• 28 اپریل, 2024

علم وعمل (قسط اول)

علم وعمل
قسط اول

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا

(الاحزاب:24)

علم و عمل کا موضوع بظاہر بہت ہی سادہ، مختصر، آسان اور محض دو الفاظ پر مشتمل دکھاتی دیتا ہے لیکن بنظر غور دیکھا جائے تو یہ اپنے اندر معانی اور مفاہیم کی گہرائی اور مضامین کی غیر معمولی وسعت اور جامعیت رکھتا ہے۔

علم و عمل دراصل دو ایسے دائرے ہیں جنہوں نے ہماری ساری زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ابتدا سے لے کر انتہا تک ہماری جدوجہد، خوا ہ وہ دین سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا سے۔ انہی دو دائروں پر مشتمل دو محوروں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ علم اگر بیج کی طرح ہے تو عمل اس کا پھل ہے۔ علم کے بغیر نہ دین کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں اور نہ دنیا کی ضروریات۔ اور دوسری طرف عمل نہ ہو تو انسان کو نہ دین کے میدان میں کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ دنیا میں۔ علم کے بغیر صحیح عمل کا تصور ممکن نہیں اور اگر عمل نہ ہو تو محض علم ایک بے فائدہ چیز ہے۔علم کا مقصد ہی یہ ہے کہ علم کی روشنی میں انسان عمل کی شاہراہ پر گامزن ہو اور بالآخر صحیح علم اور مناسب حال عمل صالح کی برکت سے اپنے مقصد کو پا لے۔

اس لحاظ سے علم و عمل باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی کی گاڑی چل نہیں سکتی۔ ان میں توازن بھی ضروری ہے اور موافقت بھی۔ حق یہ ہے کہ علم و عمل ہماری زندگی کا ماحصل اور نچوڑ ہیں۔ ہماری فلاح اور کامیابی کا محور اور معیار ہیں۔ ہماری بقا اور ترقی کی ضمانت ان دو الفاظ میں مضمر ہے۔ ہماری سر خروئی اور شاد کامی کا راز ان دو الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک احمدی کی زندگی کا ماٹو اور نصب العین علم و عمل کے دو مختصر الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

لغوی لحاظ سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کو علم کہتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔

قرآن کے عرف میں علم اس چیز کا نام ہے کہ جو قطعی اور یقینی ہو۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ295 حاشیہ)

نیز فرمایا۔
’’حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا (الفاطر:29) اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو وہ علم ترقی ئ معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ11)

قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان اور انعام، علم کا عطا کیا جانا ہے جس کے ذریعہ وہ قوت بیان حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۴﴾ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۵﴾

(الرحمٰن:4-5)

کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور اسے بیان سکھایا۔

نیز فرمایا۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ

(العلق:6)

کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

علم کی نعمت اوّل طور پر خدا کے نبیوں کو عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی قوم کے معلم بن سکیں۔

احادیث نبویہ میں علم حاصل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضتہ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَّ مُسْلِمَۃٍ

کہ علم حاصل کرنا ہر مسلم مرد اورعورت پر فرض ہے۔ایک دوسری حدیث میں یہ تاکید ہے کہ

اُطْلُبُو االْعِلْمَ مِنَ الْمَھْد اِلَی اللَّحْدِ

کہ پنگھوڑے کی عمر سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک علم حاصل کرتے چلے جاؤ۔ ایک تیسری حدیث میں یہ ارشاد ملتا ہے۔

اُطْلُبُوا ا لْعِلْمَ وَ لَو بِالصّیِنِ

کہ علم حاصل کرنے کی خاطر اگر تمہیں چین تک بھی سفر کرنا پڑے تو ضرور جاؤ۔

حدیث میں بنیادی طور پر علم کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ علم الادیان اور علم الابدان۔ دینی علم کو ہر دوسرے علم پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ دینی علم کی برکت سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور آخرت بھی جبکہ دنیاوی علوم کا دائرہ اثر صرف اس دنیا تک ہے۔

