سید ومولیٰ رحمۃ للعالمین، خیر الوریٰ، پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے عورت کا وقار، عزت و احترام دنیا میں کچھ اس طرح قائم کیا کہ اس کو آبگینے سے تشبیہ دے کر اور قدرت کا بہترین انعام قرار دے کر یہ خوشخبری دی کہ اَلجَنَّۃُ تَحْتَ اَقدَامِ الْاُمَّھَاتِ کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
اسلام میں جہاں عورت کے پورے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے وہاں ان پر ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ جہاں آپﷺ نے عورت کو اس کا حقیقی بلند مقام عطا فرمایا وہاں اسے اولاد کی تربیت کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا۔ چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَّكُلُّكُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهٖ اَلْإِمَامُ رَاعٍ وَّمَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِيْ أَهْلِهٖ وَهُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهٖ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِيْ بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُوْلَةٌ عَنْ رَّعِيَّتِهَا
(صحیح بخاری حدیث نمبر893)
تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگران ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور آتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا اسلام کی تعلیمات بھول کر شرک، جہالت، بدعات، رسم ورواج کے اندھیروں میں گم تھی۔ عیسائیت کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ اس تاریک دور میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نورایمان کی شمع جلائی۔ مخلوق کو خدا تعالیٰ کے قریب کیا۔ آنحضرتﷺ کی محبت لوگوں کے دلوں میں بٹھائی۔ عورتوں کو بھی ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
تقویٰ اختیار کرو دنیا سے اور اس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو۔ کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو۔ خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو کہ تاتم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل وجان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ81)
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد خدائی وعدہ کے مطابق خلافت کا عظیم الشان نظام شروع ہوا۔ اسلام احمدیت کی روشنی کا سفر پوری دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔
جماعت احمدیہ عالمگیر کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح موعودؓ نے جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو قائم کرکے ہم سب پر احسانات کئے اور آپ کے احسان کا یہ دائرہ صرف مردوں کے لئے نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنے دور خلافت کےابتدائی سالوں میں ہی خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک تنظیم قائم کرنے کا ارادہ فرما لیا تھا تا کہ خواتین اپنی تنظیم کے لائحہ عمل کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ کردار کی حامل ہوں اور دینی و دنیاوی تعلیمات سے آراستہ ہو کر اپنی اولاد کی بہتر رنگ میں پرورش کر سکیں تا احمدیت کا مستقبل روشن اور تابناک ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ کا ایک الہام تھا کہ
’’اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی‘‘
(الفضل 29؍اپریل 1944ء صفحہ3)
آپؓ نے احمدی مستورات کی مذہبی، تعلیمی، ذہنی، فکری اور عملی ترقی کے لئے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ آپؓ نے مستورات کو بتلایا کہ وہ بھی بنی نوع انسان کا ایک جزو لاینفک ہیں۔ اور قوموں کی ترقی وتنزل میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ عورت کی گود آئندہ نسل کا گہوارہ ہے اگر عورتیں نیکی وتقویٰ میں آگے بڑھنے والی ہونگی تو اولاد بھی نیکی وتقویٰ پر چلنے والی ہوگی۔
25 دسمبر 1922ء کا مبارک تاریخی دن
حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق 25 دسمبر 1922ء کو خواتین حضرت اماں جانؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے خطاب فرمایا اور اس کے ساتھ ہی لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور خوا تین مبارکہ کی مقدس قیادت میں یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے سفر پر روانہ ہوا اور ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر گیا۔ حضورؓ کی ہدایات کی روشنی میں احمدی خواتین نے اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لئے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتوں کی تنظیم اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ابتدا میں اس میں شمولیت اختیاری تھی البتہ 1939ء میں اس کا فیض عام کرنے کے لیے ہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیا۔
لجنہ اماء اللہ تنظیم کا پس منظر
حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) کو خدمت دین کا بڑا شوق تھا ان کی خواہش کے مطابق سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ایک معین لائحہ عمل بنا کر جماعت کی عورتوں کے سامنے پیش کیا جو حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا تھا۔ اور یہ تاریخ میں لجنہ اماء اللہ کے متعلق ابتدائی تحریک کے نام سے مشہور ہے۔ اس مضمون میں سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کے بنیادی مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور لجنہ اماء اللہ کی ممبر بننے کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ اسے پڑھے اور پڑھ کردستخط کرے۔ یہ اسکیم حضورؓ نے 15 دسمبر 1922ء کو مستورات کے سامنے پیش کی تھی جس پر 14 خواتین نے دستخط کئے تھے۔
(الفضل 11 جنوری 1923 صفحہ9)
15دسمبر 1922ء کو آپؓ نےجو مضمون تحریر فرمایا اس کی اوّلین مخاطب گو قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے۔ جس میں آپؓ نے مستوارت کو ایک لائحہ عمل دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولولالعزم ہستی نے تجویز فرمائے۔ ان میں علم حاصل کرنا اور دوسروں تک علم پہنچانا، اسلام کی حقیقی تعلیمات جاننا اور ان پر عمل کرنا، جماعت میں اتفاق اور وحدت کی روح قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہنا، اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی ہمہ وقت سعی کرنا، بچوں میں خدا اور رسولِ خداﷺ، حضرت مسیحِ موعودؑ اور خلفائے کرام کی محبت پیدا کرنا، خلافت کی اطاعت کا درس دینا اور سب سے اہم یہ دعا کرنا کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں خالقِ حقیقی نے مد نظر رکھے ہیں۔
