• 28 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ رَبوہ کی یادیں

اپنے عزیزتر وطن اور جان سے پیارے مرکز احمدیت ربوہ کی حسین اوراَنمٹ یادوں سے پُردل سے لکھی پُراثر تحریر

آج برطانیہ کےجلسہ سالانہ کے لئے سفر کی تیاری کر رہی تھی۔ کہ ربوہ کےجلسوں کی حسین یادیں تروتازہ ہوگئیں۔ربوہ کے ساتھ تو ہم سب کا روح کا رشتہ ہے۔ اور اس کی يَاد کبھی دل سے محو نہيں ہوتی۔ خلافت کے دم سےجو اس شہرميں رونق تھی۔ وہ منظر کون فراموش کر سکتا ہے۔ چند انمٹ ياديں جو ذہن ميں ایک فلم کی طرح آج بھی تروتازہ ہیں۔جلسہ کی آمد سے بہت پہلے ہی جلسہ کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔ ربوہ کے گھروں میں بھی مہمانوں کی آمد کے حساب سے تیاری کی جاتی۔ دوسرے شہروں میں بھی احمدی گھروں ميں جلسہ کی تياری کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔عِيد کی طرح کی تياری ہوتی تھی۔ موسم کے مطابق کپڑے سلوائے جاتے سادگی مگر نفاست کے ساتھ اہتمام کيا جاتا۔ سفر کے لئےساتھ خشک ميوہ جات اور ديگر سامان رکھا جاتا۔ کچھ زائد گرم کپڑے کمبل وغيرہ دو چار دن پہلے ہی امی تيار کروا ليتی تھيں۔ اور گاڑی ميں رکھوا ديتی تھيں۔

ہم چونکہ فيصل آباد شہر ميں رہتے تھے۔ فيصل آباد سے ربوہ کا فاصلہ کچھ زيادہ نہيں ہے۔ہم بچپن ميں ہر جلسہ پر تينوں دن روزانہ علی الصبح جلسہ کے لئے بذريعہ کار روانہ ہوتے اور جلسہ کے آغاز سے پہلےہی رَبوہ پہنچ جاتے تھے۔ سارا دن جلسہ گاہ کے روحانی ماحول ميں گزارتے۔ حضور کےروح پرور خطاب سے استفادہ کرتے ۔ لنگر کی دال اور آلو گوشت کے ساتھ تندوری روٹی کھاتے۔ لنگر کی دال اور آلو گوشت کا ايک خاص مزہ ہوتا تھا جو اب بھی ہمارے جلسوں پربڑے اہتمام سے تيار کیا جاتا ہے۔جس کا ذائقہ آج بھی ویسا ہی ہے۔

کچھ روٹی کے جو ٹکڑے بچ جاتے امی جان ان کو سنبھال کر رکھ ليتيں اور کہتيں کہ ان کو ضائع نہيں کرنا تبرک ہے۔ جلسہ کے بعد ان ٹکڑوں کو بھگو کر دودھ اور پانی ميں گُڑ ڈال کر پکاتيں اور وہ ايک حلوہ سا بن جاتا۔ ہميں ناشتہ ميں کھلاتيں اور ساتھ ساتھ بتاتيں کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے لنگر ميں الله تعالٰی نے بہت برکت اور شفاء رکھی ہے۔ اور ہمیں بتایا کہ کس طرح اور کن حالات ميں لنگر کا آغاز ہوا تھا۔

جلسہ کا ماحول کمال روحانی ماحول ہوتا تھا۔ ہر شخص کی توجہ دعا اور عبادات کی طرف ہوتی۔ علمی اور تربيتی موضوعات پر تيار کئے گئے روحانی مائدہ سے ہر کوئی استفادہ کرتاتھا۔جلسہ کے لئے ہم ہر روز فيصل آباد سے رَبوہ کے لئے روزانہ فجر کی نماز کے بعد سفر کرتے اور رات کو واپسی ہوتی سڑک چھوٹی تھی اور بے حد رش ہوتا تھا ۔ جلسہ کے آغاز سے پہلے پہنچنا ہوتا تھا۔ آخری دن کا منظر بہت اُداس کر دينے والا ہوا کرتا تھا۔ سخت اُداسی محسوس ہوتی تھی۔ جلسہ کے آخری دن شام کو حضور کے خطاب کے معاً بعد ہماری واپسی ہوتی۔ بیشمار لوگ ہوتے کچھ کاروں، بسوں سے کچھ ٹرين سے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو واپسی کی تیاری کرتے ۔

