• 28 اپریل, 2024

(13؍مئی 2022ء) This week with Huzur

This week with Huzur
13؍مئی 2022ء

پچھلے اتوار کو انگلستان کی بارہ سے پندرہ سال کی واقفات ِ نو کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ورچوئل ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔ اس موقعہ پر واقفات ِ نو نے مختلف سوالات کے ذریعہ پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسےجو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سوال: حضور آپ نے اس خطبہ عید میں فرمایا ہے کہ ہماری حقیقی عید وہ ہو گی جب ہم رسول کریم ﷺ کو اپنی عیدوں میں شامل کریں گے۔ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اپنی عید میں رسول کریم ﷺکو کیسے شامل کرنا چاہیے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اگر غور سے سنو تو وہیں میں نے بتا یا تھا کہ رسول کریم ﷺ کا پیغام دنیا میں پہنچاؤ، تبلیغ کرو اور آپ کی جو تعلیم ہے اسے دنیا میں پھیلاؤ، اس تعلیم پر خود عمل کرو۔قرآن کریم کو پڑھو اسلام کی تعلیم کو غور سے دیکھو کہ کیا ہے؟ اس پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں کو بھی بتاؤ۔ اور جب ہم اس طرح آنحضرت ﷺ کی تعلیم دنیا میں پھیلا دیں گےاور دنیا کو آپ کے جھنڈے کے نیچے لے آئیں گے۔ تو اسی میں آنحضرت ﷺ کی شمولیت ہو گی اور وہی عید ہو گی۔ یہی مراد تھی اس سے۔’’

سوال: ہم ان لوگوں کو جو حجاب کا تمسخر اڑاتے ہیں جواب میں کیا کہہ سکتے ہیں یا خود کیا کر سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اگر آپ پختہ عزم ہوں اور اگر آپ اپنے دین میں ثابت قدم ہوں اور مضبوط ہوں تو پھرآپ کو اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں۔یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ خواتین کو حجاب پہننا چاہیے اورانہیں اپنا سر اور سینہ ڈھانکنا چاہیے۔ اور اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں تو ہم نے ان احکامات پر عمل کرنا ہے۔تو اگر لوگ تمسخر اڑاتے ہیں تو آپ پرواہ نہ کریں۔ آپ انہیں بتائیں کہ یہ میری مرضی ہے اور میرا ذاتی نظریہ ہے اور مجھے حق ہے کہ جو مرضی میں چاہوں کروں۔ اور مجھے یہ ذاتی طور پر پسند ہے۔اور میں یہ اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے پہنتی ہوں کیونکہ یہ شریعت اور قرآن کا حکم ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ چنانچہ اگر آپ مضبوط عزم و ہمت کی مالک احمدی ہیں تو آپ کو لوگوں کی باتوں کی کبھی بھی فکر نہیں ہو گی۔آپ ان سے پوچھ سکتی ہیں کہ وہ حجاب کیوں نہیں پہنتی؟ اور کیوں وہ غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہیں؟ جو انہیں بیشک اخلاقی لگتے ہوں گے لیکن آپ کی تعلیم کے مطابق وہ کام غیر اخلاقی لگتے ہیں۔اگر میں آپ کی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتی تو پھر آپ مجھ سے یہ سوال کرنے والی کون ہوتی ہیں کہ میں حجاب کیوں پہنتی ہوں؟‘‘

سوال: کیا تہجد کی نماز میں کی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آپ نے تہجد کس طرح پڑھی ہےتہجد کی نماز ایک ایسی نماز ہے جس میں کوئی نہیں جانتا کہ انسان پڑھ رہا ہے آدمی بالکل علیحدہ ہوتا ہے،بالکل Isolation میں پڑھی جا رہی ہوتی ہے۔ بندہ جانتا ہے یا اللہ جانتا ہے کہ تم کیا دعائیں کر رہی ہویا کس طرح نماز پڑھ رہی ہو۔اگر تو دعائیں دل کے سوز سے نکل رہی ہیں۔دل کی آواز سے نکل رہی ہیں اور جائز دعائیں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔وہ چاہے تم تہجد کی نما زمیں پڑھو یا فرائض میں پڑھویا سنتوں میں پڑھو یا باقی نوافل میں کرو۔ تو اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ایک بندہ میری خاطر رات کو اپنی نیند خراب کر کے اُٹھتا ہے اور تہجد کی نماز کےلیےجا گتا ہےاورمیرے سامنے جھکتا ہےتو میں اس بندے کو Reward دیتا ہوں۔ تو جب ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لیے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں،اللہ تعا لیٰ سے مانگنے کے لیے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جب اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر یہ کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیونکہ تم نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا ہے اس لیے میں تمہیں Reward دوں گااور اللہ تعا لیٰ وہ دعائیں سنتا ہے۔یہ کہنا کہ ہر دعا قبول ہوتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔کہ کس قسم کی دعائیں تم کر رہی ہو(اس کے بعد حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا )اگر کسی کو بد دعائیں دے رہی ہو تو وہ تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا۔اپنے لیے اچھی اچھی دعائیں کر رہی ہو تو وہ اللہ تعالیٰ قبول کر لے گا۔’’

