• 13 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 41)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 41

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 11 مارچ 2010ء صفحہ19 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خطبہ کا عنوان اور متن وہی ہے یعنی ’’نماز جمعہ کی اہمیت‘‘ جس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 12 مارچ 2010ء اعمال صالحہ کے عنوان کے تحت خاکسار کا مضمون دوسری قسط ’’پردہ… حیاء اور عفت کا نگہبان‘‘ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے ’’پردہ نہ کرنے کے نقصانات‘‘ ہیڈ لائن کے تحت لکھا کہ پردہ کو رواج دینے سے فائدہ ہو گا اور وہ یہ کہ جس قسم کی بے حیائیوں اور بداخلاقیوں میں یہ لوگ (یورپ والے) پڑ گئے ہیں اس کا علاج صرف اور صرف پردہ اور حجاب اور اسلامی حکم پر عمل کرنے سے ہو گا۔ خاکسار نے اس کے نقصانات میں بعض بیماریوں مثلاً ایڈز کا ذکر کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پردہ نہیں اور جب پردہ نہیں تو اخلاق اچھے نہیں ہیں جس کی وجہ سے اس بیماری کی کثرت ہے۔

خاکسا رنے یہ بھی بتایا کہ بعض مسلمانوں نے افراط سے کام لیا۔ وہ اپنی خواتین کو گھر سے بالکل باہر نکلنے نہیں دیتے، یہ بھی زیادتی ہے۔ آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ کو اپنے ساتھ باہر لے جاتے، جنگوں میں بھی ساتھ جاتی تھیں۔

یورپ نے تفریط کر کے اپنے آپ کو بالکل ننگا کر لیا ہے ادھر مسلمانوں نے افراط کر کے عورتوں کے لئے گھروں کو قید خانہ بنا دیا ہے۔

اس کے بعد خاکسار نے ’’قرآنی پردہ‘‘ کے عنوان سے لکھا اور سورۃ نور کی آیت اور حضرت اقدس مسیح موعود کی اس آیت کی تشریح لکھی۔ ’’یعنی انسان پر لازم ہے کہ چشم خوابیدہ ہو تا کہ کسی غیرمحرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے۔ کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور فحش باتیں سن کر فتنہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تمام موریوں (سوراخوں) کو محفوظ رکھو۔ اور فضولیات بالکل بند رکھو۔‘‘

پس ہمیں پُر زور طریقے سے ایسے ممالک کو بتانا چاہئے جو پردہ کے مخالف ہو رہے ہیں۔ خاکسار نے دیگر آیات قرآنی لکھ کر یہ لکھا کہ:
میں آپ کو ایسے بے شمار واقعات بتا سکتا ہوں کہ یہاں امریکن خواتین جنہوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور چرچوں میں تربیت پائی جب انہیں احمدی مبلغین نے اسلام کی حسین تعلیم سے آگاہ کیا اور پردے کے فوائد بیان کئے تو انہوں نے یکدم پردہ اور پھر پاکستانی برقع کی طرز کا پردہ اختیار کیا۔ مجھے ڈیٹن اوہایو میں 4 سال رہنے کا موقع ملا وہاں پر احمدی ایفروامریکن خواتین اور پھر ملواکی میں اور فلاڈلفیا میں احمدی خواتین خداتعالیٰ کے فضل سے پورا پردہ کرتی ہیں یہ نہیں کہ مسجد گئیں تو پردہ کر لیا اور برقع پہن لیا اور جب بازاروں میں اور شاپنگ سینٹرز میں گئیں تو برقع اتار دیا۔

خاکسار نے اور بھی مثالیں لکھیں اور پھر یہ بات لکھی کہ ہماری تعلیم اسی وقت کارگر ہو گی جب ہم اس تعلیم کے مطابق خود عمل کریں گے۔ عمل کے بغیر تبلیغ بے فائدہ ہے۔ خاکسار نے اس ضمن میں یہ واقعہ لکھا کہ ایک مسلمان ایک یہودی کو اسلام کی تبلیغ کرتا تھا۔ وہ یہودی سن کر چپ ہو جاتا۔ ایک دن مسلمان جب پھر یہودی کو تبلیغ کرنے لگا تو کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جہنم کی آگ سے بچ جاؤ گے۔ وہ یہودی خوب جانتا تھا کہ اس مسلمان کے عمل اسلام کے مطابق نہیں ہیں تو یہودی نے جواب دیا کہ میرے بھائی تمہارا صرف نام کا مسلمان ہونا تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا اور پھر اسے اپنا واقعہ سنایا کہ میرے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا۔ جس کا نام خالد رکھا۔ (خالد کے معنی ہمیشہ رہنےو الا) لیکن لڑکا چند دنوں بعد ہی فوت ہو گیا۔ اگر صرف نام بچا سکتا تو پھر یہ لڑکا کیوں فوت ہوتا۔ اس لئے چاہئے کہ خود ایسے عمل کرو جو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 12 مارچ 2010ء صفحہ 10 پر خاکسار کا مضمون بعنوان پردہ حیا اور عفت کا نگہبان کی آخری قسط شائع کی جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ وہی مضمون ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 12 مارچ 2010ء صفحہ11 پر قریباً پورے صفحہ پر ہماری ایک خبر شائع کی جس کی شہ سرخی یہ ہے:

مسجد بیت الحمید چینو میں جلسہ پیشگوئی مصلح موعود اہتمام سے منایا گیا۔

’’خلافت کی اطاعت کے بغیر ہم کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘ امام شمشاد ناصر

اخبار نے اس خبر کے ساتھ سات بڑی تصویریں بھی شائع کی ہیں۔ ایک تصویر ہیڈ ٹیبل کی ہے جس میں صدارت ڈاکٹر حمید الرحمان کر رہے ہیں۔ ان کے ایک طرف عاصم انصاری صاحب ہیں اور دوسری طرف خاکسار، پوڈیم پر مکرم عمران جٹالہ صاحب تقریر کر رہے ہیں۔

مقررین میں ایک تصویر خاکسا رکی تقریر کرتے ہوئے دوسری تصویر مکرم ملک عبدالقدیر صاحب کی تیسری تصویر مکرم ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب جبکہ تین بڑی تصاویر سامعین جلسہ کی ہیں۔ اخبار نے اس کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا:
چینو، کیلیفورنیا (خصوصی رپورٹ) فروری کا مہینہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ تمام دنیا میں جماعت احمدیہ اس دن کی اہمیت کے پیش نظر جلسوں کا اہمتام کرتی ہے اسی طرح ایک جلسہ کا اہتمام جماعت احمدیہ کی مقامی شاخ نے مسجد بیت الحمید چینو میں بھی کیا۔ اس جلسے میں مقررین نے اس دن کی اہمیت کے بارے میں تقاریر کیں جن کو دور و نزدیک سے آئے ہوئے تقریباً تین سو احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں نے سنا۔ جلسے کی کارروائی تلاوت قرآن کریم اور اس کے انگریزی زبان میں ترجمے سے ہوئے۔ اس کے بعد بانی جماعت احمدیہ کے کلام سے ایک اردو نظم پڑھی گئی جس کا انگریزی ترجمہ بھی بیان کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت نائب امیر محترم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نے کی۔ انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس دن کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ 20 فروری کا دن ہمارے لئے اس واسطے اہمیت رکھتا ہے کہ آج ہی کے دن 1886ء کو حضرت مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اشتہار دیا جس میں ایک مصلح بیٹے کی پیدائش کی خبر دی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس خوشخبری کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی صورت میں پورا فرمایا جو کہ بعد میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ بنے اور 52 سال تک تاریخ ساز خلافت پر متمکن رہے۔ امام مسجد شمشاد احمد ناصر صاحب کے علاوہ محترم ڈاکٹر احسن خان، نوجوان مقرر اسامہ صدیقی، عمران جٹالہ اور ملک قدیر صاحب نے اس دن کی اہمیت اورخصوصیت اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر دلائل دیئے۔ مقررین نے پیشگوئی مصلح موعود پر سیر حاصل دلائل دیتے ہوئے اس کی بنیاد اور غرض و غایت اور اس کے جماعت پر ہونے والے مثبت اثرات جو کہ جماعت کے مستقبل میں بھی کارفرما نظر آتے ہیں بیان کئے۔

اخبار نے لکھا کہ اختتامی دعا سے پہلے امام سید شمشاد ناصر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ پچھلے سال آج کے دن ہم ایک کرایہ کی جگہ پر جلسہ کر رہے تھے لیکن افراد جماعت کی قربانیوں سے آج ہم یہ جلسہ اپنی مسجد میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی دوسری جماعتوں سے یا پھر غیرازجماعت لوگ مسجد آتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کو قربانی کرنے والے اور مخلص افراد مہیا فرمائے ہیں جن کی قربانیوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خوبصورت مسجد سے نوازا ہے۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ کے آنے سے خلافت کا سلسلہ جو شروع فرمایا اس کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے امام شمشاد نے یہ حوالہ پڑھ کر سنایا جو حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جماعت کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
’’تمہارے لئے ایک شخص درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے…… وہ تمہارے لئے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا ہے۔‘‘

