تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 45
اسی طرح ایک متحرک اور پُرتشدد اینٹی احمدیہ تحریک جاری ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے لئے زندگی بخش ہے کہ اس بات کو سمجھیں جو قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں۔
اس ضمن میں ہماری مکمل خاموشی، ہمارا اندھا پن، اور ہمارا بہرہ پن، صرف اور صرف اس لئے کہ ہمارے ہمسایہ امام نے ہمارے برین واش کیا ہوا ہے۔ احمدیوں کے خلاف نفرت میں قرآن کریم کی اس بیان اچھی باتوں میں ساتھ دو اور بری باتوں سے رکو،کے تحت ہم بہت بڑا جرم اور گناہ کر رہے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ برائی کی دور اندیشی سے کام لیا جائے تو بنیادی حقوق کے لئے ہر عاقل، بالغ اور مسلمان کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ ان سے قطع تعلقی، قتل سے چشم پوشی بنیادی گناہ ہے۔ ان کو دربدر کرنا اور ان سے لڑائیاں کرنا، ان سے جو آنحضرت ؐ کو آخری نبیؐ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ ایمان کا ستون نہیں ہے۔
عام عوام کو فوراً ہتھیار پھینک دینے چاہئے۔ ممکن ہے خوراک اور پٹرول بڑھانے اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے ہتھیاروں کے پروگراموں میں خوراک ثابت ہوں، نفرت کا سودا کرنے والے، اور بے چینی پھیلانے والے لوگوں کو عدالتی نظام کے تحت پراثر اور مثالی انداز میں سزا ملنی چاہئے۔ ایسی سزائیں جو تمام قوم کے رونگٹے کھڑے کر دے جو حملوں کی بوچھاڑ احمدیوں اور اقلیتوں پر ہوئی۔ اسی طرح عمومی دہشت گردی، عام عوام کو اس سلسلہ میں سکھانا چاہئے کہ وہ کسی بھی غیرمتعلقہ واقعہ کی اطلاع حکام کو دیں۔ چاہے وہ کسی بھی ہمسایہ، رشتہ دار کاموں کی جگہ پر یا کسی بھی دوست کے ساتھ پیش آئے۔
اور پاکستانی پیپلز پارٹی کو اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بانی کی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دوبارہ قانون سازی کرنی چاہئے۔ جس کے تحت احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ جو کوئی کلمہ پڑھتا ہے وہ مسلمان ہے۔
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 25جون 2010ء صفحہ11 پر دو تصاویر کے ساتھ خاکسار کا مضمون شائع کیا ہے۔ بعنوان ’’وطن عزیز میں جاہلیت کا عروج‘‘ ایک تصویر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہے اور ایک تصویر میں لاہور میں جماعت احمدیہ کی مسجد دکھائی گئی ہے جس میں احمدیوں پر جمعہ کے روز حملہ کیا گیا۔
خاکسار کا یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت یکم جولائی 2010ء صفحہ19 پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 21 مئی 2010ء کا خلاصہ عربی سیکشن میں حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔
اخبار نے لکھا کہ امام مرزا مسرور احمد نے جو عالمگیر جماعت احمدیہ مسلمہ کے امام ہیں خطبہ جمعہ میں سورۃ الفرقان کی آیت 32 وَکَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَکَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّنَصِیۡرًا تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر نبی کی مخالفت ہوئی یہ مخالفت کرنے والے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے نہیں ہوتے بلکہ مجرموں میں سے ہیں۔ جب آنحضرتﷺ کی مخالفت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا کہ یہ مخالفین مجرموں کا کام ہے۔ دشمنان دین ہمیشہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ نبی کے پیغام کی مخالفت کریں۔ اس کے کام میں روکیں ڈالیں۔ لیکن یہ مخالفتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل مخالفین کو کبھی کاکامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آخرکار انبیاء ہی جیتا کرتے ہیں۔
امام مرزا مسرور احمد نے کہا کہ وہ کون سے ظلم ہیں جو آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ پر نہیں کئے گئے۔ لیکن آپؐ صبر فرماتے اور صبر کی تلقین فرماتے۔ اس بارے میں تاریخ میں کئی دردناک واقعات ہیں۔ ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے جو عمار ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ کا آتا ہے۔ جن پر بے انتہاء ظلم کیا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب ان پر بے انتہاء ظلم کیا جارہا تھا اور آپﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا:
