• 29 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 3)

حیاتِ نورالدینؓ
آپؓ کی بے مثال اطاعت
قسط 3

اطاعتِ مسیح الزما میں
وطن کا خیال تک دل سے نکال دیا

گو آپ کی روح ہروقت حضرت اقدس امام الزمان کی عالی بارگاہ میں رہنے کے لئے بیقرار رہتی تھی اور اس لحاظ سے آپ کو ملازمت سے فراغت پا کر فوراً حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر غالبا اس خیال سے کہ ایک معقول رقم آپ کے ذمہ ابھی بطور قرض ہے جب تک اس کی ادائیگی کا انتظام نہ ہو جائے دارالامان میں سکونت اطمینان بخش نہیں ہوسکتی، آپ نے بھیرہ پہنچ کر ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولنے کا ارادہ فرمایا۔ اور اس کے لئے ایک عالیشان مکان بنوانا شروع کیا۔ ابھی وہ مکان ناتمام ہی تھا کہ آپ کو کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور جانا پڑا۔لاہور پہنچ کر جی چاہا کہ قادیان نزدیک ہے حضرت اقدس سے بھی ملاقات کر لیں۔ مگر چونکہ بھیرہ میں ایک بڑے پیمانہ پرتعمیر کا کام جاری تھا۔ اس لئے بٹالہ پہنچ کرفوری واپسی کی شرط سے کرائے کا یکہ کیا۔ جب حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے تو قبل اس کے کہ آپ واپسی کی اجازت مانگتے۔ حضورنے خود ہی دوران گفتگو میں فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے۔ آپ نے عرض کیا۔ ہاں حضور! اب تو میں فارغ ہی ہوں۔ وہاں سے اٹھے تو یکے والے سے کہہ دیا کہ اب تم چلے جاو۔ آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے۔ کل پرسوں اجازت لیں گے۔ اگلے روز حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی۔ آپ اپنی ایک بیوی کو بلوالیں۔ آپ نے حسب الارشاد بیوی کو بلانے کے لئے خط لکھ دیا۔ اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آ سکوں اس لئے عمارت کا کام بندکر دیا جائے۔جب آپ کی بیوی آ گئیں تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے۔ لہذا آپ اپنا کتب خانہ بھی منگوالیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے۔ آپ اس کو ضرور بلا لیں لیکن مولوی عبد الکریم صاحبؓ سے فرمایا کہ مجھ کو مولوی نورالدین صاحب کے متعلق الہام ہوا ہے۔ اور وہ شعرحریری میں موجود ہے کہ

اَلَا تَصْبوَنَّ اِلَى الْوَطَن
فِيْهِ تُهَانُ وَ تُمْتَحَن

پر ایک موقعہ پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ مولوی صاحب! اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں وہاں کبھی نہ جاؤں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں۔ میرے واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے‘‘

۔۔۔ ایک مرتبہ بھیرہ کے کسی رئیس نے آپ کی خدمت میں چٹھی لکھی کہ میں بیمار ہوں اور آپ ہمارے خاندانی طبیب ہیں مہربانی فرما کر بھیرہ تشریف لا کر مجھے دیکھ جائیں۔ آپ نے اس رئیس کو لکھا کہ میں بھیرہ سے ہجرت کر چکا ہوں اور اب حضرت مرزا صاحب کی اجازت کے بغیر میں قادیان سے باہر نہیں جاتا۔ آپ کو اگر میری ضرورت ہے تو حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں لکھو۔ چنانچہ اس رئیس نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا۔ حضرت نے فرمایا۔ مولوی صاحب! آپ بھیرہ جا کر اس رئیس کو دیکھ آئیں۔ جب آپ بھیرہ پہنچے تو اس رئیس کا مکان بھیرہ کے اردگرد جو گول سڑک ہے اس پر تھا۔ اسے آپ نے دیکھا اور نسخہ تجویز فرماکر فوراً واپس تشریف لے آئے۔ نہ اپنے آبائی مکانوں کو دیکھانہ نئے زیرتعمیر مکان تک گئے، نہ عزیزوں سے ملاقات کی، نہ دوستوں سے ملے بلکہ جس غرض کے لئے حضرت اقدس نے آپ کو بھیجا تھا جب وہ غرض پوری ہوگئی تو فوراً واپس تشریف لے آ ئے۔

(حیات نور صفحہ184-185)

اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا

ایک مرتبہ قادیان دارالامان میں ایک نواب صاحب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کی خدمت میں علاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کی کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لیے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ اُن کے ہمراہ وہاں تشریف لے جائیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ میں اپنی جان کا مالک نہیں میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا حضورؑ نے فرمایا اس میں شک نہیں کہ ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لیے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے لیکن مولوی صاحبؓ کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔ اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا ! مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لیے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔

(حیات نورصفحہ186-187)

