حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کیلئے ایک خاص تاریخ کیوں مقر رکی۔ ایسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل باد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کیلئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پا کر حاضر خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے۔ قال ان وفد عبدالقيس اتوا النبي صلى اللّٰه عليه وسلم قالوا إنا نأتيك من شقة بعيدة و لا نستطيع ان نأتيك الا في شهرحرام۔ یعنے ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت ہونہیں سکتے اور ان کے قول کو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رد نہیں کیا اور قبول کیا پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جولوگ طلب علم یاد ینی ملاقات کیلئے کسی اپنے مقتدا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں وہ اپنی گنجائش، فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلاحرج حاضر ہو سکیں اور یہی صورت 27 دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بہ سہولت ان دنوں میں آ سکتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلا کسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہوسکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کرلو کچھ مضائقہ نہیں۔ ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو دین کی عقل دی گئی اور نہ دنیا کی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقررکرنے کیلئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا عنوان ہے مـن جـعـل لاهل العلم اياما معلومة یعنی علم کے طالبوں کے افادہ کیلئے خاص دنوں کو مقرر کرنا بعض صحابہ کی سنت ہے۔ اس ثبوت کیلئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وایل سے یہ روایت کرتے ہیں کـان عبـد الـله يذكر الناس في كل خميس يعنى عبداللہ نے اپنے وعظ کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا اور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کیلئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو حسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کیلئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کیلئے مفید خیال کریں وہی بجا لاویں جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا ہے۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ یعنی دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی طیاری جو کر سکتے ہوکر اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے جوقوت لگا سکتے ہو لگاؤ۔ اب دیکھوکہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرمارہی ہے کہ جوتد بیر یں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجالاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی، اپنے بازو کی، اپنی مالی طاقت کی، اپنے احسن انتظام کی، اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پاؤ۔اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں۔ اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبرنہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ608-609)
(مرسلہ:مرزا خلیل احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ گھانا)