• 7 جولائی, 2025

صحابیاتِ رسولؐ کی قربانیاں

(ممبرات لجنہ کے ایمان و ایقان کو بڑھانے اور ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کی تصدیق کے لئے ایک خصوصی تحریر)

قرب الٰہی کے لئے صدق و وفا کے ساتھ کوئی سختی برداشت کرنا قربانی کہلاتاہے۔ عربی میں قربانی کے لئے نسک، نسیکہ کا لفظ ہے جس کا مطلب فرمانبرداری اور بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ الٰہی جماعتوں کو ثبات قدم اور ترقیات عطا فرمانے کے لئے ان کو آزمائشوں اور امتحانات میں ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئےسب سے زیادہ قربانیاں دینے کی توفیق اللہ کے پیارے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ کو ملی۔ قرآن گواہ ہے:

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾

(الانعام: 163)

مخالفین کو کہہ دے کہ میں جان کو دوست نہیں رکھتا۔ میری عبادت اور میرا جینا اور مرنا خدا کے لئے ہے وہی حقدار خدا جس نے ہر یک چیز کو پیدا کیا ہے۔

(شحنۂ حق، روحانی خزائن جلد2 صفحہ330)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اپنے آقا و مطاع اور آپؐؐ کے اصحاب کرامؓ کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
’’ہمارے ہادیٴ اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسولؐ کے لئے کیا کیا جاں نثاریاں کیں، جلاوطن ہوئے۔ ظلم اٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کئے جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے پس وہ کیا بات تھی جس نے انہیں ایسا جاں نثار بنا دیا۔ وہ سچی محبت الٰہی کا جوش تھا۔ جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کرلیا جائے، آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرادینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ27)

قربانیوں میں صحابیات رسولؐ بھی پیش پیش تھیں۔ اس مضمون میں چالیس سال سے بڑی عمر کی صحابیات کی قربانیوں کا ذکر ہوگا۔

اپنے آباء اجداد کا مذہب چھوڑ کر رضائے الٰہی کی خاطر دین اسلام میں شامل ہونا جبکہ آنکھوں کے سامنے کفار مکہ کے مظالم بھی تھے بجائے خود ایک بہت بڑی قربانی ہے جس کی ذیل میں ایک ایک صحابیہ کا نام لکھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں شامل ہونے والی ساری صحابیات جن کو صرف لقائے الٰہی کی خاطر وطن اور گھر بار کو خیر باد کہنا پڑا بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند فرمائے آمین۔

سب سے پہلے اپنی محترم ماں کا ذکر ہے جن کو ہر قسم کی قربانی میں اولیت کا مقام حاصل ہے۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ

چالیس سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ اپنے آباؤ ا جداد سے ورثے میں پایا ہوا سارا سرمایہ جسے خود محنت کرکے بڑھایا تھا نبی کریمﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا کیونکہ آپ کے دل نے حق الیقین کے ساتھ یہ گواہی دی تھی کہ میرا ساتھی قابل اعتماد اورمخلص ہے۔ یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ اس سرمائے نے اسلام کی مضبوطی میں کردار ادا کیا۔ دنیا نے آنحضورﷺ کے حسین کردار کا یہ رخ دیکھا کہ آپؐ کو دولت کی کوئی لالچ نہیں اور وہ غربا و مساکین کے ہمدرد ہیں۔ غلاموں کو آزاد کرنے سےآپؐ کے انسانی حقوق کی پاسداری کا جذبہ عیاں ہوا۔ ایک خاتون کی قربانی بہت رنگ لائی جس کی تصدیق خود رسول اللہﷺ نے فرمائی آپؐ کا ایک قول شاہد ہے فرمایا: خدیجہؓ نے اس وقت اپنے مال سے میری مدد کی جب باقی لوگوں کو اس کی توفیق نہیں ملی۔

(مسند احمد جلد6 صفحہ118)

