حاصل مطالعہ
قسط 13
حدیث نبویؐ
• حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا سید الاستغفار یہ ہے کہ یوں کہو: ’’اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں، ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ مجھ پر جو تیری نعمتیں ہیں ان کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری مغفرت کردے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب أفضل الاِستغفار)
• آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ افضل ترین شخص کون ہے؟
فرمایا: مخموم القلب یعنی متقی اور پاک دل اور صدوق اللسان یعنی زبان کا بہت سچا اور کھرا شخص۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد)
مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض
آپ کے اپنے الفاظ میں:
’’اس وقت بھی چونکہ دنیا میں فسق و فجور بہت بڑھ گیا ہے اور خداشناسی اور خدا رسی کی راہیں نظر نہیں آتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور محض اپنے فضل و کرم سے اس نے مجھ کو مبعوث کیا ہے تا مَیں ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے غافل اور بیخبر ہیں اس کی اطلاع دوں اور نہ صرف اطلاع بلکہ جو صدق اور صبر اور وفاداری کے ساتھ اس طرف آئیں انہیں خدا تعالیٰ دکھلادوں۔ اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا۔ اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْکَ‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ5 ایڈیشن 2003ء)
انمول موتی
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ بہت دشوار گزار ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی کھال اپنے ہاتھ سے نہ اتارلے تب تک وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مقبول نہیں ہوتا۔‘‘
بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس ارشادات
’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ390)
’’انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ ایسا بنے کہ خدا تعالیٰ اس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے اور خدا تعالیٰ کی شفقت جنت ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ564 مطبوعہ 2003 قادیان)
’’سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ رکھتا ہے‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ249)
’’یقیناً یاد رکھو کہ گناہوں کا سَیلاب اور نفسانی جذبات کا دریا بجُز اس کے رُک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے۔ اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گِرتی ہے۔جبتک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا۔ اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اس بات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے۔ میں جواب میں یہی کہونگا کہ یہ جھوٹ ہے۔ اور نفس کا مغالطہ ہے۔ سچّےایمان اور سچّے یقین اور گُناہ میں باہم عداوت ہی جہاں سچّی مغفرت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو۔ وہاں ممکن نہیں کہ گناہ رہے‘‘
(ملفوظات جلد3 صفحہ4-5)
ارشاداتِ امام
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’اپنے اعمال سے احمدی ہونے کا ثبوت دیں‘‘
’’آپ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو مسیح اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ اس لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس احسان کا جتنا بھی شکر ادا کر سکیں کریں۔ اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنے اندر احمدیت قبول کرنے کے بعد نمایاں تبدیلیاں پیدا کریں۔ اپنے عمل، کردار، بات چیت اور چال ڈھال سے یہ ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم ہی ہیں جو اسلام کا صحیح اور حقیقی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ایسا زندہ تعلق پیدا کریں کہ نظر آئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں‘‘
(خطبہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 29 اپریل 2004)
ان شاءاللہ اولاد ہوگی
25جنوری 1933ء مجھے (محمد ابراہیم بقاپوری کو) محترمہ والدہ ماجدہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کی اولادکے لئے دعا کرنے کے لئے کہا۔ چنانچہ میں نے تین چار روز متواتر دعا کی تو مجھے الہام ہوا۔ ’’میرا دروازہ اچھی طرح کھٹکھٹایا نہیں گیا۔‘‘ صبح مکرم چوہدری صاحب کی والدہ ماجدہ کو خوشخبری سنائی گئی۔ تصریح بھی کردی کہ انشاءاللہ تعالیٰ اولاد ہوگی اور ایسا ہی چوہدری صاحب کو بھی سنایا گیا اور جب 1936ء میں معلوم ہوا کہ آپ کی اہلیہ دوم کو حمل ہے تو ایک رات مجھے معلوم ہوا کہ اس حمل سے لڑکی ہوگی۔ چنانچہ اس کی اطلاع بھی چند ماہ قبل ازولادت آخر ماہ نومبر 1936ء میں چوہدری صاحب کو کردی اور جنوری 1937ء میں عزیزہ امتہ الحی سلمہا کی پیدائش ہوئی۔ الحمدللّٰہ
(حیات بقاپوری جلد اول صفحہ185)
مخالف شرمندہ ہوکر آنکھیں نیچی کر لیتے
رفقاءِ احمد میں تحریر ہے کہ ماسٹر عبدالرحمان صاحب جالندھری نے سنایا کہ ایک دفعہ میں قادیان کے ہندو بازار میں سے گزرا۔ بے پناہ گرمی پڑ رہی تھی۔ چند ہندوؤں نے کہا کہ آپ ہر روز دعا کی برکات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آج بارش برسادے تا گرمی دور ہو۔آپ نے ان کی طنز و تمسخر کو بری محسوس کیا اور آپ کی غیرت جوش میں آئی۔ آسمان بالکل صاف تھا۔آپ مسجد اقصیٰ میں جا کر اس وقت تک دعا میں مصروف رہے جب تک بارش کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے نہ ہوگئے۔ فرماتے تھے کہ میں ہندوؤں سے جب بھی اس نشان کا ذکر کرتا تو وہ شرمندہ ہوکر آنکھیں نیچی کر لیتے۔
(رفقاءِ احمد جلد ہفتم صفحہ159)
جماعت احمدیہ کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 16ستمبر 2011ء میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہر دن جماعت میں ترقی دیکھتے ہیں اور جوں جوں یہ ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے دنیا کے ہر ملک میں حسد کرنے والے اور شر پھیلانے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ اور یہ حاسدین اور شر پھیلانے والوں کا بڑھنا ہی اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پس یہ مخالفین اور دشمن کی منصوبہ بندیاں جماعت کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا معیار ہیں اور اس سے ایک مومن کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں اگر پریشانی کی بات کسی مومن کے لئے ہے یا ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ اُس کے جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص میں کہیں کمی نہ ہو جائے۔ اُس کے تقویٰ پر چلنے کے معیار گرنے نہ شروع ہوجائیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر نیکی اور تقویٰ میں ایک جگہ ٹھہر بھی گئے ہو تو یہ بھی تمہارے لئے بڑی خطرناک بات ہے، سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس کے بعد پھر نیچے گراوٹ شروع ہوجاتی ہے‘‘
(ما خوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ نمبر455 ایڈیشن 2003ء)
(مولانا عطاء المجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)