ولادت، بچپن اور ابتدائی تعلیم
حضرت مولانا صاحبؓ سن 1868ء میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے ضلع مردان کے گاؤں کوٹ جھونگڑہ تخت بھائی میں محترم محی الدین صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے۔ بعض روایات میں آپ کا سن پیدائش 1865ء اور 1870ء بھی آیا ہے۔ ابتدائی تعلیم اس زمانہ کے رواج کے مطابق گاؤں کے مسجد میں، اور عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد محترم سے گھر پر حاصل کی۔ محترم محی الدین صاحب ایک آسودہ حال، کافی اثر رسوخ اور بہت سی جائیداد کی مالک شخصیت تھے، جس کی وجہ سے خاندانی تنازعات کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا، تاہم حضرت مولانا صاحبؓ کا بچپن و جوانی میں صاحب ثروت ہونا زیادہ طویل ثابت نہ ہوا، اور خاندانی چپقلش اور تنازعات کے تناظر میں فریقین کے درمیان کافی جانی و مالی نقصان کی وجہ سے بزرگوں اور آباؤ اجداد کی ہدایت پر محترم محی الدین صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے اپنا آبائی گھر و جائیداد چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرنا پڑی۔ جس کی وجہ سے حکومت وقت نے جانی و مالی نقصانات و مناقشات کے ازالہ کے لئے ان کو تمام جائیداد حتیٰ کے راشن کی خاطر رکھے گئے غلہ سے بھی محروم کر دیا۔
حضرت مولانا معین الدینؓ صاحب اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ دشمنوں نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا تھااور انہیں اغوا کر کے ایک پنجرے میں بند کیا اس خیال سے کہ اس بچے (حضرت مولانا صاحب) کو بدلے میں قتل کر دیں گے۔ لیکن جب ان کے والد صاحب کو معلوم ہوا تو ایک ملنگ کے ذریعے راتوں رات اپنے اکلوتے بیٹے کو بازیاب کروا کر اپنے پاس بلوا لیا، اور اپنی اہلیہ کو اسی ملنگ کے توسط سے بچہ کی خیریت سے پہنچنے کا پیغام پہنچایا۔ ایک اور روایت کے مطابق حضرت مولانا صاحب کی اغوائیگی کے بعد انکی والدہ نے کچھ ملنگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی تلاش پر مامور کیا، اور برآمدگی پر ان کے والد صاحب کے پاس پہنچا دیا۔ جہاں علم و معرفت کے حصول اور قرب الٰہی کے مواقع زیادہ میسر آئے، لیکن حضرت مولانا صاحب جلد ہی افغانستان سے واپس آ گئے، اور والدہ کا ساتھ دیا، اور والد صاحب کی غیر موجودگی میں اپنی والدہ کے لئے ایک سائبان کی طرح موجود رہے۔
تلاش روزگار
اس طرح حضرت مولانا صاحبؓ کا خاندان انتہائی غربت و افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور رہا۔ غربت و افلاس اور کسمپرسی کا یہ دور کافی طویل ہو گیا، مگر اس مرد خدا نے اپنے علم و کمال اور تعلیم کے سبب گرد و نواح میں تعلیم کی شمع روشن کئے رکھی۔غریب اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ان کے لئے بطور محرر کے بھی خدمت کر کے گزر بسر کرنا ان کی سوانح حیات کا ایک روشن باب ہے۔ ان دنوں مالاکنڈ روڈ زیر تعمیر تھی آپ اس میں محنت مزدوری کرنے لگے، آپ کو ابتداً چھ پیسے یومیہ اجرت پر رکھا گیا، جب آپؓ نے ایک ہفتہ مزدوری کی تو ایک کونہ میں بیٹھ کر اپنے کمائے ہوئے پیسوں کا حساب کرنے لگے تاکہ معلوم ہو کہ کتنی کمائی کی ہے، کہ اس دوران ایک اور ساتھی کی نظرپڑی، اس نے ٹھیکیدار کو اطلاع کردی کہ آپ پیسے گن رہے تھے، ٹھیکیدار نے آپ کو بلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ حساب کتاب کرنا جانتے ہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر آپ کو بطور منشی دس پیسے یومیہ اجرت پر مامور کیا گیا۔ تقریباً ۲۰ روز کام کرنے کہ بعد آپ دو چارپائیاں اور بستر وغیرہ خرید کر گھر لے گئے اور اس طرح آپ نے خود اپنے گھر کو دوبارہ بنانا شروع کیا اور ساتھ ہی دینی تعلیم اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حضرت مولانا صاحب کی والدہ ماجدہ کی وفات گاؤں میں ہوئی اور وہیں پر دفن ہوئیں۔
