• 30 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 4)

حیاتِ نورالدینؓ
آپؓ کا توکل علی اللہ
قسط 4

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ جب کسی انسان پرا پنا فضل نازل کر کے اسے کوئی اعلی مرتبہ دینا چاہتا ہے تو اس کی تربیت کے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے۔ حضرت مولوی صاحب رضی الله عنه کو چونکہ آ ئندہ چل کر ایک عظیم الشان روحانی جماعت کا امام بننامقدر تھا۔ اس لئے اللہ تعالی نے آپ کو ایسے حالات میں سے گزارا اور خدا تعالی پر توکل آپ کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا۔

میرا خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں: میرا خدا ہمیشہ میرا خزانچی رہا ہے۔ مجھےکبھی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ میرا تو کل ہمیشہ خدا پر رہا۔ اور وہ قادر ہر وقت میری مدد کرتا رہا ہے۔ چنانچہ ایک وقت مدینہ میں میرے پاس کچھ نہ تھا۔ حتی کہ رات کے کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔جب نماز عشاء کے لئے وضو کر کے مسجد کو چلا تو راستہ میں ایک سپاہی نے مجھ سے کہا کہ ہمارا افسر آپ کو بلاتا ہے۔ میں نے نماز کا عذر کیا۔ پر اس نے کہا۔ میں نہیں جانتا۔ میں تو سپاہی ہوں۔ فلم پر کام کرتا ہوں۔ آپ چلیں۔ ورنہ مجھے مجبور اًلے جانا ہو گا۔ ناچار میں ہمراہ ہو گیا۔ وہ ایک مکان پر مجھے لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک امیر اور سامنےجلیبیوں کی بھری ہوئی رکابی رکھا ہوا بیٹھا ہے۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اسے کیا کہتے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے ملک میں اسے جلیبی کہتے ہیں۔ کہا کہ ایک ہندوستانی سے سن کر میں نے بنوائی ہیں۔ خیال کیا کہ اس کو پہلے کسی ہندوستانی کو ہی کھلا وں۔ چنانچہ مجھے آپ کا خیال آ گیا۔ اس لئے میں نے آپ کو بلوایا۔ اب آپ آگے بڑھیں اور کھائیں۔ میں نے کہا۔ نماز کے لئے اذان ہوگئی ہے۔ فرصت سے نماز کے بعد کھاؤں گا۔ کہا۔ مضائقہ نہیں۔ ہم ایک آدمی کو مسجد بھید کہیں گے کہ تکبیر ہوتے ہی آ کر کہہ دے۔ خیر میں کھا کر جب شکم سیر ہو گیا۔ تو ملازم نے اطلاع دی کہ نماز تیار ہے۔تکبیر ہوچکی ہے۔ پھر دوسری صبح ہی جبکہ اپنا بستہ صاف کر رہا تھا۔ اور اپنی کتا ہیں الٹ پلیٹ کر رہا تھا۔ تو نا گہاں ایک پونڈ مل گیا۔ چونکہ میں نے کبھی کسی کا مال نہیں اٹھایا۔ اور نہ کبھی مجھے کسی کا روپیہ دکھلائی دیا۔ اور میں یہ خوب جانتا تھا کہ اس مقام پر مدت سے میرے سوائے کوئی آدمی نہیں رہا اور نہ کوئی آیا۔ لہٰذا میں نے اسے خدائی عطیہ سمجھ کر لے لیا اور شکر کیا کہ بہت دنوں کے لئے یہ کام دیگا۔

(حیات نور صفحہ515-516)

توکل علی اللہ کی خوشی

ان ایام میں آپ کو تاریخ ابن خلدون کی خرید کا شوق پیدا ہوا مگر روپیہ پاس نہیں تھا اور تا جرجس کے پاس وہ کتاب تھی قسطوں میں قیمت لینا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لئے آپ اسے خرید نہ سکے۔ لیکن ایک دن نماز ظہر کے لئے جب مطب میں تشریف لائے تو کتاب کو موجود پا کر حیران رہ گئے۔ اِس سے پوچھا۔ اُس سے دریافت کیا۔ کچھ پتہ نہ چلا کہ کتاب کون رکھ گیا ہے۔ آخر ایک روز ایک بیمار نے بتایا کہ یہ کتاب ایک سکھ رکھ گیا تھا۔ جب اس سکھ کو بلا کر پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ آپ کی مجلس میں ذکر ہوا تھا کہ آپ کے پاس کتاب خریدنے کے لئے رو پیہ نہیں ہے تو میں کتاب خرید کر یہاں رکھ گیا تھا اور روپیہ میں نے فلاں امیر سے حاصل کر لیا تھا کیونکہ اس کا مجھے حکم ہے کہ حکیم صاحب کو جب کوئی ضرورت ہوا کرے بلا ہمارے پوچھے روپیہ خرچ کر دیا کرو لیکن آپ نے اس امیر کو وہ روپیہ جلد ہی واپس کر دیا۔ جس کی وجہ سے اسے سخت رنج پہنچا اور اس نے آپ کے بڑے بھائی صاحب کو بلا کر گلہ کیا کہ ہم نے تو نذرانہ پیش کیا تھا مگر انہوں نے واپس کر دیا۔ چنانچہ آپ کے بھائی نے وہ روپیہ واپس لے لیا اور آپ کو ملامت کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’توکل علی اللہ کی خوشی کے مقابلہ میں یہ رقم مجھ کو لینی گورا بھی نہ تھی‘‘