اے آل یاسر! صبر کرتے رہو۔ اللہ نے تمہارے اس صبر کی وجہ سے تمہارے لئے جنت تیار کر دی ہے۔ پس یہ ہمیشہ مجرموں کا طریقہ ہے کہ اللہ کے پیاروں کی مخالفتیں کرتےہیں اور ظاہر ہے کہ جب مسیح موعودؑ نے دعویٰ کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ کی یہ ہمیشہ کی سنت یہاں بھی جاری رہنی تھی۔ آپ کی مخالفت ہوئی آپ کا استہزاء کیا گیا۔ آپ کے ماننے والوں کو تکلیفیں دی گئیں دی جاتی ہیں اور دی جاتی رہیں گی۔ اور اس کو وہ خدمتِ اسلام سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں حضور نے سورۃ الفرقان کی یہ آیت تلاوت کی: وَقَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا (الفرقان: 31)
اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مہمانوں کی اکثریت خود تو قرآن کریم کی تعلیم کو بھلا بیٹھی ہے اور جب زمانے کا امام بلاتا ہے کہ آؤ تمہیں قرآن کریم کی تعلیم کے اسرار اور رموز سمجھاؤں تا تم اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا میں پھیلا سکو تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔
فرمایا پس چاہے یہ لوگ مخالفتیں کریں اور جتنا بھی زور لگانا ہے لگا لیں ان کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں جائے گی اور ان کی یہ سب مخالفتیں، ایک دن ان مخالفوں پر ہی لوٹائی جائیں گی۔
فرمایا: پاکستان میں بدنام زمانہ اور ظالمانہ قانون نے احمدیوں پر جو پابندیاں لگائی ہیں اس میں ایک یہ بھی ہے کہ احمدی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا کلمہ نہ پڑھ سکیں۔ اس وجہ سے انتظامیہ وقتاً فوقتاً احمدیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کے لئے اس قانون کا استعمال کرتی رہتی ہے اور مولویوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ،اس کے رسولﷺ پر اور قرآن کریم پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور تمام ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر یقین رکھتے ہیں نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ حقیقی مومن ہیں کیونکہ احمدی ہی ہیں جنہوں نے آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق زمانے کےا مام کو بھی مانا ہے۔
پس مسلمان اور مومن کی تعریف جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی ہے اس کے مطابق ہم مسلمان ہیں۔ اب ان قتل کرنے والوں کے بارے میں قرآن کریم کیا کہتا ہے؟ فرماتا ہے:
وَمَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا
(النساء: 94)
اور جو جان بوجھ کر کسى مومن کو قتل کرے تو اس کى جزا جہنّم ہے وہ اس مىں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کى، اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تىار کر رکھا ہے۔
ذرا علماء اس بات پر غور کریں کہ اپنی ہی بنائی ہوئی نام نہاد مسلمان کی تعریف کی وجہ سے بھی یہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کسی جرم کے لئے ابھارنے والا اور پلاننگ کرنے والا اسی طرح مجرم ہوتا ہے جس طرح وہ عمل کرنے والا مجرم ہے۔ فرمایا:
بہرحال ہماری طرف سے تو یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور ہم نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کرتے چلے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ تو شہیدوں کے بارے میں فرماتا ہے وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ (آل عمران: 170) اور جو لوگ اللہ کى راہ مىں قتل کئے گئے اُن کو ہرگز مُردے گمان نہ کر بلکہ (وہ تو) زندہ ہىں (اور) انہىں ان کے ربّ کے ہاں رزق عطا کىا جا رہا ہے
پس شہیدوں کے لئے تو اخروی نعمتوں کا فیضان جاری ہے لیکن مخالفین کے بارے میں فرماتا ہے وَتَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ (الواقعہ: 83) کہ اپنا حصہ رزق تم نے صرف جھٹلانا بنالیا ہے۔ گویا ان کا جھٹلانا ہی یہ ان کا رزق بن گیا ہے۔ آپ علیہ السلام کو جھٹلایا جانا تھا۔ پس یہ لوگ حقیقی رازق کو بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
