• 6 مئی, 2025

کیمرون میں احمدیت

مغربی افریقہ کا ملک کیمرون بہت سی خصوصیات کا حامل ہے۔

اس کادارالحکوتYaounde ہے اور سب سے بڑا شہر Douala ہے۔ اس ملک پر مختلف قوموں نے حکومت کی جس کی وجہ سے اس کی زبانیں مختلف ہیں۔ برطانیہ کی حکومت کی وجہ سے دوآلہ Douala میں انگریزی زبان آج تک بولی جاتی ہے اور فرانسیسی کالونی ہونے کی وجہ سے یاؤنڈے Yaounde میں فرانسیسی بولی جاتی ہے 1960ء میں آزادی ملی اور ریپبلگ آف کیمروں کہلایا۔ اور جب انگریزی راجدھانی سے آزادی 1972ء میں ملی تو اس کا نام

’’یونائیٹڈ ریپبلک آف کیمرون‘‘ کہلایا۔ ملک پیٹرولیم مصنوعات، زراعت، سڑکوں اور ریلوے کی وجہ سے خوشحال ہے۔ کیمرون میں مختلف گروپس پائے جاتے ہیں۔

Highlanders 31%
Northwestern Bantu8%
Equatorial bantu 19%
Eastern Nigritic 7%
others Africam 13%
Kirdi 11%
Non-African less than1%/.
Fulani 10%

اس ملک میں 24 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ فرانسیسی اور انگریزی آفیشل زبانیں ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے تقسیم کچھ اس طرح ہے۔

Catholic 38%
Protestant 26%
Others Christain 5%
Muslim 21%
Animist5.6%
Other 1%
Non-beliver 3%

اب خدا کے فضل سے تین چار دہائیوں سے احمدیت کا عروج بھی ہو رہا ہے۔ پہلے 1983ء میں نائیجیریا جماعت کےوائس پریزیڈیٹ مکرم الحاج حمزہ سنیا لو نے کیمرون کا دورہ کیا اور جماعت کا قیام عمل میں آیا۔خاکسار کو جب 1988ء تا 1996ء ریپبلک آف بینن کا امیر و مشنری انچارج بنایا گیا تو میرے سپرد 4 ممالک لگائے گئے۔ بینن کے علاوہ کیمرون، ٹوگو اور نائیجر بھی تھے۔

کیمرون کی طرف تبلیغی سفر

اپریل 1994ء کی بات ہے موسم خنک تھا۔ اور بارش کے آثار تھے۔ خاکسار نے رخت سفرباندھا۔اور اپنے ساتھ جاتے ہوئے عزیزم ابراہیم عبد العزیز جس کو نائجیریا آلارو جامعہ میں تعلیم کے لئے بھیجا تھا ساتھ لینے کا ارادہ کیا۔نائیجیریا کا ویزہ بھی لگوایا دو دفعہ بارڈر پار کرنا تھا۔ پورختنوو سے آلارو پہنچا۔ اپنے ساتھ کتب کا ایک کارٹن بھی تیار کیا جس میں فرانسیسی لٹریچر تھا۔آلارو سے ابراہیم کو ساتھ لیا۔ نائیجیریا اور کیمرون کے ملکی حالات بھی ٹھیک نہ تھےاس لیے کسی ساتھی کا ساتھ ہونا ضروری تھا۔ خیر ہم Calaba پہنچے جو کہ نائیجیریا اور کیمرون کا سرحدی بڑا شہر ہے۔ رات یہیں بسر کی۔ ہمارا قیام جماعت احمدیہ کے ہسپتال میں ہوا۔ اور Coumba پہنچےجو کہ کیمرون کا سرحدی شہر ہے۔ یہاں جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ ٹیکسی روکی۔ ایک ہوٹل تھا۔ لوگ باہر آرہے تھے اور منہ صاف کر رہے تھے لگتا تھا کہ کوئی اچھا مزے دار کھانا کھا کر مزہ لے رہے ہیں۔ ہم بھی داخل ہوئےتا کہ کھانا کھایا جائے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بندر کا گوشت کھا یاجا رہا ہے ساتھ پلاٹین بڑا لمبا کیلا۔ بھی کوئلوں پر بھنا جا رہا ہےساری بھوک ہوا ہو گئی۔ ویٹر نے کہا کون سا بندر تیار کر کے دیں۔ دیکھا کہ ایک رسی کے ساتھ بہت سے بندر سوکھا کر لٹکائے ہوئے ہیں۔ حالت غیر ہو گئی بہرحال صرف بھنا ہوا کیلا ہی لے کر بھوک مٹائی۔اور پیٹ کی آگ بھجائی KOMBA میں رات بسر کرنی تھی۔ سب سے سستا ہوٹل تلاش کیا چھوٹے سے کمرے میں رات بسر کی۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے پولیس نے خوب تنگ کیا۔ ہر پولیس چوکی پر پولیس والے ہمیں ٹیکسی سے اتارتے، تلاشی لیتے، کتابیں چیک کرتے، اُول فول کہتے، پیسے مانگتے۔ خیر خدا خدا کر کے اگلے دن دوالا جوکہ کیمرون کا بہت بڑا تجارتی مرکز ہے پہنچے۔