قرآن مجید نے اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، ہر گز برابر نہیں۔ صاحبِ علم کی فضیلت ایک مسلّم امر ہے۔ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔ حقیقی علم سے انسان میں خاکساری پیدا ہوتی ہے، جو اُس کے لئے درجات کی بلندی اورآخرت میں سرخروئی کا موجب ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔
’’علم و حکمت ایسا خزانہ ہے جو تمام دولتوں سے اشرف ہے، دنیا کی تمام دولتوں کو فنا ہے لیکن علم و حکمت کو فنا نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ209)

علم کی اہمیت اور فضیلت جاننے کے ساتھ یہ بات بھی پوری طرح واضح ہونی چاہئے کہ ہر علم کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا چاہئے کہ علم حقیقی کا اصل منبع اور مبداء خدائے علّام الغیوب کی ذات ہے۔ وہی علم کا سر چشمہ ہے جو بھی پیتا ہے اسی چشمہئ صافی سے پیتا ہے اور در حقیقت عالم اور صاحب علم وہی ہے جو اپنے علم کو اپنا حاصل کردہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ یقین کرتا ہے۔ اوراس محکم یقین کے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے در پر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے ایک در یوزہ گر کی طرح پڑا رہتا ہے۔ انسان کو یہ درسِ نصیحت دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی مثال دی ہے کہ انہوں نے کس عاجزی سے اس بات کا اقرار کیاتھا کہ

لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا

(البقرہ:33)

کہ ہم بالکل بے علم اور تہی دست ہیں اور کچھ نہیں جانتے سوائے اس بات کے جس کا علم تو ہمیں اپنے فضل سے عطا فرما دے۔

اس حقیقت کو جان لینے کے بعد کہ ہر علم اللہ تعالیٰ سے عطا ہوتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جو اس در سے عطا ہوتا ہے وہی حقیقی علم ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے اور نکلنا چاہئے کہ انسان ہمیشہ اسی در کا سوالی بنا رہے۔ دعائیں قبول کرنے والے اللہ نے مومنوں پر کرم کرتے ہوئے خود اپنی جناب سے انہیں یہ عظیم دعا سکھا دی ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمَاً کہ ہمیشہ اپنے رب سے یوں دعا گو ر ہو کہ خدایا تو مجھے اپنی جناب سے علم عطا فرما۔ اور ہمیشہ مجھے علم کے میدان میں ترقی پر ترقی عطا فرماتا چلا جا۔ اسی مضمون کے تسلسل میں ہادی کامل حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا بھی ہمیشہ یادرکھنے والی ہے۔ آپ نے یہ دعا سکھائی۔

اَللّٰھُمَّ انْفَعْنِیْ بِمَاعَلَّمْتَنِیْ و عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَغُنِیْ وَ زِدْنِیْ عِلْمَاً

کہ اے میرے مولیٰ! جو علم تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس کو میرے لئے فائدہ مند بنا دے او ر ہر وہ بات مجھے سکھا تا چلا جا، جو میرے لئے ہمیشہ فائدہ کا موجب ہو اور اے میرے خدا! میں اپنی جھولی پھیلائے تیرے در پر پڑا ہوا ہوں تو میری جھولی کو ہمیشہ بھرتا چلا جا اور مجھے علم میں ہمیشہ ترقی عطا فرما تا رہ۔

حق یہ ہے کہ علم حقیقی وہی ہے جو نفع مند ہو اور خدا کی بارگاہ میں مقبول عمل وہی ہے جو صالح ہو۔ یہ نکتہ معرفت بتاتے ہوئے ہمارے پیارے آقا حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک اور پیاری دعا سکھائی۔

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عِلْماً نَافِعًَاوَّ عَمَلاً صَالِحاً تَرْضَاہ

کہ اے میرے اللہ! مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لئے فائدہ مند ہو اور ایسے عمل کی توفیق دے جو نیک اور مناسب حال ہو اور اس توازن اور حسن کے نتیجہ میں مجھے اپنی رضا کی دولت سے مالا مال کر دے۔ ایک روایت کے مطابق یَرْفَعْنِیْ کے الفاظ بھی آئے ہیں کہ ایسے اعمال کرنے کی توفیق ملے جو میرے درجات کی بلندی کا موجب ہوں۔ یہ دعا قرآن مجید کی اس آیت پر مبنی ہے جس میں آیا ہے کہ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ کہ نیک عمل ہی ہے جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔

سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اضافہ علم کے لئے الہاماً یہ دعا سکھائی رَبِّ اَرِنِیْ حَقَائِقَ الْاَشْیَاء کہ اے میرے رب! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا۔

(تذکرہ صفحہ724)

یہ دعا عظیم معارف پر مشتمل ہے اور یاد رکھنے کے لائق ہے۔

علم حاصل کرنے کے بعد اس کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا از بس لازم ہے۔ کیونکہ یہ عمل ہی ہے جو انسان کے خالص ایمان پر گواہ ہوتا ہے۔ ہماری یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت روز جزاء ہے جس دن ہر انسان اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہو گا۔ قرآن مجیدنے محض عمل پر نہیں بلکہ علم اور ایمان کے بعد عمل صالح پر بہت زور دیا ہے۔ عمل صالح سے مراد وہ عمل ہے جس میں طبعی اور فطرتی قویٰ کا استعمال ہو، حقوق العباد کا خیال رکھا گیا ہو۔ جس میں کسی قسم کا کوئی فساد اور فتور نہ ہو۔ نیک اور مناسب حال ہو، ضرورت کے مطابق ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عمل صالح کی جامع اور سادہ تعریف یہ فرمائی ہے کہ ’’عمل وہ ہے جو محض خدا تعالیٰ کے واسطے ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد نہم صفحہ96)

علم کے بعد اس پر عمل کرنا اور اسلامی اصطلاح کے مطابق اعمال بجا لانا ایک لازمی امر ہے۔ ذوقی بات ہے لیکن اس میں ایک لطیف نکتہ پنہاں نظر آتا ہے کہ علم اور عمل، یہ دونوں الفاظ تین مشترک حروف سے بنے ہوئے ہیں۔ گویا ان کا خمیر ایک ہی بنیاد سے اُٹھایا گیا ہے۔

عمل کی ضرورت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو رہینِمحنت بنایا ہے۔ انسان کو صرف علم، ارادہ یاخواہش سے مقصود حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہی ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش اور محنت کرتا ہے۔ یہ بات ایک انگریزی محاورہ میں خوب بیان کی گئی ہے کہ ’’علم ایک خزانہ ہے اور اس کی چابی عمل ہے۔‘‘ ایک شاعر نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے۔

نقوشِ غیب کو قسمت پہ چھوڑنے والو!
یہ نقش بنتے نہیں ہیں بنائے جاتے ہیں

لیکن یہ بات یاد رہے کہ جہاں تک آخرت میں انسان کی نجات کا تعلق ہے اس کا انحصار محض اعمال پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش پر ہے۔ البتہ یہ کہنا یقینا درست ہے کہ نیک اور صالح اعمال اللہ تعالیٰ کی اِس رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’مبارک وہ جو اپنی کمزوریوں کا اقرار کر کے خدا سے رحم چاہتا ہے اور نہایت شوخ اور شریر اور بد بخت وہ شخص ہے جو اپنے اعمال کو اپنی طاقتوں کا ثمرہ سمجھ کر خدا سے انصاف چاہتا ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ 35)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علم و عمل کے موضوع پر اپنی متعدد کتب میں ذکر فرمایا ہے۔ بالخصوص اپنی معرکۃالآرا کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ میں اس کے مختلف پہلوؤں پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ پانچویں سوال کے جواب میں کہ علم اور معرفت کے ذرائع کیا ہیں؟ آپ نے علم کی تین قسموں کا ذکر فرمایا ہے۔ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ درجہ بدرجہ علم اور معرفت کے مختلف ذرائع میں عقل اور منقولات، فطرت انسانی، الہام الٰہی اور ان عملی تجربات کو بیان فرمایا ہے جن سے گزرنے کے بعد بالآخر انسان حق الیقین کے اعلیٰ ترین مقام کو پا لیتا ہے۔ اس پُر معارف بیان میں آپ نے علم اور عمل کے باہم تعلق اور جوڑ کی وضاحت فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا۔
’’محض اس علم میں کچھ شرف اور بزرگی نہیں جو صرف دماغ اور دل میں بھرا ہوا ہو بلکہ حقیقت میں علم وہ ہے کہ دماغ سے اتر کر تمام اعضاء اس سے متأدب اور رنگین ہو جائیں اور حافظہ کی یادداشتیں عملی رنگ میں دکھائی دیں۔ سو علم کے مستحکم کرنے اور اس کے ترقی دینے کا یہ بڑا ذریعہ ہے کہ عملی طور پر اس کے نقوش اپنے اعضاء میں جما لیں۔ کوئی ادنیٰ علم بھی عملی مزاولت کے بغیر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ445)