وہ جذبہ وہ ولولہ قابلِ ديد ہوتا تھا۔ کچے راستوں پر مٹی اُڑتی تھی۔ رَبوہ بھی اس قدر گنجان آباد نہ تھا۔ بارش ہوتی تو خُوب کيچڑ ہوجاتا۔ ہر قسم کے حالات ميں اس ميں شامل ہونے والے تازہ دم اور خوش وخُرم دکھائی ديتے۔ خدام ہر طرف چوکس اپنی اپنی ڈيوٹيوں پر مستعد نظر آتے جلسہ چونکہ دسمبر کے آخری دنوں ميں منعقد ہوتا تھا۔ اس لئے شديد سردی ہواکرتی تھی لوگ گرم شاليں اوڑھے گھنٹوں پنڈال ميں بيٹھے رہتے۔ آج بھی وہ منظر ايک حسین وڈيو کی طرح ذہن کے کمپيوٹر ميں محفوظ ہے۔

جب جلسہ کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوتا تو باوجود اس کے کہ پنڈال دونوں طرف یعنی عورتوں مردوں کی طرف بھرا ہوا ہوتاتھا۔ اس قدر خاموشی ہوتی تھی کہ سوائے بچوں کے رونے کے کوئی آواز سنائی نہ ديتی۔ ثاقب زيروی صاحب کی نظم کی بلند و پُرشوکت آواز کی گونج جب رَبوہ کے پہاڑوں سے ٹکراتی تو اِک نیا جوش عزم اور ولولہ پيدا کرتی يوں محسوس ہوتا تھاکہ اُن کی آواز کے ساتھ پُرشوکت کلام سننے والوں کی رگ وپے ميں اترنے لگتا۔ اور پھر فلک شگاف نعروں سے ربوہ کی وادياں گونج اُٹھتيں۔ اُس کے بعد ہمارے پيارے خليفتہ المسيح کے روح پرور خطاب کا آغاز ہوتا اور پنڈال ميں مکمل خاموشی طاری ہوجاتی۔ خطاب کے دوران سوائےاکا دکابچوں کے رونے کی آواز کے کوئی آواز نہ ہوتی ۔ حضور کے پُر شوکت خطاب کا لفظ لفظ ذہن ميں نقش ہوتاجاتا تھا۔ حضور دعا کرواتے تو عورتوں اور مردوں کی طرف سے ہچکيوں اور دبی دبی سسکيوں کی آوازيں آنے لگتیں۔حضور کی ہچکيوں کی آوازوں کی گونج لاؤڈسپیکرکی وجہ سے دور دور تک سُنائی ديتی۔ خطاب کے الفاظ ذہن نشين ہوجاتے ايک ايک لفظ دِل ميں اُترتا اور نئی زندگی اور نئے ولولے لے کر ہم وہاں سےدعائیں کرتے ہوئے واپسی کے لئے رختِ سفر باندھتے۔