امام شمشاد نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ خلافت کے ساتھ اس وقت تک انصاف نہیں ہو سکتا جب تک کہ اطاعت اور فرمانبرداری اپنے اعلیٰ مقام تک نہ پہنچ جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سوانح فضل عمر سے یہ اقتباس سنایا:
’’کامل اطاعت و فرمانبرداری نہایت ضروری ہے اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں۔ بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں۔‘‘ فرمایا: ’’خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ 154)

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 19 مارچ 2010ء صفحہ 14 پر ہمارا پورے صفحہ کا اشتہار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات لکھی گئی ہیں۔ اس کا عنوان یہ ہے:
’’میں بنی نوع سے ایسے محبت کرتا ہوں جیسے والدین مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرےگا وہ بھی خداتعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا۔‘‘

آسمان میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ اشتہار جو آپ نے قادیان سے 23 جولائی 1900ء کو شائع فرمایا اس اشتہار میں جلی حروف سے یہ عبارت درج کی گئی ہے:
’’میرے خدا نے عین صدی کے سر پر مجھے مامور فرمایا اور جس قدر دلائل میرے سچا ماننے کے لئے ضروری تھے وہ سب دلائل تمہارے لئے مہیا کر دیئے اور آسمان سے لے کر زمین تک میرے لئے نشان ظاہر کئے اور تمام نبیوں نے ابتداء سے آج تک میرے لئے خبریں دی ہیں۔ پس اگریہ کاروبار انسان کا ہوتا تو اس قدر دلائل اس میں کبھی جمع نہ ہو سکتے۔ علاوہ اس کے خداتعالیٰ کی تمام کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا تئیس برس سے بھی زیادہ کا ہے۔‘‘

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 19 مارچ 2010ء صفحہ 18 پر یہ خبر شائع کی۔

’’احمدیہ جماعت نے پاکستان میں ایک سکھ کے قتل پر مذمت کی ہے۔‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ لاس اینجلس کے امام شمشاد ناصر جو جماعت احمدیہ کے یہاں پر لیڈر ہیں نے پاکستان میں 2 سکھوں کے قتل اور 4 سکھوں کو یرغمال بنانے پر شدید مذمت کی ہے۔ امام شمشاد نے کہا کہ اس سفاکانہ اور ظالمانہ فعل کی اسلام بالکل اجازت نہیں دیتا انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کا کام ہے کہ ظالموں کو سزا دی جائے۔ امام شمشاد نے متاثرہ خاندانوں کی تعزیت کی۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 19 تا25 مارچ 2010ء صفحہ 15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’درس حدیث‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے سب سے پہلے حدیث سنانے سے قبل درود شریف پڑھنے کی اہمیت اور برکات بیان فرمائی ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص بڑا ہی بخیل اور کنجوس ہے کہ جس کی موجودگی میں میرا نام لیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا۔ اس کے علاوہ درود شریف سے متعلق ایک واقعہ بھی تحریر کیا ہے۔ اس کے بعد درس کی حدیث بیان کی گئی ہے جو کہ یہ ہے۔

حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے۔

اے میرے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو بے فائدہ ہو، اس دل سے جس میں تیرا خشوع نہیں۔ اور اس نفس سے جو سیر نہیں ہوتا اور اس دعا سے جو قبول نہیں ہوتی۔

اس حدیث میں سب سے پہلے یہ دعا ہے کہ ایسا علم جو بے فائدہ ہو۔ کچھ لوگ اپنے علم پر تکبر بھی کرتے ہیں۔ ایجادات پر تکبر کرتے ہیں کچھ اپنے علم سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ جعلی علم رکھتے ہیں جو بے فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے تعویذ، گنڈے، جنتر منتر جو سب بے فائدہ علوم ہیں۔ خاکسا رنے اس میں ایک واقعہ لکھا ہے جو یہاں درج کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔

’’چند دن پہلے ایک خاتون مسجد آئیں اور میرا انتظار کرنے لگیں۔ خاکسار کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ چنانچہ جب میں واپس آیا تو اس نے مجھے اپنا پرس کھول کر کچھ چھوٹے چھوٹے کاغذ کے پرزے دکھائے کہ ان پر کیا لکھا ہوا ہے کیونکہ میں عربی نہیں پڑھ سکتی۔ یہ خاتون مسلمان تھیں اور فجی سے تعلق رکھتی تھیں۔ میں نے ایک کاغذ کھولا تو وہ بہت بوسیدہ اور پرانا تھا اور پھٹا ہوا بھی تھا وہ کاغذ کسی کتاب کا تھا جس پر نماز کی ادائیگی کا لکھا ہوا تھا کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہئے وغیرہ۔ کسی مولوی نے اسے یہ کاغذ لپیٹ کر کیپسول سا بنا کر تعویذ بنا کر دیا تھا۔ اسکے علاوہ لوہے کی چھوٹی سی صندوقچی بھی تھی جو تعویذ نما ہوتی ہے اسے بھی اس خاتون نے زور لگا کر کھولا۔ اس میں سے بھی کاغذ نکلا جس پر کچھ ہندسے تحریر تھے اور کچھے بے معنیٰ الفاظ لکھے ہوئے تھے کچھ اور کاغذ بھی اس نے دیئے جو اسی قسم کی عبارتوں والے تھے۔

جب میں نے اے سب کچھ بتایا کہ یہ کیا ہیں تو کہنے لگی کہ میں تو لُٹ گئی۔ میں نے پوچھا آخر ہوا کیا ہے؟ کہنے لگی کہ میری خاوند سے ناچاکی ہو گئی تھی اور وہ مجھے طلاق دینے پر تلا ہوا ہے۔ جبکہ میں طلاق لینا نہیں چاہتی۔ فجی میں ایک مسلمان عالم ہے اس نے مجھ سے 70 ڈالر لئے ہیں اوریہ تعویذ بنا کر دیئے ہیں۔ پھر میں نے اسے طلاق کا مسئلہ سمجھایا اور پھر یہ کہ خاوند کےساتھ صلح کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ ساری اسلامی تعلیم اسے سمجھائی، اسے باقاعدگی سے نماز پڑھنے اور خدا کے حضور دعا کرنے کی تلقین کی۔

اب یہ کس قسم کے عالم دین ہیں جو اس طرح مسکینوں اور غریبوں کو لوٹتے ہیں۔ یہ بے فائدہ اور بے کار علوم ہیں۔

پھر دوسری بات اس حدیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اے اللہ میں ایسے دل سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس میں تیرا خشوع نہیں۔ انسان کے دل میں ہر قسم کے شکوک و شبہات آتے ہیں، خدا تعالیٰ سے ہی دعامانگنی چاہئے۔ آنحضرت ﷺ نے تمام مسلمانوں کو خدا کی محبت حاصل کرنے کی دعا سکھائی ہے۔ اس حدیث میں دراصل خوف خدا کی تلقین ہے۔ جس دل میں خوف خدا نہیں وہ ہر قسم کی غلط حرکتیں اور غلط افعال کرتا ہے۔ اس وقت جو کچھ بھی پاکستان میں ہو رہا ہے یہ سب کچھ خداتعالیٰ کا خوف نہ ہونے کے نتیجہ میں ہورہا ہے۔

تیسری دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ اے اللہ اس نفس سے پناہ چاہتا ہوں جو سیر نہیں ہوتا۔ انسان فطرتاً لالچی اور حریص ہے۔ انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش رکھتاہے۔ اور پھر تیسری کی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بس پھر قبر کی مٹی ہی اس کا منہ بھر سکتی ہے۔ پس لالچ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

چوتھی دعا اس حدیث میں یہ ہے کہ: اے اللہ پناہ چاہتا ہوں اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔ پس جو شخص معصیت میں مبتلا ہو، نافرمان ہو، اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اس لئے نافرمانی سے بچنا چاہئے۔ اچھے حالات ہوں تب ہی دعا کرنی چاہئے کیونکہ برے حالات میں تو کافر بھی اور مشرک بھی دعا کرنے لگ جاتے ہیں۔ آخر میں یہ دعا قرآن شریف سے لکھی ہے: اے میرے رب!میں شیطان (یعنی سرکش لوگوں کی شرارتوں) سے پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب! میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ میرے سامنے آئیں۔

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز کی 25 مارچ 2010ء صفحہ 8 پر ¼ صفحہ پر ہمارا اشتہار انگریزی میں شائع ہوا ہے۔

‘‘Islam…… The Original Soul Food Served five times a Day.’’