سب سے آخر میں اخبار نے مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر بھی دیا ہے نیز انٹرنیٹ اور ہماری الاسلام کی ویب سائٹ کی معلومات بھی۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 2تا8 جولائی 2010ء میں خاکسا رکا ایک مضمون بعنوان ’’جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔
اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ دنیا کے ہر خطہ، ہر ملک، ہر شہر میں کہیں نہ کہیں جلسے اور میٹنگز ہوتی ہیں اور ہر ایک میٹنگ اور جلسے کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے۔ اسلام میں بھی ایسی میٹنگ ہوتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کئے جاتے، آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کے محاسن بیان کئے جاتے ہیں تا لوگ ان راہوں پر چل کر اپنی زندگیاں سنوار سکیں۔ ایسی مجالس کی خداتعالیٰ کے نزدیک بہت قدر اور منزلت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ فرشتے دنیا میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور جہاں خدا کے نام کی عظمت کی خاطر اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات و اسوہ کو اجاگر کرنے کی خاطر میٹنگ ہوتی ہیں ان میں وہ خدا کے فرشے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر خداتعالیٰ کو اس کے بارے میں جا کر بیان کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے مانگا وہ ان کو دیا جاتا ہے۔ بلکہ فرشتے ایک ایسے انسان کا بھی ذکر کرتے ہیں جو وہاں پر بس یوں ہی آگیا تھا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اسے بھی میں نے بخش دیا۔ خاکسار نے اس تمہید کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ 1891ء میں بنیاد رکھی اور 75 لوگ شامل ہونے کا ذکر کیا۔ اور پھر امریکہ کے اس سال (2010ء) کے جلسہ کی تاریخوں اور جگہ کا ذکر کیا۔ اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مقاصد جو بیان فرمائے ہیں وہ حضور علیہ السلام کے الفاظ میں ان کا ذکر کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے دعائیں لکھیں۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ342)
خاکسار نے اس کے بعد لکھا کہ
ربوہ پاکستان میں 1983ء تک یہ جلسہ باقاعدگی کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور اس آخری جلسہ میں اڑھائی لاکھ سے زائد احباب شامل ہوئے۔ لیکن جب ضیاء الحق نے جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈیننس جاری کیا اور یہ 1984ء کی بات ہے۔ اس سے آج تک جماعت احمدیہ کو ربوہ میں جلسہ سالانہ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ جبکہ ہر سال جماعت کی طرف سے حکومت کو جلسہ کی اجازت کے لئے لکھا جاتا ہے۔ مگر حکومت اس کو درخور اعتناء سمجھا جاتا ہے اور اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اس کے برعکس اسی شہر میں دوسرے لوگوں کو جو ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور ہمارے رسول کو جھوٹ بول بول کر مجروح کرتے ہیں جلسے اور جلوس نکالتے ہیں۔ اور بدزبانی کرتے ہیں انہیں وہاں پر جلسے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ عوامی اور اسلامی حکومت کا ایک طریق ہے جو جماعت احمدیہ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہے۔
اس کے بعد خاکسار نے ربوہ میں جلسہ کے دنوں میں گھروں میں مہمانوں کے ٹھہرانے کے بارے اور ڈیوٹیوں کے بارے میں بتایا ہے اور جلسہ کے وہی اغراض و مقاصد اب تک ہیں جو بانی جماعت احمدیہ نے بیان کئے ہیں۔ یعنی جب وہ اکٹھے ہوں تو خدا کے نام کی خاطر۔ رسول پاکﷺ کے نام کو بلند کرنے کی خاطر، اسلام کی تبلیغ کی خاطر، روز اس میں نرم زبان استعمال کر کے پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی خاطر اور نفرت، حسد اور بغض کو ختم کرتے ہوئے یہی نعرہ بلند کرنے کی خاطر کہ:
’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘
ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 4 جولائی 2010ء صفحہ 2B پر خاکسار کا مضمون انگریزی میں شائع کیا جس کا عنوان ہے:
Independence Means Much More Than Just Freedom
