• 10 مئی, 2025

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے

لاہور میں ایک اکاؤنٹینٹ بابو الٰہی بخش ہوا کرتے تھے۔ کبھی کبھار منشی بھی اپنے ساتھ لکھتے تھے۔ آپ بیعت کر کے سلسلہ احمدیت میں داخل ہوئے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ سے تعلق ارادت رکھا۔ سچا ملہم جانا۔ قادیان میں بار بار آکر رہا کرتے اور بعض سفروں میں بھی ساتھ رہے۔ مگر کچھ عرصہ ساتھ چلنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی نہ صرف مخالفت شروع کر دی۔بلکہ موسیٰ ہونے کا دعویٰ کر کے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ’’عصائے موسیٰ‘‘ کتاب لکھی اور اس امر کا اظہار کیا کہ آپ پر موسیٰ کا عصا حملہ آور ہونے والا ہے۔ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اپنے الہامات بھی درج کئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بارہا سمجھایا۔ جس کا ذکر آپؑ کی مختلف کتب میں ملتا ہے مگر بابو صاحب باز نہ آئے حتیٰ کہ حضرت مسیح موعودؑ کی موت کی پیشگوئی کر دی۔ تب اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور صادق و کاذب میں فرق کر دکھلانے اور سورۃ الحاقہ کی وتین والی آیات کی لاج رکھتے ہوئے بابو الٰہی بخش کو طاعون کے ذریعے 17 اپریل 1907ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ہلاک کر دیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکۃ آراء کتاب حقیقۃ الوحی میں اس حوالہ سے بہت تفصیل سے بحث فرمائی ہے۔ اور اس کتاب کے صفحہ551 میں سات اشعار میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی بھی ہے۔ زیر نظر عنوان اس منظوم کلام کے آخری شعر کا ایک مصرعہ ہے۔ جو ایک تربیتی و اصلاحی مضمون بھی ہے۔ جو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر ہماری زندگیوں پر روزانہ ہی لاگو ہوتا ہے۔ اس ناطے اس پر لکھنے کی ضرورت بھی رہتی ہے۔

گو یہ سات اشعار بابو الٰہی بخش صاحب کو مخاطب ہو کر حضور علیہ السلام نے کہے۔ لیکن اس مختصر نظم کے بعض اشعار ہمیں اپنی روز مرّہ زندگیوں میں مد نظر رکھنے چاہئیں جیسے:۔

تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار
ملےجو خاک سے اُس کو ملے یار
کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اُس کوپاوے
پسند آتی ہے اس کو خاکساری
تذلل ہی رہِ درگاہ باری
بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے
مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ551)

ویسے تو اوپر چاروں اشعار کو الگ الگ موضوعِ تحریر بنا کر آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے لیکن آج میرے مد نظرصرف اس کا آخری شعر ہے۔

ہر انسان غلطی کا پتلا ہے۔ کسی سے کم غلطیاں سرزد ہوئیں اور کسی سے زیادہ۔ ہمارے ایشیائی معاشرے میں انسان کو اپنی پہاڑ جتنی بلند غلطیاں نظر نہیں آتیں مگر وہ ہر وقت دوسرے کے عیوب پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے عیوب کا چرچا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اِسے اُردو محاورہ میں یوں کہا جاتا ہے کہ اپنی آنکھ کا شہتیر بھی اسے نظر نہیں آتا اور اسے آنکھ میں تکلیف بھی نہیں دیتا ہے لیکن دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آ جاتا ہے۔ یہ محاورہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی استعمال فرمایا۔

آپؐ فرماتے ہیں:۔
یُبْصِرُ اَحَدُ کُمْ الْقَذَاۃَ فِیْ عَیْنِ اَ خِیْہِ وَ یَنْسِیْ الْجِذْعِ فِیْ عَیْنِہِ کہ اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا انسان کو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑا ہوا وہ شہتیر بھول جاتا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ699 ایڈیشن 2019ء)

•آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ:۔
جو شخص کسی کے عیب کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے اندر کے چھپے عیب کو لوگوں پر عیاں کر کے اس کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔

(ترمذی ابواب البر والصلة)