آخر میں آپؓ نے لکھا تھا کہ جو اس تحریک کے مندرجات سے متفق ہیں وہ دستخط کردیں۔ اس پر چودہ خواتین نے دستخط کیے- یہ دستخط کنندگان حضورؓ کے ارشاد پر 25دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا اوراس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ تجویز فرمایا۔ آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں۔ حضرت اماں جانؓ لجنہ کی پہلی پریذیڈنٹ منتخب ہوئیں۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔ چنانچہ حضرت سیدہ ام ناصرؓ اپنی وفات تک جو کہ 31 جولائی 1958ء کو ہوئی یہ فرض نبھاتی رہیں۔ حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ) اس تنظیم کی پہلی سیکرٹری تھیں۔
(الفضل 8فروری 1923ء۔ تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ اول صفحہ66-72،
تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ303)
15 دسمبر کو جو مضمون حضور نے تحریر فرمایا وہ من وعن درج کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا کہ
ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہماری زندگی کس طرح صَرف ہونی چاہئے جس سے ہم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں الله تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں۔
اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوشش سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کےذریعہ سے ہوسکتا ہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔ ان امور کو مدنظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی مؤید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کوتسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کر کے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد سے جلد شروع کر دیا جائے۔
(1) اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
(2) اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تا کہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔
(3) اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔
(4) اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد وضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کر دہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممدّ ہوں۔
(5) اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکینِ انجمن کے لکھے ہوں تا کہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو۔
(6) اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سےلیکچر کروائے جائیں۔
(7) اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جوبھی خلیفۂ وقت ہواس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔
(8) اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحادجماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم، آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہرایک قربانی کو تیاررہو۔
(9) اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے، پینے، پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسرے کی پوری مدد کرنی چاہیئے اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہیئے۔
(10) اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسول، مسیح موعوداور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کی منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش اُن میں پیدا کرو، اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔
(11) اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جاوے نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔
(12) چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پر ہنستے اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھےکی پروا نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یامجالس کےٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سےبرداشت کا سبق اور اس کی طاقت پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تا کہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔
(13) اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے لئے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہم خیال بنائی جائیں اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہوا پنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔
(14) اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متّفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطيبِ خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔
(15) چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں چھوٹے بڑے، غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیاجائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
(16) اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پرخدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔
(17) اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اس لئے دعا کی جاوے اور کروائی جاوے۔ کہ ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں جو ہماری پیدائش میں اس نے مدنظر رکھے ہیں اوران مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پراطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکھے یہاں تک کہ اس دنیا کی عمر تمام ہو جائے۔
اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کر کے پاس کئے جارہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہربانی کر کے اس کاغذ پر دستخط کر دیں۔ بعد میں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے۔
(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ304-306، الازھار لذوات الخمار حصہ اول صفحہ52۔ 55)
ابتدائی 14 ممبرات کے نام
جنہوں نے اس پر سب سے پہلے دستخط کئے
- حضرت ام محمود سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ
- حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ(بنت حضرت مسیحِ موعودؑ)
- حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
- حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہؓ (بنت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ، وحرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
- حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہ (حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
- ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ
- صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ
- مریم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ
- حمیدہ خاتون خورشید صاحبہ بنت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب
- رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب
- کلثوم بانو صاحبہ اہلیہ قاضی محمد عبداللہ صاحب
- میمونہ خاتون صوفیہ صاحبہ اہلیہ مولوی غلام محمد صاحب
- سائرہ خاتون صاحبہ اہلیہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے
- بشریٰ بیگم صاحبہ بنت مکرم ماسٹر شیخ عبد الرحمٰن صاحب
مسجد برلن کے لئے چندہ
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تاثیر قدسی سے احمدی مستورات میں جو انقلاب پیدا کیا۔ اُن میں مالی قربانیوں کا ذکر بھی بڑی کثرت سے ملتا ہے۔ 2فروری 1923ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہا نے مسجد برلن جرمنی کی تعمیر کے لیے خواتین کو مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ جس پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مستورات نے حیرت انگیز اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لیے حضورؓنے 50ہزار روپیہ تین ماہ میں اکٹھا کرنے کا اعلان فرمایا۔ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بعد یہ سب سے پہلی مالی تحریک تھی جس کا خالصتاً تعلق مستورات سے تھا۔ اس تحریک نے احمدی خواتین کے مطمح نظر کو یکسر اتنا بلند کر دیا کہ ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا ہو گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں تھی۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ116-118)
اس قربانی کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے الفضل کے ایک مضمون میں کچھ یوں فرمایا:
مجھے مسجد برلن کے چندہ کے متعلق اعلان کیے ابھی ایک ماہ نہیں گزرا کہ ہماری بہنوں کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے نظیر ایثار کے سبب سے چندہ کی رقم بیس ہزار سے اوپر نکل چکی ہے ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے اور درحقیقت ہمارے پاس ایمان اور محبت باللہ و محبت بالرسل…کے متاع کے سوا کہ وہی حقیقی متاع ہے اور کوئی دنیوی متاع اور سامان نہیں ہے۔
(الفضل قادیان یکم مارچ 1923ء صفحہ1)
آج اللہ تعالیٰ کے خا ص فضل اور پیارے آقا سیدنا حضرت مرزامسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تربیت، رہنمائی اور دعاؤں سے لجنہ اماء اللہ عالمگیر کی کامیابیوں کا سفر جاری ہے۔
پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع اجتماع لجنہ اماء اللہ بھارت پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
میرا پیغام یہ ہے کہ آپ احمدی مستورات ہیں جنہوں نے خداتعالیٰ کے خاص فضل سے زمانے کے امام کو مانا اور آپؑ کے بعد خلافت احمدیہ سے وابستہ ہوکر اس کی برکات سے متمتع ہورہی ہیں۔ آپ نے خلیفۂ وقت کی رہنمائی میں اسلامی تعلیمات سے سب دنیا کو روشناس کرواناہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ اور آپ کی اولاد ان تعلیمات پرعمل پیرا ہو تاکہ آپ اپنے قول وفعل دونوں سے اسلامی تعلیمات کا پرچار کرسکیں۔
عورتوں کے بارے میں ہمارے پیارے دین کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم پردہ ہے۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ اسلام عورت کی عزت اوراحترام کا اور حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ یہ کوئی جبر نہیں ہے کہ عورت کو پردہ پہنایا جاتاہے یا حجاب کا کہا جاتاہے۔ بلکہ عورت کو اس کی انفرادیت قائم کرنے اور مقام دلوانے کے لیے یہ سب کوشش ہے۔ اس کے برعکس اسلام مخالف قوتیں بڑی شدت سے زور لگارہی ہیں کہ مذہبی تعلیمات اور روایات کو مسلمانوں کے اندرسے ختم کیا جائے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں اورخاص طورپر احمدی مسلمانوں، مردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدارکو قائم رکھنے کی کوشش نہ کی توپھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑمیں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا۔
حیا ایمان کا حصہ ہے اور حیا عورت کا ایک خزانہ ہے اس لیے ہمیشہ حیا دار لباس پہنیں۔ ہمیشہ یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پردے کا حکم دیا ہے تویقیناً اس کی کوئی اہمیت ہے۔ مائیں نیک نمونہ دکھائیں اور اپنی بچیوں کو چھوٹی عمر سے اس کی عادت ڈالیں…پھر آج کل کے سائنسی دور میں بہت سے نئے ذرائع ہیں مثلاً انٹرنیٹ، موبائل فون، سوشل میڈیا وغیرہ۔ یہ وقت ضائع کرتے اوربرے خیالات پیدا کرتے ہیں۔ احمدی ماؤں کی یہ ذمہ داری ہے کہ خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی ان کے منفی اور غلط استعمال سے بچا کر رکھیں۔ اسی طرح اگرٹی وی پر غلط پروگرام دیکھے جارہے ہیں تویہ ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمرکی جو بچیاں ہیں ان کی بھی ہوش کی عمرہوتی ہے، ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں …پس ہر احمدی عورت کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے۔ اپنا تقدس قائم رکھنا چاہیے اوریہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم احمدی ہیں اوردوسروں سے فرق ہے۔ یادرکھیں کہ آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں۔ اگران بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ آپ کو میری ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
(الفضل آن لائن 28 جنوری 2020ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ہم پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر حکم پر دل و جان سے عمل کریں۔ ہماری زندگیوں کا مقصد خدا تعالیٰ اور رسولِ خداﷺ کی محبت اور اطاعت ہو۔ اس تنظیم کے 100 سال پورے ہونے کی خوشی میں لجنہ اماء اللہ تنظیم کی ہر ممبر یہ عہد کرتی ہے کہ
میں اقرار کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان مال، وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی اور خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گی۔ ان شاءاللہ
خدمتِ دین کو اک فضلِ الٰہی جانو
اس کے بدلہ میں کبھی طالبِ انعام نہ ہو
رغبتِ دل سے ہو پابند نماز و روزہ
نظرانداز کوئی حصۂ احکام نہ ہو
ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو
سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو
ظلمتِ رنج و غم و درد سے محفوظ رہو
مہرِ انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو
(کلام محمود)
(مریم رحمٰن)