• 28 اپریل, 2024

حضرت سید عزیزالرحمٰنؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت سید عزیزالرحمٰنؓ۔ بریلی (اتر پردیش)

حضرت سید عزیز الرحمٰن رضی اللہ عنہ ولد حضرت سید حبیب الرحمن صاحب انڈیا کے مشہور شہر بریلی کے رہنے والے تھے اور کپورتھلہ میں مہاراجہ کے ہاں ملازم تھے، وہیں سے 1897ء میں بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور جماعت کے ایک درخشندہ گوہر ثابت ہوئے۔ بریلی مخالفین احمدیت کا ایک گڑھ تھا جہاں علماء نے احمدیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا اس وجہ سے آپ کو اور آپ کے خاندان کو بہت کٹھن اور سخت ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ اور آپ کا پورا خاندان اُس کٹھن وقت میں بھی بڑی استقامت سے احمدیت پر قائم رہا،حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحبؓ بریلی کے ان مخالفانہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مولویوں نے ہم پر کفر اور مقاطعہ کا فتوٰی لگا دیا تھا، مزید فرماتے ہیں:
’’….. پھر اس پر بس نہ کرتے ہوئے پانی بھنگی تک بندکرایا گیا، گھر پر اینٹیں برسائی گئیں…. میں نے گھر میں ایک بہت بڑا گڑھا کھود لیا تھا ہم سب وہاں رفع حاجت کر لیا کرتے تھے چھوٹے بچے جب پانی سے بیتاب ہو کر جب بلکتے تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے میں صبر کرتا، رات کو پانی لانے کی کوشش کرتا لیکن مولویوں نے اپنے گرگے لگا رکھے تھے جو سختی سے پہرہ دیتے جب میں پانی لے کر چلاتو میرے گھڑے کو پھوڑ ڈالتے۔ ہندو کھاری (پانی لانے والی۔ ناقل) رکھی تو گائے کا گوشت کوئیں پر رکھ دیا ….‘‘

(الحکم 21-28 جولائی 1936ء صفحہ7)

ان مصائب اور مخالفت کی شدت کی وجہ سے آپ کا خاندان حضور کی زندگی میں ہی ہجرت کر کے قادیان آگیا۔اس مخالفت میں پہلے تو خود آپ کے والد محترم سید حبیب الرحمن صاحب بھی شامل تھے لیکن حضور کی دعاؤں سے جلد وہ بھی وابستہ احمدیت ہوئے اور اسی حالت میں وفات پائی، حضرت سید صاحب فرماتے ہیں:
’’1897ء کے اخیر میں میں نے بیعت کی۔ میں ان دنوں کپورتھلہ میں تھا اس لیے کپورتھلہ کی جماعت میں میرا نام درج ہے۔ بیعت کے بعد 1901ء میں بریلی گیا جو میرا اصل وطن ہے وہاں میرے والد نے میری سخت مخالفت کی حتیٰ کہ انہوں نے مجھے عاق کردیا، احمدیوں نے مجھے بہت تسلی دی اور مبارک باد بھی دی اور کہا کہ کوئی خوف کی بات نہیں مگر میرے دل میں ایک گھبراہٹ تھی میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور اس وقت ٹہلتے جاتے تھے اور ساتھ ہی لکھتے جاتے تھے …. مجھے حضور نے فرمایا بیٹھ جاؤ ! وہاں کئی پلنگ رکھے تھے میں ایک پلنگ پر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا اور حضور پائینی کی طرف آکر بیٹھ گئے، میں اٹھنے لگا تو حضور نے فرمایا وہیں بیٹھے رہو تب میں بیٹھ گیا اور میں نے عرض کی کہ حضور میرے والد نے مجھے عاق کردیا ہے اور حضور کو بھی سخت سست کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ مجھے جو کچھ بھی کہتے ہیں کہیں مگر تم پر ان کی تابعداری فرض ہے۔ میں یہ سُن کر بہت ڈرا اور اپنے والد صاحب سے جاکر صلح کرلی۔ اس کے بعد وہ اپنے پوتے محمد عبداللہ کی پیدائش کی خوشی میں کپورتھلہ آئے تو میں نے ان کے دائیں بائیں حضور کی کتابیں رکھ دیں اور اُن کو مخالفین کی صحبت سے بچایا۔ ایک دن صبح کو وہ فرمانے لگے کہ میں قادیان کو جاتا ہوں میں نے کہا کہ مجھے تنخواہ مل جائے تو آپ جائیں، فرمانے لگے میری جیب میں ایک دُونّی ہے میں اسی سے سفر کرلوں گا کیونکہ میں نے گناہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ کپورتھلہ سے قادیان تک پیدل ہی آئے اور بیعت کرکے پیدل ہی گئے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت مسیح موعود نے ان کا جنازہ غائب بیت اقصیٰ میں پڑھایا۔‘‘

