ایک حقیقی مومن اگر احکامات پر عمل کر رہا ہے
تو یقینا اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے جس بنیادی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں اَور جگہوں پر بھی ہے، وہ عاجزی اور انکساری ہے۔ یعنی قرآنِ کریم کے تمام احکامات، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیاد عاجزی اور انکساری ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن اگر احکامات پر عمل کررہا ہے تو یقینا اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعاً‘‘ (بنی اسرائیل: 110) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے۔
(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ578)
پس ایک مومن جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے والا، اُس کو پڑھنے والا اور اُس پر عمل کرنے والا ہوں تو پھر لازماً قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اُس کی عبادتیں بھی اور اُس کے دوسرے اعمال بھی وہ اُس وقت تک نہیں بجا لا سکتا جب تک اُس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو یا اُس کی عاجزی اور انکساری ہی اُسے ان عبادتوں اور اعمال کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والی نہ ہو۔ انبیاء اس مقصد کا پرچار کرنے، اس بات کو پھیلانے، اس بات کو لوگوں میں راسخ کرنے اور اپنی حالتوں سے اس کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آتے رہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’اﷲ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسَلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہلِ دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں۔ مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں یقینا جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبّر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اُس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصّہ ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اُن کی عاجزی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے) فرمایا: ’’اُن میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔‘‘ (یعنی آپؐ کیسا سلوک کرتے ہیں؟) تو ’’اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّبَارِک وَسَلِّم‘‘۔ فرمایا: ’’یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ437-438)
پس یہ ہے اُس شارع کامل کا نمونہ جس کا اُسوہ اپنانے کی امّت کو بھی تلقین کی گئی ہے۔
قرآنِ کریم جب ہمیں احکامات پر عمل کرنے کے لئے کہتا ہے تو اس کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ آپ کی عبادتیں ہیں تو اُس کے بھی وہ اعلیٰ ترین معیار ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اعلان کردے کہ میرا اپنا کچھ نہیں، میری عبادتیں بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہیں۔ مَیں اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل نہیں کرتا؛ نہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا میرے پیشِ نظر ہے۔ میری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام: 163) کا اعلان ایک ایسا اعلان ہے جس کے اعلیٰ معیاروں تک آپ کے علاوہ کوئی اور پہنچ نہیں سکتا۔ اور پھر صبر کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا ۚ وَمَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ (حٰم السجدۃ: 36) اور باوجود ظلموں کے سہنے کے یہ مقام اُنہیں عطا کیا جاتا ہے جو بڑا صبر کرنے والے ہیں یا پھر اُن کو جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نیکی کا حصہ ملا ہو۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے ہیں تو گھریلو مشکلات اور تکالیف میں بھی، اپنی ذات پر جسمانی طور پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی، اپنی جماعت پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی صبر کی اعلیٰ ترین مثال اور صبر کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتے ہیں۔ ذاتی طور پر دیکھیں طائف میں کس اعلیٰ صبر کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے ایک شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ باوجودکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا تھا لیکن آپ کے صبر کی انتہا تھی کہ باوجود زخمی ہونے کے، باوجود شہر والوں کی غنڈہ گردی کے آپ نے کہا، نہیں اس قوم کو تباہ نہیں کرنا۔
(شرح العلامہ الزرقانی جلد2 صفحہ52-53 باب خروجہؐ الی الطائف دارالکتب العلمیۃ ایڈیشن1996ء)
(خطبہ جمعہ 7؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)