خليفۂِ وقت کی ايک جھلک ديکھنے کے لئے ہر دِل بيتاب ہوتا۔ ايک جھلک ديکھنے پر جو لُطف و سرور حاصل ہوتا اُسے الفاظ ميں بيان کرنا مشکل ہے .جس سر زمين پر حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے خلفاء اور بزرگوں نے تڑپ تڑپ کر دعائيں کی ہيں الله اُسے ہميشہ شاداب رکھے گا۔ اُس کی رونقيں جلد لوٹ آئيں گی وہ دُعائيں ہرگز ضائع نہ ہوں گی۔جب ہماری شادی ہوئی تو شادی کے معًا بعد اُسی سال اپنے مياں اور سسرال کے ساتھ مجھے رَبوہ جلسہ پر جانے کا موقعہ نصیب ہوا۔اُس وقت ابھی ہماری شادی کو دو ماہ کا عرصہ ہوا تھا۔ تب ہم نے جلسہ کے آيّام ميں تينوں دن وہاں رات کو بھی قیام کیا غالبًا جامعہ احمديہ ہوسٹل کی عمارت تھی جس کا ايک کمرہ ہميں ملا تھا۔ اس ميں فرش پر کسير پڑی ہوئی تھی سب بستر فرش پر تھے۔دبيزدری نما چادر تھی جس پر لحاف رکھے تھے ہم سب گھر کے افراد اسی ايک کمرے ميں ایک طرف مرد اور دوسری طرف عورتيں گرم بستروں پر دراز ہونے کے لئے آچکے تھے۔

تہجداور فجر کی نمازکے بعد کچھ آرام کرنے کے بعد باقر خانی اور رس وغیرہ کا ناشتہ کيا جاتا تھا۔ ساتھ ميں رات کی دال اور روٹی بھی ہوتی تھی مرد اپنی اپنی ڈيوٹيوں کے لئے روانہ ہوجاتے اور ہم جلسہ گاہ کی طرف چل پڑتے۔ اسی طرح تینوں دن گزرے مجھے کبھی رات اس طرح گزارنے کی عادت نہ تھی فرش پر سونا میرے لئے پہلا تجربہ تھا۔ رات بھر نيند نہ آئی۔ ساری رات يہی فکر دامنگير رہا کہ کسير سے کوئی سانپ نہ نکل آئے۔ سب سمجھاتےرہے کہ وہم نہ کرو۔ بے فکر ہو کر سو جاؤ۔ ميں نے سُن رکھا تھا کہ ربوہ ميں سانپ بہت ہوتے ہيں۔ آخر تیسرے دن کہیں جا کر رات کو مجھے گہری نیند آئی۔آخری دن مياں ڈيوٹی سے جلدی واپس آگئے۔ميں نے پوچھا کہ آج آپ جلدی آگئے۔کہنے لگے کہ قائد صاحب نے کہا ہے کہ آخر زوجہ کا بھی حق ہے اُنہيں لے جا کر گھماؤ پھراؤ ۔ آج آپ کو اجازت ہے۔

ہم دونوں بازار گئے۔خوب سَير کی بہت رونق اور چہل پہل تھی۔ وہاں ہم نے فروٹ چاٹ اور کباب وغيرہ کھائے اور انہوں نے مجھے چاندی کی انگوٹھی جس پر الیس الله بكافٍ عبده لکھا تھا خريد کر تحفتًہ دی۔ بازار ميں خوب رونق اور گہما گہمی تھی لوگ گھوم پھر رہے تھے۔ بڑا ہی پُر امن ماحول تھا نہ کوئی خوف نہ خطر۔ مساجد بھری ہوتی تھيں اذان کی آوازيں گونجتی اور ياد دلاتی رہتی تھيں کہ اپنے واحدولاشريک خدا کی ياد ميں محو ہوجاؤ۔ بڑا پاکيزہ ماحول تھا۔ آج بھی ياد کر کے دل تڑپ اٹھتا ہے۔

احمديوں کے علاوہ بہت سے غير ازجماعت بھی بعض اوقات اپنے احمدی دوستوں کے ساتھ شامل ہوا کرتے اور بہت متاثر ہوتے۔ بہشتی مقبرہ ميں بھی لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ بزرگوں کی قبروں پر اور اپنے بچھڑے ہوئے پياروں کی قبر پر جا کر دعا کريں۔

