دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 18
نماز میں لذت و ذوق حاصل کرنے کی دعا
نماز کیا چیز ہے۔ نماز اصل میں رب العزۃ سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی۔ اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا۔ جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزا آتا ہے۔ اسی طرح پھر گریہ و بکا کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہوجائے گی۔ اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تاکہ صحت حاصل ہو۔ اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہیں۔ اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کرکے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو۔ یہ دعا کرے:
اے اللہ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا۔ لیکن میرا دل اندھا اور ناشنا سا ہے تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہوجائے۔تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جاملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا۔ تو وہ دیکھےگا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی۔ جو رقت پیدا کردے گی۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 321-322 ایڈیشن 1984ء)
دعا کی حقیقت
پنجابی میں ایک مثل ہے۔ جو منگے سو مررہے مرے سو منگن جا۔ لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو۔ دعا کرنا مرنا ہوتا ہے۔ اس پنجابی مصرعہ کے یہی معنے ہیں کہ جس پر نہایت درجہ کا اضطراب ہوتا ہے وہ دعا کرتا ہے۔ دعامیں ایک موت ہے اور اس کا بڑا اثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ایک طرح سے مرجاتا ہے مثلاً ایک انسان ایک قطرہ پانی کا پی کر اگر دعویٰ کرے کہ میری پیاس بجھ گئی ہے یا یہ کہ اسے بڑی پیاس تھی تو وہ جھوٹا ہے۔ہاں اگر پیالہ بھر کر پیوے تو اس بات کی تصدیق ہوگی۔ پوری سوزش اور گدازش کے ساتھ جب دعا کی جاتی ہے حتٰی کہ روح گداز ہو کر آستانہ الٰہی پر گر جاتی ہے اور اسی کا نام دعاہے۔ اور الٰہی سنت یہی ہے کہ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو خداوند تعالیٰ یا تو اسے قبول کرتا ہے اور یا اسے جواب دیتا ہے… نماز پڑھو اور تدبر سے پڑھو اور ادعیہ ماثورہ کے بعد اپنی زبان میں دعا مانگنی مطلق حرام نہیں ہے۔ جب گدازش ہو تو سمجھو کہ مجھے موقعہ دیا گیا ہے۔ اس وقت کثرت سے مانگو اس قدر مانگو کہ اس نکتہ تک پہنچو کہ جس سے رقت پیدا ہو جاوے۔ یہ بات اختیاری نہیں ہوتی۔ خداتعالیٰ کی طرف سے ترشحات ہوتے ہیں۔ اس کوچہ میں اول انسان کو تکلیف ہوتی ہےمگر ایک دفعہ چاشنی معلوم ہوگی تو پھر سمجھے گا۔ جب اجنبیت جاتی رہے گی۔ اور نظارہ قدرت الٰہی دیکھ لے گا تو پھر پیچھا نہ چھوڑے گا۔قاعدہ کی بات ہے کہ تجربہ میں جب ایک دفعہ ایک بات تھوڑی سی آجاوے تو تحقیقات کی طرف انسان کی طبیعت میلان کرتی ہے اصل میں سب لذّات خداتعالیٰ کی محبت میں ہیں۔ ملعون لوگ (یعنی جو خدا سے دور ہیں) جو زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ کیا زندگی ہے۔ بادشاہ اور سلاطین کی کیا زندگیاں ہیں۔ مثل بہائم کے ہیں۔ جب انسان مومن ہوتا ہے تو خود ان سے نفرت کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 340-341 ایڈیشن 1984ء)
دعا اور اس کے آداب
دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آداب دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے ان طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیت دعا کے ہوتے ہیں۔ بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہوگئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آداب دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں۔ اس لئے وہ منکرین دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں۔ ان کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچادیا ہے۔ دعا کے لئے سب سے پہلے اول اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہوجاوے۔ اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوء ظن نہ کر بیٹھے کہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔بعض اوقات دیکھا گیاہے کہ اس قدر دعا کی گئی کہ جب مقصد کا شگوفہ سر سبز ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ دعا کرنیوالے تھک گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ ناکامی اور نامرادی ہوگیا ہے۔ اور اس نامرادی نے یہاں تک برا اثر پہنچایا کہ دعا کی تاثیرات کا انکار شروع ہوا۔ اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ پھر خدا کا بھی انکار کر بیٹھتے ہیں۔ اور کہہ دیتے ہیں کہ اگر خدا ہوتا اور وہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہوتا تو اس قدر عرصہ دراز تک جو دعائیں کی گئی کیوں قبول نہ ہوئیں؟ مگر ایسا خیال کرنے والا اور ٹھوکر کھانے والا انسان اگرا پنے عدم استقلال اور تلون کو سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ ساری نامرادیاں اس کی اپنی ہی جلد بازی اور شتاب کاری کا نتیجہ ہیں۔ جن پر خدا کی قوتوں اور طاقتوں کے متعلق بدظنی اور نامرادی کرنے والی مایوسی بڑھ گئی۔ پس کبھی تھکنا نہیں چاہئے۔
دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جاکر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے۔ اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کو نیچے دبا دیا۔ اس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہےکہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشو ونما پاکر پھل لائیگا۔
باہر کی دنیا اور خودزمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہانتک کہ اس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔ اور دوسرے لوگ بھے اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا۔ دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا۔ مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔ وہ یہ چاہتا ہے۔ کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا۔ مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غوروپرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے۔یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اسی طرح دعا نشو و نما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے۔ جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔
یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے۔ دیکھو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہوجاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کردیا ہے وہ ضروری ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ415-418 ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)