سوال: اسلامی تعلیم کے مطابق جب کوئی فوت ہو جائے تو اسے دفن کرنے کا حکم ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلمان سائنسدانوں نے میڈیسن میں ریسرچ کے لیے انسانی مردے استعمال کیے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور مسلمان ریسرچ کے لیے مردہ جسم کو Donate کر سکتے ہیں جیسے کہ organ donation کی بھی اجازت ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’ہاں عمومی طور پر تو یہی حکم ہے کہ اگر کوئی بندہ فوت ہو جائےتو اس کی تدفین جلدی کر دینی چاہیے۔ لیکن اگر انسانی فائدہ کے لیے، انسانوں کی جان بچانے کے لیے، ریسرچ کے لیے، مزید تحقیق کے لیے اگر جسم کے organ کو استعمال کرتے ہیں یا دیکھتے ہیں، تھوڑی دیر کے لیے اگر دل بھی دھڑکتا رہتا ہے اس کو دیکھتے ہیں یا دوسرے organ کام کر رہے ہیں ان کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر بعض لوگ اپنے donate organ کرتے ہیں۔ مثلاَ آنکھیں ہیں۔ تو کچھ عرصے کے لیے اسے رکھتے ہیں پھر جلدی سے اس کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ دوسروں کو وہ ٹرانسپلانٹ کی جا سکے۔اسی طرح دوسرے organ ہیں۔ تو ریسرچ کے لیے یا انسانی فائدہ پہنچانے کے لیے اگر کسی انسان کا organ اس کے مرنے کے بعد لے بھی لیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں، یہ جائز ہے اس تحقیق کے لئے۔لیکن عمومی طور پر یہ ہے کہ اگر کوئی مقصد نہیں ہے تو بلا وجہ مُردوں کو لمبا عرصہ نہیں رکھنا چاہیے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جلدی دفنا دو۔‘‘