اسلام، انسان کی روح کے لئے اصل غذا مہیا کرتا ہے جو کہ پانچ وقت کی نماز ہے۔

اس اشتہار کے ساتھ مزید باتیں یہ ہیں: محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ مسلمان، امن کے لئے ہیں۔ آزادی کے لئے ہیں۔ فرمانبرداری اور اطاعت کے لئے ہیں اور سب کے لئے یکساں انصاف مہیا کرنے کے لئے۔

I-800-Why-Islam

اور سب سے نیچے مسجد کا ایڈریس نمازوں کے اوقات مسجد بیت الحمید میں اور ہمارے ہر ہفتہ منگل کے دن ریڈیو کے پروگرام کا وقت اور ریڈیو کا لنک دیا گیا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 16 اپریل 2010ء صفحہ 24 پر دو تصاویر کے ساتھ ہماری ایک خبر شائع کی ہے جس کا عنوان ہے۔

مذہب اسلام کو سمجھنے کے لئے انٹرفیتھ میٹنگ

لاس اینجلس: انڈیا سروس نیوز کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ مارچ 1889ء میں قائم ہوئی۔ اس حوالہ سے پاسادینا میں 65 سے زائد غیرمسلم اسلام کو سمجھنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ دو گھنٹے کی یہ میٹنگ پاسادینا کالج میں ہوئی جو پاسادینا کالج کی لائبریری میں منعقد ہوئی۔ جس کا انتظام ابراہیم نعیم نے کیا جو جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں اور اس کالج کی تعلیمی بورڈ کے ممبر بھی ہیں۔

اس موقعہ پر جماعت احمدیہ مسلمہ کے 3 لوگوں نے تقاریر کیں۔ ان میں سے ایک ارشد خان ہیں جو کہ احمدیہ مسلم سائنس دانوں کی کمیٹی کے چیئرمین ہیں انہوں نے اسلام کے بنیادی ارکان بیان کئے۔ ناصر محمود ملک جو احمدیہ مسلم کمیونٹی کے نیشنل لیول پر سکرٹری تربیت ہیں نے آنحضرت ﷺ (بانی اسلام) کے واقعات سنائے۔

امام شمشاد ناصر نے جو کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے اس علاقے میں ریجنل مبلغ ہیں نے ’’اسلام کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑنے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ امام شمشاد نے اس بات کی پرزور مذمت کی کہ اسلام کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑا جائے، اسلام کہیں بھی، کسی بھی مرحلہ پر، کسی کے لئے بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔

ان تقاریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات میں زیادہ تر یہ تھے: اسلام میں پردہ کی اہمیت، مرد و عورت کے حقوق، اسلامی عبادات، چرچ اور سٹیٹ کی الگ الگ ذمہ داری کیا ہیں؟ سنی اور شیعہ میں کیا فرق ہے؟ وغیرہ۔

پروگرام کے آخر میں سب کو ریفریشمنٹ دی گئی اور میڈیا کے لئے سوال و جواب بھی ہوئے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 30 اپریل 2010ء صفحہ 11 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’پانچ ارکان اسلام‘‘ خاکسا رکی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

خاکسار نے اس کے شروع میں لکھا کہ یہ پانچ بنیادی ارکان اسلام دراصل محبت اور امن کا پیغام ہیں جو مسلمان ان پانچوں ارکان اسلام پر دل و جان سے عمل کرے گا اس کے لئے سوائے محبت اور پیار کے کچھ اور نہ بن پڑے گا کیونکہ اس کے اعمال پیار اور محبت کی ضمانت دے رہے ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ وہ ان ارکان کو سمجھ کر ان کے فلسفہ اور حکمت کو سمجھ کر ان پر عمل کرے۔ میرے نزدیک تو ان پانچ ارکان اسلام میں محبت و پیار اور امن کاایک سمندر سمو دیا گیا ہے، سو اب ان غوطہ خوروں کی ضرورت ہے جو وہاں سے ان موتیوں کو اپنے دامن میں بھر لائیں۔

خاکسا ر نے اس کے بعد کلمہ شہادت اور کلمہ طیبہ کی تشریح کی ہے اور اس کے بعد صلوٰۃ یعنی نماز کی قرآنی آیات و احادیث نبویہ اور نماز باجماعت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر سے یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کے معانی اور تشریح بھی درج کی گئی ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 30 اپریل 2010ء صفحہ 20 پر ہماری ایک خبر شائع کی ہے

’’بسوں پر احمدیت کا پیغام امن اشتہار کے ذریعہ‘‘

لاس اینجلس۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کا یہاں پرامن کا پیغام قریباً 167 بسوں پر اشتہار کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ یہ امن کا پیغام جماعت احمدیہ کی کوشش ہے کہ اس وقت سارے ملک امریکہ میں پھیلایا جائے اور اس کا احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے اہتمام کیا گیا ہے۔ جس کا ایک مقصد یہ ہے کہ اسلام کے خلاف پھیلے ہوئے غلط تأثر کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب کو دور کیا جائے اور اس پیغام کے ذریعہ اسلام کا حقیقی پیغام سب امریکنوں تک پہنچ جائے۔