عائلی زندگی و اولاد
سن 1895ء میں گاؤں کے ایک زمیندار گھرانے کی ایک نیک خاتون سے حضرت مولانا صاحب کی شادی ہوئی، جس کے بطن سے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو پانچ فرزند عطا کئے جن میں سے ایک عبداﷲ نامی بچپن میں ہی فوت ہو گیا، جبکہ باقی بیٹوں میں مولوی چراغ دین صاحب 1904، غلام محی الدین صاحب 1907، مولوی عبدالرحمن صاحب 1913 اور محمد احمد صاحب 1917 میں پیدا ہوئے۔
بیٹوں کے نمایاں اعزازات
حضرت مولانا صاحبؓ کے صاحبزادگان میں مولوی چراغ دین صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ ہونے والے اولین چند مربیان میں سے ایک تھے۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
اس کے علاوہ مولوی عبدالرحمن صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت مولوی عبداللہ سنوریؓ کی جب وفات ہوئی، تو حضرت مسیح موعودؑ کی ہدایت پر اور حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ کی وصیت کے مطابق حضورؑ کے مشہور زمانہ سرخ چھینٹوں والے کرتے میں ملبوس حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ کے جسد خاکی کو لحد میں اتارنے کا اعزاز مولوی عبدالرحمن صاحب کو ملا۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
قبولِ احمدیت
پشاور کے سابق نائب امیر مقامی اور سابق ناظم انصار اللہ ضلع پشاور و علاقہ سرحد جناب شمس الدین اسلم صاحب اپنی کتاب ’’صوبہ سرحد (حال خیبر پختونخواہ) میں احمدیت کا نفوذ‘‘ میں (صفحہ65 تا صفحہ67) میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا معین الدین صاحبؓ کے ایک بھائی (بعض روایات کے مطابق چچا یا چچازاد بھائی) عبدالمطلب لاولد تھے اور جلد ہی فوت ہو گئے تھے، لیکن فوت ہونے سے قبل احمدیت میں داخل ہو چکے تھے۔ ان کے فوت ہونے پر ان کی ساری جائیداد حضرت مولانا صاحبؓ کے حصے میں آئی۔ جس میں سلسلہ احمدیہ کی کچھ کتابیں اور اخبارات بھی تھے۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ بعد ازاں آپ نے مردان کی ضلع کچہری میں ایک وکیل کے پاس بطور منشی کام شروع کیا۔ کچہری میں آپ کی ملاقات حضرت میاں محمد یوسف صاحب، حضرت قاضی محمد یوسف صاحب اور میاں محمد احسن صاحب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہوئی، جو کہ اس وقت تک جماعت احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے، انہی کے ذریعے آپ کو جماعت کا تعارف حاصل ہوا، اور ہوتے ہوتے بالآخر بعد تشفی قلب حضرت مولانا صاحب نے 1906ء میں تحریری، اور بعدہ 1907ء میں قادیان حاضر ہو کر حضرت اقدس مسیح موعود و امام الزماں سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ملاقات میں بلا کسی قسم کے تردد و ہچکچاہٹ کے دستِ مسیح پر بیعت کرنے کے اعزاز سے مشرف ہوئے، الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
ابتلاؤں کا پُر آشوب دور
