• 29 اپریل, 2024

فقہی کارنر

شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
نذر کے متعلق حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا۔ ہاں اگر کوئی نذر مانی جائے تو پھر اُس کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ نذر کو رسول کریمﷺ نے اس لئے نا پسند فر مایا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ سے ایک قسم کا ٹھیکہ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ٹھیکہ کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں۔ انسان کو چائیے کہ وہ اس کی بجائے صدقہ و خیرات اور دعاؤں سے کام لے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نذر بھی شکرانہ کے طور پر مان لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ مَیں یہ استنباط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام کے ایک عمل سے کرتا ہوں۔ آپ بعض دفعہ اُن لوگوں کو جو آپ سے دعا کے لئے عرض کرتے تھے فرمایا کرتے تھے کہ مَیں دعا کروں گا۔ آپ اپنے دل میں خدمت دین کے لئے کوئی رقم مقرر کر لیں جسے اس کام کے پورا ہونے پر آپ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکرانہ کے طور پر اگر کوئی نذر مان لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ اُس نذر کے ساتھ ساتھ دعاؤں اور گریہ و زاری اور صدقات و خیرات سے بھی کام لیا جائے۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ620)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022