(الحکم 14 دسمبر 1934ء صفحہ3)

الحکم 24 جولائی 1901ء صفحہ 15 پر بیعت کنندگان کی فہرست میں آپ کے والد صاحب کا نام حبیب الرحمن صاحب بریلی شامل ہے انہوں نے مئی 1906ء میں وفات پائی۔ حضرت سید عزیز الرحمان صاحبؓ کی مفصل روایات اخبار الحکم کے مختلف پرچوں میں شائع ہوئی ہیں جن میں حضرت اقدس علیہ السلام کے بعض واقعات اور فرمودات کا ذکر ہےجن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے:

زیور کی قربانی عورتوں کے لیے بڑی قربانی ہے

ایک دفعہ حضرت ام المومنین کی بالیاں حضرت اقدس نے منشی اروڑے خان صاحب کو بننے کے لئے دیں منشی صاحب نے جب وہ بالیاں بنوا لیں تو ان کو لے کر قادیان آنے لگے آنے سے قبل انہوں نے میری بیوی کو دکھائیں میری بیوی نے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اپنی سونے کی آرسی بھی رکھ دوں میں نے خوشی سے اجازت دی تب انہوں نے وہ آرسی بھی منشی صاحب کو دے دی اور وہ لے کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے آرسی دیکھ کر اسے اٹھا لیا اور فرمایا یہ کیا چیز ہے؟ منشی اروڑے خان صاحب نے عرض کیا یہ عزیز الرحمان کی بیوی نے نذرانہ بھیجی ہے اور یہ ایک زیور ہے جو عورتیں پہنا کرتی ہیں آپ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا عورت کا ایمان اس کا زیور ہے وہ زیور پر اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے مگر اس عورت کاایمان کس قدر زبردست ہے کہ اس نے زیور سی چیز اپنے سے جدا کر دی۔ اس پر بہت سے دوستوں نے مجھے مبارکبادی کے خطوط لکھے۔

قلب کس طرح منور ہوتا ہے؟

حضرت اقدس نے ایک دفعہ منشی اروڑے خان صاحب کو ایک کارڈ لکھا اس میں یہ تحریر فرمایا کہ تہجد کے نفلوں میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی تکرار کرنے سے قلب منور ہوتا ہے۔

دو فیصلے

ایک بار حضرت ام المومنین نے صوفی تصور حسین صاحب کی بیوی کو بارہ کرتے سینے کے لئے دیے میری بیوی نے کہا کہ مجھے بھی بارہ کرتے سینے کو دو اس پر دونوں میں جھگڑا ہو گیا اتنے میں حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے اور تنازع سن کر فرمایا کہ ان کو نصف نصف دے دو چنانچہ دونوں کو نصف نصف دے دیے گئے اور فیصلہ ہو گیا۔

تقویٰ اختیار کرو

ایک دفعہ میرے تایا زاد بھائی سید فیروز شاہ صاحب قادیان آئے، وہ قاری بھی تھے اُنھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن شریف سنایا، آپ سن کر بہت خوش ہوئے۔ پھر اُنہوں نے عرض کی کہ حضور میں چاہتا ہوں کہ رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھ لوں، آپ نے فرمایا: ’’ہر مومن کی یہ خواہش ہوتی ہے اور ہر دل میں یہ خواہش ہونی چاہیے مگر کفار مکہ تو دن رات دیکھتے رہتے تھے انہوں نے کیا فائدہ اُٹھایا جو آپ اُٹھا لیں گے، تقویٰ اختیار کرو اور تبدیلی پیدا کرو خدا سب کچھ دکھا دے گا۔‘‘

(الحکم 14دسمبر 1934ء صفحہ3-5) (14نومبر 1936ء صفحہ6-7) (7دسمبر 1936ء صفحہ6)

آپ ایک پُر جوش اور نڈر داعی الی اللہ تھے آپ کی زندگی میں تبلیغ کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ بریلی میں ہی جہاں مخالفت کا بازار گرم تھا، لوگوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود آپ پیغام حق پہنچانے سے باز نہ آتے، ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ’’…. اُس نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ بریلی شہر ہے آپ یہاں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ میں نے عرض کی کہ رسول خدا ﷺ تو کے صحابہ نے اپنے خونوں سے اسلام کے باغ کی آبپاشی کی ہے تب ہندوستان تک اسلام پہنچا ہے اور مجھے آپ روکتے ہیں!‘‘

(الحکم 14-21؍ نومبر 1936ء صفحہ7)

