• 29 اپریل, 2024

حقیقی توبہ کی شرائط اور اُس کے گہرے معانی

توبہ یا توبہ واستغفار کا لفظ تو ہم نے بارہا سنا ہوگا۔ مگر توبہ کیا ہے، حقیقی اور سچّی توبہ کسے کہتے ہیں؟ اس کے بارہ میں انسان کوشاید ہی کبھی غوروفکر کا موقع ملا ہو۔ کیونکہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو توبہ کی حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں اور وہ صرف مُنہ سے ’’توبہ، توبہ‘‘ یا ’’میری توبہ‘‘ کہہ دینے کو ہی توبہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت اہم اور نازک مسئلہ ہے اور گناہوں کی مغفرت کے لئے توبہ کی بڑی اہمیّت ہے، نیز ایمان اور اعمال صالح کا حصول بھی اِس کے بغیر ممکن نہیں۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی معرکۃ الآراء تفسیر ِقرآن یعنی تفسیر کبیر میں اس موضوع پرسیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ آج کے اس مضمون میں توبہ کے حقیقی مفہوم سے متعلق اُن پاکیزہ معارف کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قارئین الفضل حضرت مصلح موعودؓ کے ان دلربا اور پاکیزہ خیالات سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ان شاء اللہ۔ حضورؓ فرماتے ہیں:۔
’’اس (توبہ۔ناقل) کے لئے سات امور کا ہونا ضروری ہے اور جب تک وہ سارے کے سارے موجود نہ ہوں اُسوقت تک توبہ کبھی بھی صحیح معنوں میں توبہ نہیں کہلا سکتی۔‘‘

پہلی شرط – احساسِ ندامت

حضورؓ فرماتے ہیں:۔
’’چنانچہ توبہ کے لئے پہلی شرط تو یہ ہے کہ انسان اپنے گذشتہ گناہوں کو یاد کرکے اور اُن کو اپنے سامنے لاکر اسقدر نادم ہوکہ گویا پسینہ پسینہ ہوجائے۔‘‘

دوسری شرط۔ جو فرائض ادا نہ ہو سکے ہوں، اُن کو ادا کرنے کی کوشش کرنا

آپؓ فرماتے ہیں:۔
’’دوسری شرط یہ ہے کہ پچھلے فرائض جسقدر رہ چکے ہیں اُن میں سے جن کو ادا کیا جاسکے اُن کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔ مثلًا اگر صاحبِ استظاعت ہونے کے باوجود اُس نے حج نہیں کیا تھا تو اَب حج کرلے یا اگر زکوٰۃ نہیں دی تھی تو ساری عمر کو جانے دے اُسی سال کی زکوٰۃ دے دے۔‘‘

تیسری شرط۔ گذشتہ گناہوں کے ازالہ کی کوشش کرنا

تیسری شرطِ توبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آپؓ یوں رقم طراز ہیں:۔
’’تیسری شرط یہ ہے کہ پچھلے گناہوں میں سے جن کا ازالہ ممکن ہو اُن کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔ مثلًا اگر کسی کی بھینس چُرا کر اُس نے اپنے گھر رکھّی ہوئی ہو تو اُسے واپس کردے۔‘‘

