہ رکھوانا چاہئے تا وقتیکہ اُس کی عمر پندرہ سال کی نہ ہو جائے کیونکہ اِس سے پہلے بچہ پر روزہ فرض نہیں ہوتا۔ تو نہ صرف یہ کہ اِسی عمر میں بچوں سے روزے نہ رکھوائیں بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ بچوں کو خود بھی شوق ہوتا ہے کہ روزہ رکھیں۔
کس عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے؟
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اور بجائے اِس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔ تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور اُن کی قوّت بڑھانے کے لیئے روزہ رکھنے سے اُنہیں روکنا چاہئے۔ اِس کے بعد جب اُن کا وہ زمانہ آ جائے جب وہ اپنی قوّت کو پہنچ جائیں جو پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہے تو پھر اُن سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں، دوسرے سال اِس سے کچھ زیادہ اور تیسرے سال اُس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اِس طرح بتدریج اُس وقت اُن کو روزہ کا عادی بنایا جائے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 3؍اپریل 1925ء بحوالہ خطباتِ محمود جلد9 صفحہ 88-89)
بچوں کے دلوں میں خدا کی محبّت کا بیج بونے کا مہینہ
رمضان المبارک کے ایّام میں کیونکہ ماحول سازگار ہوتا ہے اور اِس کے تحت روحانی تربیت کے ذرائع بھی بقیہ مہینوں سے بڑھ کر بہم میسر آتے ہیں لہٰذا اِس ضمن میں ہمارے بچوں کی عمدہ تربیت کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیحِ الرّابعؒ نے اِس پیرائے میں روشنی ڈالی ہے۔
’’یہ وہ طریق ہے جس سے آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں۔ جب وہ صبح اُٹھتے ہیں تو اُن کو پیار اور محبّت کی نظر سے دیکھیں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ اُن کو بتائیں کہ تم جو اُٹھے ہو توخدا کی خاطر اُٹھے ہو اَور اُن سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اِس طریق پر اُن کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبّت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں اُن کی مضبوط ہونگی۔ اُن میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبّت کے بیج میں ہؤا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔پس رمضان کے مہینہ میں یہ اِس پہلو سے کاشتکاری کا مہینہ ہے، آپ نے بچوں کے دلوں میں خداکی محبّت کے بیج بونے ہیں۔ اِس طریق پر اُن کی آبیاری کرنی ہے یعنی روزمرہ اُن کو نیک باتیں بتابتا کر کہ اُن بیجوں سے بڑی سرسبز خوشنما کونپلیں پھوٹیں اور رفتہ رفتہ وہ بچے ایک کلمۂ طیّبہ کی صورت اختیار کر جائیں جس کی جڑیں تو زمین میں پیوستہ ہوتی ہیں مگر شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 17؍جنوری 1997ء)
بچپن سے روزہ کی عادت نہ ڈالی جائے
تو بلوغت میں اہمیّت باقی نہیں رہتی
ماؤں کے عمومی روّیہ نیز بچپن سے ہی بچوں کو روزہ کے آداب سکھانے کے ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’عمومًا یہ دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں پر یہ رحم کرتی ہیں کہ اِن کی ابھی عمر نہیں آئی اِس لیئے روزہ نہ رکھنے دیا جائے اور بعض دفعہ بچے بلکہ زیادہ شوق دکھاتے ہیں اور مائیں زبردستی روکتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچوں پر روزے فرض نہیں مگر بچپن سے ہی جب نمازیں شروع کرتے ہیں بچے اگر اُن کو روزہ کے آداب نہ بتائے جائیں، اُن کو روزہ کے نمونے نہ دیئے جائیں یعنی اُن کو روزہ کی عادت نہ ڈالی جائے تھوڑی تھوڑی تو اُن کے اندر جب وہ بالغ ہوتے ہیں تو پھر روزہ کی اہمیّت باقی نہیں رہتی‘‘
بچپن سے ہی مائیں گھروں میں تربیت دیتی تھیں
مزید آپؒ قادیان کے پاکیزہ روحانی ماحول کا نقشہ کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
