• 30 اپریل, 2024

الاستقامۃ فوق الکرامۃ

الاستقامۃ فوق الکرامۃ
(ارشاد حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ)

’’کسی ملک میں، کسی گاؤں میں ایک احمدی خاتون تھیں۔ ان کے تین یا چار بچے تھے جو مختلف عمروں کے تھے اور قریباً جوان تھے۔ اگرچہ گاؤں میں صرف یہی ایک احمدیوں کا گھر تھا لیکن یہ ایسا خاندان تھا جس کے گاؤں والوں پر بڑے احسانات تھے۔ بڑا معزز اور کریم گھرانہ شمار ہوتا تھا۔ ان احسانات کی وجہ سے گاؤں والوں کی نظریں ہمیشہ اس خاندان کے لوگوں کے سامنے نیچی رہتی تھیں۔ اس لئے گاؤں والوں کی طرف سے انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انکی شرافت انکے اردگرد پہرہ دے رہی تھی۔ لیکن جب باہر سے حملہ ہوا اور ایک جتھہ آیا تو گاؤں والوں نے اپنی پناہ واپس لے لی۔ انھوں نے کہا کہ اس حملہ کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں اس لئے تم یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو اور جہاں بھی پناہ مل سکتی ہے وہاں چلے جاؤ۔ اس احمدی خاتون نے کہا، کیسا فرار؟ اس جگہ کو چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خدا کے خلیفہ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی ہے کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو اور وہاں سے باہر نہیں جانا۔ اس لئے اگر میرے سارے بچے بھی قربان ہوجائیں تب بھی میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی۔ جس دن حملہ کا خطرہ تھا یعنی جس دن یہ اطلاع تھی کہ جتھہ حملہ کرے گا، اس صبح اس نے اپنے بچوں کو بہترین کپڑے پہنائے جو عید یا شادی بیاہ کے موقع پر پہنے جاتے ہیں۔ پھر اس نے سویاں پکائیں جو ہمارے ہاں بھی دیہات میں عموماً عید کے موقع پر پکائی جاتی ہیں اور بچوں کو خوب سجا بنا کر اور خوب اچھی خوراک دے کر ماں نے کہا، بچو! اب حملہ ہونے والا ہے۔ تم میرے چار جوان بچے ہو۔ تم میں سے اگر ایک بھی پیٹھ دکھا کر زندہ واپس آیا تو میں اس کو کبھی اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ جس طرح میں نے تمہاری عید بنائی ہے، تم میری عید بنانا۔ خدا کی راہ میں ہنستے، مسکراتے اور اپنی چھاتیوں پر وار کھاتے ہوئے جانیں دینا، پیٹھ پر وار کھاتے ہوئے نہیں۔ اس طرح اس نے اپنے چاروں بیٹے خدا کے حضور پیش کردئے۔ لیکن ’’تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ‘‘ کا وعدہ اس شان سے اس کے حق میں پورا ہوا کہ مختلف دیہات کا یہ جتھہ گاؤں کے قریب آکر ایک ایسی افواہ کے نتیجے میں واپس لوٹ گیا جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں تھی۔ حملہ کرنے والوں کو یہ خبر پہنچ گئی کہ یہاں جو احمدی خاندان ہے اس کے بہت سے ساتھی ہیں جو ہتھیار بند ہیں اور بڑے خطرناک ہتھیار ان کے پاس جمع ہیں۔ اس لئے اگر انکے چار مارے جائیں تو تمہارے سو ڈیڑھ سو مارے جائیں گے۔ اب بھی اگر تم نے حملہ کرنا ہے تو بیشک کرو۔ لیکن یہ بے حقیقت خبر سن کر وہ حملہ کئے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ایک احمدی خاتون جو بیوہ تھیں، بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ انکا کوئی بچہ بھی نہیں تھا سوائے ایک کے جو لاپتہ تھا۔ جب انکے اردگرد احمدیوں کے مکان جلنے اور لٹنے شروع ہوئے تو انکے دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ یہ میری طرف رخ کیوں نہیں کررہے؟ کہیں میرا ایمان کمزور تو نہیں کہ خدا مجھے اس آزمائش میں نہیں ڈال رہا؟ وہ ایسی بے قرار ہوئیں کہ باہر نکل کر چوک میں واویلا شروع کردیا کہ ظالمو! تم نے میرے ایمان میں کیا کمزوری دیکھی ہے جو مجھے نہیں لُوٹ رہے؟ خدا کی قسم! میں بھی احمدی ہوں اور امام مہدی کو سچا سمجھتی ہوں۔ اگر باقی احمدیوں کے گھر لوٹ کران کے دل ٹھنڈے کررہے ہو تو میرا بھی لوٹو۔ اس خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ اس کی یہ چیخ نکلی کہ چند دن کے بعد حملہ ہوا اور سارا مکان مع سارے سامان کے جلا کر خاکستر کردیا گیا اور گھر قریباً ملبے میں تبدیل ہوگیا، لیکن اس کی اپنی جان بچ گئی۔ حملے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ انسانی ظلم ایک حد سے آگے نہیں بڑھتا۔ چنانچہ حملہ کرنے والوں نے اس بڑھیا پر حملہ نہیں کیا۔ لیکن جلنے کے واقعہ سے وہ بڑی مطمئن تھی بلکہ اس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے خوشی کا اس قدر اظہار کیا کہ کسی پوچھنے والے نے کہا کہ بی بی تُو پاگل ہوگئی ہے؟ اس نے کہا، میں پاگل نہیں ہوئی،میں نے دیکھا کہ میرا فلاں رشتہ دار فلاں وقت لوٹا گیا۔ اسکا چھوٹا سا تھڑا تھا اور کاروبار بھی بہت مختصر تھا اور اب وہ لکھ پتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر قربانی پیش کررہا ہے۔ پس میں نے تو اس طرح خدا کے فضل نازل ہوتے دیکھے ہیں۔ میں اس لئے خوش ہوں کہ مجھ پر بھی خدا کا کوئی فضل نازل ہونے والا ہے۔ اس واقعہ کے تھوڑی دیر کے بعد اس کا وہ بیٹا جو کہیں جا چکا تھا، کئی سال سے لاپتہ تھا، اس حالت میں واپس آیا کہ اس نے باہر بہت دولت کمائی تھی۔ اول تو ماں کے لئے سب سے بڑی دولت اسکا بیٹا ہی ہوتی ہے اور بیٹا بھی وہ جو گم ہوچکا ہو۔ لیکن خدا نے اسی دولت پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ایک عمدہ مکان کی دولت سے بھی مالا مال کردیا۔ اس کے بیٹے نے آکر جب مکان کو دیکھا تو اس نے کہا امی! میں تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ پرانا مکان گرا کر آپ کو ایک نیا مکان بنوا کر دوں گا اور اس طرح اپنے دل کی تمنائیں پوری کروں گا۔ میرے دل میں آپ کی خدمت کے لئے بڑی تمنائیں تھیں۔ اللہ کا کتنا احسان ہے کہ اس مکان کو گرانے پر مجھے کوئی خرچ نہیں کرنا پڑا۔ اب اسکو ختم کرنے اور اکھیڑنے وغیرہ پر کم رقم خرچ ہوگی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس نے اس جگہ ایک بہت ہی پیارا اور اچھا مکان اپنی ماں کو بنا کر دیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بیان فرمودہ 11 فروری 1983ء بحوالہ خطبات طاہر، جلد2 صفحہ81-83)

(مرسلہ: میر ثناء اللہ ناصر)

پچھلا پڑھیں

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2022