چوتھی شرط۔ اگرکسی کو کوئی دُکھ دیا ہو تو اُس کا ازالہ کرنا

اِس شرط کوبیان کرکے، اُس کی تائید اور مزید وضاحت میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بڑے اہم تاریخی واقعہ کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:۔
’’چوتھی شرط یہ ہے کہ جس شخص کوکوئی دُکھ پہنچایا ہو اُس کے دُکھ کا ازالہ کرنے کے علاوہ اُس سے معافی طلب کرے۔ یہ ایک باریک رُوحانی مسئلہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندوں کے گناہوں کی معافی کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اُن کے متعلق بندوں سے ہی معافی طلب کی جائے اور اگر وہ معاف کردیں تو پھر خداتعالیٰ اُن کا مؤاخذہ نہیں کرتا۔ شبلیؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں وہ خلافتِ عباسیہ کے دَور میں کسی علاقہ کے گورنر تھے۔ ایک دفعہ وہ کسی کام کے سِلسلہ میں بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے بغداد آئے۔ انہی دنوں ایک بہت بڑا جرنیل ایران کی مہم میں کامیابی حاصل کرکے واپس آیا اور بادشاہ نے اُس کے اعزاز میں دربار خاص منعقد کیا اور فیصلہ کیا کہ بھرے دربار میں اُسے خلعتِ فاخرہ دی جائے اور اُس کی عزّت افزائی کی جائے۔ اتفاق سے اس روز اُسے نزلہ کی شکایت تھی۔ جب اُسے خلعت دیا گیا اور دربار میں چاروں طرف سے اُس پر پھول برسائے جانے لگے تو اُسے چھینک آگئی۔ اور ناک سے پانی بہ پڑا۔ اُس نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ مگر رومال موجود نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اُس نے گھبراہٹ میں اُسی خلعت سے اپنی ناک پونچھ لی۔ بادشاہ نے اُسے دیکھ لیا اور اُس نے سخت غضبناک ہوکر حکم دیا کہ اس شخص نے ہمارے خلعت کی ناقدری کی ہے۔ اُس کا خلعت اتارلو اور اسے دربار سے نکال دو۔ چنانچہ اُس کا خلعت اُتار لیا گیا اور اُسے ذلّت کے ساتھ دربار سے نکال دیا گیا۔ شبلیؒ جو یہ تمام نظارہ دیکھ رہے تھے یکدم اُن کی چیخ نکلی اور انہوں نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ رونے کا کونسا مقام ہے، ناراض تو مَیں جرنیل پر ہؤا ہوں تم خواہ نخواہ کیوں روتے ہو۔ وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔ حضور میرا استعفیٰ منظور فرمائیں۔ بادشاہ نے پھر کہا۔ یہ استعفیٰ کا کونسا موقعہ ہے۔ انہوں نے کہا۔ بادشاہ سلامت یہ شخص آج سے دو سال پہلے ایک خطرناک مہم پر روانہ کیا گیا تھا۔ یہ رات اور دن دشمن کے مقابلہ میں رہا۔ ہرروز موت اس کے سر پر منڈلاتی تھی اور ہر رات اس کی بیوی بیوگی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے سوتی تھی۔ یہ گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطن رہا۔ جنگلوں میں دھکےکھاتا رہا۔ مصائب اور آلام برداشت کرتا رہا اور آخر فتح یاب ہوکر واپس آیا۔ آپ نے اس کی آمد کی خوشی میں یہ دربار منعقد کیا اور اُسے چند گز کپڑا خلعت کے طور پر عطا فرمایا۔ مگر صرف اس لئے کہ اُس نے اُس خلعت سے اپنی ناک پونچھ لی آپ اِتنے غضبناک ہوئے کہ آپ نے اُسے دربار سے باہر نکال دیا۔ اور اُس کا خلعت چھین لیا۔ مَیں اس نظّارہ کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ چند گز کپڑے کی آپ ہتک برداشت نہیں کرسکے تو میرا خدا جس نے مجھے کروڑوں کروڑ نعمتیں عطا فرمائی ہوئی ہیں اور جس کی نعمتوں کی مَیں روزانہ ہتک کرتا ہوں وہ قیامت کے دن مجھ سے کیا سلوک کرے گا۔ مَیں اَب اس ملازمت سے باز آیا۔ میرا استعفیٰ قبول کیجیئے۔ مَیں اب اپنی بقیّہ عمر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی بسر کرونگا۔ چنانچہ وہ استعفیٰ دے کرچلے گئے۔ اور پھر اپنے گناہوں کی معافی کے لئے مختلف بزرگوں کے پاس گئے مگر وہ اتنے ظالم مشہور تھے کہ کسی نے اُن کی بیعت لینے کی جرأت نہ کی۔ آخر وہ حضرت جنیدؒ کے پاس پہنچے۔ انہوں نے فرمایا۔ تمہاری توبہ قبول ہوسکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے تم اُس شہر میں واپس جاؤ جہاں تم گورنر رہے تھے اور ایک ایک دروازہ پر پہنچ کر لوگوں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور جب سب لوگوں سے معافی لے چکو تو پھر میرے پاس آؤ۔ چنانچہ وہ اس علاقہ میں گئے اور انہوں نے گھر گھر پھر کر لوگوں سے معافیاں لینی شروع کیں۔ پہلے تو لوگ سمجھے کہ یہ رسمی طور پر معافی مانگ رہے ہیں۔ مگر جب انہوں نے دیکھا کہ شبلیؒ معافی بھی مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بھی بہاتے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ آج اس شخص کے دل پر بھی خدائے رحمٰن کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ چنانچہ پھر تو یہ کیفیت ہوئی کہ جب وہ معافی مانگتے تو لوگ کہتے آپ ہمیں کیوں شرمندہ کرتے ہیں آپ تو ہمارے قابلِ احترام بزرگ ہیں۔ غرض اس طرح انہوں نے گھر گھر پھر کر معافی حاصل کی اور پھر وہ حضرت جنیدؒ کے پاس آئے۔ حضرت جنیدؒ نے جب دیکھا کہ انہوں نے سچے طور پرتوبہ کرلی ہے تو انہوں نے اُس کی بیعت قبول کی اور پھر اُن کی تربیت میں انہوں نے اتنی بڑی ترقی کی کہ آج شبلیؒ بھی اولیاء امّت میں سے سمجھے جاتے ہیں۔ پس توبہ کی ایک ضروری شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو کوئی دُکھ پہنچایا ہو اور اُن کی رضا حاصل کرنا ممکن ہو اُن سے معافی طلب کی جائے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ خداتعالےٰ بڑا ستّار ہے وہ انسان کی بڑی بڑی برائیوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے۔ اِس لئے انسان کو چاہیئے کہ اپنی ستّاری آپ بھی کرے اور وہ گناہ جن کو خداتعالےٰ نے چُھپا رکھا ہو اُن کو خود ظاہر نہ کرے۔ مثلًا کسی کی چوری کی ہو تو اُسے یہ نہیں چاہیئے کہ خود جاکر اُسے بتلائے کہ مَیں نے تمہاری چوری کی تھی۔ ایساکرنا بجائے خود گناہ ہوگا۔ ہاں بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو اَور لوگوں کو بھی معلوم ہوتے ہیں۔ مثلًا اگر وہ کسی کو گالی دیتا ہے یا کسی کو پیٹنے لگ جاتا ہے تو اُس کا اَوروں کو بھی علم ہوتا ہے۔ ایسے گناہوں کا ازالہ کرنا چاہیئے۔ اور جن لوگوں کو دُکھ پہنچایا گیا ہو اُن سے معافی طلب کرنی چاہیئے۔‘‘