ہمیں تو یاد ہے قادیان کے زمانہ میں جب خدا کے فضل سے روزہ کا معیار بہت بلند تھا اور سوائے مجبوری کے کوئی اَحمدی روزہ نہیں چھوڑتا تھا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تربیت تھی، صحابہؓ زندہ تھے، اوّلین تابعین زندہ تھے جنہوں نے صحابہؓ سے تربیت حاصل کی تھی۔ اِس لیئے اُس زمانہ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اَحمدی روزہ میں کمزور ہیں اور طریق یہی تھا کہ بچپن سے ہی مائیں گھروں میں تربیت دیتی تھیں اور نو، دسّ سال کی عمر سے بچے روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔
بلوغت سے مُراد انگریز کی مقرر کردہ بلوغت نہیں لی جاتی تھی
اور بلوغت سے مُراد انگریز کی مقرر کردہ بلوغت نہیں لی جاتی تھی کہ انگریز نے اکیس سال کہہ دیا تو اکیس سال میں بالغ ہو گا اور اکیس سال میں شریعت فرض ہو گی۔
انگریز نے اٹھارہ مقرر کر دیئے تو اٹھارہ سال کے بعد شریعت فرض ہو گی بلکہ انسانی اصطلاح میں عام عرفِ عام میں جب بھی انسان بالغ ہو تا تھا وہ پورے روزے رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔
حوصلہ افزائی کے طور پر کوشش کی جاتی تھی
اور چونکہ روزہ کی بلوغت کے معاملہ میں کچھ اختلافات فقہاء میں بھی پائے جاتے ہیں اور نشوونما کی عمر کے بچوں کے لیئے نسبتًا سہولت بھی دے رہے ہیں بعض فقہاء، اِس لیئے اِس معاملہ میں بھی سختی غیر معمولی نہیں کی جاتی تھی بلکہ جس کو کہتے ہیں encourage کرنا، حوصلہ افزائی کرنا۔ حوصلہ افزائی کے طور پر کوشش کی جاتی تھی کہ جو بچے بالغ ہو چکے ہیں یعنی بارہ، تیرہ، چودہ سال کی عمر میں داخل ہو جائیں وہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ رمضان کے روزے رکھیں اور جب وہ پختہ عمر میں پہنچتے تھے یعنی اٹھارہ، اُنیس سال کی عمر میں تو پھر تو لازمًا پورے کے پورے رمضان کے روزے رکھا کرتے تھے، اِس پہلو سے رفتہ رفتہ خصوصًا تقسیم کے بعد مَیں نے دیکھا ہے کہ کمزوری آئی ہے۔
بسلسلہ رمضان قادیان میں رائج بہت ہی ضروری اور مفید بات
دوسری بات رمضان کے روزوں کے سلسلہ میں ہے جو قادیان میں رائج دیکھی اور وہ بہت ہی ضروری اور مفید تھی جس کو مَیں نے دیکھا ہے کہ بعد میں بہت گھروں میں ترک کر دیا گیا وہ یہ تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو اُس وقت نہیں اُٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کا وقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اُٹھاتے تھے کہ کم سے کم دو چار نوافل بچہ پڑھ لے اور مائیں کھانا نہیں دیتی تھیں بچوں کو جب تک وہ پہلے نفل سے فارغ نہ ہو جائیں۔ سب سے پہلے اُٹھ کے وضو کرواتی تھیں اور پھر وہ نمازِ نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ اُن کو پتہ لگے کہ اصل روزہ کا مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے۔ تہجّد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھر وہ کھانے پہ بھی آئیں۔ اور اکثر اوقات اِلّا ما شآء اللہ تہجّد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتا تھا۔ کھانا تو آخری دسّ پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے بچے کھا کے فارغ ہو جاتے تھے اور تہجّد کے لیئے اُن کو آدھ گھنٹہ، پون گھنٹہ اِتنا ضرور مہیّا کر دیا جاتا تھا۔ اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے اُن کو اِس سلیقے کے ساتھ روزہ نہیں رکھوایا جاتا کہ جو زیادہ اہم چیز ہے اُس کی طرف متوجہ ہوں بلکہ آخری منٹوں میں جب کھانے کا وقت ہے اُن کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اِسی کو کافی سمجھا جاتا ہے۔
جماعت کو روز رکھوانے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے
اِس لیئےیہ درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن میانہ روی کا مذہب ہےکم روی کا مذہب تو نہیں، میانہ روی اختیار کرو۔ جہاں خدا نے فرض قرار دیا ہے وہاں اُس کو فرض سمجھو۔ جہاں فرض نہیں قرار دیا وہاں اُس رخصت سے خدا کی خاطر استفادہ کرو، یہ نیکی ہے، اِس کا نام میانہ روی ہے۔ اِس لیئے جماعت کو روزہ رکھوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ معیار میں ایک تو صبح کی تہجّد کی نماز ہے دوسرے روزہ کے دوران کے آداب ہیں۔ روزہ کے دوران لڑائی جھگڑا، تیز گفتگو، ناجائز حرکات یہ ساری چیزیں بے معنی اور لغو ہوجاتی ہیں مؤمن کے لیئے اور یہ ایک تربیت کا دور ہے جس شخص کو ایک مہینہ یہ تربیت ملتی ہے کہ اُس نے اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے گو اُس سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ وہ مہینہ گزرنے کے بعد بھی زبان پہ قابو ہی رکھے گا۔ یہ مُراد تو نہیں ہے کہ مہینہ کا انتظار ہو رہا ہے، مہینہ ختم ہو تو پھر مَیں گالیاں شروع کروں۔ جس کو ایک مہینہ ذکرِ الٰہی کی عادت پڑ جائے، جس کی زبان تَر ہو الله کی محبّت اور پیار سے، جس کا دل بھرا ہو اَلله کے ذکر سے، ایک مہینہ کے بعد اُس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ واپس اپنی پرانی گندی عادتوں کی طرف لَوٹ جائے گا یہ ایک بالکل لغو اور بے معنی توقع ہے۔ اگر لَوٹتا ہے تو وہ پھر وہ روزہ کو سمجھا ہی نہیں، اُس نے روزہ سے فائدہ ہی نہیں اُٹھایا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا ایک مہینہ کسی کو اچھی غذا کھلائی جائے اور وہ انتظار کر رہا ہو کہ مہینہ ختم ہو تو مَیں پھر دوبارہ گند کھانا شروع کر دوں اور مہینہ ختم ہوتے ہی کہے کہ بہت اچھا، شکر ہے اب موقع آگیا اچھی غذائیں جائیں جہنّم میں اب مَیں گندگی شروع کرتا ہوں۔
روزہ تو باقی گیارہ مہینوں کی بھی ضمانت دینے کے لیئے آتا ہے
تو روزہ تو باقی گیارہ مہینوں کی بھی ضمانت دینے کے لیئے آتا ہے، باقی گیارہ مہینوں کے بھی آداب سکھانے کے لیئے آتا ہے لیکن اِس مہینہ میں آداب سکھائے جائیں تو باقی گیارہ مہینے اُن آداب کا اثر پڑے نہ۔ اگر صرف بھوک کا نام روزہ ہے تو پھر تو انسان روزہ کی اکثر نیکیوں سے محروم رہ جائے گا، اکثر فوائد سے محروم رہ جائے گا۔
اپنے گھروں کو آداب کی فیکٹریاں بنا دو
اِس لیئے اپنے گھروں کو بقیہ دن جتنے بھی باقی ہیں اُن کو آداب کی فیکٹریاں بنا دو۔ اسلامی آداب، اسلامی اخلاق، جو جو کمزوریاں عام حالات میں بچوں میں پائی جاتی ہیں اُن کو دُور کرنے کی طرف متوجہ ہو اور روزہ کا واسطہ دے کر، آنحضرت ؐ کے ارشادات بتا بتا کے بچوں کو سمجھاؤ کہ تم پہلے زبان میں ایسی بے احتیاطی کر لیا کرتے تھے اب روزہ آگیا ہے، اب بالکل نہیں کرنی اور اِسی طرح دیگر امور میں بھی تلاوت کی عادت ڈالنا، ذکرِ اِلٰہی کی عادت ڈالنا، دعاؤں کی عادت ڈالنا، حسنِ سلوک کی عادت ڈالنا، حقوق کی ادائیگی کی عادت ڈالنا، زبان کو جھوٹ سے کلیّتًہ پاک کرنے کی عادت ڈالنا، صاف اور سچی بات کی عادت ڈالنا، قولِ سدید کی عادت ڈالنا، یہ سارے مواقع ہیں روزہ کے لیئے۔
یہ دروازے کھولیں گے تو کھلیں گے
پس جب آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ جہنّم کے سارے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں تو ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جنّت کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ تو صرف منفی پہلو نہیں رکھنا بلکہ اُس مثبت پہلو پر بھی نظر رکھیں اور یہ دروازے کھولیں گے تو کھلیں گے نہ۔ اگر آپ نے اپنے حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک کے لیئے اِس عرصہ میں نیکی کے دروازے نہ کھولے تو جہنّم کے دروازے تو بند کر رہے ہوں گے لیکن بے مقصد، اُس کے بدلے کوئی نیکی کا دروازہ نہیں کھول رہے ہوں گے۔ پس مُراد یہ ہے کہ ہر بدی کے بدلے ایک خوبی پیدا کرو، ہر بد صورتی کے بدلے ایک حُسن پیدا کرو اور تیس دن مسلسل اِس جِدّوجُہد میں گزار دو کہ تمہاری بدیاں چَھٹ کر پیچھے رہ جائیں اور تمہاری نیکیاں رمضان کی برکت سے بڑھتے بڑھتے نمایاں ہو کر غیر معمولی چمک کے ساتھ آگے بڑھیں اور ہر رمضان جو گزرتا ہے وہ پہلے سے بہتر حالت میں تمہیں پائے۔