•پھر فرمایا:۔
بد ظنی سے بچو کیونکہ بد ظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب کی ٹوہ میں نہ رہو، اپنے بھائی کے خلاف تجسّس نہ کرو۔

(مسلم باب تحریم الظن)

ہم روزانہ ہی اپنی زندگیوں میں اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کسی میں عیب کی تلاش ہمیں اور کئی بیماریوں کی دعوت دیتی ہے جس میں جھوٹ، کذب بیانی، بغض، کینہ، قطع تعلقی، حسد، تکبر و غرور، زبان کا غیر ضروری اور بے محل استعمال، غیبت، چغل خوری، خیانت، بد دیانتی، ریاکاری وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور ان میں بعض بیماریاں تو ایسی ہیں جو نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح آگ لکڑی کو۔ چغلخور کو دو مونہوں والا قرار دیا گیا ہے۔ اور جنت میں داخل نہ ہونے کی خبر دی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ’’القرآن‘‘ میں بھی عیب جوئی کی کئی بار مذمت فرمائی ہے۔ جیسے سورۃ الہمزہ آیت 2 میں ہلاکت کی بد دعا کی گئی ہے کہ ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جُو کے لئے۔ سورۃ القلم آیت 11-12 میں سخت عیب جُو اور چغلیاں کرنے والے کی پیروی اور تتبع سے منع فرمایا ہے جبکہ سورۃ الحجرات جو احکام الٰہی کی سورت کہلاتی ہے کی آیت نمبر 12-13 کا تعلق اسی مضمون سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہو جائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں)۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو جائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔

اے لوگو جو ایمان لائےہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں اور تجسّس نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا(اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اس اسلامی تعلیم کو جماعت کے اندر بار بار پیش کر کے اپنے ماننے والوں کو عیب جوئی اور غیبت کرنے سے منع فرمایا۔ بلکہ جماعت کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر آپ کسی میں بدی دیکھیں تو شکایت کرنے سے قبل 40 دن اس کی اصلاح کے لئے دُعا کریں۔

آپؐ فرماتے میں:۔
ہماری جماعت کو چاہیے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لیے دعا کریں، لیکن اگر وہ دُعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کونسا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہمیشہ دُعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔

ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔ دُوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔ اس نے کہا تُو بڑا بے اَدب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اُٹھا نہیں لاتا۔ وُہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کر لے چلا۔ کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دُوسرے نے کم پی کہ اُسے اُٹھا کر لے جا رہا ہے۔ صوفی کا یہ مطلب تھا کہ تُو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پُوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچّی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے بُرا لگے غیبت ہے۔ اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تُو بیان کرتا ہے، تو اس کا نام بہتان ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا (الحجرات: 13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے۔ ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بیکار جاتی ہے۔ اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی، تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟ بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔ بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔ بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے۔ پس چاہیے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہیے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سرِ دست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ دُرست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے، بلکہ لکھا ہے القطب قد یز نی کہ قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے۔ بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچّہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پُوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہیے، بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہےکہ عیب دیکھ کر اس کو پھیلاؤ اور دُوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے۔ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ (البلد: 18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مرحمہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دُعا بھی کی جاوے۔ دُعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابلِ افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے۔ جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دُعا کی ہو۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ60-61 ایڈیشن 1988ء)

اس سلسلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ بیان فرماتے ہیں:۔
’’غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے۔ آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن اس سے بچنا چاہئے۔ عورتوں کی خاص سورۃ قرآن شریف میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مَیں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں۔ (یعنی غریب لوگ بہشت میں زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں)۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ ان میں سے یہ ہیں کہ شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں، ایسے ہیں۔ پھر قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نچلی ذات ہے۔ پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت ان میں بیٹھی ہوئی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، زیور اس کے پاس کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اوّل صفحہ571)

پس ہر انسان میں بے بہا غلطیاں ہوتی ہیں اسے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنی بدی کو پہلے detergent سے دھونا چاہیے نہ کہ

بدی پر غیر کی ہردم نظر ہے
مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2022