اسی نکتہ معرفت کی مزید وضاحت کرتے ہے آپ نے فرمایا۔
’’بابرکت علم وہی ہوتا ہے جو عمل کے مرتبہ میں اپنی چمک دکھلاوے اور منحوس علم وہ ہے جو صرف علم کی حد تک رہے۔کبھی عمل تک نوبت نہ پہنچے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ446)

پھر فرمایا۔
’’علم کا حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچنا اور کیا ہوتا ہے؟ یہی تو ہے کہ عملی طور پر ہر ایک گوشہ اس کا آزمایا جائے۔ چنانچہ اسلام میں ایسا ہی ہوا۔ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے قرآن کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھایا ان کو یہ موقع دیا کہ عملی طور پر اس تعلیم کو چمکائیں اور اُس کے نور سے پُر ہو جائیں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10صفحہ446)

ان چند کلمات میں امام الزماں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معارف کا دریا کوزے میں بند کر دیا ہے۔ علم و عم کا باہمی رابطہ اور تعلق نہایت خوبصورتی سے کمال جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ حق یہ ہے کہ علم ایک بیج کی طرح ہے، جب تک اِس علم کے بیج سے روئیدگی نہ پھوٹے، عمل کے پھل اور پھول نہ کھلیں، تو ایساہی علم،خواہ کتنا ہی ہو محض ایک جامد، بے حقیقت اور بے فائدہ چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکمل ترین مذہب اسلام میں علم کی عظمت اور برکت کے بیان اور اُس کے حصول پر زور دینے کے ساتھ ساتھ عمل پر بہت زور دیا ہے قرآن مجید میں ایمان اور عمل صالح کو اکٹھا باندھ کر بار بار بیان کیا گیا ہے جس میں یہی سِر پنہاں ہے کہ محض زبانی اقرار ایمان، کچھ حقیقت نہیں رکھتا جب تک اُس اقرار کو عمل کے سانچے میں نہ ڈھالا جائے۔

یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایمان کا سفر دراصل علم سے شروع ہوتا ہے۔ جب یہ علم ترقی کرتے کرتے یقین اور معرفت کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اُس وقت اِسے ایمان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایمان بنیادی طور پر دل سے تعلق رکھتا ہے اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اتنا کافی نہیں کہ ایک شخص بعض عقائد کا دل سے اقرار کر لے بلکہ جب تک اس ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے اور نیک اور مناسب حال اعمال صالحہ سے اُس کو اپنی عملی زندگی میں پوری طرح نافذ نہ کیا جائے اُس وقت تک انسان کا ایمان مکمل نہیں کہلاتا پس علم وعمل آپس میں لازم و ملزوم کی طرح اِس طرح باہم پیوست ہیں کہ اِن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ عمل کے بغیر علم بے سود اور بے کار ہے اور علم کے بغیر ہر عمل حُسن اور صلاحیت سے عاری رہتا ہے۔ نظریاتی اور کتابی علم کا فائدہ تب ہی ہے جب اُس پر عمل کیا جائے۔ روحانی دنیا میں بھی یہی اصول ہے اور عام دنیاوی مشاہدات میں بھی یہی اصول کا رفرما نظر آتا ہے۔ دنیا میں ہونے والی ہر نئی ایجاد درحقیقت علم کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے ہی کا دوسرا نام ہے۔

