• 29 اپریل, 2024

انسانیت کی مدد، دنوں یا ہندسوں کی محتاج نہیں

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ۔

(اٰل عمران:111)

تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

مدد کی تعلیم بھی الہٰی ہے

اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا، ان کے آپس میں رشتے قائم کئے، باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا۔

دوسروں کو فائدہ پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضہ ہے۔ انبیاء کی ابد سے تعلیم یہ رہی ہے کہ یہ سب اللہ کی تخلیق ہے، ایک دوسرے کی مدد کرو۔

اگر انسان انسان کے کام نہ آتا تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی۔

انسان ایک دوسرے کیلئے بنا ہے

انسان اپنی فطری، طبعی، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے اسے اپنی پرورش، نشو و نما، تعلیم و تربیت، خوراک و لباس اور دیگر معاشرتی و معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کا کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہے۔

دوسروں کی مدد بھی معیارہے

خدمت خلق وہ جذبہ ہےجسے ہر مذہب و ملت اورضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مذہب سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں تھی۔

لطائف کی کئی اقسام ہیں

کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ شیئر کی جس میں لکھا ہے کہ سال 2022ء کا پہلا دن ریسکیو 1122 Rescue یعنی 22۔1۔1 ہے۔

اچھوتے لطائف یا اچنبھے کی بات یا عام معلومات کی حد تک کئی پوسٹس لوگ شیئر کر دیتے ہیں، اور عام طور پہ لوگ، ’’ادھر سے آئی ادھر چلائی‘‘ کر دیتے ہیں، وہی پوسٹس ہر گروپ میں نظر آئیں گی۔

انسان نے ایک دوسرے سے مدد کرنا بھی سیکھی لیکن یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ انسان فطری طور پر پہلے دن سے ہی ہمدرد ہے، اس بات کو قرآن نے بیان کیا۔

اللہ تعالیٰ کا ابد سے فرشتوں پہ واضح کرنا

الله تعالیٰ نے کہا یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں فرشتوں نے کہا جو اُس میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اس (اللہ) نے کہا یقیناً میں وہ سب کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (البقرہ: 31)

جب قابیل نے ہابیل کو مارنا چاہا، تو ہابیل نے کہا میں ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا (المائدہ: 29)۔

اور جب قابیل نے ہابیل کو مار ہی لیا تو قابیل کے اندر سے ہی رحمدلی بھی جوش مار رہی تھی، یہ ایک فطری رحم تھاکہ لاش کی مزید بےحرمتی نہ ہو، پرندے جانور نہ کھائیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایسا بندوبست کیا کہ اس کے سامنے ایسے ہی دوکوّے لڑے، ایک کوّے نے دوسرے کو مار ڈالا تو قاتل کوّے نے چونچ کے ساتھ زمین کھود کرمردہ کوّے کودفن کر دیا، گویا یہ ایک ترکیب تھی جو قابیل نے سیکھی جس میں اسے تسکین کا کچھ پہلو نظر آیا، تو اس نے بھی ہابیل کوایسے ہی دفن کیا۔

انبیاء کی الٰہی تعلیم بھی رحمدلی ہی ہے

اللہ تعالیٰ کےتمام انبیاء کی تعلیم بھی رحم دلی اور انسانی ہمدردی ومدد پہ ہی مشتمل رہی، خدا تعالیٰ کی عبادت کے بعد انسانوں سے ہمدردی اور ان کی مدد کرنے کی تعلیم توابد سے تھی، جس کی کچھ جھلک تواب بھی گزشتہ قوموں میں نظرآتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ تعلیمات انسانی دخل سے بدل دی گئی ہیں۔ لیکن قرآن کریم جیسی زندہ کتاب جس کی حفاظت اپنے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ خود کئے ہوئے ہے، ہم میں موجود ہے۔

احادیث سے مدد کی تعلیم

احادیث میں نبیﷺ کی زندہ تعلیم ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔
’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہےجو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو۔‘‘

(مسلم کتاب الذکر باب فضل الاجتماع علی تلاوۃالقرآن وعلی الذکر)

نبیؐ کا اسوہٴ مبارکہ

خود نبیﷺ نے تمام زندگی انسانوں کے لئے رحمت کا نمونہ پیش کیا۔ جنگی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کر دیں، طائف سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ انہیں بھی معاف فرما دیا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا۔

اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے ربّ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔

اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا۔ اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تُو تو ربّ العالمین ہے۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔

اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا ربّ ہے۔

اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضورپاتے۔

(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)

یہودی گالیاں اور بد دعائیں دیتے رہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جواب دیں فرمایا نرمی رکھو اللہ نرمی پسند کرتا ہے اور جواب صرف ’’وَعَلَیْکُمْ‘‘ ہی دیا۔

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ
یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو کہتے ’’اَلسَّامُ عَلَيْكَ‘‘ آپ کو موت آئے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا ان کا مقصد سمجھ گئیں اورجواب دیا کہ ’’عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ‏‘‘ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہرو عائشہ! اللہ تمام امور میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا نےعرض کیا:

اے اللہ کے نبی! کیا آپ نے نہیں سنا یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہیں سنا کہ میں انہیں کس طرح جواب دیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں ’’وَعَلَیْکُمْ‘‘

(صحیح بخاری کتَاب الدعوات. بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى الْمُشْرِكِينَ حدیث نمبر: 6395)

اسلام کی تعلیم پہلے دن سے ہی ریسکیو ہے

للہ تعالیٰ نے خود اور انبیاء کے ذریعہ انسانی ہمدردی سکھائی ہے، اور ہمارا مذہب اسلام تو ہے ہی سلامتی۔

