• 27 اپریل, 2024

سید القوم خادمھم کا ارشاد ہمیشہ پیشِ نظر ہو

سَیِّدُ الْقَوْمِ خِادِمُھُمْ کا ارشاد ہمیشہ پیشِ نظر ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیکیوں کی تلقین کرے اور برائیوں سے روکے اور یہ جماعت سب سے پہلے مبلغین اور مربیان کی جماعت ہے۔ وہ پہلے مخاطب ہیں۔ کیونکہ آپ مربیان کو خلیفۂ وقت نے تربیت کے لئے اور تبلیغ کے لئے اپنا نمائندہ بنا کر یہاں بھی اور دنیا میں بھی بھیجا ہے۔ آپ وہ واعظ ہیں جو نصیحت کرتے ہیں، جو یہ بات دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اگر نجات چاہتے ہو تو حبل اللہ کو پکڑ لو۔ اگر دنیا و آخرت سنوارنا چاہتے ہو تومحبت، پیار اور بھائی چارے کو فروغ دو۔ اگر خود مربیان اور مبلغین اعلیٰ معیار قائم نہیں کریں گے تو دنیا کو کس طرح نصیحت کریں گے۔ مربیان کا کام جماعت کی تربیت بھی ہے اور تبلیغ بھی۔

پس دونوں کاموں کے لئے بلند حوصلہ ہونا اور بلند حوصلہ دکھانا بہت ضروری ہے۔ صبر کے اعلیٰ معیار قائم کرنے بہت ضروری ہیں۔ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنا اور کروانا بہت ضروری ہے۔ اپنے قول و فعل میں مطابقت رکھنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، مربیان جماعت کی دینی اور روحانی ترقی کے لئے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں۔ پس اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ سخت حالات بھی آئیں گے۔ بعض لوگوں اور عہدیداران کے رویے ایسے بھی ہوں گے جو پریشان کریں گے۔ بعض موقعوں پر صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گا۔ آخر انسان انسان ہے لیکن فوراً دعا اور استغفار اور اس سوچ کو سامنے لائیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔ ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ جماعت کی تربیت کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرنے ہیں اور بھٹکی ہوئی دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے بھی لے کر آنا ہے۔ جب یہ سوچ ہو گی تو کسی کی بات آپ کو اپنے مقصد کے حصول سے یا حصول کی کوشش سے ہٹا نہیں سکے گی۔ اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ ہر وقت آپ کے سامنے رہے گا۔ آپ نے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا جو ایک عہد کیا ہے وہ آپ کے سامنے رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عزت ہی آپ کے سامنے رہے گی نہ کہ اپنی، تو عہدیداران کے غلط رویّوں کی برداشت آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا رہی ہوگی۔ کیونکہ ہر قسم کے حالات میں آپ یَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ پر عمل کر رہے ہوں گے۔

پس مربی کا کام صرف اپنے آپ کو تفرقہ سے بچانا اور آگ کے گڑھے سے دور کرنا نہیں ہے بلکہ دنیا کو بھی تفرقہ سے بچانا ہے اور آگ کے گڑھے سے دُور کرنا ہے اور یہ کام جیسا کہ میں نے کہا، قربانی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

پھر دوسرے نمبر پر اس آیت کے تحت وہ گروہ بھی آتا ہے جو جماعتی عہدیدار ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کیا۔ جماعتی عہدیداروں کے سپرد بھی ایک امانت ہے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ سکتے ہیں۔ یہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تم پوچھے جاؤ گے اور امانت کا حق تبھی ادا ہو گا یا ہو سکتا ہے جب اپنے قول و فعل میں مطابقت پیدا کی جائے۔ عُہدے صرف عُہدے لینے کے لئے نہ ہوں بلکہ خدمت کے جذبے اور اخلاص و وفا کے نمونے قائم کرنے اور کروانے کے لئے ہوں۔ سَیِّدُ الْقَوْمِ خِادِمُھُمْ کا ارشاد ہمیشہ پیشِ نظر ہو۔

(کنزالعمال جلد6 صفحہ302 کتاب السفر، قسم الاقوال، الفصل الثانی آداب متفرقۃ حدیث نمبر17513 دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن2004ء)۔

عہدیداران کے اپنے نمونے افرادِ جماعت کو بھی نیکیوں پر قائم کرنے والے ہوں۔ اگر خود اپنے قول و فعل میں تضاد ہے تو دوسرے کو کیا اور کس منہ سے نصیحت کر سکتے ہیں۔ دوسرا تو پھر آپ کو منہ پر کہے گا کہ پہلے اپنی برائیاں درست کرو، اپنی زبان کو شستہ کرو، اپنے اخلاق کو بہتر کرو، اپنی دینی حالت کو سنوارو، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے کی کوشش کرو، اپنی نمازوں کو درست کرو، اپنے دنیاوی معاملات میں بھی انصاف قائم کرو، اپنی ایمانداری کے معیار بھی بڑھاؤ، جماعت کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لئے ایک درد پہلے اپنے اندر پیدا کرو، یہ ہر عہدیدار کی ذمہ داری بھی ہے۔ مربیان جو خلیفہ وقت کے دینی تربیت کے لئے نمائندے ہیں، اُن کا احترام کرو۔ یہ بھی عہدیداروں کا سب سے بڑا کام ہے کہ مربیان کا احترام کریں۔ غرض اپنی ظاہری اور باطنی حالت کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرو۔ تب ہی تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تم اُن لوگوں میں شامل ہو جو نیکیوں کو قائم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے کا حق رکھتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہر سطح پر جماعت کے، ہر عہدیدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر صدر جماعت اور امیر جماعت کو، جو جو جہاں جہاں ہے ورنہ یہ لوگ جماعت میں تفرقہ کا موجب بن رہے ہیں۔ مربیان اور مبلغین کا سب سے زیادہ احترام، صدر جماعت اور امیر جماعت کو کرنا چاہئے اور اس احترام کی وجہ سے مربیان یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حق ہے بلکہ اس سے اُن میں مزید عاجزی پیدا ہونی چاہئے۔ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف مزید توجہ پیدا ہونی چاہئے۔ اور جب ہم ہر سطح پر اس کے معیار حاصل کر لیں گے تو پھر دیکھیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت کی تربیت کے مسائل بھی حل ہوں گے، بہتر ہوں گے اور تبلیغ کے میدان میں بھی ہم غیر معمولی فتوحات دیکھیں گے۔ یہ اکائی اور احترام اور اتفاق ہمارے ہر کام میں برکت ڈالے گا۔

(خطبہ جمعہ 5؍اپریل 2013ء)

پچھلا پڑھیں

چوہدری رشیدالدین مرحوم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 مئی 2022