سوال: اگر ہم احمدی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو کیا پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم لے آئے گا؟ وہ وعدے جو حضرت مسیح موعودؑ سے اللہ تعالیٰ نے کیے ہیں وہ اس دوسری قوم کے ذریعے پورے ہوں گے؟اور کیا وہ لوگ احمدی ہوں گے؟ اور کیا وہ حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان رکھتے ہوں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ظاہر ہے اگر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو حضرت مسیح موعودؑ نے خود فرمایا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کسی اور کو لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعودؑ سے وعدے کیے ہیں وہ تو پورے کرنے ہیں اور جو وعدے پورے کرنے کے لیے آئیں گے وہ بھی ظاہر ہے احمدی ہوں گے اور حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان رکھتے ہوں گےتا کہ آپ کے مشن کو آگے چلائیں۔ اس لیے اگر ہم حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا پورا کردار ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ کسی اور ذریعے سے بھی کر دے گا۔ اب افریقہ میں بڑے بڑے مخلص پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں، تبلیغ بھی کرتے ہیں اور دوسرں کو احمدی بھی بناتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں بعض لوگ ہیں، بعض دوسرے جزائر میں، انڈو نیشیا وغیرہ میں یا فارایسٹ میں اور ملکوں میں ایسے لوگ ہیں۔ یہ صرف پاکستانی یا ہندوستانی قوم کا کام تو نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ ساری دنیا کے لیے نبی بن کر آئے تھے۔ اور آپﷺ کا جو مسیح موعود ہے وہ بھی ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ توہم نے ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ساری دنیا کو آنحضرت ﷺ کے جھنڈے کے نیچے لے کر آنا ہے۔ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام دینا ہے۔تو یہ ہمارا کام ہے یہ وہ مشن ہے جسے لے کر حضرت مسیح موعودؑ آئے تھے کہ میرے دو ہی کام ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بنانا، اس کی عبادت کرنے والا بنانا۔ اور دوسرے آپس میں ایک دوسرے کے حق کا خیال رکھنا۔ اعلیٰ اخلاق دکھانا، اچھے اخلاق دکھلانا۔ اور اچھے کام کرنا اور اسلام کی جو تعلیمات ہیں، اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں جو بیشمار حکم ہیں ان کو دنیا میں پھیلانا۔ تویہ کام ہم نے کرنے ہیں اگر ہم نہیں کریں گے، اگر دنیا داری میں پڑ جائیں گے، اگر قرآنی تعلیم پر عمل نہیں کریں گے، اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کریں گے، ہم اگر قرآن کریم پڑھ کر، قران کریم کے حکموں کو تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ہم اگر جو بنیادی اخلاق ہیں ان کو بھول جائیں گے اور دنیا کمانا اور دنیا کی رونقوں میں ڈوب جانا ہمارا مقصد ہو گاتو پھر اللہ تعالیٰ اور قومیں کھڑی کرے گا،اور کر رہا ہے، جو اس مقصد کو پورا کریں گی اور اس کام کو پورا کریں گی اور حضرت مسیح موعودؑ کے اس مشن کو پورا کریں گی کہ آنحضرت ﷺ کی اس تعلیم کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی حضرت مسیح موعودؑ سےفرمایا تھاکہ تم یہ نہ سمجھو کہ یہ لوگ پھیلائیں گے۔ میں ایسے لوگ پیدا کروں گا۔ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گااور اللہ تعالیٰ پہنچا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑے کر رہا ہے جن کا پتا بھی نہیں لگتا اور وہ سامنے آ جاتے ہیں اور وہ پیغام کو پہنچانے والے بن جاتے ہیں۔ تو اگر ہم شامل ہو جائیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس فعل میں شامل ہو جائیں گے، اس کی برکتیں اور فضل ہمیں حاصل ہو جائیں گی۔اس تبلیغ کے کام کو دنیا میں پہنچانے میں اگر ہم اپنا رول اور کردار پوری طرح ادا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ تو پھر یہ کام کروا کر رہے گا لیکن دوسرے لوگوں سے کروا لے گا۔‘‘

سوال: آج کے زمانے میں ہم Teenage لڑکیاں کس طرح تبلیغ کر سکتی ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’اپنے اچھے اخلاق دکھا ؤ۔ اچھے Moral دکھاؤ۔ اپنے دین کی تعلیم کی خوبیاں اپنی لڑکیوں میں بیٹھے کر ڈسکس کرو۔ لوگوں کو یہ کہنا ضروری نہیں ہوتا کہ مسلمان ہو جاؤ۔ اس طرح لوگ مسلمان نہیں ہوں گے بلکہ چڑیں گے۔ وہ کہیں گے مسلمان تو بہت خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔تم جب اچھے اخلاق دکھلاؤ گی اپنے دوستوں کے سامنے اچھی طرح پیش آؤ گی،اور اپنی ٹیچروں کے سامنے اچھا behave کرو گی، اور پڑھائی میں اچھی ہو گی،تو سکولوں میں تم لوگوں کا نام ہو گا۔ٹیچر بھی پوچھے گا تم کون ہو؟ سٹوڈنٹ بھی پوچھیں گے تم کون ہو؟ پھر تم بتاؤ گے۔ اور بعض دفعہ اسمبلی میں یا ویسے سکولوں میں بھی اسلام کے بارے میں یا اپنے بارے میں کچھ بتانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ تو کئی بچے ایسے ہیں۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی جن کو موقع ملتا ہے اور پھر وہ سکولوں میں بتاتے ہیں کہ اسلام کی کیا تعلیم ہے، اور یہ کہ ہم احمدی مسلمان ہیں، ہمارا مشن کیا ہے۔ تو اس سے پھر آہستہ آہستہ تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں۔ اور پھر جب وقت آئے گا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو گی تو لوگ خود بخود ہماری طرف کھینچے آئیں گے۔ زبردستی ہم کسی کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ بعض لوگ جن کے دل اللہ تعالیٰ کھولنا چاہتا ہے وہ خود کھول دیتا ہے لیکن کم از کم ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی اسلام کی تعلیم کا اظہار اپنے اوپر بھی کریں اور اچھے اخلاق بھی دکھائیں تو لوگ خود بخود ہماری طرف کھینچے آئیں گے۔

سوال: کیا ہمیں ایسے سکول Trip میں جانے کی اجازت ہے جس میں رات کا قیام بھی ہوتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’عمومی طور پر تو میں اس سے بچنے کے لیے کہتا ہوں۔ سوائے اس کے کہ سکول forceکرے اور compulsory ہو اور ہر ایک کے لیے mandatory بن جائے کہ ضرور جانا ہے۔ تو پھر ٹھیک ہے یا Day Trip ٹھیک ہے۔ Otherwise رات کے Trip کو avoid کرنا چاہیے۔ کیونکہ بہت سارے لڑکوں اور لڑکیوں سے بھی میں نے پوچھا ہے جو جاتے ہیں۔ ان کا ایک دفعہ جانے کے بعد تجربہ اچھا نہیں ہوتا۔ صرف یہی نہیں کہ احمدی، بلکہ میں نے بعض غیر احمدی بچوں سے، ہندو بچوں سے، دوسرے بچوں سے بھی پوچھا ہے۔ اور مجھے پتا چلا ہے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہاں بعض دفعہ ماحول اچھا نہیں ہوتا۔ایک تو چھیڑ چھاڑ بہت کرتے ہیں اور بعض دفعہ bully کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں اور پھر بعض دفعہ غلط قسم کی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔تو اس لیے بہتر یہ ہے کہ overnight stay کو avoid کیا جائے۔اگر تم نے جانا ہے، تم کو سیر کرنے کاشوق ہے تو اپنے اماں ابا کو کہو کہ تمہیں Overnight stay کروا لیں تمہیں کیمپنگ کروا دیں۔میں نے بعض بچوں کو کہا کہ وہ اس طرح کریں کہ ماں باپ خود Overnight stay organize کریں۔ کیمپ لے کر جائیں اور ان کو stay کروائیں۔ تو لوگوں نے کیا۔تم لوگ ناصرات، لجنہ، واقفات نو ہو اگر تم نے کیمپ لگانا ہے تو تم لوگ یہاں حدیقۃ المہدی میں جا کر کیمپنگ کرو۔ Overnight stay بھی ہو جائے گا اور تمہاری Enjoyment بھی ہو جائے گی۔اور جماعتی سسٹم میں رہ کر ہو گا۔تو پھر غلط قسم کی باتیں جو ہوتی ہیں وہ بھی نہیں ہوں گی۔‘‘

سوال: ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ بیت الفتوح میں حضور کی عدم موجودگی بہت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے اور انہوں نے سوال کیا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کب دوبارہ بیت الفتوح تشریف لائیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’دعا کریں۔ جب حالات بہتر ہوجائیں گے تو میں دوبارہ جمعہ کے لیے مسجد بیت الفتوح آ جایا کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ سب آپکی دعاؤں پر منحصر ہے اور اس بات پر کہ کب ہمیں اس Covid کی وبا سے خلاصی ملے گی۔‘‘

اس کے بعد حضور نے استفسار فرمایا: ’’کیا آپ کو مسجد جانے کی اجازت مل گئی ہے؟‘‘

جس پر موصوفہ نے جواب دیا:۔ ’’جی حضور۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’کیا آپ عید کی نماز پر گئیں تھیں؟

واقفہ نو نے جواب دیا کہ ’’جی حضور‘‘

اس پر حضور نے فرمایا کہ:۔ ’’کیا آپ نے لطف اٹھایا؟‘‘

واقفہ نو نے جواب دیا:۔ ’’جی حضور۔‘‘

سوال: میرا سوال سورۃ الاعراف آیت 12 کے بارے میں ہے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ ابلیس سب Evil spirits کا سردار ہے جیسے حضرت جبرائیلؑ سب فرشتوں کے سردار ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں Evil spirits کہاں پر ہیں اور ان کا کیا کام ہے؟ اور ہم ان کے اثرات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ہر بُرا کام شیطان کاکام ہے۔ اور ان برے کاموں کے لیے جو پھونکیں مارتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے اور بھڑکاتا ہے اس کانام شیطان ہے اور جو ہر نیک کام ہے، روحانی کام ہے وہ جبرئیلؑ اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے دنیا میں لوگوں کو بتاتے ہیں یا اپنے باقی کام کرنے والے ساتھیوں کے زریعہ سے اگر براہ راست نہیں بھی آتے تو۔ اور جو شیطانی کام ہیں۔برے کام ہیں، گندے کام ہیں ان کے لیے شیطان ہر وقت کانوں میں پھونکیں مارتا رہتا ہے کہ یہ کرو یہ کرو۔اور پھر ضرور ی نہیں کہ وہ برے کاموں کو بتائے۔ برے کاموں کو اچھا رنگ دکھا کے، جس طرح حضرت آدم کوؑ بتایا کہ تم جنت میں مستقل رہ جاؤ گے اگر تم یہ پھل کھا لو۔یہ کام کر لو؟اور انہوں نے اس کے دھوکے میں آکر کر لیا۔ تو بعض دفعہ اچھے کاموں کا بہانہ کر کے شیطان انسان سے برے کام کروا دیتا ہے۔ اس لیے ایک تو ہمیشہ ’’اعوز باللّٰہ من الشیطن الرجیم‘‘ پڑھتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے دھوکے سے، شیطان کے حملوں سے اپنی پناہ میں رکھے پھر ’’لا حول ولا قوۃ الا با للّٰہ العلی العظیم‘‘ بھی پڑھتے رہنا چاہیے۔ کہ اللہ تعالیٰ میں سب طاقتیں ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے او رہمیں ہر قسم کے شیطانی حملوں سے بچا کے رکھے تا کہ ایسے گندے خیالات ہی نہ آئیں۔ اور استغفار بھی کرتے رہنا چاہیے۔ ’’استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ‘‘ یہ چیزیں پھر شیطان کے حملوں سے بچاتی رہتی ہیں۔‘‘

سوال: آپ کی کیا نصیحت ہے ان بچوں کے لیے جو Mental health اور Depression کا شکار ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’کھلی ہوا میں جایا کریں۔ پہلے تو وجہ معلوم کریں۔ان کے ماں باپ کو ان کے بڑے بہن بھائیوں کو انہیں کسی Psychiatrist کو دکھانا چاہیے۔ کسی Psychiatrist کے پاس لے جائیں اور علاج کروانا چاہیے صحیح طرح۔ اور اس کی جو تکلیف ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور پھر یہ ہے کہ یہ نوٹ کرو کہ کس وقت ایسی صورت زیادہ بنتی ہے۔ دن کے وقت دس، گیارہ بجے بنتی ہے تو پھر اس وقت کھلی ہوا میں باہر جا کر ٹہلیں۔ اور دوسرے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خود بھی دعا کریں۔ کچھ اپنے اندر بھی willpower ہونی چاہیے determination ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس phase میں سے نکالے۔ تو علاج بھی اور دعا بھی ہو۔تو ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔آج کل ایم ٹی اے پر پروگرام بھی آرہے ہوتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر صاحب بتا رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح دور کی جا سکتی ہے۔ وہ پروگرام دیکھ لو۔اور میرا خیال ہے اس کی آن لائن ریکارڈنگ چل رہی ہو گی وہاں سے بھی پتا چل جاتا ہےتو وہ دیکھ کرجو ان کے والدین ہیں یا بڑے بہن بھائی ہیں وہ دیکھ لیں اور پھر اس کے مطابق treat کریں۔ لیکن بہر حال یہ بیماری ہے۔ اس بیماری کو seriously اور پوری طرح دیکھنا چاہیےاور treat کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کسی Depression والے کا مذاق اڑا دیا۔ وہ نہیں کرنا چاہیے اور خود بھی استغفار کرو اور نماز پڑھو تو اللہ تعالیٰ پھر اسے ٹھیک کر دیتا ہے۔‘‘

سوال: ہم خود کو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’تمہیں پتا ہے سوشل میڈیا میں کونسی چیزیں مثبت اور کونسی چیزیں منفی ہیں؟ جس پر موصوفہ نے جواب دی:۔ ’’جی حضور‘‘۔اس پر حضور ایدہ اللہ نے فرمایا ایک محاورہ ہے کہ اگر کوئی سویا ہو اآدمی ہو تو اسے تم جگا سکتے ہو جو جاگ رہا ہو اسے کیسے جگاؤ گے؟ جو مچلا بن کر سویا ہوا ہو، جو Pretend کر رہا ہو کہ میں سویا ہوا ہوں۔ اگر تم Pretend کر رہی ہو کہ میں سوئی ہوئی ہوں۔ تو تمہیں جو مرضی ہلاتا رہے تم نہیں اٹھو گی اور اگر صحیح طرح حقیقت میں سوئی ہوئی ہوتو تمہیں کوئی جگائے گا تو تم جاگ جاؤ گی۔اور غصے میں جگانے والے کو کہو گی کہ کیا مجھے تنگ کر رہے ہو، سونے نہیں دے رہے!بہرحال سوشل میڈیا پر جو مثبت اور منفی باتیں آتی ہیں۔ اگر تمہیں پتا ہے کہ منفی باتیں کیا ہیں ان کو Avoid کرو۔ ان کے قریب نہ جاؤ۔ان کو نہ دیکھو۔ یہ Temptation ہے۔ ایک آدمی میڈیا پر ایک لنک کھولتا ہے اس میں دیکھ لیتا ہے پھر اس میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ دیکھتا ہی نہیں کہ اس کے برے اثرات کیا ہو رہے ہیں۔پھر اگلا پھر دوسرا، پھر تیسراپروگرام دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ پھر غلط ہوتا ہے۔اگر پہلی دفعہ ہی دیکھو کہ سوشل میڈیا پر کوئی غلط چیز آئی ہے جو تم پر منفی اثر ڈال رہی ہے یا ڈال سکتی ہے تو تم فوری طور پر اس کو بند کر دو۔اور سوشل میڈیا کی اور دوسری سائیٹ جو اچھی اچھی ہیں، ان کو دیکھ کہ جہاں knowledge بھی ہے اور علم بھی آ رہا ہے، یا ایجوکیشنل پروگرام بھی ہیں،یا دوسرے سائنس کے پروگرام بھی ہیں، ڈاکومینٹریز ہیں یا اس پر کچھ کمنٹس ہیں، یا اور پڑھے لکھے سائنسدانوں کے کمنٹس ہیں، یا جماعت کے سوشل میڈیا پر چلی جاؤ اور ان کو دیکھو بجائے اس کے کہ منفی اثر ڈالنے والی سوشل میڈیا کو دیکھو۔ یہ تو اپنی willpower اور determination ہے کہ تم کتنا اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہو۔‘‘

سوال: ہمیں نماز کا طریقہ آنحضور ﷺ نے سکھایا تھا۔ اسلام سے پہلے انبیاء کس طرح عبادت کرتے تھے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ان کے مختلف طریقے تھے۔ بعض لوگ سجدے کرتے ہوں گے۔ بعض لوگ بیٹھ کر ہاتھ اٹھا کر دعا کر لیتے ہوں گے۔ بعض گھٹنے ٹیکتے ہوں گے، سجدہ تو میرا خیال ہے ہر مذہب میں ہی ہو گا۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندؤں میں بھی اور دوسروں میں بھی سجدے کا رجحان ہے۔ ماتھا ٹیکنے کا رواج ہر مذہب میں ہے۔ یہ جو طریقہ ہے کہ کھڑے ہونا، دعا کرنا پھر رکوع کرنا پھر ’’سمع اللہ‘‘ میں کھڑے ہونا۔پھر سجدے میں جانا پھر بیٹھنا۔ یہ نماز کو طریقہ جو ہے، یہ ہمیں آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ہی ہم مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے باقیوں کے لیے اس طرح Detail میں یہ طریقہ نہیں تھا۔ مختلف طریقے تھے۔‘‘

سوال: حدیث میں آتاہے کہ جنت کہ ایک دروازے کا نام ’’ریان‘‘ ہے جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا جنت کے اس کے علاوہ اور بھی دروازے ہوں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور آٹھواں دروازہ بخشش کا دروازہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش سے وہاں سے داخل ہو جائیں گے۔ ہر نیکی کے لیے دروازے ہیں۔ سات نیکیوں کے دروازے اور آٹھواں دروازہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے کے لیے بخشش کا رکھا ہوا ہے۔ اپنے رحم کا رکھا ہوا ہےکہ اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ بے انتہا رحم کرنے والا ہے اور لوگوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کے آٹھ دروازے رکھے ہیں۔ دوزخ کے کم ہیں اور جنت کے زیادہ ہیں۔‘‘

(ٹرانسکرئیب و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

تیسرا جلسہ سالانہ مایوٹ آئی لینڈ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2022