آزادی کا مطلب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہے
یاد رہے کہ امریکہ اپنا یوم آزادی ہر سال 4 جولائی کو مناتا ہے۔ اس موقعہ کی مناسبت سے خاکسار نے یہ مضمون لکھا جو 4 جولائی کی اشاعت ہی میں شائع ہوا۔
خاکسار نے بتایا کہ میں بھی ایک امریکن شہری ہوں باقی امریکن شہریوں کی طرح جنہوں نے دوسرے ممالک سے یہاں آکر اس عظیم ملک کی شہریت حاصل کی ہے۔ اور جو لوگ اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں آبستے ہیں ان کی معاشی یا دیگر وجوہات ہوتی ہیں اوربعض اپنے ہی ملک کے باسیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے وطن عزیز کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہاں پر انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہے اور خصوصاً اس ملک میں جہاں آزادی کے ساتھ وہ اس ملک میں اپنی عبادات اور اپنے مذہبی فرائض کو آزادانہ ادا کر سکتے ہیں۔ بلا خوف و خطر اور بلاامتیاز۔ س لئے یہ آزادی صرف آزادی نہیں بلکہ آزادی سے بڑھ کر نعمت ہے۔ اس ملک کا آئین و قانون باقی دنیا کے لئے اس معاملے میں ایک مثال ہے اور ایک نمونہ ہے۔ میں احمدی مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہوں اسی طرح میں امریکن ہونے پر بھی فخر کرتا ہوں۔ بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ ایک مسلم کو اپنے ملک کا وفادار ہونا چاہئے یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کو ظالم نہ ہونا چاہئے اور نہ ہی دہشت گردی کرنی چاہئے اور نہ ہی اسے جارحانہ کارروائی کرنی چاہئے اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانا چاہئے اور نہ ہی کسی کے حقوق کو غصب کرنا چاہئے اور اگر ان پر اس ملک میں ظلم ہو اور وہ اپنی عبادات نہ بجا لا سکتے ہوں تو ہجرت کر لیں۔ ’’مسلمان‘‘ کے معنوں میں ہی یہ بات شامل ہے کہ وہ پرامن ہو۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ جو وہ کہتے ہیں اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ میں تمہیں اپنی طرف سے امن و سلامتی کی ضمانت دے رہا ہوں۔ لیکن افسوس سے کہتا ہوں کہ میرا اپنا ہی ملک پاکستان جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے نے ان امور کا خیال نہیں رکھا۔ جس کا میں ذکر کر چکا ہوں اور امریکہ ان امور کی حفاظت کرتا ہے بمقابلہ پاکستان کے!
پاکستان کو تو ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے اپنے عقیدہ وہ مذہب کے مطابق آزادی ہونی چاہئے کہ وہ عبادت کریں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو تو ہر ایک کی جان، مال کی حفاظت کرنی چاہئے کہ یہ اسلام کا حکم ہے لیکن پاکستان نے اپنے ہی آئین میں ترمیم کر کے ہمارے ان حقوق کو چھین لیا ہے۔
1973ء کے آئین میں جو پاکستان نے احمدیوں کے خلاف ترمیم کی اس سے ان کے سارے بنیادی حقوق چھین لئے گئے اور اب تک 1984ء میں پھر ان قوانین مں جو ترامیم کی گئیں ان کے ذریعہ تو نہ صرف بنیادی حقوق چھین لئے گئے بلکہ اگر کوئی احمدی اپنے آپ کو ظاہراً و باطناً قولاً و فعلاً مسلمان ظاہر کرتا ہے وہ قید میں ڈال دیا جائے گا۔ اور اس طرح اس وقت بھی سینکڑوں احمدی قید میں ہیں اور یہ قانونی طور پر احمدیوں کے خلاف کاررائی ہو رہی ہے۔ یعنی حکومتی سطح پر احمدیوں پر ظلم روا رکھا جارہا ہے۔ 28 مئی 2010ء کو لاہور میں ہماری 2 احمدیہ مساجد پر حملہ کر کے جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہوئے لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور 86 لوگ موقعہ پر ہی مارے گئے۔ یہ سب کچھ ان قوانین کا نتیجہ ہے جو حکومت نے احمدیوں کے خلاف بنایا ہے۔ بعض جگہوں پر تو اس ظلم میں باقاعدہ پولیس بھی شامل ہوتی ہے۔ خواہ ملاں ہو یا حکومت سب اس بات پر اس وقت متفق ہیں کہ احمدی مسلمان کو مارا جا سکتا ہے اور تختہ ظلم پر لٹکایا جا سکتا ہے۔
اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ وہ یوم آزادی کے موقعہ پر یہ بھی دیکھے کہ کن ممالک سے اس کے تعلقات ہیں اور وہ ممالک اپنے شہریوں کو ان کےبنیادی حقوق سے تو محروم نہیں کر رہے اور خصوصاً پاکستان تو اس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ کہیں بھی کسی کے بنیادی حقوق کی پامالی نہ ہو۔