کانٹوں سے پاؤں زخمی ہوگئے

ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے۔ ازراہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحبؑ سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے حضرت صاحبؑ کی خدمت میں درخواست کی جس پر حضورؑ نے اجازت عطا فرما دی۔ بعد نماز عصر جب مولوی صاحبؓ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے۔ عرض کی بہت اچھا۔ بٹالہ پہنچے۔مریضہ کو دیکھا۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہوگئے۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت!راستے میں چوروں اورڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں گزرنا پڑے گا۔ مگر آپؓ نے فرمایا خواہ کچھ ہو۔ سواری کا انتظام بھی ہویانہ ہو۔ میں پیدل چل کربھی قادیان ضرور پہنچوں گا۔ کیونکہ میرے آقا کاارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے۔ خیر یکہ کا انتظام ہوگیا اور آپ چل پڑے۔ مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہوچکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا۔ کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے مگر (18کلو میٹر کافاصلہ طے کرتے ہوئے) قادیان پہنچ گئے۔ اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضر ہوگئے۔ حضرت اقدسؑ نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ قبل اس کے کوئی اور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور!میں واپس آگیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہوچکے ہیں اور میں سخت تکلیف اٹھا کر واپس پہنچا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا۔

(حیات نور صفحہ 189)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت کی ایک اور داستان

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے قابل شادی لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک فہرست تیار فرمائی تھی اور اسے آپ نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا کرتے تھے اور عموماً جو کوئی احمدی اپنی لڑکی یا لڑکے کے لیے رشتہ معلوم کرنا چاہتا۔ حضورؑ اس کے مناسب حال اسے رشتہ بتادیا کرتے تھے اور ہر شخص حضورؑ کے تجویز فرمودہ رشتہ کو بطیب خاطرمنظور کر لیتا تھا۔ مگر ایک مرتبہ ایک شخص کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کا ارشاد فرمایا تو اس نے منظور نہ کیا۔ اس پر حضورؑ کو بہت تکلیف ہوئی اور حضورؑ نے آئندہ کے لیے رشتہ ناطہ کے اس انتظام کو ختم کر دیا۔ …ایک دن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی مجلس میں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کردینے کے لیے فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت آپؓ کی صاحبزادی امۃ الحئی صاحبہ جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کام کرنے والی مہترانی) کے لڑکے کو دیدو۔ تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق ومحبت کا تھا۔ مگر نتیجہ کیا ہوا کہ بالآخر وہی لڑکی حضورؑ کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود حضرت مسیح موعودؑ کا حسن و احسان میں نظیر تھا۔

(حیات نور صفحہ187-188)

اطاعتِ امام میں جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا

ایک مرتبہ آپ مطب میں بیٹھے تھے۔ ارد گرد لوگوں کا حلقہ تھا۔ ایک شخص نے آکر کہا کہ مولوی صاحب! حضور یاد فرماتے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس طرح گھبراہٹ کے ساتھ اٹھے کہ پگڑی باندھتے جاتے تھے اور جوتا گھسیٹتے جاتے تھے۔گویا دل میں یہ تھا کہ حضورؑ کے حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ پھر جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ تم جانتے ہو نورالدین کا یہاں ایک معشوق ہوتا تھا جسے مرزا کہتے تھے۔ نورالدین اس کے پیچھے یوں دیوانہ وار پھرا کرتا تھا کہ اسے اپنے جوتے اور پگڑی کا بھی ہوش نہیں ہوا کرتا تھا۔

(حیات نور صفحہ187-188)

چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ میں اطاعت و ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔ جن دنوں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صاحبزادے مرزا مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ تو ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو محترم صاحبزادہ صاحب کو دیکھنے کے لیے گھر میں بلایا۔ اس وقت حضورعلیہ السلام صحن میں ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا۔ حضرت مولوی صاحبؓ آتے ہی حضور علیہ السلام کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے۔ حضرت اقدس مسیح پاکؑ نے فرمایا مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عرض کیا حضور میں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے۔ اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا مگر حضور علیہ السلام نے جب دوبارہ کہاتوحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے۔ اطاعت میں کیسا کمال ہے کہ وہ شخص جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کے سامنے زمین پر بیٹھنے کے لیے طالب علمی کے زمانہ میں بھی تیار نہیں ہوتا تھا، دینی و دنیوی ترقیات کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد بھی حضرت مسیح پاکؑ کے سامنے زمین پر بیٹھنے ہی میں سعادت عظمیٰ سمجھتا ہے۔

(حیات نور صفحہ188-189)

بلا توقف دہلی پہنچ جانا

22/اکتوبر 1905ء کو حضرت اقدس حضرت ام المومنین کو آپ کے خویش واقارب سے ملانے کے لئے دہلی تشریف لے گئے۔ ابھی دہلی پہنچے چند ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب بیمار ہو گئے۔ اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدین صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو تار دلوادیا۔ جس میں تار لکھنے والے نے (Immediate) یعنی بلا توقف کے الفاظ لکھ دیئے۔ جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھےہوئے تھے۔ اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ اسی حالت میں فوراً چل پڑے۔ نہ گھر گئے نہ لباس بدلانہ بسترليا۔ اور لطف یہ ہے کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے پیچھے سے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بجھوادیامگرخرچ بھجوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا اورممکن ہے گھر میں اتنا روپیہ ہو بھی نہ۔

جب آپ بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندو رئیس نے جو گویا آپ کی انتظار ہی کر رہا تھا، عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے۔مہربانی فرما کر اسے دیکھ کرنسخہ لکھ دیجئے۔ فرمایا۔ میں نے اس گاڑی پر دہلی جاناہے۔ اس رئیس نے کہا۔ میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہوں۔ چنانچہ وہ لے آیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔ وہ ہندو چپکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا۔ اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی۔ اور اس طرح سے آپ دہلی پہنچ کر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔

(حیات نور صفحہ285)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

پروگرامز عید الفطر، کینیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جون 2022