اور پھردوالا سے yaoundey پہنچے۔ یہی ہماری منزل تھی۔ کیونکہ مکرم راجی صائبو نے دعوت دی تھی کہ ہم ان کے ہاں آئیں اور جماعت کا پیغام پہنچائیں اور راجی صاحب ان دنوں نائیجریا کی ایمبیسی میں کام کرتے تھے اور ان دنوں site vert میں رہتے تھے۔ دو ہفتہ ان کے ہاں قیام رہا ان کےذریعے حکومتی عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں جس میں پر سنل سیکرٹری، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے دفاتر میں احباب سے ملااور کتب تحفہ دیں۔ ہر روز انفرادی طور پر بھی احباب سے ملاقاتیں کیں اور ان تک پیغام پہنچایا۔ کیونکہ اس زمانہ میں علی الاعلان اجتماعی تبلیغ کرنابہت مشکل تھا۔ حالات ایسے سازگار نہ تھے۔ ہمارا پیغام جن احباب تک پہنچا۔ جس کا نتیجہ اللہ کے فضل سے بعد میں بہت ہی زبردست نکلا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ ابراہیم عبدالعزیز جومیرے ساتھ گیا تھا اللہ کے فضل سے بینن کا پہلا باقاعدہ جامعہ پاس مبلغ بنا۔ نائیجیریا کے ذریعے دوآلہ میں احمدیت پھیلنی شروع ہوئی اوریاؤنڈے میں خاکسا ر نے ابتدائی کو شش کی۔ کیمرون کی تاریح میں لکھا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے مذہب کے پھیلاؤ کے لیےبڑی قربانیاں دی ہیں۔ ایک واقعہ جس نے مجھے بہت ہی متاثر کیا وہ یہ تھا۔ کہ ابتدائی دور کی بات ہے 3 لڑکیاں جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر کی تھیں۔ ارادہ کیا کہ کیمرون کے گھنے جنگلوں میں Pigmy (چھوٹے قد کےلوگ) کو عیسائی بنایا جائے اور ان کے بچوں کوجنگلوں سےشفٹ کر کے شہرلایا جائے۔ چنانچہ وہ تینوں کٹھن راستوں کا سفر کرتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گئیں۔ ان کی زبان سیکھی، ان کے پاس 30 سال رہیں ان میں سے کافی لوگوں کو عیسائی بنایا اوراس بات پر راضی کیا کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے ساتھ شہر بھیجیں چنانچہ 10 بچے تیار ہوئے وہ لے کرشہر آگئیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد نو بچےواپس چلے گئے،صرف ایک ان کے پاس رہ گیا۔ یہ مذہب کے پھیلاؤ اور تبلیغ کی راہ میں نہا یت ہی کربناک کوشش ہے جو ان بچیوں نے کی اور تمام جوانی اسی کام میں وقف کر دی اور نتیجہ لا حاصل رہا۔

آج احمدیت کے فرزانوں کو بھی موقع ملا ہے کہ وہ حقیقی اور سچے مذہب کی تبلیغ کریں۔ اللہ تعالیٰ بھی فضل فرما رہا ہے اور مبلغین کی قربانیوں کوپھل لگا رہا ہے اور ہماری تبلیغ رنگ لارہی ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے بڑے، بوڑھے، عورتیں سب قربانیاں کر رہے ہیں۔ جان، مال، عزت ایک سچے مذہب کی اشاعت کے لیے اپنے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے نام پر نچھاور کر رہے ہیں اور اس کانتیجہ بھی نکل رہا ہے۔ لیکن ابھی بہت زیادہ ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ اب کیمرون کو ہی لیں کب سارا کیمرون احمدی ہوگا؟ اس کے لیے ہمیں کتنی کوششیں کرنی ہیں؟ ہر ایک کو جان لینا چاہیے۔ غلبہ آخر ہمارا ہی ہوگا جس کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ اور جس کے ثمرات تھوڑے وقت میں ظاہر ہو رہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

کیمرون میں احمدیت حقیقی اسلام کی روز افزوں ترقی

کیمرون میں سب سے پہلے لو کل مبلغ ابو بکر صاحب ہیں۔ ابو بکر جو مراکش میں تھے اور اب جماعت احمدیت کے لیےقربانی دے رہے ہیں۔ اور اس جماعت کے پہلے باقاعدہ امیر و مشنری انچارج مکرم مولانا عبد الخالق نیر ہیں۔

تازه رپورٹ کے مطابق14 مساجد جو جماعت نے تعمیر کی ہیں 85 جماعتیں ہیں۔ مرکزی مبلغین میں خاکسار کے علاوہ مکرم ظفر اللہ مصطفی جامعہ انٹرنیشنل غانا سے فارغ التحصیل نائجیرین ہیں۔

اس کے علاوہ 12 معلمین کرام کیمرون میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔ ایم ٹی اے کا خدا کے فضل سے مضبوط نظام جاری ہے۔ حضورا نور کا پیغام اس کے ذریعہ سے ملک کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ پانچ ریڈیو اسٹیشن سے مختلف زبانوں میں تراجم پیش کئے جا رہے ہیں۔ عیسائیوں اور دوسرے مسلمانوں کی طرف سے مشکلات توہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی رہنمائی اور دعاؤں سے سب مسائل اور مصائب دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ترقیات دیکھ کر انسان پرانی تکالیف بھول جاتا ہے جو تبلیغ کے سلسلے میں اٹھائی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو اور ترقی دے اور ہم جو خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہوئے ہیں حقیقی طور پر انہیں ملکوں میں شہید ہو کر سرخرو ہوں۔انجام بخیر ہو آمین۔

(صفدر نذیر گولیکی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