جنگوں میں بھی صحابیات مرہم پٹی کرتیں اور پانی پلاتی تھیں۔ گویا ہمارے لئے ہر دن ریسکیو ہے ہر دن خدمت خلق ہے۔

موچی حج پہ نہ جائے مگر اللہ اس کا حج قبول کرے کہ اس نے ہمسائے کی بھوک میں مدد کی۔

احمدیت ہی حقیقی ہے

خاص طور پر ہماری تعلیم تو خالص ہونے کے بعد جو ہمیں ملی وہ اور بھی واضح ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

آپ سے جو تاکیدی تعلیم آئی

شرائط بیعت میں چوتھی شرط ہے۔

’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے‘‘۔

اور نہم شرط ہے۔

’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓروایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ
’’ہمارے بڑے اصول دو2ہیں۔ اوّل خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ180)

احمدی اور خدمت خلق لازم و ملزوم ہیں

احمدی اپنوں کی مدد کے علاوہ اِرد گرد کی خبر رکھ کر مدد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو جماعت احمدیہ کو مدد کی توفیق دی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مخالف بھلے مخالفت کریں مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ احمدی سے مدد مانگی تو وہ کبھی بھی انکار نہیں کریں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔

احمدی ہی ہے جو ان غریب لوگوں تک قربانی کا گوشت پہنچاتا ہےجنہیں کوئی نہ دیتا ہو، چاہے پولیس کیس بھی کیوں نہ بن جائیں۔

طبّی مدد

بے شمار ملکوں میں میڈیکل کیمپس، کلینکس، ہسپتال اور سب سے بڑھ کر ہیومینیٹی فرسٹ جوزلزلوں طوفانوں قحط اور جہاں پانی نایاب ہے وہاں زندگی بن کرابھرتی ہے۔

یہ سب ایک برکت ہے۔ اور سب بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں، پوری دنیا میں احمدی ڈاکٹرز ہی ہیں جو وقف عارضی کر کےغریب ممالک کو مفت طبی سہولیات،مفت آنکھیں اور دل کے نازک معاملات میں فری آپریشن اور ادویات سمیت مدد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ تمام دنیا میں ہومیوپیتھک ادویات سے مدد کی جاتی ہے۔ لوگ فری مدد کرتے ہیں۔

وبائی دور میں تو تمام دنیا میں بے شمار لوگوں کی مدد کی گئی۔ لوگ جانتے ہیں کہ احمدی جو خدمت کرے گا وہ اخلاص اور انسانیت کے نام پر کرے گا۔ کووڈ19 کی ادویات بھی سب دنیا میں بے شمار لوگوں نے اسی یقین سے لیں۔

صرف ادویات ہی نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ عالمگیر نے بوڑھوں اورغریبوں تک سودا سلف وخوراک پہنچانے میں اپنی زندگیاں داؤ پہ لگا رکھی ہیں۔

بہترین امت کی تمام نشانیاں احمدی میں ہی ہیں

اسی طرح اگر محلے یا دفتر میں کوئی نیا شخص آ جائے، جو نمازیں پڑھے، رشوت سے انکار کرے اور اس میں شرافت نظر آئے تو سب لوگ یقین کرجاتے ہیں کہ یہ احمدی ہے۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنی قائم کردہ جماعت و خلافت سے وفاداری کے تعلق میں ہمیں تمکنت عطا فرماتا ہے۔ ہمارا شفیق ترین خلیفہ ہمارے امام ہماری دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں صحت کے لئے بہترین مشورے دیتے ہیں اور ہمیں دشمنی کے بدلے مدد اور دعا کی تلقین فرماتے ہیں۔

ہمارے لئے خدمت انسانیت اورہر لمحہ ریسکیو ہےجو باعث رحمت باری تعالیٰ ہے۔

مَا اَنَا عَلَيْهِ وَاَصْحَابِيْ

حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہے۔‘‘

(حدیقۃ الصالحین صفحہ643 از ملک سیف الرحمان)

صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ مِنَ الإِسْلاَمِ حدیث نمبر11میں ہے۔

بہترین اسلام وہ ہے جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ یعنی ہر مسلمان دوسرے کیلئے باعث رحمت ہو۔ یہی سلامتی کی دعا ہمیں بار بار سکھائی گئی ہے۔

اس باب کی اگلی حدیث نمبر 12 بَابُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ مِنَ الإِسْلاَمِ میں ہے:

ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا:

’’تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو‘‘

اسی اصول پہ ہمارا غرباء اور بے گھروں کو کھانا مہیا کرنے کا عالمگیر سلسلہ جاری ہے۔ پیاسوں کیلئے کنویں نلکے فراہم کیے جارہے ہیں۔

ہمارے لئے یہی اصول مشعل راہ ہیں اور انہیں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دہرایا اور آگے ان کے خلفاء کرام لے کر چل رہے ہیں۔ جنہیں ہم نے اپنے بزرگوں سے پایا اور آگے نسلوں میں جاری رکھ رہے ہیں۔

ہمارے خدمتِ انسانیّت سے معمور و سر شار جذبات کسی مخصوص دنوں، ہفتوں، مہینوں، سالوں اور ہندسوں کے محتاج نہیں۔ بلکہ دکھی انسانیّت کی ہرآہٹ و پکار پر ہر وقت تیار ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کوخلافت احمدیہ کے بابرکت سایہ تلے ہمیشہ خدمت انسانیت کی توفیق میں بڑھاتا چلا جائے۔

(ڈاکٹر نصیر احمد طاہر۔ نیوپورٹ یوکے)

پچھلا پڑھیں

The God Summit 2022 فرمودہ مؤرخہ 15؍مئی 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