جماعت احمدیہ کو اِس طرف خصوصیّت کے ساتھ اب توجہ کرنی چاہئے
یہ مقصد ہے روزہ کا اور جماعت احمدیہ کو اِس طرف خصوصیّت کے ساتھ اب توجہ کرنی چاہئے بلکہ وقت ہے کہ اِس کے متعلق جہاد شروع کیا جائے عالمی پیمانہ پر۔ جس طرح عبادت میں الله تعالیٰ کے فضل سے ہم باقی سب کو غیر معمولی طور پر پیچھے چھوڑ گئے ہیں اُسی طرح روزہ کے میدان میں بھی اِن شاء اللہ یہ عہد کر کے اُٹھیں کہ ہم نے لازمًا باقی سب دنیا کے مسلمان کہلانے والے ہوں یا دوسرے ہوں سب کو پیچھے چھوڑ دینا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ30؍مئی 1986ء بمقام مسجد بیت الفضل لندن؍ برطانیہ)
ہم رمضان کے روزے
کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟
حضور ِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بچی کے اِستفسار کہ ’’ہم رمضان کے روزے کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟‘‘ پر اِس طرح سے رہنمائی فرمائی۔
روزے اُس وقت فرض ہوتے ہیں جب پوری طرح mature ہو جاؤ۔
’’فرض روزے تمہیں اُس وقت ہوتے ہیں جب تم لوگ پوری طرح mature ہو جاؤ۔ اگر تم اسٹوڈنٹ ہو اور تمہارے امتحان ہو رہے ہیں تو اُن دنوں میں اگر تمہاری عمر تیرہ، چودہ، پندرہ سال ہے تو پھر تم روزے نہ رکھو۔ اگر تم برداشت کر سکتی ہوروزے پندرہ، سولہ سال کی عمر میں ٹھیک ہے۔ لیکن عموماً فرض روزے جو ہیں وہ سترہ، اٹھارہ سال کی عمر کے بعد بہرحال رکھنے چاہئیں، فرض ہوتے ہیں۔ باقی شوقیہ ایک، دو، تین، چار روزے رکھنے ہیں تم نے آٹھ دسّ سال کی عمر میں رکھ لو، فرض کوئی نہیں ہیں۔ فرض ہوں گے تمہارے پہ جب تم بڑی ہو جاؤ گی، جب برداشت کر سکتی ہو روزوں کو۔۔ ۔لیکن برداشت اُس وقت ہوتی ہے جب تم جوان ہو جاتی ہو، سترہ، اٹھارہ سال کی کم از کم ہو جاؤ پھر ٹھیک ہے۔ پھر روزے رکھو۔
اسٹوڈنٹس کا اور بچیوں کا رمضان یہی ہے
۔۔۔ لیکن عادت ڈالا کرو۔ دو، تین روزے ہر رمضان میں رکھ لینے چاہئیں چھوٹے بچوں کو بھی تا کہ پتہ لگے کہ رمضان آ رہا ہے۔ لیکن روزے نہ بھی رکھنے ہوں نہ تو صبح اُٹھو اور امّاں ابّا کے ساتھ سحری کھاؤ، نفل پڑھو، نمازیں باقاعدہ پڑھو۔ تم لوگوں کا رمضان یہی ہے، اسٹوڈنٹس کا اور بچیوں کا کہ رمضان میں اُٹھیں ضرور اور سحری کھائیں، اہتمام کریں اور اُس سے پہلے دو یا چار نفل پڑھ لیں۔ پھر نمازیں باقاعدہ پڑھیں، قرآن شریف باقاعدہ پڑھیں‘‘
(گلشن واقفاتِ نَو میلبرن۔ منعقدہ مؤرخہ 12؍اکتوبر 2013ء بمقام مسجد بیت السّلام؍آسٹریلیا)
اَمر واقع یہ ہے کہ اسلام کی خوبصورت اور پاک تعلیم ہر اُس چیز کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جس میں شدّت پسندی کا عنصر شامل ہو مگر آج کے دَور میں بد قسمتی سے شدّت پسندی ہی نام نہاد مسلمانوں کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے، یہی طرزِ عمل کم عمر بچوں کے روزہ رکھوانے کی بابت بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ حالانکہ قُرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ جو روزوں کی فرضیت پر دلالت کرتی ہے اُس سے نیز حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشّمس ہے تین اُن لوگوں میں جن سے قلم اُٹھا لیا گیا ہےیعنی اُن پر شریعت لاگونہیں ہوتی اُن میں کم عمربچے بھی شامل ہیں یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائیں۔ اور جب وہ بالغ ہو جائیں تو اللہ کے حکم کو ماننے والے ہوں۔ آخر پر الله تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اِن تعلیمات کی روشنی میں رمضان کے مبارک اور ایّامِ نزولِ فضل و رحمتِ الٰہی سے کما حقّہٗ استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے نیز اِس پاک ماہِ صیام کو ہمارے لیئے فیصلہ کن بنا دے۔ آمین ثم آمین!
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)