آنحضورﷺ کو آپؓ کے غلام زید بن حارثؓ کی خدمات پسند آئیں۔ آپؓ نے فوراً زید کو آپؐ کی خدمت میں دے دیا اور حضورؐ نے ان کو آزاد کردیا۔

(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ110)

اپنے شوہر کا عبادت میں شغف دیکھا تو حارج نہیں ہوئیں بلکہ معاون ہو کر دل وجان سے خدمت میں لگ گئیں۔ غار حرا کی تنہائی میں عبادت کے زمانے میں آپؓ کم و بیش پچپن سال کی ہوں گی۔ خود آپؐ کے لئے کھانا تیار کرکے دیتیں اور کبھی زیادہ دن ہوجاتے تو خود کھانا لے کر غار حرا میں جاتیں، غار حرا کے سنگلاخ رستے اور بلندی کو ذہن میں رکھ کر اس عظیم خاتون کی قربانی کا اندازہ لگائیے۔ یہ اتنا بڑا کام تھا کہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بھی تحسین کا پیغام آیا۔ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور فرمایا:
’’یا رسول اللہﷺ ! یہ حضرت خدیجہؓ ایک برتن لئے آرہی ہیں جس میں سالن کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے جب یہ آپ کے پاس آجائیں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہئے اور جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دیجئے جس میں کوئی شورو شغب یا تھکان نہ ہوگی۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الفضائل الصحابہ باب فضل خدیجہؓ)

جب آنحضورﷺ کو منصبِ نبوت عطا ہوا اس وقت دونوں کی رفاقت کو پندرہ سال ہو گئے تھے۔ فکری ہم آہنگی دیکھئے کہ اس اولوالعزم خاتون نے تائید کرکے ایسا جملہ کہا جو آپؐ کے اسوہ حسنہ کا آئینہ دار بنا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے اپنی جان کا ڈر ہے جواب دیا: ’’ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آپؐ کی جان کو کوئی خوف یا خطرہ لاحق ہو بلکہ آپؐ کو بشارت ہو کہ کوئی عمدہ پیغام آپؐ کے پاس آیا ہے اللہ تعالیٰ کبھی آپؐ کورسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور سچی بات کہتے ہیں۔ آپؐ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ایسے اخلاقِ فاضلہ رکھنے والے انسان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘

(بخاری کتاب بدء الوحی)

آنحضورﷺ نے آپؓ کے سب سے پہلے ایمان لانے کی تصدیق فرمائی:
خدیجہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب باقی لوگوں نے انکار کیا۔ اور جب سب دنیا نے تکذیب کی اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی تھی۔

(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ227)

اسلام اور بانی اسلام کی مخالفت کا زور و شور دیکھیں اور ایک خاتون کی قربانی دیکھیں۔ کہ ہر وار سہا لینے کے عزم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ آپؓ ذی وجاہت خاتون تھیں جس کی وجہ سے دشمن بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ روکنے پر مجبور ہوجاتے کیونکہ وہ حضرت خدیجؓہ سے مرعوب تھے۔

7 نبوی میں قریش نے اسلام کی تباہی کے لئے یہ تدبیر سوچی کہ محمدﷺ اور آپ کے خاندان کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا جائے۔ ان محصورین میں محمدﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ بھی شامل تھیں۔ تین سال کا یہ عرصہ مسلسل قربانیوں میں گزرا۔ کھلے آسمان کے تلے بھوک پیاس، موسم کی شدتیں، عزیزوں سے جدائی بہت کچھ سہا۔ مگر رسولِ خداؐ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ کس قدر خوش قسمت خاتون تھیں جن کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’واقعہ یہ ہے کہ خدیجہؓ سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی تھی جب ساری دنیا میرا انکار کر رہی تھی اور اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب ساری دنیا مجھے جھٹلا رہی تھی اور اس وقت اس نے اپنے مال کے ساتھ میری ہمدردی اور خیر خواہی کی جب تمام لوگ مجھے چھوڑ چکے تھے۔ اے عائشہ میں کیا کروں خدیجہؓ کی محبت تو مجھے پلا دی گئی ہے اور میرے دل میں بٹھا دی گئی ہے۔‘‘