تبلیغ کرنے کے جہاں آپ کے دیگر رنگ تھے وہاں حضرت اقدس کے بیان فرمودہ نسخے کو بھی خوب آزماتے جس کے متعلق آپ بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص عرب سے آیا اس کا نام عبداللہ تھا اس نے کہا کہ اگر میں عرب میں تبلیغ کروں گاتو لوگ مجھے مار ڈالیں گے! آپ نے فرمایا: ’’ہماری کتابیں گلیوں، کوچوں اور مسجدوں میں ڈال دو۔‘‘ مجھے یہ نسخہ ہاتھ آگیا میں نے چپکے چپکے بریلی اور منصوری میں اس کو استعمال کیا مجھ سے پہلے ان دونوں شہروں میں کوئی احمدی نہ تھا، اس طرح خوب ترقی ہوئی۔‘‘

(الحکم 14دسمبر 1934ء صفحہ4)

کوہِ منصوری بھارت کا ایک خوشگوار اور صحت افزا مقام ہے، گرمیوں میں مہاراجہ صاحب اپنے سٹاف کے ساتھ منصوری چلے جاتے حضرت سید صاحب بھی اسٹاف کے ساتھ وہاں پہنچ جاتے تھے یہاں بھی آپ کی تبلیغ احمدیت کا جوش گرم رہا اور آپ کی تبلیغ سے ہی یہاں سب سے پہلے مکرم میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب اور ان کے بڑے بھائی مکرم میاں محمد یٰسین صاحب مرحوم احمدیت میں داخل ہوئے۔ (الفضل 6مارچ 1964ء صفحہ3 کالم1) اس بات کا ذکر ’’مباحثہ منصوری‘‘ میں بھی موجود ہے جو 1909ء میں آپ کے قیام کے دوران ہی اور آپ کی کوششوں سے ہوا۔

(مباحثہ منصوری صفحہ 28-29 پبلشر: محمد یامین تاجر صاحب مطبوعہ اپریل 1927ء)

1915ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ مدراس کے سفر پر تشریف لے گئے راستہ میں مختلف جگہوں پر تبلیغی اغراض سے قیام کیا، ضلع بدایوں اور متھرا وغیرہ میں احمدیت کی تبلیغ کی سخت ضرورت محسوس کی چنانچہ حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں: ’’یہ حصہ ملک کا احمدیت کے حالات سے بکلی ناواقف ہے، میں نے کئی لوگوں سے دریافت کیا متھرا میں کوئی احمدی نہیں اگر منشی عزیز الرحمن صاحب جیسے کوئی مستعد آدمی (جن کی کوشش سے بریلی اور منصوری میں جماعتیں بن گئی ہیں) کچھ عرصہ کے لیے متھرا میں دوکان کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیت اور کام میں برکات نازل فرماوے…‘‘

(الفضل 7اکتوبر 1915ء صفحہ8 کالم1)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت اور آپ کے ساتھ تعلق اخلاص میں احباب کپورتھلہ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے ہر ایک میں عشق احمد کا ایک عجیب رنگ تھا۔ حضرت سید صاحب بھی گو کہ کپورتھلہ کی سرزمین کے نہ تھے لیکن یہاں کے احباب جماعت کو دیکھ کر ہی آپ وابستۂ احمدیت ہوئے تھے اور ان کی صحبت میں رہ کر آپ پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت کا فدایانہ رنگ چڑھ گیا تھا آپ تو بس اس شمعٔ رخ انور کی دید کے بھوکے تھے اور اس محبوب کی ایک ایک بات آپ کو بھاتی تھی۔ ایک سوال ’’آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی ادا پیاری لگی؟‘‘ کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: ’’ہر ایک شخص یہی خیال کرتا تھا کہ حضور مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، حضور کی محبت کی یہ شان مجھے بہت پیاری لگتی اور حضور کا پگڑی باندھنا اور پگڑی کے پیچ مجھے بہت ہی بھاتے۔‘‘

(الحکم 26مئی 1935ء صفحہ25 روایت نمبر 28)

حضرت اقدس کی محبت کا ہی یہ عالم تھا کہ آپ نے قادیان میں مقیم اپنے داماد حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی کہ قادیان کے حالات باقاعدگی سے مجھے لکھتے رہا کرو چنانچہ حضرت نیر صاحب اس پر عمل کرتے رہے، حضور کی کتاب حقیقۃالوحی میں ’’سخت زلزلہ والی پیشگوئی مورخہ 28؍فروری 1907ء قبل از وقت سننے کے گواہ‘‘ کے تحت حضرت نیر صاحب کا نام عبدالرحیم فورتھ ماسٹر درج ہے جہاں آپ کی گواہی ’’مَیں نے سُنا اور اُسی روز خط منصوری لکھ دیا‘‘ کے الفاظ میں درج ہے (روحانی خزائن جلد22 صفحہ490-491) منصوری خط لکھنے سے مراد حضرت سید صاحب کو اطلاع دینا ہی ہے۔