اسلام کا مقصد سب سے بلاامتیاز محبت اور پیار ہے۔ ملک کے ساتھ وفاداری اور اخلاص ہے۔ اور سب کے لئے انصاف بلاامتیاز و تفریق۔ یہ بینرز جو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہیں River Side کی 98 بسوں پر لگائے گئے ہیں۔ جبکہ سین برنار ڈینو کونٹی میں جانے والی 69 بسوں پر لگائے گئے ہیں۔ اس کے بعد یہی پیغام لاس اینجلس کی دوسری کونٹیوں میں بھی پھیلایا جائے گا۔

عاصم انصاری صدر جماعت نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسلام کی اصل تعلیم ہی محبت اور امن کی ہے۔ بمقابلہ ان چند لوگوں کے جو دہشت گردی پھیلاتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اسی قسم کا پیغام یوکے میں بھی احمدیہ مسلم جماعت نے بسوں کے ذریعہ پھیلایا ہے۔ یوکے احمدیہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے گھر گھر جا کر اس پیغام کو تقسیم کیا ہے اور اس طرح قریباً ایک لاکھ پمفلٹ تقسیم کئے گئے ہیں۔

حضرت مرزا مسرور احمد جو عالمگیر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا ہیں نے کہا ہے کہ صحیح اور حقیقی مسلمان کبھی بھی اپنی آواز کو اپنے شہریوں کے خلاف نفرت کے ساتھ نہیں اٹھائے گا۔ اور نہ ہی حکومت کے خلاف وہ ایسے کام کرے گا۔‘‘

پاکستان ایکسپریس نے کی اشاعت 30 اپریل 2010ء صفحہ 13 پر ہمارا پورے صفحہ کا ایک اشتہار حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات سے شائع ہوا ہے جس کی شہ سرخی یہ ہے:
کاش یہ لوگ ایک منٹ کے لئے اپنے تعصبوں سے خالی ہو کر ذرا سوچتے کہ شرک کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کے مبادی اور مقدمات کیا ہیں۔ تا ان پر جلد کھل جاتا کہ خداتعالیٰ کی ذات یا صفات یا اقوال یا افعال یا اس کے استحقاق معبودیت میں کسی دوسرے کو شریکانہ دخل دینا گو مساوی طور پر یا کچھ کم درجہ پر ہو، یہی شرک ہے جو کبھی بخشا نہ جائے گا۔‘‘

غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسمان پر
مدفوں ہو زمین شاہِ جہاں ہمارا

آئینہ کمالات اسلام سے جو عبارت لی گئی اور سارے صفحہ پر لکھی گئی اس میں خصوصیت کے ساتھ اخبار نے ان الفاظ کو جلی حروف میں لکھا:
’’افسوس کا مقام ہے کہ میرے دعویٰ کی نسبت جب میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا مخالفوں نے نہ آسمانی نشانوں سے فائدہ اٹھایا اور نہ ہی زمینی نشانوں سے کچھ ہدایات حاصل کی۔ خدا نے ہر ایک پہلو سے نشان ظاہر فرمائے۔ پر دنیا کے فرزندوں نے ان کو قبول نہ کیا…… منکر تودنیا میں ہوتے ہیں پر بڑا بدبخت وہ منکر ہے جو مرنے سے پہلے معلوم نہ کر سکے کہ میں جھوٹا ہوں۔ پس کیا خدا پہلے منکروں کے وقت میں قادر تھا اور اب نہیں؟ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہرگز ایسا نہیں بلکہ ہر ایک جو زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا کہ آخر خدا غالب ہو گا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ41-45)

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 6 مئی 2010ء صفحہ 15 پر خاکسار کا ایک مضمون ’’درس حدیث (ارکان اسلام، ایک اہم بنیادی رکن نماز) وضو اور نماز کی اہمیت و برکات‘‘ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مضمون کا متن وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 5 مئی 2010ء صفحہ 25 پر عربی سیکشن میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے کہ

’’ہر مومن کو اللہ تعالیٰ کا عبد شکور بننا چاہئے‘‘

اخبار نے لکھا کہ امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد نے اپنے خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونے پر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکرگزار بندے اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دلوں میں پیدا نہ کریں۔ آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت بھی تلاوت فرمائی۔ وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَلَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۸﴾ (ابراهيم: 8)