(مسلم کتاب الفضائل باب فضل خدیجہؓ)

پچیس سال آپؐ کی سکینت کا سامان بننے والی اس دنیا سے رخصت ہوئی تو آپؐ نے اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) قرار دیا اور زندگی بھر یاد کرتے رہے۔

ام المؤمنین حضرت سودہؓ بنت زمعہ

حضرت سودہؓ کا ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شمار تھا۔ ہجرت حبشہ میں شامل تھیں۔ دین کی خاطر وطن چھوڑنے کی قربانی کی سعادت نصیب ہوئی۔ شوہر کا حبشہ میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ آپؓ پچاس سال کی تھیں اور پانچ چھ بچوں کی ماں تھیں کہ جب رسول اللہﷺ کی طرف سے شادی کا پیغام ملا تو عرض کیا مجھے نکاح میں کوئی روک نہیں کیونکہ آپؐ مجھے سب دنیا سے زیادہ عزیز ہیں مگر مجھے آپؐ کا احترام پیش نظر ہے کہ کہیں بچوں کی وجہ سے حضورؐ کو تکلیف نہ ہو۔ آپؐ کی طرف سے بڑا حوصلہ افزا جواب ملا فرمایا اس کے علاوہ تو کوئی بات نہیں۔ قریش کی نیک عورتیں بچوں کی کم سنی میں نہایت شفقت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال و متاع کا خیال رکھنے والی ہوتی ہیں۔ یہ حسن ظنی دعا بن کر لگی اور آپؓ نے واقعی اپنے بچوں کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے چار بیٹیوں کی ذمہ داری باحسن ادا کی۔ گھر کو خوبی سے سنبھالا۔ اس شادی کے تین سال بعد رسول اللہﷺ نے متعدد شادیاں کیں لیکن آپؓ نے تدبر سے کام لیا اور اچھے سلوک سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس طرح جذبات کی قربانی دے کر گھر کا سکون بحال رکھا۔ ایک اور بہت بڑی قربانی دیکھئے آخری عمر میں اپنی باری کا دن حضرت عائشہؓ کودے دیا۔ اس میں آنحضورؐ کی سہولت اور خوشنودی منظور تھی۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ

قریباً 12 سال کی عمر میں سن دو ہجری کو شادی ہو ئی 8سال عرصہ رفاقت میسر آیا۔ 65 سال کی عمر میں 17رمضان 58 ہجری کو وفات پائی۔ آنحضورﷺ سے جو تعلیم و تربیت حاصل کی اس کا حق ادا کیا۔ اپنی ساری عمر دوسروں کی درس و تدریس اصلاح وتربیت میں گزارای۔ دنیا اور اس کی مال و دولت سے بے رغبتی اور مالی قربانی کی کئی مثالیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے ایک دفعہ آپ کو دو تھیلے اشرفیوں کے بھجوائے جن میں ایک لاکھ اسّی ہزار درہم تھے۔ حضرت عائشہؓ اس دن روزے سے تھیں۔ آپ ان کو تقسیم کرنے بیٹھ گئیں اور اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اٹھیں جب تک سارے درہم تقسیم نہیں ہوگئے۔ افطاری کے وقت آپ کی لونڈی کہنے لگیں ام المؤمنین! ایک درہم اپنے لئے بھی رکھ لیتیں اس سے گوشت خرید کر افطاری کرلیتیں۔ فرمانے لگیں تم یاد دلا دیتیں تو رکھ بھی لیتے گویا انہیں اپنی ضرورتوں کا بھی خیال نہیں تھا اور سب کچھ خدا کی راہ میں لُٹا دیتی تھیں۔

(طبقات الکبریٰ جلد8 صفحہ67)

حضرت امیر معاویہؓ نے ایک دفعہ ایک لاکھ درہم کا ہار آپ کی خدمت میں بھجوایا۔ آپؓ نے اسے قبول تو کرلیا لیکن تمام ازواج میں برابر کا تقسیم کردیا۔

