• 27 اپریل, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 11)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 11)

دعا کے اصول

حضرت اقدس حسب معمول سیر کو نکلے۔ سیٹھ احمد دین صاحب بھی ساتھ تھے۔ مولوی برہان الدین صاحب نے عرض کیا کہ سیٹھ صاحب کا ایک لڑکا ہوا تھا وہ فوت ہوچکا ہے۔ حضور دعا کریں۔

فرمایا ‘‘ہاں میں دعا کروں گا۔ مگر ساری باتیں ایمان پر منحصر ہیں۔ ایمان جس قدر قوی ہو۔ اسی قدر خدا تعالیٰ کے فضل سے حصہ ملتا ہے۔ خدا کے پاس کیا نہیں۔ اگر ایمان قوی نہ ہو۔ تو انسان خدا سے بدظن ہوجاتا ہے۔ اورپھر تعویذ گنڈے کرنے لگتا ہے۔ اور غیر اللہ کی طرف جھک جاتا ہے۔ پس مومن بننا چاہیئے۔

دعا کے لئے اصول ہیں۔ میں نے بہت دفعہ بیان کیا ہے کہ خداتعالیٰ کبھی اپنی منواتا ہے اور کبھی مومن کی مانتا ہے۔ اس کے سوا چونکہ ہم تو علیم نہیں اور نہ اپنی ضرورتوں کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ اس لئے بعض وقت ایسی چیزیں مانگ لیتے ہیں۔ جو ہمارے لئے مضر ہوتی ہیں۔ پس وہ دعا توقبول کرلیتا ہے اور جو دعا کرنے والے کے واسطے مفید ہوتا ہے۔ وہ اسے عطا کرتا ہے جیسے ایک زمیندار کسی بادشاہ سے ایک اعلیٰ درجہ کا گھوڑا مانگے اور بادشاہ اس کی ضرورت کو سمجھ کر اسے عمدہ بیل دیدے۔ تو اس کے لئے وہی مناسب ہوسکتا ہے۔ دیکھو ماں بھی تو بچے کی ہر خواہش کو پورا نہیں کرتی۔ اگر وہ سانپ یا آگ کو لینا چاہے۔ تو کب دیتی ہے۔پس خداتعالیٰ سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ اور تقویٰ اور ایمان میں ترقی کرنی چاہیئے۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 383-384)

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا
ہر روز ہر نماز میں کئی مرتبہ مانگا کرو

… انسانی فطرت تو تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتی ہے۔ مجھےان خشک موحدوں پر افسوس ہی آتا ہے۔ جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب خوارق کا کوئی نشان نہیں۔ اور نہ ان کی ضرورت ہے۔ خشک زندگی سے تو مرنا بہتر ہے۔ اگر خداتعالیٰ نے اپنے فضل کو بند کردیا ہے۔ اور قفل لگا دیا ہے تو پھر اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا تعلیم کرنے کی کیاضرورت تھی۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک شخص کی مشکیں باندھ دی جاویں اور پھر اس کو ماریں کہ تو اب چل کر کیوں نہیں دکھاتا۔بھلا وہ کس طرح چل سکتا ہے۔ فیوض وبرکات کے دروازے تو خود بند کردیئے اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعاہر روز ہر نماز میں کئی مرتبہ مانگا کرو۔ اگر قانونِ قدرت یہ رکھا تھا کہ آپؐ کے بعد معجزات اور برکات کا سلسلہ ختم کردیا تھا۔ اور کوئی فیض اور برکت کسی کو ملنا ہی نہیں تھا تو پھر اس دعا سے کیا مطلب۔

اگر اس دعا کا کوئی اورنتیجہ نہیں تو پھر نصاریٰ کی تعلیم کے آثار اور نتائج اور اس تعلیم کے آثار اور نتائج میں کیا فرق ہوا۔ لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلاسکو گے مگر اب وہ جوتی بھی سیدھی نہیں کرسکتے۔ لکھا ہے کہ میرے جیسے معجزات دکھاؤگے مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا۔ لکھا ہے کہ زہریں کھالوگے تو اثر نہ کریں گی مگر اب سانپ ڈستے اور کتے کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دعا کا نہیں دکھا سکتے۔ ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے۔

عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اس میں زندگی کی روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ انہوں نے نبی کا طریق چھوڑ دیا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 59-60)

جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے
پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا

اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو۔ بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں۔ تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہیئے کوئی فرق نہ آوے۔ اس لئے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہیئے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جبتک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طورپر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے۔ اُدۡعُونِيٓ اَسۡتَجِبۡ لَكُمۡ (المومن: 61) میں اللہ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لئے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا۔ بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کیلئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہیئے۔ اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہیئے۔ شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا۔ جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طورپر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے، ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے۔ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا۔ یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔ اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کیواسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لئے جبتک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی۔ اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیئے۔ اور ان سے محبت کرنی چاہیئے۔کیونکہ خدا کہ یہ شان ہے

بداں را بہ نیکاں بہ بخشدکریم

پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہیئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے۔ فَاِنَّھُمۡ قَوۡمٌ لَایَشۡقٰی جَلِیۡسُھُمۡ۔ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بدبخت نہیں ہو تا۔یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جو تخلقوا باخلاق اللہ میں پیش کی گئی ہے

(ملفوظات جلد سوم صفحہ96-97)

دعاؤں کے نتائج میں تاخیر اور توقف کیوجہ

کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ایک طالب نہات رقت اور درد کے ساتھ دعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقف واقع ہوتا ہے۔ اس کا سِرّ کیا ہے؟ اس میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اول تو جس قدر امور دنیا میں ہوتے ہیں ان میں ایک قسم کی تدریج پائی جاتی ہے۔ دیکھو ایک بچہ کو انسان بننے کے لئے کس قدر مرحلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں۔ ایک بیج کا درخت بننے کے لئے کس قدر توقف ہوتا ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے امور کا نفاذ بھی تدریجاً ہوتا ہے۔ دوسرے اس توقف میں یہ مصلحتِ الٰہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزم اور عقد ہمت میں پختہ ہوجاوے اور معرفت میں استحکام اور رسوخ ہو۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جسقدر انسان اعلیٰ مراتب اور مدارج کوحاصل کرنا چاہتا ہے اسی قدر اس کو زیادہ محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کرسکتا۔ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے۔ اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا (الم نشرح: 7) اسی لئے فرمایا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 202-203)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ڈیٹرائیٹ کا جلسہ یوم مصلح موعود ؓ  کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2022