علم و عمل کے باہمی تعلق کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے ایک لطیف نکتہ اپنی کتاب مرقاۃ الیقین میں بیان فرمایا ہے۔ ایک بار آپ نے خواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ نے حضورؐ سے پوچھا کہ آپؐ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو وہ کون سی بات بتائی تھی جس وہ آپؐ کی حدیثیں یاد رکھتے تھے۔ حضورؐ نے وہ بات بتانے کے لئے اپنا منہ ان کے کان سے لگا یا کہ اتنے میں خلیفہ نور الدین نے آپ کو جگا دیا کہ نماز کا وقت ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے لکھا کہ اس خواب سے میری سمجھ میں آیا کہ حدیث پر عمل کرنا ہی دراصل حدیثوں کو یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ لطیف نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ173)

اسلام میں تصدیق بالقلب کے بعد اقرار باللسان اور عمل بالجوارح پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ کہ اسلام نام ہی عمل کا ہے۔ اسلام کا لفظی ترجمہ فرمانبرداری اور اطاعت کا ہے اور یہ مضمون صرف زبانی اقرار سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا۔
’’صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو۔‘‘

(کشتی نوح)

جہاں تک اسلام لانے کے بعد عمل کے تقاضوں کا تعلق ہے اس کا میدان بے انتہا وسیع ہے۔ اس قدر وسیع کہ انسان ساری زندگی بھی ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہے تو تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا کر دیا۔ با لآخر یہی الفاظ زبان پر آئیں گے کہ

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اس صورت حال میں ہر مومن کے لئے ایک ہی راستہ ہے جس پر چلنا از بس لازم ہے اور وہ راستہ اپنے آپ کو کلیتہً ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا اور ہر آن اس کی رضا کی راہوں کو ڈھونڈنے کا اور ہر لمحہ اپنے آپ کو راہ مولیٰ میں فنا کر دینے کا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ درس نصیحت دیا ہے جو ہمیشہ یاد رہنا چاہئے۔ فرمایا وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّوَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت کا بلاوا آ جائے اس لئے سرخروئی اور کامیابی کا یہی وسیلہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اس حالت میں بسر کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے سچے فرمانبردار ہو۔اس مقام کو حاصل کرنا مشکل تو ہے لیکن یہی ایک ذریعہ ہماری فلاح اور سرخروئی کی ضمانت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی بخش تحریرات میں اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے۔ ایک اور موقع پر فرمایا:
’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘

(کشتی نوح)

خدا کو پانے کی راہیں بے شمار ہیں اور انسانی طاقتیں محدود۔ اس صورت میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی ایک نصیحت خاص طور پر یاد رکھنے اور حرز جان بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا۔
’’ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ308)

خدا تعالیٰ کو پانا مومن کی معراج ہے۔ لیکن اس کوچہ تک رسائی کوئی آسان بات نہیں۔ یہ زندگی بھر کا سفر ہے جو مسلسل قربانیوں اصلاح نفس اور فنا فی اللہ کی راہوں سے گزرنے کا نام ہے۔ اب یہی ایک جہاد ہے جس کا سلسلہ زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے۔
’’کیا ہی دشوارگزار وہ راہ ہے جو خدا کی راہ ہے پر اُن کے لئے آسان کی جاتی ہے جو مَر نے کی نیت سے اِس اتھاہ گڑھے میں پڑتے ہیں….. مُبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بد بخت وہ جواپنے نفس لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اُس سے موافقت نہیں کرتے۔ جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز داخل نہیں ہو گا۔ سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شُعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرّ ہ بَدی کا بھی قابلِ پاداش ہے۔ وقت تھوڑا ہے اور کارِ عمر ناپیدا۔تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا مُوجب ہو یا سب گندگی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 25-26)

علم و عمل کی باتیں بہت ہو چکیں۔ آئیے اب ان مقدس انسانوں کی زندگیوں پر ایک نظر کریں جنہوں نے حقیقی علم حاصل کیا اور حسن عمل اور اعمال صالحہ کی توفیق پائی اور ہمیشہ کے لئے علم و عمل کی حسین مثال بن گئے۔