بعد ازاں قادیان سے واپسی پر کچھ عرصہ تک تخت بھائی کے نواحی گاؤں پاتے ٹکر میں مسجد میاگان میں امامت کراتے رہے۔ چونکہ اس علاقے میں آپ کے زہد و تقویٰ کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا اس لئے اہل علاقہ آپ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کی امامت پر خوش تھے۔ فریضہ امامت کے شروع کرنے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد آپ نے تمام گاؤں والوں کو اکٹھا کیااور امام مہدی کے ظہور کی نشانیاں بتاتے ہوئے فرمایا کہ وقت ہو چکا ہے اور امام مہدی ظہور فرما چکے ہیں۔ مذید فرمایا کہ میں نے جا کر تسلی کرنے کے بعد ان کی بیعت کر لی ہے، آپ لوگ بھی کر لیں، لیکن لوگوں نے نہ مانا، اور آپ کو اس مسجد کی امامت سے فارغ ہونا پڑا۔ جس کے بعد گاؤں میں آپ کی مخالفت بڑھنے لگی، یہاں تک کہ آپ کے قتل کے منصوبے بنائے جانے لگے۔ چنانچہ ماہنامہ گزٹ کینیڈا کے جولائی 2016 کے شمارے میں ایک ایمان افروز واقع ان الفاظ میں درج ہے کہ ’’حضرت مولوی معین الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قادیان سے واپس آنے کے بعد اپنے گاؤں موضع کوٹ جونگڑا میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔
قاتلانہ حملے
ایک موقع پر ایک شخص ان کے پاس آیا اور معافی مانگنے لگا۔ پوچھنے پر اس نے (راز) افشاء کیا کہ اس کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن راستے میں اس کاتانگہ دو دفعہ الٹ گیا۔ اس لئے وہ اس برے ارادے سے باز رہا، اور معافی کا طلبگار تھا۔‘‘ ایک اور موقع پر آپؓ پر ایک اور شخص نے کلہاڑی کا وار بھی کیا لیکن آپؓ معجزانہ طور پر صحت یاب ہوئے۔ بعد ازاں آپ مستقل طور پر مردان ہجرت کر کے تشریف لائے۔
ہجرت مردان
حضرت مولانا صاحبؓ کے صاحبزادے محترم عبدالرحمن صاحب (مولوی فاضل) اپنے خاندان کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب مخالفت بڑھ گئی، اور قتل کے منصوبے باندھے جانے لگے تو مشیت خداوندی کے تحت سنت انبیاؑ کی پیروی میں حضرت مولانا صاحبؓ اپنی اہلیہ اور چار بیٹوں کے ہمراہ ایک لوہے کا ٹرنک اور لالٹین اٹھائے نماز فجر کے بعد پا پیادہ مردان کے لئے نکل پڑے، اور 20 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے ہوئے تقریباً 8بجے صبح حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ کے دروازے پر پہنچے۔ حضرت میاں صاحبؓ نے حضرت مولانا صاحبؓ کو گلے لگا کر ’’میرا بھائی آگیا، میرا بھائی آگیا‘‘ کہتے ہوئے اس بے سروسامان قافلہ کو اپنے گھر واقع بازار بکٹ گنج مردان میں خوش آمدید کہا۔ ’’محترم مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مذید بیان کرتے ہیں کہ ’’کچھ عرصہ بعد ہم نے حضرت میاں صاحبؓ کے گھر کے ساتھ ایک کچا مکان کرایہ پر لیا اور وہاں منتقل ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد اس مکان کی چھت آدھی گر گئی لیکن مکین بفضل تعالیٰ محفوظ رہے، میں (مولوی عبدالرحمن صاحب) باہر نکلتے ہوئے دروازہ بند کرنے لگا ہی تھا کہ ایک شہتیر میرے ہاتھ پر آ گرا جس سے میرے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، اس حادثہ کے بعد ہم دوبارہ حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ کے گھر منتقل ہو گئے‘‘۔ حضرت میاں صاحبؓ کے ہاں رہائش کے دوران بے سر و سامانی کا یہ عالم تھا کہ حضرت مولانا صاحبؓ کہیں سے گھی کا ایک خالی کنستر لائے تھے، اس میں یہ مہاجر خاندان اپنے لئے چائے بھی تیار کرتے اور سالن بھی پکاتا۔ یہی وہ قربانیاں تھیں کہ جن کے بدلے میں آج ان کی اولاد اور اولاد در اولاد پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان سب پر اللہ تعالیٰ کے افضال گننے میں نہیں آ رہے، اور مسلسل افضال و برکات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔بہر حال کچھ عرصہ بعد حضرت مولانا صاحبؓ مردان کے نواحی علاقہ بغدادہ میں ایک مکان کرایہ پر لے کر اس میں منتقل ہو گئے۔