حضور نے سورۃ فاطر کی آیت لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَیَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ (فاطر: 31) بھی پڑھی۔ ان آیات کی تشریح میں حضور نے اللہ تعالیٰ کی صفات غفور و شکور کی بھی تشریح فرمائی۔

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کی تنبیہ کی ہے کہ وہ شرک کے مرتکب نہ ہوں اور حضرت مسیح موعودؑ نے اس بات کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے کہ انسان ہر قسم کے شرک سے بالکل مجتنب رہے اور جھوٹ، زنا، اور آنکھوں کی خیانت، لڑائی جھگڑے اور ظلم سے باز رہے۔ بعض لوگ ان افعال شنیعہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنی تجارتوں اور کاروبار کے ضمن میں بھی جھوٹ، فریب اور دغا سے کام لیتے ہیں۔

امام مرزا مسرور احمد صاحب نے ایک اور آیت سورۃ التحریم کی یہ تلاوت فرمائی

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ

(التحريم: 7)

حضور نے اپنے خطبہ کے آخر میں تمام احمدیوں کو عبد شکور بننے کی تلقین فرمائی اور سب ظلموں سے اور جھوٹ، فریب سے مجتنب رہنے کی ہدایت فرمائی۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 13 مئی 2010ء صفحہ 13 پر خاکسار کے مضمون کی دوسری قسط بعنوان پانچ ارکان اسلام، زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

خاکسار نے ایک دفعہ پھر اس مضمون میں شروع میں یورپین ممالک میں جہاں انسان مشینری کی طرح کام کر رہا ہے نماز باجماعت کی مختصراً اہمیت بیان کرنے کے بعد اسلام کے تیسرے رکن زکوٰۃ کی طرف توجہ دلائی۔ یہ ایک مالی عبادت ہے اور اس کا مقصد بھی انسان کو خدا کا قرب دینا ہے اور اپنے نفس کو اور اموال کو پاک کرنا ہے۔ انسان کے پاس جتنی دولت یا اشیاء ہیں سب خدا کی عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ خدا چاہے تو ان نعمتوں کو واپس بھی لے لے۔ اللہ تعالیٰ یہ بات پسند کرتا ہے کہ اس کی امانت میں سے کچھ رقم کچھ حصہ غرباء کی امداد کے لئے بھی دے اور یہ دنیا خوشدلی اور انشراح سے ہو۔ اس ضمن میں چند آیات قرآنی میں بیان کی گئی ہیں۔

اسی طرح غرباء اور مسکینوں کو بھی چاہئے کہ وہ کسی کے مال کو بھی لالچ کی، بغض و عناد یا حرص یا حسد کی نظر سے نہ دیکھیں۔ مالداروں کو حکم دیا کہ وہ معاشرہ کے غرباء کا خیال رکھیں۔

پس امیر و غریب کے درمیان اس خلیج کو دور کرنے کا بہتر طریق اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ بیان فرمایا ہے۔

اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ کفایت شعاری، سادہ زندگی اور قناعت اختیار کی جائے تبھی بچت سے انسان خدا کی راہ میں خرچ کر سکے گا۔

قریباً مزید 5 آیات قرآنی کا ترجمہ درج کیا گیا ہے جن کو زکوٰۃ اور صدقہ کی اہمیت و برکات بیان کی گئی ہے اور آخر میں نصاب زکوٰۃ بھی درج کیا گیا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 7 مئی تا13 مئی 2010ء صفحہ 15 پر ایک مضمون خاکسار کا بعنوان ’’کیا جنگ ہی امن اور نجات کا راستہ ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ دنیا اس وقت مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہے۔ سیاسی بحران، اقتصادی بحران، مالی بحران اور مذہبی بحران وغیرہ اور یہ سب بحران اب ایک جنگ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان بحرانوں نے غربت کو بھی انتہاء تک پہنچا دیا ہے۔ ان ممالک میں جہاں غربت انتہاء کو پہنچ چکی ہے پاکستان، افغانستان، ایران، عراق، فلسطین، یمن، صومالیہ، کانگو، مغربی افریقن ممالک، انڈونیشیا وغیرہ میں اور ان میں سے اکثر ممالک دہشت گردی، جنگوں اور مذہبی جنونیت کا بھی شکار ہیں اور بظاہر نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

امریکہ نے عراق میں جنگ سہیڑی ہوئی ہے یہ جنگیں، یہ سیاسی اور مذہبی اور اقتصادی بحران کیا ہمیں کامیابی کی طرف لے جارہے ہیں۔