اکثر لوگ آپ کے ایام ملازمت میں آپ کو میرزا جی کہنے لگے تھے آپ کے بھائی ہمیشہ ناراض ہوتے کہ تم میرزا جی کہنے پر مت بولا کرو مگر آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اس سے بڑی مسرت اور خوشی ہوتی ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ آپ کی عفت اور پاکیزگی کے متعلق لکھتے ہیں: ’’حضرت سید عزیز الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ جو ہز ہائنس مہاراجہ کپورتھلہ کے معتمدین میں سے تھے وہ حکومت میں حصہ نہ رکھتے تھے بلکہ ان کے پرسنل سٹاف میں تھے لیکن ان کی نیکی و ایمانداری کا ہر چھوٹا بڑا قائل تھا۔ مہاراجہ کے محلات میں تو ایک خفیف انسان تھے اور ان کو بعض اوقات بڑے بڑے امتحانات پیش آئے مگر یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ حضرت یوسفؑ کی طرح عفیف رہے۔

(حیات احمد جلد اول نمبر سوم 1889ء تا 1892ء صفحہ19-20
از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)

کپورتھلہ کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ قادیان چلے آئے جہاں آپ کے بیوی بچے پہلے ہی ہجرت کرکے آچکے تھے اور باقی عمر قادیان میں گذاری، آپ کی رہائش محلہ دارالفضل میں تھی۔ قادیان میں ذریعہ معاش کے طور پر کسی معمولی سے معمولی کام کرنے سے بھی عار نہ کرتے تھے کبھی ہوٹل کھولااورکبھی دودھ کی دکان کی اور یہ سب کام آپ نے اس لیے کیے کہ کسی طرح قادیان میں رہنے کی توفیق مل رہے یہ عشق کی آگ ہی تھی جو آپ سے یہ کام کراتی تھی کہ دیار محبوب سے الگ نہ ہوں۔ ملکانہ میں ارتداد کے زمانے میں آپ نے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنا نام مجاہدین برائے انسداد فتنہ ارتداد میں لکھوایا اور اس غرض کے لیے کئی ایام میدان عمل میں گذارے۔

(الفضل 17مئی 1923ء صفحہ12)

آپ ابتدائی موصیان میں سے تھے آپ کا وصیت نمبر 280 تھا۔ آپ نے 17جولائی 1936ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں ابدی نیند سوئے۔

آپ کی اہلیہ حضرت محمدی بیگم صاحبہ بھی نہایت مخلص اور دیندار عورت تھیں اپنے خاوند کی بیعت کے بعد جلد آپ بھی احمدیت سے وابستہ ہو گئیں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نے تقوٰی و طہارت میں بہت ترقی کی اور اپنے بچوں کو احسن رنگ میں تربیت دی اور انہیں بچپن ہی سے نیک اور پاکیزہ ماحول میسر کیا۔ انہوں نے 16اپریل 1927ء پچاس سال کی عمر میں قادیان میں وفات پائی، 17 اپریل کی صبح کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔

(مصباح یکم مئی 1927ء صفحہ1)

آپ کے چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں، خدا کے فضل سے بیٹیوں کے رشتے جماعت کے بزرگ وجودوں کے ساتھ ہوئے۔

  1. سید عبداللطیف صاحب
  2. سید عبد اللہ صاحب ٹھیکیدار بھٹہ قادیان
  3. محترم سید عبد الرحمٰن صاحب۔ امریکہ (وفات: 26؍جولائی 1978ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)
  4. سید عبدالرحیم شاہ صاحب
  5. حضرت عائشہ بانو صاحبہ اہلیہ حضرت عبد الرحیم نیر صاحب مبلغ افریقہ و انگلستان۔ مورخہ 31؍مارچ 1933ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
  6. حضرت کلثوم بانو صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی رضی اللہ عنہ۔ وفات: 9اکتوبر 1971ء بہشتی مقبرہ ربوہ
  7. حضرت فاطمہ بانو صاحبہ اہلیہ حضرت محمد یحیٰ خان صاحب ابن حضرت حکیم انوار حسین صاحب شاہ آباد ضلع ہردوئی (ولادت 1899۔ وفات 28مئی 1976ء بہشتی مقبرہ ربوہ)
  8. حضرت سیدہ نصرت بانو صاحبہ اہلیہ حضرت ڈاکٹر عطر الدین صاحب درویش قادیان
  9. محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ زوجہ مکرم شریف احمد خان صاحب مہتمم جنگلات پنجاب

(نوٹ: آپ کی تصویر مکرم ایڈمرل سہیل خان صاحب حال ٹورنٹو نے مہیا کی ہے، فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اجتماع مجلس انصار اللہ مونٹسیراڈو کاؤنٹی لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 اپریل 2022