ڈیلی بلٹن کی 4 جولائی کی اشاعت میں ہی ایک نوجوان رضوان جٹالہ کا خط بھی شائع ہوا ہے۔ We are one people۔ ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ انہوں نے بھی اپنے مضمون میں یہ لکھا ہے کہ میں اس ملک کا مسلمان شہری ہوں اور مجھے اس ملک میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے جس کی وجہ سے میں اللہ کا شکرگزار ہوں۔ اس ملک میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں لیکن سب ایک ہیں۔
الاخبار نے اپنی اشاعت 8 جولائی 2010ء میں صفحہ 21 پر خاکسار کا انگریزی کا مضمون ’’میرے نزدیک یوم آزادی کا مطلب‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔
یہ مضمون بعینہٖ وہی ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ ہر اخبار مضمون کا عنوان اپنی سوچ اور اپنے مطلب کے مطابق لگاتا ہے۔ عنوان مختلف ہے لیکن نفس مضمون وہی ہے۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 9جولائی 2010ء صفحہ14 پر خاکسار کا ایک مضمون خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں 2 لوگوں کے بیانات شائع ہوئے ہیں۔ جنہوں نے پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں خصوصاً جماعت احمدیہ کے بارے میں بیان کیا ہے اور مضمون کا عنوان بھی ہر دو مضامین سے اخذ کر کے اخبار نے یہ لکھے ہیں!
فیصلہ خود کیجئے۔ ’’یہ پاگل پن کب ختم ہو گا؟ شیریں رحمان‘‘
’’پاکستان میں مذہبی توہین سے متعلق قوانین میں اصلاح کی ضرورت …… ہما یوسف‘‘
روزنامہ جنگ 5 جولائی 2010ء شیریں رحمان کا ایک مضمون اس عنوان سے شائع ہوا ہے کہ ’’یہ پاگل پن کب ختم ہو گا؟‘‘ وہ لکھتی ہیں:
’’ریاستی تشخیص اور مذہب کے مابین گہرا تعلق ہمیشہ سے ہی ایک خطرناک معاملہ رہا ہے۔ جب مذہبی تشخص کی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ان کا قتل کیا جانے لگے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم وحشیانہ طرز عمل سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ رویہ ہمارے اندر پختہ ہو چکا ہے اس مرحلے پر صرف عوام کا احتجاج اور حکومت کا سخت ردعمل ہی ہمیں تہذیب یافتہ اطوار کے ساتھ کھڑا کر سکتا ہے۔ لاہور میں احمدیوں کا قتل پہلا واقعہ نہیں ہے جس نے پاکستان کے قومی تشخص کی پالیسی کے اندر موجود خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے قبل گوجرہ میں 2009ء میں عیسائیوں پر حملے کے دوران پولیس نے حملہ آوروں کو ہی تحفظ فراہم کیا تھا۔ 28 مئی کو ہونے والے حملے کے خلاف یقیناً کئی آوازیں اٹھی ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے رکھا ہے۔ گیارہ مذہبی جماعتوں نے احمدیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے پر حکومت پنجاب کی مذمت بھی کی ہے۔
اگرچہ پارلیمنٹ نے اس واقعے کو ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے تاہم پنجاب کی غیرمذہبی جماعتوں کے تذبذب نے مساوات کے ان بلند و بانگ دعوووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ایک سرکاری اہل کار نے TV کی براہ راست نشریات میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ احمدیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والے بینرز ہٹا نہیں سکتے۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والوں کو سزا دینے میں حکومت کی نااہلی بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ اس بات کو مزید تقویت دیتا ہے کہ گوجرہ میں عیسائیوں کے قاتلوں کی طرح احمدیوں کا قاتل بھی کیفرکردار کو نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘
شیریں رحمان صاحبہ مزید لکھتی ہیں:
’’اگر ہمارا یہی طرز عمل رہا تو یہ غیرمحتاط رویہ ہمیں مزید تاریکی کی طرف دھکیلے گا۔ اس صورت حال میں آزادی کے ساتھ عبادت کرنا کیسے ممکن ہے، جہاں عوام کے ایک حلقے کو اپنی الگ شناخت پر مجبور کیا جائے یہ ایسا ہی ہے جیسے نازی جرمنی میں یہودیوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنا قومی نشان (Star of David) ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے لئے جس سے ملک کی شہریت کا تعین ہوتا ہے، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر پاکستانی اس بات کی تصدیق کرے کہ وہ احمدیوں کو غیرمسلم سمجھتا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے اور احمدیوں کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈا نوجوانوں میں سرایت کر چکا ہے۔ غلط کام کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے اس ماحول میں تشدد ایک متعین سمت میں بڑھ رہا ہے۔
