• 29 اپریل, 2024

آج ہمارے گھر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آئے ( الہام مسیح موعود ؑ)

مامور زمانہ اور عاشق رسول ؐ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مؤرخہ 14اگست1907ء کو الہام ہوا۔

’’آج ہمارے گھر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آگئے، عزت اور سلامتی‘‘

(تذکرہ صفحہ615 ایڈیشن پنجم قادیان)

یہ الہام اُس محبت کی عکاسی کرتا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے آقا و مولا سیّدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔ اس زمانہ میں آنحضور ؐ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے سب سے بڑھ کر آپؐ سے ایسی محبت کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپؑ فرماتے تھے کہ

’’مجھے جو کچھ ملا ہے وہ نبی کریم ؐ کی سچی محبت اور کامل متابعت کے فیض سے ہی ملا ہے۔‘‘

آپؑ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے سچے عاشق تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ؑ کو بذریعہ رؤیا ’’ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ‘‘ کی سند حاصل ہوئی۔

آپؑ اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں

بعد از خدا بعشق محمد مخرم
گر کفر این بود بخدا سخت کافرم

پھر آپؑ اپنے مقام و مرتبہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں۔
’’میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا۔ اگر میں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الورٰی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ64)

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں۔
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی ؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیا راہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ459)

آنحضور ؐ سے غیرت کے حوالہ سے تاریخ احمدیت نے یہ واقعہ بھی محفوظ کیا ہے۔

آپ ؑ کی غیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اسوہ پر کسی حملہ کو برداشت نہ کر پاتی۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ حضور علیہ السلام فیروز پور سے قادیان آرہے تھے۔ حضور علیہ السلام پلیٹ فارم کے قریب ہی نماز کی تیاری میں مصروف تھے کہ لیکھرام جو آپ کا سخت دشمن تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کرتا تھا، آپ کی طرف بڑھا اور سلام کیا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ:
اس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کے طریق پر حضرت اقدس کو سلام کیا مگر حضرت نے یونہی سر اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضو کرنے میں مصروف رہے۔ اس نے سمجھا شاید سنا نہیں۔ اس نے پھر (سلام) کیا۔ حضرت بدستور استغراق میں رہے۔ وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا۔ کسی نے کہا کہ لیکھرام سلام کرتا تھا۔ فرمایا! اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی توہین کی ہے۔ میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تو حملے کرتا ہے اور مجھ کو سلام کرنے آیا ہے۔‘‘

(حیات طیبہ صفحہ211)

آپؑ ایک اور موقع پر اس عقیدت کا اظہار یوں فرماتے ہیں۔

جان و دِلم فدائے جمال محمد است خاکم
نثار کوچہ آل محمدؐ است

(اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ 1884ء)

ترجمہ: میری جان اور دل محمد صلی اللہ علیہ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے کوچہ پر قربان ہے

درِ رہِ عشق محمدؐ ایں سَر و جانم رَود
ایں تمنا ایں دعا ایں در دِلم عزم صمیم

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ63)

ترجمہ: حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی راہ میں میرا سر اور جان قربان ہو جائیں۔ یہی میری تمنا ہے اور یہی دعا ہے اور یہی میرا دلی ارادہ ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:

اس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم،روحانی خزائن جلد20 صفحہ456)

جب کسی سے کوئی اتنی زیادہ محبت و عشق کا نہ صرف دعویدار ہو بلکہ وہ بے انتہا حقیقی محبت بھی رکھتا ہو تو محب، محبوب کے دربار سے فیض حاصل کرنے کے لئے چل کر جایا ہی کرتا ہے مگر جب محبت اپنی انتہا کو پہنچ جائے کہ محب، محبوب کے دل میں گھر جائے تو پھر محبوب، محب کے گھر بنفسِ نفیس آکر محب کی محبت کو acknowledge کرتا اور اس کے حوصلے بڑھاتا ہے۔ یہی کیفیت اس الہام میں نظر آتی ہے کہ دنیا کی سب سے مبارک اور پیاری ہستی سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم، اپنے محب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے گھر چل کر آ گئے۔ جس کی اطلاع خود خدائے تبارک و تعالیٰ نے الہاماً دی۔