ہاں وہ مقدس لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو راہ مولیٰ میں کلیۃً گم کر دیا۔ جنہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کر دیا۔جنہوں نے مرضی ئ مولیٰ پر اپنے آپ کو قربان کر دیا اور ا س میدان میں دوسروں کے لئے نمونہ ٹھہرے۔ سرخیل ہمارے محبوب آقا ومولا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی زندگی قرآن مجید کی زندہ تفسیر تھی اور جن کو ساری انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا۔ پھر آپؐ کے روحانی فرزند جلیل سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جو سب سے بڑے عاشق رسول ؐتھے۔ قرون اولیٰ کے صحابہ کرامؓ اور پھر اس دور آخرین کے رفقائے مسیح موعود جو آسمان روحانیت کے روشن ستارے ہیں۔ ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ علم و عمل کے آداب اور قرینے کیا ہیں اور کس کس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی کے شیریں ثمرات حاصل کئے جا تے ہیں۔ آئیے سچے دل سے اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہوئے، ایمان افروز واقعات کی اس حسین وادی میں داخل ہوتے ہیں۔

اپنے خالق و مالک کو پہچاننا اور اس کی محبت کو دل میں بسا لینا اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ اسی غرض سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو سب سے بہتر سمجھا اور اس رنگ میں عمل کے سانچے میں ڈھالا کہ ہمیشہ کے لئے اسوہ حسنہ قرار پائے۔ آپ ؐہر وقت خدا کا ذکر کرتے۔ ہر لمحہ اس کی یاد میں مصروف رہتے۔ ہر آن روبخدا رہتے۔ خدا کی محبت میں فنائیت کا یہ عالم تھا کہ آپ ؐکے دشمن بھی یہ اقرار کرتے کہ عَشِقَ مُحَمَّدؐ رَبَّہٗ کہ محمدؐ تو اپنے رب کا عاشق ہے۔ اللہ کی عبادت آپؐ کی روح کی غذا تھی۔ فرمایا قُرَّۃُ عَیْنی فِیْ الصَّلاۃِ کہ دنیا میں اور بھی چیزیں مجھے پیاری ہیں لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میری جان کی راحت اپنے رب کی عبادت میں ہے۔ آپؐ کو نماز میں ایسا لطف اور سرور آتا کہ آپ گھنٹوں عبادت میں کھڑے رہتے حتیٰ کہ آپؐ کے پاؤں لمبے قیام کی وجہ سے سوج جاتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی ایک موقع پر عرض کیا کہ آپؐ تو اللہ تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر انعام سے نواز ا اور ہر برکت کا وعدہ دیا ہے، پھر آپؐ اپنے آپ کو اس قدر مشقت میں کیوں ڈالتے ہیں؟آپ ؐنے فرمایا اے عائشہ اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْداًشَکُوْرَا کیا میرا یہ فرض نہیں بنتا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن کر اپنے محسن خدا کے در پر اسی طرح جھکا رہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نماز میں استغراق کا یہ عالم تھا کہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے نیاز ہو کر نماز ادا فرماتے۔ بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ آپؑ نے خدا کے دربار میں حاضری کو مقدم جانا اور نماز پڑھنے لگ گئے۔ اس عرصہ میں آپؑ کی باری آئی۔ فریق مخالف نے یک طرفہ کاروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا، لیکن آپؑ برابر نماز میں مصروف رہے۔ نماز کے بعد عدالت میں حاضر ہوئے تو حاکم نے آپ کوبتایا کہ میں نے تو پہلے ہی آپؑ کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔

(حیات احمد جلد اول صفحہ74)