پانچویں شرط۔ جن لوگوں کو نقصان پہنچایا ہواُن سے احسان کرے

اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:۔
’’پانچویں شرط یہ ہے کہ جن لوگوں کو اُس نے نقصان پہنچایا ہو اُن سے مقدور بھر احسان کرے اور اگر کچھ نہیں کرسکتا تو اُن کے لئے دعا ہی کرے۔ اولیاء کرام نے بھی لکھا ہے کہ اگر کسی نے دوسرے کامال ناجائز طور پر لیا ہو اور اُس کے ادا کرنے کی طاقت نہ ہو۔ تو وہ خداتعالےٰ سے دعا کرے کہ الٰہی مجھے تو اس کا مال دینے کی طاقت نہیں تو اپنے پاس سے ہی اسے دیدے اور اس کمی کو پورا فرمادے۔‘‘

چھٹی شرط۔ اپنے دل میں آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرے

حضرت مصلح موعودؓ اس شرط کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’چھٹی شرط یہ ہےکہ وہ اپنے دل میں آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرے اور فیصلہ کرے کہ اَب میں کوئی گناہ نہیں کرونگا۔‘‘

ساتویں شرط۔ اپنے نفس کو نیکی کی طرف رغبت دلائے

اس اہم شرط پر آپؓ نے اس طرح روشنی ڈالی ہے:۔
’’ساتویں شرط یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نیکی کی طرف رغبت دلانا شروع کردے۔ اور اپنےدل کو پاکیزہ بنانے کی کوشش کرے۔ تاکہ آئندہ ہر قسم کے نیک کاموں میں وہ دلی شوق سے حصہ لے سکے۔

