• 29 اپریل, 2024

’’مٹی میں ملے اُس کی ناک، مٹی میں ملے اُس کی ناک‘‘ (حدیث)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو۔ اور والدین سے احسان کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہی فرمایا ناں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور پھر اگلا حکم یہ کہ والدین سے احسان کرو۔ فرمایا کہ ’’حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمّات کا کس طرح متکفّل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبر گیری کے لئے دو محل پیدا کر دئیے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پَرتو محبت کا اُن میں ڈال دیا۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے۔‘‘ یہاں بہر حال ایک فرق ہے۔ ’’اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فردِ بشرخواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو، یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اور یہ خدا کی کمال ربوبیّت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفّل میں ہر قسم کے دُکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لئے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ315 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے فرمایا:۔ ’’فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡہَرۡہُمَا وَقُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا (بنی اسرائیل: 24) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام اُمّت کی طرف ہے۔‘‘ (یعنی گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اصل میں اُمّت مخاطب ہے۔) ’’کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خورد سالی میں ہی فوت ہو چکے تھے۔ اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تُو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں اُن کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیئے۔ اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (بنی اسرائیل: 24) یعنی تیرے ربّ نے چاہا ہے کہ تُو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ اس آیت میں بت پرستوں کو جو بت کی پوجا کرتے ہیں، سمجھایا گیا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں اور بتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے۔ اُنہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفّل نہیں تھے۔ اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اُس کے ساتھ کسی اَور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیں۔ اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خورد سالی میں‘‘ یعنی چھوٹے ہوتے ’’ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ213-214)

یعنی وہ جو پالنے کا جوش ہے، بچوں کی طرف نگہداشت کا جوش ہے، بچوں سے محبت اور پیارہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھ دیا گیا ہے۔ پس یہ وہ مقام ہے جو والدین کا ہے جسے ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مٹی میں ملے اُس کی ناک، مٹی میں ملے اُس کی ناک۔‘‘ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دہرائے۔ یعنی ایسا شخص بدقسمت اور قابل مذمّت ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ کونسا شخص ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر اُن کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب البرو الصلۃ و الآداب باب رغم انف من ادرک… حدیث نمبر2551)

(خطبہ جمعہ 26؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

برازیل کے شہر پیٹروپولس میں بارشوں سے شدید تباہی اور جماعتی خدمات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جون 2022