اس کے علاوہ اس موقع پر بزرگ خواتين اور خاندانِ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کی خواتينِ مبارکہ سے ميری امی جان نے (زرتشت صاحب کی والدہ) مجھے بڑی محبت سے ملوايا اور دعا کی درخواست کی۔ مجھے ياد پڑتا ہے کہ يا تو آپا حضرت نواب مبارکہ صاحبہ تھيں يا حضرت آپا امۃالحفيظ بيگم صاحبہ تھیں ميرے سر پر انہوں نے بہت محبت سے پيار کيا اورکچھ روپے بھی دئے اور بہت دیر دعا ئيں ديتی رہيں۔

زرتشت صاحب کی والدہ صاحبہ تو لمبا عرصہ ربوہ رہی تھیں۔ ان کابہت محبت کا قريبی تعلق تھا سب بزرگ خواتین کے ساتھ اور ان کی دعائيں بھی حاصل تھيں۔حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ، حضرت مہر آپا صاحبہ، آہ کيا کيا بزرگ ہستياں تھيں سب آہستہ آہستہ داغِ مفارقت دے گئيں۔ بس ياديں ہی رہ جاتی ہيں وہ بھی اس وقت تک کہ جب تک ہمارا دماغ کام کرتا رہے گا کافی باتيں اب بھولنے لگی ہيں ۔بعد ازاں زرتشت صاحب نے مجھے اپنے اساتذہ کرام اور بعض بزرگوں سے خاص طور پر ملوايا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ ان دعاؤں کا ہم نے ساری زندگی پھل کھایا۔ آخری بار جبکہ ہميں معلوم ہو چکاتھا کہ ہم اب اس ملک ميں نہيں رہ سکيں گے تب ہم بچوں کو لے کر ربوہ گئے۔ تاکہ انہیں ربوہ دکھا لائیں نہ جانے کبھی لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں ۔مارچ کے دن تھےاور 1986ء کا سال رواں دواں تھا۔ جب ہم ربوہ گئے۔بڑی حسرت سے سب عمارتوں کو ديکھا۔مقدس مقامات کی زيارت کی۔بہشتی مقبرہ ميں دعا کے لئے گئے۔ خاندانِ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کی بزرگ ہستيوں سے ملے ان کی دعائيں ليں۔اپنے بچوں کو ملوايا۔ اور حسرت بھری نظروں سےالوداع کہتے ہوئےہم واپس کراچی آگئے۔اور آخر اسی سال 30 جون کو بہت لمبےعرصہ کے لئے جان سے پيارے ملک پاکستان ، اپنے وطنِ عزیز کو دکھتے دل اور روتی آنکھوں سےخير باد کہہ کرایک نامعلوم خطۂِ زمین کی طرف محوِ پرواز ہوگئے۔ناروے کی سر زمین کا کوئی تصورہمارے دل و دماغ میں نہ تھا۔آج تک جدائی کا وہ منظر ہم بھول نہیں پائےآنکھ اشک بہاتیں اور دِل سے لہو رستا رہتا ہے۔

ہم بچپن ميں جادو کی کہانياں پڑھا کرتے تھےجن میں سے بعض کہانیاں آج بھی دل پر نقش ہیں ان میں سے ایک کہانی کسی شہزادی کی تھی جس کی روح کسی چِڑيا کے روپ ميں تبدیل ہو گئی اور وہ روح بےچین و بے قرار چمن چمن اُڑتی پھرتی تھی اسی طرح آج ہماری روح بھی کسی زخمی کوئل کی مانند باغوں اور بہاروں کے میسر ہونے کے باوجود جدائی کے درد میں سسکتی، مختلف گيتوں ميں ڈھل کر کوکتی اور فضاؤں ميں درد کے سُر بکھيرتی رہتی ہے۔ کون جانے کب واپسی ہوگی يا دل میں حسرت لئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے۔الله ہی بہتر جانتا ہے۔

’’جانے کتنی دیر لگے گی درد کا درماں ہوتے ہوتے
ہجر کے آنسو تھمتے تھمتے، وصل کا ساماں ہوتے ہوتے‘‘

(طاہرہ زرتشت منیر۔ناروے)

پچھلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ

اگلا پڑھیں

مالک یوم الدین کی حقیقت