حضرت معاذ بن جبلؓ کو جوانی کے زمانہ میں رسول پاک حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ دعا سکھائی کہ خدا یا مجھے حسن عبادت کی توفیق عطا فرما۔ چنانچہ معاذ ؓ نے اس نصیحت اور دعا کو بڑی وفا کے ساتھ عمل کے سانچے میں ڈھالا اور خوب عبادت کے حق ادا کئے۔ ذکر آتا ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر نماز تہجد میں بڑے ہی پیار سے یوں مناجات کیا کرتے کہ اے میرے اللہ! لوگوں کی آنکھیں سو چکی ہیں، ستارے ڈوب گئے ہیں جب کہ تو زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے۔ اے اللہ! میری جنت کی طلب سست ہے اور میں آگ سے دُور بھاگنے میں بہت کمزور ہوں۔ اے اللہ! اپنے پاس میرے لئے ایسی ہدایت محفوظ رکھ جو مجھے قیامت کے دن لوٹا دے۔ یقینا تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ ایک بار بیمار ہوئے تو ان الفاظ میں دعا کی کہ اے اللہ! مجھے تو بس تیرا ہی غم ہے۔ تیری عزت کی قسم تو جانتا ہے کہ مجھے تجھ سے محبت ہے۔ اتنا کہا کہ آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ ہوش آئی تو پھر یہی کلمات زبان پر تھے۔

(اسد الغابہ جلد4 صفحہ377)

عبادت اور تقویٰ شعاری کے ضمن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ رفیق حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کے دو ایمان افروز واقعات یاد آئے جو اپنے اندر عظیم درس نصیحت رکھتے ہیں۔ پہلا واقعہ اس زمانے کا ہے جب آپ نئے نئے احمدی ہوئے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک شہر سے ہوا تو اچانک میری نظر ایک اُونچے مکان پر پڑی جہاں ایک خوبصورت عورت بال بکھیرے ہوئے کھڑی تھی۔ میرے دل میں اس کو دوبارہ دیکھنے کی ہوس پیدا ہوئی۔ تو اس رات خواب میں میں نے دو فرشتوں کو دیکھا۔ ایک فرشتہ دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے میری نسبت یہ کہہ رہا تھا کہ:
’’یہ شخص دیانت و امانت میں تو بہت ہی اچھا ہے بشرطیکہ اس کی نظر لَکَ الاولیٰ سے تجاوز کر کے علیک الثانی تک نہ پہنچے‘‘

آپ فرماتے ہیں کہ اس کشفی تادیب و تنبیہ سے مجھے ہمیشہ کے لئے ایک مفید سبق مل گیا۔

(حیاتِ قدسی صفحہ39)

دوسراواقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک دوست کسی کام سے مجھے اپنے گاؤں لے گیا۔ اس کے اصرار پر رات اس کے ہاں قیام کیا۔ اتفاقاً اس دوست کو کسی کام کے لئے رات گھر سے باہر جانا پڑا۔ جاتے ہوئے اس نے گھر میں میری مہمان داری کے متعلق مناسب تلقین کر دی۔ اس کے جانے کے بعد اس کی بیوی نے جو خوب صورت اور جوان تھی مجھے آواز دی کہ میں آپ کا جسم دبانے کے لئے اندر آنے کی اجازت چاہتی ہوں۔ میں نے کہا کہ غیر محرم مرد کو ہاتھ لگانا سخت گناہ ہے اس لئے آپ اپنے کمرہ میں ہی رہیں۔ میرے پاس آنے کی جرأت نہ کریں۔ اس عورت نے اپنی غلطی پر اصرار کیا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا۔ فرماتے ہیں کہ جب میں نے محسوس کیا کہ یہ عورت اپنے بد ارادہ سے باز نہیں آئے گی تو میں نے وضو کر کے مصلّیٰ بچھا لیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی۔ نماز کے رکوع اور سجود کو اتنا لمبا کیا کہ ساری رات نماز میں گزر گئی اور اسی حالت میں صبح ہو گئی۔ نماز فجر پڑھتے ہی مجھے اتنی نیند آئی کہ میں مصلّیٰ پر سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ میرا منہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہے اور ایک فرشتہ نے بتایا کہ یہ تمام فضل اس مجاہدہ نفس اور خشیت اللہ کی و جہ سے ہوا ہے اور اس و جہ سے کہ آج رات تو نے تقویٰ شعاری سے گزاری ہے۔‘‘

(حیات قدسی صفحہ 38)

(باقی کل ان شاء اللہ)

(مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

پچھلا پڑھیں

آئیوری کوسٹ میں ریجنل جلسے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2022