بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی 26مئی 1908ء میں وفات ہوئی تو مسلم پریس کی طرف سے باوجود مخالفت اور اختلاف عقائد کے شایان شان خراج عقیدت پیش کی گئیں:
’’والفضل ماشھدت بہ الاعداء‘‘
- علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے لکھا:
’’مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی (احمدی) فرقہ کےبانی تھے۔ آپ کی پیدائش 1839ء،1840ء میں ہوئی۔ آپ نےعلوم شرقیہ میں کمال حاصل کیا۔ اپنی زندگی کےآخری دن تک کتابوں کے عاشق رہےاور دنیوی پیشوں سے پرہیز کرتے رہے۔ 1874ء تا 1876ء عیسائیوں، آریوں، برہموں کےخلاف شمشیر قلم خوب چلایا۔ آپ نے 1880ء میں تصنیف کا کام شروع کیا۔ آپ کی پہلی کتاب (براہین احمدیہ) اسلام کے ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپے کا انعام رکھا۔ آپ نے اُنیسویں صدی کے لئے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1889ء میں بیعت لینی شروع کی۔۔۔۔ آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسّی کتابیں پیچھے چھوڑیں ہیں جن میں بیس عربی زبان میں ہیں۔ بیشک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا۔‘‘
(علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ)
- جناب مولانا ابو الکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر 30مئی 1908ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ’’موتِ عالم‘‘ کے زیر عنوان رقمطراز ہیں:
’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جودماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔جس کی انگلیوںسےانقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مُٹھیاں بجلی کی دو بیڑیاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا۔ جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا۔۔۔۔ دُنیا سے اُٹھ گیا۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے۔ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پائمال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے۔
رزا صاحب کا لیٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کےمقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کرچکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لیٹریچر کی قدر وعظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہےدل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔۔ غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبارِ احسان رکھے گی کہ اُنہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لیٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون ہے۔ اور حمایت اسلام کا جزبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا۔۔۔۔۔ آئندہ اُمید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دُنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو۔‘‘
(اخبار وکیل امرتسر 30مئی 1908ء)
- نیز آگے لکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں:
’’کیرکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کےدامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبّہ بھی نظر نہیں آتا وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بہ لحاظ اخلاق و عادات اور کیا بہ لحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں اُن کو ممتا زوبرگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچادیا۔‘‘
(اخبار وکیل امرتسر 30مئی 1908ء)
- دہلی کے اخبار کرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا:
’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اُس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لیٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی۔ نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کےہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے ا ٓریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال ہی نہ تھی کہ وہ مرحوم کےمقابلہ میں زبان کھول سکتا۔۔ ۔۔۔اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کےقلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں۔۔۔۔ اس کاپُر زور لیٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالہ ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘
(کرزن گزٹ دہلی یکم جون 1908ء)
- جناب شمس العلماء سید ممتاز علی صاحب مدیر رسالہ ’’تہذیب النسواں‘‘ لکھتے ہیں:
’’مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے۔ اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے کہ سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی۔وہ نہایت باخبر عالم، بُلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے۔ہم اُنہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن اُن کی ہدایت اور راہنمائی مردہ روحوں کےلئے واقعی مسیحائی تھی۔‘‘
(رسالہ تہذیب النسواں لاہور 1908ء)
- میونسپل گزٹ لاہور لکھتا ہے:
’’مرزا صاحب علم و فضل کے لحاظ سےخاص شہرت رکھتے تھے۔ تحریر میں بھی روانی تھی۔ بہرحال ہمیں اُن کی موت سے بحیثیت اس بات کےکہ وہ ایک مسلمان عالم تھے۔ نہایت رنج ہوا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک عالم دُنیا سےاُٹھ گیا۔‘‘
(میونسپل گزٹ لاہور)
- اخبار ’’صادق الاخبار ڈیواڑی‘‘ (بہاول پور) نے لکھا:
’’مرزا صاحب نے اپنی پُرزور تقاریر اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو اُن کے لچّر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کےلئےساکت کر دیا ہے۔ اور کر دکھایا ہے کہ حق، حق ہی ہے۔ اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کما حقہ ادا کرکے خدمت اسلام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انصاف متقاضی ہےکہ ایسے اولوالعزم، حامئی اسلام،اور معین المسلمین، فاضل اجل، عالم بے بدل کی ناگہانی موت اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے۔‘‘
(اخبارصادق الاخبار ڈیواڑی جون 1908ء)
- پیسہ اخبار لاہور لکھتا ہے:
’’مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے ہم کو اس سےسخت افسوس ہوا ہے۔ کوئی مسلمان زنا کرے، چوری کرے، الحاد کا قاتل ہو، شراب پیئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے، کبھی علماء اسلام اس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سُنے گئےمگر ایک باخدا مولوی کو جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتا ہے بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانہ جاتا ہے۔‘‘
(پیسہ اخبار لاہور)
- اخبار وکیل امرتسر نے لکھا:
’’ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کش مکش سےاپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں ان کی نظیر غالباً دُنیا کی کسی جگہ نہیں مل سکتی۔مرزا صاحب کا دعویٰ تھاکہ میں اُن سب کےلئے حکم وعدل ہوں۔۔۔۔لیکن اس میں کلام نہیں کہ اُن مختلف مذاہب کے مقابل پر اسلام کو نمایاں کر دینےکی اُن میں مخصوص قابلیت تھی۔آئندہ اُمید نہیں کہ مذہبی دُنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہوجو اعلیٰ خواہش محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے۔‘‘
(اخبار وکیل امرتسر 1908ء)
- برسٹل ٹائمز اینڈ مرر لکھتا ہے:
’’یقیناً وہ شخص اس رنگ میں یورپ اور امریکہ کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا۔‘‘
- مشہور و معروف صحافی منشی سراج الدین پانٹی ’’زمیندار‘‘ اخبار لاہور لکھتے ہیں:
’’ہم چشم دید شہادت سےکہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ اُن کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ایک شب قادیان میں آپ کے یہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ اُن دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔‘‘
(اخبار زمیندار مئی 1908ء)
(علامہ محمد عمرتماپوری۔ کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ انڈیا)