حضرت مولانا صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ کی وفات مردان میں آپ کی اسی رہائش گاہ میں ہوئی اور بغدادہ کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔
جماعت احمدیہ کے ابتدائی زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کے درخت وجود کی سرسبز شاخوں میں سے چند شاخیں مردان میں حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ کے مکان کی ڈیوڑھی میں اکٹھی ہو کر نمازیں پڑھتیں، جن پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شمع احمدیت کہ ان ابتدائی پروانوں کی تعداد 40 تک جا پہنچی اور وہ ڈیوڑھی انتہائی کم پڑھنے لگی، جہاں یہ نمازی نہایت مشکل سے نمازیں پڑھتے تھے۔
بیت الذکر مردان کی خریداری اور شہادت
اس کے بعد ان ہستیوں نے مردان کے علاقہ بکٹ گنج میں ایک سکھ کا ملکیتی مکان کرایہ پر لیا، جس کے بعد نہایت نامساعد حالات سے نمٹنے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور انتہائی متضرعانہ دعاؤں کے نتیجہ میں مورخہ 17 اگست 1917 کو بکٹ گنج کے علاقہ میں ہی ایک اور جگہ قیمتاً خرید کر اسے باقاعدہ مسجد کی شکل دی۔ اس مسجد کے ساتھ 17 اگست کی تاریخ کی خاص نسبت معلوم ہوتی ہے کیونکہ 17 اگست1917 کو خریدی گئی۔ 17اگست 1986 کو اس وقت کے نمرود کی حکومت میں اس مسجد کو شہید کیا گیا۔ اور ٹھیک دو سال بعد 17اگست 1988 کو ہی وقت کا یہ نمرود اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں ہوا میں ہی جل کر خاکستر ہو گیا۔
تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی، جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت، آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
(کلام طاہر)
ہمت مرداں مدد خدا
تاریخ احمدیت میں حضرت مولانا صاحب کا ایک واقعہ دورِ خلافت اولیٰ کا یوں درج ہے کہ ’’ایک جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک نکاح کا اعلان فرمایا۔ اور فرمایا کہ چھوہارے تقسیم کرنے کے لئے ایک باہمت نوجوان ہے؟ اس پر مولوی چراغ الدین صاحب (مربی سلسلہ احمدیہ پشاور) کے والد معین الدین صاحب آف مردان کھڑے ہوئے۔ حضور نے دیکھتے ہی فرمایا۔ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘
(تاریخ احمدیہ جلد3 صفحہ547-548)
مالی فراخی
قبول احمدیہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا صاحبؓ کی مالی تنگی کو فراخی میں بدل دیا اور حضرت مولانا صاحبؓ نے محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے گاؤں میں دوبارہ تقریباً 40جریب زمین خریدی، اس کے علاوہ بکٹ گنج بازار مردان میں ایک مکان اور قادیان میں اپنے بیٹوں کے لئے مکانات خریدے جن میں مولوی چراغ دین صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب آخر تک وہیں مقیم رہے، تاہم تقسیم ہند کے بعد واپس مردان آگئے، اور سارا خاندان مردان جماعت سے وابستہ رہا۔
جماعتی خدمات
محترم مولانا صاحب ایک لمبے عرصے تک جماعت احمدیہ مردان کے امام الصلوٰۃ رہے، اور بہت سے تبلیغی دورے بھی کئے۔ ان کے ایک زمیندار لال محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کی مسجد میں مولوی وعظ کر رہا تھا کہ قادیانیوں کی دیوار کے سائے میں اگر کوئی بیٹھ جائے تو وہ بھی کافر اور جو اس کا زمیندار ہو تو اس کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔ کچھ دنوں بعد وہی مولوی حضرت مولانا صاحبؓ کی زمینوں میں اپنے گھر کے لئے ایندھن کی لکڑیاں اکٹھی کر رہا تھا، کہ میں (زمیندار) نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ تو قادیانی کی جائیداد ہے، کیا آپ بھی کافر ہوگئے ہیں؟ تو مولوی کہنے لگا کہ اس وقت آپ کے قبضے میں ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں! اسی مسجد میں جا کر ابھی اپنے الفاظ واپس لو کہ جو کچھ آپ نے کہا تھا وہ غلط کہا تھا۔ تو میں یہ ایندھن کی لکڑی خود آپ کے گھر پہنچا دوں گا۔ جس پر اس نے ایسا ہی کیا۔ اور یوں آنحضور حضرت اقدس محمد مصطفٰی سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کی پیشگوئی و تخرج الفتنۃ و فیہم تعود (ترجمہ: کہ انہی میں سے فتنے پھوٹیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے) ایک بار پھر بڑی شان سے پوری ہوئی۔
اسی زمیندار نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں کے لوگ اکثر مجھے تنگ کرتے تھے کہ میں قادیانیوں کا کھاتا ہوں اور مختلف باتیں کرتے تھے، لہٰذا تنگ آمد بہ جنگ آمد، میں نے ان کو کہا کہ مجھے تو اتنا کچھ معلوم نہیں، ایسا کرتے ہیں کہ آپ اپنے مولوی لے آئیں اور میں ان قادیانیوں کو مردان سے لے آؤں گا، پھر آپس میں مناظرہ کر کے دیکھ لیں کہ کون ٹھیک ہے۔ لہٰذا جمعے کے دن عصر کا وقت مقرر کر کے سب کو مطلع کر دیا گیا۔ مردان سے مولوی معین الدین صاحب اور میاں محمد یوسف صاحب وقت پر پہنچ گئے لیکن باقی مولوی نہ آئے۔ جب میں ان کو لینے گیا تو بہت سی کتابیں مجھے دے کر میرے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں پوچھنے لگے کے یہ ’’مضر‘‘ کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ زیادہ تو میں کچھ نہیں جانتا آپ خود پوچھ لینا، لیکن ہاں اتنا پتہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ مولویوں کو مت کھلاؤ پلاؤ، ان کو صدقہ خیرات مت دو۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ وہیں رک گئے اور کہنے لگے کہ یہ ہمارا حق نہیں مانتے تو ان کے ساتھ باتیں کرنا ہی کفر ہے۔ اور وہیں سے واپس ہو گئے۔ زمیندار کہتا ہے کہ واپس آ کر میں نے حضرت مولانا صاحب اور حضرت میاں صاحب رضوان اللہ علیہم کو سارا ماجرا سنا دیا۔ لہٰذا وہ واپس مردان چلے گئے۔
تحریک جدید میں شمولیت
حضرت مولوی صاحب بفضل اللہ تعالیٰ موصی تھے اور 1934ء کے پانچ ہزاری مجاہدین میں (نمبر شمار 4011، کمپیوٹر کوڈ 3825پر) تاحال شامل ہیں، الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔ خلافت کے ساتھ ان کا بہت لگاؤ تھا ایک دن بھی خلافت سے علیٰحدہ نہیں رہے۔ زیادہ وقت قادیان میں گزارتے، صاحب کشف و الہام اور مستجاب الدعوات بزرگ بھی تھے، گاؤں کے اکثر غیر احمدی لوگ مشکل وقت میں باوجود مخالفت کے حضرت مولانا صاحب ہی کی طرف دعا کے لئے رجوع کرتے۔ حضرت مولانا صاحب خود بھی جماعت اور خلافت سے ہمیشہ وابسطہ رہے اور اولاد کو بھی نصیحت کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان کی پانچویں نسل چل رہی ہے اور محض اور محض اﷲ کے فضل و کرم سے تمام اولاد در اولاد جماعت اور خلافت سے وابسطہ ہیں، اﷲ تعالیٰ آئندہ بھی آپ کی تمام نسل کو تاقیامت جماعت اور خلافت سے وابسطہ رکھے، آمین۔
وفات
حضرت مولانا صاحبؓ نے تقریباً 82 سال کی لمبی عمر پاکر یکم جون 1950ء کو مردان میں وفات پائی، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
آپ مردان کے عام قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں یادگاری کتبہ نصب ہوا۔ اس کتبہ کے مطابق آپؓ کا سن ولادت1868ء، سن بیعت 1907ء، تاریخ وصیت 31 جولائی 1936ء، وصیت نمبر 4608 جبکہ حصہ وصیت 5/1 درج ہے۔
(ابو الابرار)