(مستدرک حاکم جلد4 صفحہ15)

ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ

آپؓ شادی کے وقت 36سال کی تھیں۔ 5ہجری میں نکاح ہوا تھا۔ 5 سال عرصہ رفاقت نصیب ہوا۔ 52سال کی عمر میں 20 ہجری میں وفات پائی۔ آنحضورﷺ سے ملنے والی تعلیم و تربیت کا اثر نمایاں تھا۔ فراخ دلی اور زرو مال سے بے رغبتی کی کئی مثالیں ہیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں جب اموال غنیمت آئے تو انہوں نے حضرت زینب بنت جحشؓ کی خدمت میں ان کا حصہ بھجوایا۔ وہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ سمجھیں کہ ساری ازواج کا حصہ تقسیم کرنے کے لئے میرے پاس بھجوایا ہے۔ بڑی سادگی سے فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ عمرؓ کو بخشش عطا فرمائے ساری بیویوں کا مال تقسیم کے لئے مجھے بھجوانے سے بہتر تھا کہ وہ کسی اور بیوی کو بھجواتے جو زیادہ بہتر رنگ میں اسے تقسیم کرتیں۔ جب بتایا گیا کہ یہ تو صرف آپؓ کے لئے ہے تو فرمایا کہ سبحان اللہ، اتنا زیادہ مال میرے لئے بھجوادیا ہے۔ پھر آپؓ نے اسے کھولنا بھی پسند نہ فرمایا اور سب درہم و دینار گھر کے کسی کونے میں رکھوا کر اوپر کپڑا ڈال دیا۔ جو خادمہ مال لے کر آئی تھی ان سے فرمایا کہ اس میں ہاتھ ڈال کر جتنا ہاتھ میں آتا ہے لے لو پھر وہ بعض ایسے مستحقین کو بھجوایا جو یتیم بچے تھے اور ان سے آپؓ کا رحمی رشتہ تھا۔ پھر مسلسل ایک کے بعد دوسرے گھر بھجواتی رہیں یہاں تک کہ جب تھوڑا سا بچ گیا تو تقسیم کرنے والی خاتون برزہ بنت رافع نے کہا:
’’اے ام المؤمنین! اب تو بہت تھورا سا بچ گیا ہے۔ اس مال میں آپ کا بھی حق ہے اور آپ نے تو سارے کا سارا تقسیم کردیا۔‘‘

اس پر آپؓ فرمانے لگیں کہ اچھا جو باقی رہ گیا ہے وہ سارا تمہارا ہے۔ برزہ کہتی ہیں کہ میں نے اسے شمار کیا تو صرف پچاسی درہم باقی بچے تھے وہ بھی حضرت زینبؓ نے مجھے عطا کردئے۔

(طبقات الکبریٰ ابن سعد جلد3 صفحہ301)

پھر حضرت زینبؓ دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہنے لگیں کہ اے اللہ! اس سال کے بعد میں یہ مال لینا نہیں چاہتی گویا انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ اتنا مال ان کے گھر میں آئے اور پھر اس سے اگلے ہی سال حضرت زینبؓ کی وفات ہوگئی اور وہ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔

(ازواج النبیؐ لامام محمد بن یوسف صفحہ189بیروت)

