• 13 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 19)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 19

دعا کے مراحل اور مراتب

یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہوتے ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ خداتعالےٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے۔ دیکھو یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہوجاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اس نے مقرر کردیا ہے وہ ضروری ہے۔ پہلے نباتات کی نشوونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا۔ چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گزرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے۔ مرد شاید ان تکالیف۔ اور مصائب کا اندازہ نہ کرسکیں جو اس مدت حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔ اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے۔ اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلون اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے۔ اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ آخر آنے والا زمانہ آجاتا ہے۔ دعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جبکہ گویا مراد کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔

دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حدتک پہنچایا جاوے جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعاعیں اس شیشہ پر آکر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت اور حدت اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلادے۔ پھر یکایک وہ کپڑا جل اٹھتا ہے۔ اس طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہنچے۔ جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہوجاوے کہ نامرادیوں کو جلادے اور مقصد مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہوجاوے

؂پیدا ست نگارا کہ بلند است جِنابت

مدت دراز تک انسان کو دعاؤں میں لگے رہنا پڑتا ہے۔ آخر خدا تعالےٰ ظاہر کردیتا ہے۔ میں نے اپنے تجربہ سے دیکھا ہے اور گزشتہ راستبازوں کا تجربہ بھی اس پر شہادت دیتا ہے کہ اگر کسی معاملہ میں دیر تک خاموشی کرے تو کامیابی کی امید ہوتی ہے لیکن جس امر میں جلد جواب مل جاتا ہے وہ ہونے والا نہیں ہوتا۔ عام طورپر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔ کہ ایک سائل جب کسی کے دروازہ پر مانگنے کے لئے جاتا ہے اور نہایت اضطراب اور عاجزی سے مانگتاہے اور کچھ دیر تک جھڑکیاں کھا کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔ اور سوال کئے ہی جاتا ہے تو آخر اس کو بھی کچھ شرم آہی جاتی ہے۔ خواہ کتنا ہی بخیل کیوں نہ ہو۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ سائل کو دے ہی دیتا ہے۔ تو کیا دعا کرنے والے کا ایک معمولی سائل جتنا بھی استقلال نہیں ہونا چاہیئے؟

خدا تعالےٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا۔ جیسے ایک حاملہ عورت چارپانچ ماہ کے بعد کہے کہ اب بچہ پیدا کیوں نہیں ہوتا اور اس خواہش میں کوئی مسقط دوائی کھالے تو اس وقت کیا بچہ پیدا ہوگا۔ یا ایک مایوسی بخش حالت میں وہ خود مبتلا ہوگی؟ اسی طرح جو شخص قبل از وقت جلدی کرتا ہے وہ نقصان ہی اٹھاتا ہے۔ اور نہ نرا نقصان بلکہ ایمان کو بھی صدمہ پہنچ جاتا ہے۔

بعض ایسی حالت میں دہریہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں ایک نجار تھا۔ اس کی عورت بیمار ہوئی اور آخر وہ مرگئی۔ اس نےکہا اگر خدا ہوتا تو میں نے اتنی دعائیں کیں تھیں وہ قبول ہوجاتیں اور میری عورت نہ مرتی۔ اس طرح پر وہ دہریہ ہوگیا۔ لیکن سعید اگر اپنےصدق اور اخلاص سے کام لے تو اس کا ایمان بڑھتا اور سب کچھ ہوبھی جاتا ہے۔ زمین کی دولتیں خداتعالےٰ کے آگے کیا چیز ہیں۔ وہ ایک دم میں سب کچھ کرسکتا ہے کیا دیکھا نہیں۔ کہ اس نے اس قوم کو جس کو کوئی جانتا بھی نہ تھا بادشاہ بنادیا اور بڑی بڑی سلطنتوں کو اس کا تابع فرمان بنادیا۔ اور غلاموں کو بادشاہ بنادیا۔ انسان اگر تقویٰ اختیار کرے خدا تعالےٰ کا ہوجاوے تو دنیا میں اعلیٰ درجہ کی زندگی ہو۔ مگر شرط یہی ہے کہ صادق اور جواں مرد ہو کردکھائے۔ دل متزلزل نہ ہو اور اس میں کوئی آمیزش ریاکاری و شرک کی نہ ہو۔ ابراہیم علیہ السلام میں وہ کیا بات تھی جس نے اس کو ابوالملت اور ابوالحنفاء قرار دیا۔ اور خدا تعالےٰ نے اس کو اس قدر عظیم الشان برکتیں دیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں یہی صدق اور اخلاص تھا۔

دیکھو ابراہیم علیہ السلام نے ایک دعا کی تھی کہ اس کی اولاد میں سے عرب میں ایک نبی ہو۔ پھر کیا وہ اسی وقت قبول ہوگئی؟ ابراہیمؑ کے بعد ایک عرصہ دراز تک کسی کو خیال بھی نہیں آیا کہ اس دعا کا کیا اثر ہوا۔ لیکن رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں وہ دعا پوری ہوئی اور پھر کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ418 420-آن لائن ایڈیشن 1984ء)

اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ

اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ (البقرہ: 187) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے تو کہدے کہ میں قریب ہوں۔قریب والا تو سب کچھ کرسکتا ہے۔ دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہوچکے۔ اس لئے فرمایا کہ کہدو میں قریب ہوں۔ پس یہ آیت بھی قبولیت دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالےٰ کی قدرت اور طاقت پر ایک ایمان کامل پیدا ہو اور اسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے۔ بہت سی دعاؤں کے ردّہونے کا یہ بھی سرّ ہے کہ دعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دعا کو مسترد کرالیتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کو قبول ہونے کے لائق بنا یا جاوے کیونکہ اگر وہ دعا خدا تعالےٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں تو قبول نہ ہوگی اور فائدہ اور نتیجہ اس پر مرتب نہیں ہوسکیگا۔

اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو فرمایا صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ (التوبہ: 103) تیری صلوٰۃ سے ان کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ (البقرہ: 187) کا بھی حکم فرمایا ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات۔ پھر ان تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کا بھی پتہ لگتا ہے۔ کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کردیا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے اور نہ یہی فلاح کا باعث ہوسکتا ہے کہ آنحضرتؐ کی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جاوے۔ غرض نہ اسلام میں رہبانیت ہے نہ بیکار نشینی کا سبق۔ بلکہ ان افراط اور تفریط کی راہوں کو چھوڑ کر وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ نہ یہ چاہا کہ تعذیب جسم کے اصولوں کو اختیار کرو اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالو نہ یہ کہ سارا دن کھیل اور کود اور تماشوں اور شکار میں گزار و یا ناول خوانی میں بسر کرو اور رات کو سو کر یا عیاشی میں۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ428 429-آن لائن ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

باغبانی کا آغاز کیسے کیا جائے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اپریل 2022