حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا پُر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بَہ پڑے اور دل ڈر گئے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے۔ آپ ہمیں کیا وصیت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تمہیں روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں۔ سوائے بدبخت کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا۔ اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا۔ ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہئے اور خلفاءِ راشدین مہدیّین کی سنت پر چلنا چاہئے۔ تم اس (ہدایت) کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے۔ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے۔ جدھر اُسے لے جاؤ وہ اُدھر چل پڑتا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب افتتاح الکتاب فی الایمان باب ابتاع سنة الخلفاء حدیث: 43)