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ

مکہ کے سردار ابو سفیان کی بیٹی تھیں سات ہجری میں 18سال کی عمر میں نکاح ہوا۔ 60سال عمر پائی۔ 3سال رفاقت نصیب ہوئی۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد خلفائے کرام ؓسے محبت و ادب اور وفا کا تعلق قائم رکھا۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو سب سے پہلے حضرت ام ّحبیبہؓؓ پانی مہیا کرنے کی غرض سے حضرت عثمانؓ کے گھر آئیں۔ جب آپؓ ان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپؓ کو روکنا چاہا۔ بعض نے کہا بھی کہ یہ امّ الموٴمنین اُمّ حبیبہؓ ہیں مگر اس پر بھی وہ شورش پسند باغی باز نہ آئے اور آپؓ کی خچر کو مارنا شروع کر دیا۔ آپؓ نے خلیفہ ٔوقت کے پاس جانے کے لئے یہ معقول وجہ بھی بیان فرمائی کہ مجھے خدشہ ہے کہ بنو امیہ کے یتامیٰ اور بیوگان کی وصایا جو حضرت عثمانؓ کے پاس ہیں ضائع نہ ہو جائیں تاکہ ان کی حفاظت کا سامان کردوں مگر ان بدبختوں نے آنحضرتﷺ کی زوجہ مطہرہ کی بات ماننے کی بجائے نہایت بے ادبی سے آپؓ کی خچر پر حملہ کرکے اس کے پالان کے رسّے کاٹ دئیے اور زین الٹ گئی۔ قریب تھا کہ آپؓ گر کر مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جاتیں اور شہید ہو جاتیں کہ بعض مخلصین اہل مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر انہیں سنبھالا اور گھر پہنچایا۔

(خلاصہ از اہل بیت رسول اللہ حافظ مظفر احمد صفحہ180)

حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلب

نبی کریمﷺ کی پھوپھی تھیں۔ اور قریباً آپؐ کی ہم عمر تھیں۔ بہت بہادر اور دلیر خاتون تھیں۔ اکثر جنگوں میں شریک ہوئیں زخمیوں کی مرہم پٹی، پانی پلانا تو دستور تھا ضرورت پڑی تو تلوار بھی اٹھالی۔ غزوۂ احد میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ مسلمان منتشر ہونے لگے۔ آپؓ نیزہ لے کر باہر کھڑی ہوگئیں اور مسلمانوں کو غیرت دلا کر واپس جانے پر مجبور کیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمان واپس آگئے اور آپؐ کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔

حضورﷺ کو ان کی بے پناہ بہادری پر سخت تعجب ہوا اور آپﷺ نے ان کے فرزند زبیرؓ سے فرمایا کہ اے زبیر! اپنی ماں اور میری پھوپھی کی بہادری تو دیکھو کہ بڑے بڑے بہادر بھاگ گئے مگر چٹان کی طرح کفار کے نرغے میں ڈٹی ہوئی اکیلی لڑ رہی ہیں۔

اسی طرح جب جنگ احد میں حضورﷺ کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہؓ شہید ہو گئے اور کافروں نے ان کے کان ناک کاٹ کر اور آنکھیں نکال کر شکم چاک کر دیا تو حضورﷺ نے زبیر کو منع کر دیا کہ میری پھوپھی صفیہ کو میرے چچا کی لاش پر مت آنے دینا ورنہ وہ اپنے بھائی کی لاش کا یہ حال دیکھ کر رنج و غم میں ڈوب جائیں گی۔ مگر صفیہ پھر بھی لاش کے پاس پہنچ گئیں اور حضورﷺ سے اجازت لے کر لاش کو دیکھا تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا اور کہا کہ میں خدا کی راہ میں اس کو کوئی بڑی قربانی نہیں سمجھتی پھر مغفرت کی دعا مانگتے ہوئے وہاں سے چلی آئیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ452 مسند زبیر بن العوام روایت 1418)

غزوۂ احزاب کے وقت آپؓ کی عمر قریباً 58 برس تھی۔ مگر حوصلے جوان تھے۔ بہادری کے جوہر دکھائے۔ جنگ کے موقع پر خواتین اور بچوں کو حفاظت کی غرض سے ایک قلعہ میں بند کردیا گیا تھا۔ آپؓ بھی قلعہ میں تھیں۔ آپؓ نے دیکھا کہ ایک یہودی جاسوس قلعہ کی معلومات لے رہا ہے۔ خطرہ محسوس کرکے یہ سوچا کہ اس کو یہاں سے واپس نہ جانے دیا جائے چنانچہ آپؓ نے خیمہ کی ایک لکڑی اکھاڑ کر اس زور سے اس یہودی کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر اسی کی تلوار سے اس کا سر کاٹ کر قلعے سے باہر پھینک دیا۔ یہودی سمجھے کہ قلعے میں بھی فوج ہے اور وہ دم دبا کر بھاگ نکلے۔ اس طرح ایک خاتون کی بہادری سے مسلمان بہت بڑے نقصان سے بچ گئے۔