ایک حدیث بھی اس سلسلہ میں انہوں نے نقل کی ہے۔ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: آگاہ ہو! اگر کسی نے بھی اقلیت کے کسی فرد کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک روا رکھا یا اس کے حقوق کو غصب کیا یا اس پر تشدد کیا یا انہیں کسی چیز سے زبردستی محروم کرنے کی کوشش کی تو میں روز آخرت اقلیت کے حق میں اس مسلمان کے خلاف لڑوں گا۔‘‘
(ابوداؤد)
اسی طرح القمر آن لائن کی 3جولائی 2010ء کی اشاعت میں ہمایوسف کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ رقمطراز ہیں:
’’احمدی کمیونٹی کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعہ میں لاہور میں ان کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا جس میں 80 افراد ہلاک ہو گئے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ رجحان کوئی نیا نہیں ہے گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان میں مذہبی اقلیتوں خصوصاً احمدی، عیسائی، شیعہ اور ہندو کمیونٹیز کے ساتھ بدسلوکی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے حقوق اکثر اس بہانے سے غصب کئے جاتے ہیں کہ چونکہ وہ غیرمسلم ہیں اس لئے دوسرے درجہ کے شہری ہیں، پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کی حکومت اور آئین میں کسی بھی طرح کی ترمیم کا اسلامی اصطلاحات سے مطابقت رکھنا لازم ہے۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں: ’’1974ء میں سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر آئین میں ترمیم کی جس کے تحت احمدیوں کو مذہب کے معاملے میں نظریاتی اختلافات رکھنے کی بنیاد پر غیرمسلم قرار دے دیا گیا۔ مثال کے طور پر احمدی کمیونٹی کے افراد 19 ویں صدی میں احمدی فرقے کی بنیاد رکھنے والے مرزا غلام احمد کو پیغمبر مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ آخری نبی ہیں۔ آئین میں ترمیم کے اس اقدام نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو عقیدے اور اظہار کی آزادی سے محروم کر دیا۔……
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ یہ قوانین جنہیں عام طور پر توہین رسالت کے قوانین کے نام سے جانا جاتا ہے گزشتہ کئی برسوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ کا موجب بنے ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے گروہ مسلسل یہ بتاتے چلے آرہے ہیں کہ کس طرح پاکستان کی سنّی اکثریت کے بعض ارکان مذہبی توہین کی روک تھام کے قوانین کو سنسر شپ کا جواز فراہم کرنے، ذاتی جھگڑے چکانے حتی کہ اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جن میں کسی رقبے کے غیرمسلم ہونے پر مذہبی توہین کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں کہ 1974ء میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ایک سیکولر پاکستان کا تصور پیش کیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو رہے گانہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ عقیدہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ ریاست کے ہر شہری کے طور پر سیاسی اعتبار سے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ 1953ء میں جو جسٹس ایم آر کیانی کے تاریخی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس میں مذہب کو ریاستی امور اور قانون میں شامل کرنے کے خلاف خبردار کیا گیا تھا۔ اس نصیحت پر کان نہ دھرنے کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے اور اقلیت مخالف جذبات بہت گہرے اور وسیع ہو گئے ہیں اور انہیں ریاست کی آشیر باد حاصل ہے۔‘‘
’’مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے صحیح معنوں میں تحفظ کرنے کی سمت میں پیش رفت کے لئے لازم ہے کہ پاکستان کی حکومت پہلے قدم کے طور پر مذہبی توہین ختم کرے۔
(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)