اب اس الہام کے الفاظ پر غور کریں تو ’’گھر‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہاں اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ میں اَلدَّار کی طرح مادی اور روحانی دونوں ’’گھر‘‘ مراد لئے جا سکتے ہیں۔ اور جس گھر میں سیّدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں اس سے بڑھ کر اور کیا برکت ہو سکتی ہے۔ اور ہم نے دیکھا ہے کہ جس گھر میں کوئی ’’بزرگ‘ پیر آجائے تو اس گھر کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس بزرگ کی خوبیوں اور اخلاق کو اپنانا ہوتا ہے۔ اس کی تصویر اپنے اندر اتارنی ہوتی ہے۔ ہمارے احمدی گھرانوں میں ہر جمعۃ المبارک کو خلیفہ رسول ایم ٹی اے کے ذریعہ نزول کر کے دینی امور کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔ تو ہم اس وقت کو اپنے لئے بہت با برکت گھڑیاں قرار دیتے ہیں۔ حضرت صاحب کی باتوں کو سنتے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے نہ صرف عہدو پیمان باندھتے ہیں بلکہ حضور کی چال ڈھال، طرزِ زندگی اور تلاوت کے طریق کو بھی اپناتے ہیں۔ میں اس سے قبل بھی اپنے سے بیتا ایک واقعہ کئی بار کوٹ کر چکاہوں کہ لاہور میں قیام کے دوران میَں نے ایک نو مبائع کو جس کے اندر خلیفۃ المسیح کی محبت رچ بس گئی تھی جمعہ کے روز ایک جماعتی کام کرنے کو کہا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ ’’حضور کے خطبہ جمعہ کے بعد کر دوں گا کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب میرے خلیفہ میرے گھر میں بطور مہمان رونق افروز ہوں گے۔ میں نے ان کی مہمان نوازی کرنی ہے جس کے لئے مجھے گھرمیں رہنا ضروری ہے۔‘‘

یہی کیفیت جمعہ کے روز قریباً ہر احمدی کی ہوتی ہے۔ اور جب خلیفۃ اللہ حضرت محمد ؐ ہمارے گھر آئیں تو ہمیں ان تمام تعلیمات کو اپنا کر اپنے آپ کو حضرت محمدؐ کی تصویر بنانا ہے کہ ہمارے متعلق بھی فرشتے ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنَ‘‘ کی سند کا اعلان کر سکیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کی کتب کا مطالعہ کر جائیں آپ کو یہ بات عام ملے گی کہ آپؓ اپنی نوجوان نسل کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اپنانے کے لئے عمومی طور پر ’’چھوٹا محمدؐ‘‘ بننے یا اپنے اندر حضرت محمدؐکو اتارنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ مضمون ہے جو زیر نظر اس الہام میں درج ہے کہ

’’آج ہمارے گھر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آگئے، عزت اور سلامتی‘‘

اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقا و مرشد آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار بھی پنہاں ہے۔ الہام میں صرف ’’آئے‘‘ کے الفاظ نہیں بلکہ الفاظ ’’آ گئے‘‘ میں اس محبت میں خوشی کے اظہار کا ذکر ہے جو حضرت مسیح موعود کو اپنے آقا و مولی سے تھی۔ جس طرح ایک بچہ اپنے سے بہت پیارکرنے والے کی آمد پر خوشی کے اظہار میں کہہ اٹھتا ہے کہ وہ آ گئے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت مسیح موعود ؑ کے مادی گھر اور روحانی گھروں میں آمد کی صورت میں نتیجہ کیا درج ہے ’’عزت اور سلامتی‘‘

اور آج اس نتیجہ کا عملی اظہار ہم اپنے گھروں میں صبح شام دیکھتے ہیں کہ جن احمدیوں نے اس الہام کے مطابق اپنے گھروں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو حرز جان بنایا، اسلام احمدیت کو ہوا دی۔ قرآن کریم کو زندہ رکھا۔ نمازوں کے ذریعہ، نوافل کے ذریعہ، نرم زبان سے، اپنے نیک اعمال سے۔ انہوں نے اپنے پیارے رسول حضرت محمدؐ کو اپنے گھروں میں جگہ دی اور وہ لوگ باعزت ٹھہرے اور انہی کے گھروں میں امن و سلامتی ہے۔ کیونکہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام بھی پیغام ِ محبت ہے۔ آپؐ کا دین بھی دین ِ محبت ہے۔ جس کا نام اسلام یعنی سلامتی والا اور اسلام پر ایمان لانے والا مسلم اور مومن کہلاتا ہے۔ جس کے معانی ہیں،سلامتی والا، امن والا اور امن دینے والا۔

اب جبکہ ہم رمضان المبارک کے آخری مبارک دنوں سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اس کے احکامات پر عمل کریں۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنی نمازوں کو زندہ کریں،راتوں کو نوافل سے زندہ کریں، تسبیح و تحمید سے اپنے آنگن کو معطر کریں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں روزے رکھ کر رمضان کو اپنے اندر اتاریں۔ اور یوں اس الہام کے مطابق ہمارے گھروں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول ہو گا۔ جس سے گھر کا چپہ چپہ با برکت ہو گا اور ہمیں صراطِ مستقیم کی طرف گامزن رکھے گا۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

باغبانی کا آغاز کیسے کیا جائے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اپریل 2022