(حیات نور صفحہ95)

توکل علی اللہ کی برکات

آپ ریاست میں ایک معقول تنخواہ پانے کے علاوہ سال میں متعدد مرتبہ بیش بہا انعام و اکرام سے بھی نوازے جاتے تھے مگر وہ ساری رقم آپ طلباء، بیوگان، یتامی اور دیگر ضرورتمندوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیتے تھے اور بالکل متوکلانہ زندگی بسر کرتےتھے۔ جموں میں حاکم نام ایک ہندو پنساری تھا۔ وہ ہمیشہ آپ کو نصیحةً کہا کرتا تھا کہ آپ ہر ماہ کم ازکم ایک صد روپیہ پس انداز کر لیا کریں۔ یہاں بعض اوقات اچانک مشکلات پیش آ جایا کرتی ہیں۔ مگر آپ اسے ہمیشہ ہی فرمایا کرتے تھے کہ ایسے خیالات لا نا اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے۔ ہم پر ان شاء اللہ کبھی مشکلات نہ آئیں گے۔جس روز آپ کو ملازمت سے علیحدگی کا نوٹس ملا۔ وہ ہندو پنساری آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب! شاید آج آپ کو میری نصیحت یاد آئی ہوگی۔ آپ نے فرمایا۔ تمہاری نصیحت کو میں جیسا پہلے حقارت سے دیکھتا تھا آج بھی ویسا ہی حقارت سے دیکھتا ہوں۔ ابھی وہ آپ سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ خزانہ سے چارسو اسی روپے کی ایک رقم آپ کی خدمت میں اس چٹھی کے ہمراہ پہنچا دی گئی کہ یہ آپ کی ان دنوں کی تنخواہ ہے جو اس ماہ میں سے گزر چکے ہیں۔ اس پنساری نے افسروں کو گالی دے کر کہا کہ ’’کیا نوردین تم پرنالش تھوڑاہی کرنے لگا تھا‘‘۔ ابھی وہ اپنے غصے کوفر و نہ کرنے پایا تھا کہ ایک رانی صاحبہ نے آپ کے پاس اپنے جیب خرچ کا بہت سارو پیہ بجھوایا اور معذرت بھی کہ اس وقت ہمارے پاس اس سے زیادہ رو پیہ نہیں تھا ورنہ ہم اور بھی بجھواتے۔ اس روپ کو دیکھ کر تو اس پنساری کا غضب اور بھی بڑھ گیا۔ آپ اس وقت ایک لاکھ پچانوے ہزار روپیہ کے مقروض بھی تھے اور اسے اس قرض کا علم تھا۔ اس قرض کی طرف اشارہ کر کے وہ کہنے لگا کہ بھلا یہ تو ہوا۔ جن کا آپ کو قریبا ًدولا کھ روپیہ دینا ہے وہ اپنا اطمینان کئے بغیر آپ کو کیسے جانے دیں گے۔ ابھی اس نے یہ بات ختم ہی کی تھی کہ قارض کا ایک آدمی آیا اور بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ میرے پاس ابھی تار آیا ہے۔ میرے آقا فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو جانا ہے۔ ان کے پاس روپیہ ہوگا تم ان کا سب سامان گھر جانے کا کر دو اور جس قدر رو پیہ کی ان کو ضرورت ہو، دیدو، اور اسباب کو وہ ساتھ نہ لیجاسکیں تو تم اپنے اطمینان سے بحافظت پہنچادو۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’مجھ کو روپیہ کی ضرورت نہیں۔ خزانہ سے بھی روپیہ آ گیا ہے اور ایک رانی نے بھی بھیج دیا ہے۔ میرے پاس روپیہ کا نی سے زیادہ ہے اور اسباب میں سب ساتھ ہی لیجاؤں گاجاؤں گا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: ’’میں نے کہا کہ الله تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے۔ ہم اس کا روپیہ ان شاءاللہ جلد ہی ادا کر دیں گے۔ تم ان بھیدوں سمجھ ہی نہیں سکتے‘‘

(حیات نور صفحہ180-181)

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022