میرا جواب تو یہی ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں ناکامی کی طرف لے جارہے ہیں اس وقت جنگ امن کا راستہ نہیں ہے نہ ہی جنگ کامیابی دلا سکتی ہے۔ خاکسا رنے لکھا کہ میرے پاس اس کا جواب ہے آپ بے شک اس سے اختلاف کریں اور جواب یہ ہے کہ
میرا جماعت احمدیہ سے تعلق ہے اور جماعت احمدیہ یہ یقین رکھتی ہے کہ اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود و مہدی آچکے ہیں اور آپؐ نے آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ ’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ اس لئے جماعت احمدیہ جنگ وجدال پر یقین نہیں رکھتی اور ہمیشہ امن کی، پیار کی اور محبت کی تعلیم دیتی ہے، محبت سے گھائل کرنے کا طریق ہی رسول خدا ﷺ کا طریق ہے اور یہی آپ کی سنت ہے۔ اس سنت اور طریق پر قدم ماریں گے تو کامیابی ہو گی اور دل جیتے جائیں گے۔

مزید اس کی تشریح میں یہ بات لکھی کہ: یہ یَضَعُ الْحَرْبَ کی پیشگوئی کہ آنے والا مسیح و مہدی جنگیں ختم کرے گا کوئی غلط فہمی پیدا نہ کرے کہ اگر واقعۃً بانی جماعت احمدیہ مسیح و مہدی ہیں توجنگوں کا خاتمہ تو نہیں ہوا؟

آپ ٹھیک کہتے ہیں، جنگیں ختم نہیں ہوئیں لیکن یہ جنگیں وہی ختم کریں گے جو آپ کو مانتے ہیں۔ احمدی جو آپؑ کو مانتے ہیں اور اس وقت 145 ممالک میں رہتے ہیں وہ تو جنگ نہیں کرتے۔ بلکہ یہ سب احمدی یہی کہہ رہے ہیں کہ جنگیں ختم کر کے محبت و پیار کی فضاء پیدا کریں۔ ورنہ جیت نہیں ہو گی اور ایسا ہی ہو رہا ہے اور آپ اس کے عینی شاہد ہیں۔

اسی وجہ سے بانی جماعت احمدیہ پر کفر کے فتوے لگے کہ انہوں نے جہاد ختم کر دیا ہے اور یہ فتاویٰ آج تک ہیں۔

جہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت جنگ و جدال کوئی جہاد نہیں ہے اور نہ اس سے کامیابی ہے۔ یہی طریق سب ملکوں کے لئے ہو رہا ہے۔ اگردیگر ممالک بھی لڑائی کرتے رہیں گے تو انہیں بھی کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ امریکہ کو ہی لے لیں۔ کیا اسے عراق میں کامیابی ہوئی؟ انہیں چاہئے کہ غریب عوام کا خون نہ بہائیں اور انسانیت کا احترام کریں۔

پاکستان میں بھی مذہبی جنونیت نے لوگوں کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ مار کٹائی، بے ایمانی، رشوتیں، لوڈشیڈنگ، بے کاری، بداخلاقی، اخلاق سوز حرکتیں یہ سب کچھ کیا ہے؟ تمام اسلامی ملکوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے، تمام اخبارات چلا رہے ہیں کہ پاکستان کے اوپر کوئی عذاب ہے جس کیو جہ سے ان کے حالات ایسے ہو گئے ہیں۔

خاکسار نے لکھا کہ امن نہ تو باتوں سے قائم ہوگا نہ تقاریر سے۔ امن قائم ہوگا اپنی اپنی اصلاح کرنے سے اگر اپنی اصلاح منظورنہیں تو کامیابی نا ممکن ہے اور پھر امن قائم نہ ہو گا۔

پس نہ امریکہ جنگ جیت سکتا ہے نہ برطانیہ، نہ رشیاء نہ یورپ، نہ جزائر کے رہنے والے نہ مشرقی وسطیٰ کے رہائش پذیر، اور نہ دوسرے ممالک کے باشندے۔ جنگیں تباہی لا رہی ہیں اور لاتی رہیں گی لیکن اگر ہم اپنی اصلاح کر لیں خدا کی طرف جھکیں، قرآن کی حکومت کو دلوں پر قائم کریں تو ہاری ہوئی جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تعصب سے پاک ہو کر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر انسانیت کے فائدے کے لئے کام کریں۔ پس خدا کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ انسانیت کی خدمت کرو۔ یہی جیتنے کے طریق ہیں۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

آج کل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے