• 29 اپریل, 2024

اسباب پرستی بھی شرک ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں (الانعام: 152-154۔ناقل)، ان دو تین آیات میں بھی اُن احکامات میں سے چند احکامات بیان ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے چند باتوں کی طرف، چند احکامات کی طرف توجہ دلائی ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہیں، تقویٰ پر چلانے والے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ترجمہ میں پڑھ کر سنا دیا تھا ہر ایک پر واضح ہو گیا ہو گا کہ کیا احکامات ہیں۔ یاددہانی کیلئے دوبارہ بتا دیتا ہوں۔ فرمایا کہ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ پھر فرمایا والدین سے حسنِ سلوک کرنا انتہائی اہم چیز ہے اس کو کبھی نہ بھولو اور بدسلوکی تم پر حرام ہے۔ تیسری بات یہ کہ رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ پھر یہ کہ مخفی اور ظاہر ہر قسم کی بے حیائیوں سے بچو، بلکہ اُن کے قریب بھی نہیں جانا۔ پانچویں بات یہ کہ کسی جان کو قتل نہ کرو، سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے جائز قرار دے دیا ہو۔ اور اُس کی بھی آگے تفصیلات ہیں کہ کیا، کس طرح جائز ہے۔ پھر فرمایا کہ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ ساتویں بات یہ کہ جب یہ لوگ بلوغت کو پہنچ جائیں تو پھر اُن کے مال اُنہیں لَوٹا دو۔ پھر کوئی بہانے نہ ہوں۔ آٹھویں بات یہ کہ ماپ تول میں انصاف کرو۔ پھر یہ کہ ہر حالت میں عدل سے کام لو۔ کوئی عزیز داری، کوئی قرابت داری تمہیں عدل سے نہ روکے، انصاف سے نہ روکے۔ دسویں بات یہ کہ اپنے عَہدوں کو پورا کرو۔ جو عہد تم نے کئے ہیں اُن کو پورا کرو۔ اور پھر یہ کہ ہر حالت میں صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ۔ تو یہ وہ خاص اہم باتیں ہیں اور پھر ان کی جزئیات ہیں۔ ان باتوں پر چل کر انسان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا کہلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا کہلا سکتا ہے۔

سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے، بلکہ حکم دیا کہ ایسی بات کبھی تم سے سرزدنہ ہو۔ تم پریہ حرام ہے کہ خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو ٹھہراؤ۔ اُس ہستی کے ساتھ تم شریک ٹھہراؤ جو تمہارا رب ہے، جو تمہارا پیدا کرنے والا ہے، جو تمہاری دماغی، جسمانی، مادّی، روحانی صلاحیتوں کی پرورش کرنے والا ہے، جو تمام نعمتوں کو مہیا کرنے والا ہے۔ پس کون عقلمند ہے جو ایسی طاقتوں کے مالک خدا اور ایسی نعمتیں مہیا کرنے والے خدا کا کسی کو شریک بنائے۔ لیکن لوگ سمجھتے نہیں اور شریک بناتے ہیں۔ گہرائی میں جا کر شرک کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور ایسے عظیم خدا کے مقابلے پر خدا کھڑے کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہر زمانے میں لوگوں میں یہ حالت پیدا ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے انبیاء جب آتے ہیں تو سب سے پہلے شرک کی تعلیم کے خلاف بات کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک ایسا گناہ ہے کہ اس کو مَیں نہیں بخشوں گا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوا اَور کو معبود و کار ساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے۔’’ یعنی یہ معاف نہیں ہو گا۔ ‘‘اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: 14) لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ (النساء: 49) یہاں شرک سے یہی مرادنہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے۔ بلکہ یہ ایک شر ک ہے کہ اسباب کی پر ستش کی جاوے اور محبوبات ِدنیا پر زور دیا جاوے۔‘‘ دنیا میں جو بہت ساری چیزیں، جن سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے، اُن کی طرف توجہ ہو جائے۔ ’’اسی کا نام شرک ہے۔ اور معاصی کی مثال‘‘ یعنی گناہ جو ہیں، عام گناہ اُن کی مثال ’’تو حُقّہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑدینے سے کوئی دقّت و مشکل کی بات نظر نہیں آتی۔ مگر شرک کی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑنا محال ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ344۔ ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

امام وقت اور خلیفہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2022