یہ سات باتیں توبہ کے لئے ضروری ہیں۔ جب تک یہ تمام شرائط نہ پائی جائیں کوئی توبہ مکمل نہیں کہلا سکتی۔‘‘

توبہ کے بارہ میں ایک اعتراض کا جواب

توبہ کے بارہ میں ہونے والے ایک اعتراض کا جواب دیتےہوئے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’بعض لوگ توبہ کے مسئلہ کے متعلّق اپنی نادانی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ توبہ کادروازہ کھولنے سے بدی کا دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے۔ اور بجائے اخلاق میں ترقی کرنے کے انسان بد اخلاقی کے ارتکاب پر اَور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جب چاہوں گا۔ توبہ کرلونگا اور خدا سے صلح کرلونگا۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط اور توبہ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ’’جب چاہوں گا توبہ کرلونگا‘‘ کا خیال کبھی ایک عقلمند انسان کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اُسے کیا معلوم ہے کہ مَیں کب مرونگا۔ اگر اچانک موت آجائے تو توبہ کس وقت کرے گا۔

علاوہ ازیں توبہ کی حقیقت کو یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ توبہ کوئی آسان امر نہیں اور نہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے توبہ کرلے۔ کیونکہ توبہ اُس عظیم الشان تغیّر کا نام ہے جو انسان کے قلب کے اندر پیدا ہوکر اُس کو بالکل گداز کردیتا اور اُس کی ماہیت کو ہی بدل ڈالتا ہے۔

توبہ کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے اپنے پچھلے گناہوں پر شدید ندامت کا اظہار کرنے اور آئندہ کے لئے پورے طور پر خداتعالیٰ سے صلح کرلینے اور اپنی اصلاح کا پختہ عہد کرلینے کے ہیں۔ اب یہ حالت یکدم کس طرح پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ حالت تو ایک لمبی کوشش اور محنت کے نتیجہ میں پیدا ہوگی۔ ہاں شاذ ونادر کے طور پر یکدم بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ مگر جب بھی ایسا ہوگا۔ کسی عظیم الشان تغیّر کی وجہ سے ہوگا جو آتش فشاں مادہ کی طرح اُس کی ہستی کو ہی بالکل بدل دے۔ اور ایسے تغیرات بھی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہیں۔ پس توبہ کی وجہ سے کوئی شخص گناہ پر دلیر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ توبہ اصلاح کا حقیقی علاج اور مایوسی کو دُور کرنے کا ایک زبردست ذریعہ ہے جو انسان کو کوشش اور ہمت پر اکساتا ہے۔ اور یہ دھوکا کہ توبہ گناہ پر اکساتی ہے محض عربی زبان کی ناواقفیت اور اِس خیال کے نتیجہ میں پیدا ہؤا ہے کہ توبہ اس امر کانام ہے کہ انسان کہہ دے کہ یا اللہ میرے گناہ معاف کر حالانکہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کانام توبہ نہیں بلکہ استغفار ہے۔ توبہ گناہوں کی معافی طلب کرنے کو نہیں کہتے۔ بلکہ گناہوں کی معافی سچی توبہ کا صحیح نتیجہ ہوتا ہے۔اور اس دروازہ کو کھول کر اسلام نے انسانی رُوح کو مایوسی کا شکار ہونے سے بچالیا ہے بلکہ اُس کے لئے لامتناہی ترقیات کا دروازہ کھول دیا ہے کیونکہ جب انسان کو معلوم ہوجائے کہ اُس کے لئے ترقی کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی پاکیزگی حاصل کر سکتا اور خدا کا مقرب بن سکتا ہے تو وہ ہمت نہیں ہارتا اور اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہتا ہے اور آخر وہ اِس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اُس کی رُوح ہر قسم کی سفلی آلائشوں سے پاک ہوکر عالم بالا کی طرف پرواز کرنے لگتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 577-579)

اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ وہ محض اپنے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ کے ان پاکیزہ اور انمول ارشادات کو سمجھنے اور ان کے مطابق ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(بشارت احمد شاہدؔ۔ نمائندہ الفضل آن لائن۔ لٹویا)

پچھلا پڑھیں

اعلانِ ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2022