حضرت سمیہ بنت خباط۔ ام عمارؓ

’’عمارؓ اور ان کے والد یاسرؓ اور ان کی والدہ سُمیّہ کو بنی مخزوم جن کی غلامی میں سُمیّہ کسی وقت رہ چکی تھیں اتنی تکالیف دیتے تھے کہ ان کا حال پڑھ کر بدن میں لرزہ پڑنے لگتا ہے۔ ایک دفعہ جب ان فدایانِ اسلام کی جماعت کسی جسمانی عذاب میں مبتلا تھی اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرف آ نکلے۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور دردمند لہجے میں فرمایا۔ صَبْرًا اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ۔ یعنی اے آل یاسر صبر کا دامن نہ چھوڑنا کہ خدا نے تمہاری انہی تکلیفوں کے بدلہ میں تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے۔ آخر یاسرؓ تو اسی عذاب کی حالت میں شہیدہو گئے اور بوڑھی سُمیّہ کی ران میں ظالم ابوجہل نے اس بے دردی سے نیزہ مارا کہ وہ ان کے جسم کو کاٹتا ہوا ان کی شرمگاہ تک جا نکلا اور اس بے گناہ خاتون نے اسی جگہ تڑپتے ہوئے جان دے دی۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے صفحہ141)

حضرت اسماءؓ بنت ابو بکرؓ

حضرت اسماءؓ ہجرت کے وقت ستائیس سال کی تھیں۔ آپؓ کا اسلام لانے والوں میں اٹھارواں نمبر تھا۔ قریبا سَو سال زندگی پائی، اس طرح دور جاہلیت بھی دیکھا اور اسلام کا آغاز بھی دیکھا۔ زمانہ نبوت اور خلافت راشدہ بھی آنکھوں کے آگے گزرا اور پھر اپنے بیٹے کا دَور اور شہادت بھی دیکھی۔ آپؓ سادہ مزاج کی تھیں۔ زندگی کے آخری دور میں ان کے بیٹے منذر عراق کی فتح کے بعد لڑائی سے لوٹے تو مالِ غنیمت میں کچھ قیمتی زنانہ کپڑے بھی لائے اور انہیں اپنی والدہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؓ نے قیمتی کپڑے لینے سے انکار کردیا۔ اور حسب معمول موٹے کپڑے ہی پہنتی رہیں۔ صابرہ و شاکرہ تھیں۔ عزم و استقلال اور جرأت اسلامی سے زندگی گزاری اور دوسروں کے لئے مثال بنیں۔

حضرت ام جمیل فاطمہؓ بنت خطابؓ

حضرت عمؓر کی بہن تھیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں اٹھائیسواں نمبر تھا۔ (صحیح عمر کا اندازہ نہیں ہوسکا) ان کی قربانی سے حضرت عمرؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے۔ ایک دن ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائے اور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریمﷺ کے قتل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی نے پوچھاکہ عمرؓ کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (ﷺ)کو مارنے کے لئے جا رہا ہوں۔ اس شخص نے ہنس کر کہا اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ اس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو۔ حضرت عمرؓ وہاں گئے۔ دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابیؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے۔ آپ نے دستک دی۔ اندر سے آپؓ کے بہنوئی کی آواز آئی۔ کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا عمر۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابیؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے اَور اق بھی کسی کونہ میں چھپا کر رکھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا۔ حضرت عمرؓ چونکہ یہ سن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے؟ آپ کے بہنوئی نے جواب دیا آخر دیر لگ ہی جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یہ بات نہیں۔ کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے۔ مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اس صابی کی باتیں سن رہے تھے۔) مشرکین مکہ رسول کریمﷺ کو صابی کہا کرتے تھے) انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمرؓ کو غصہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے۔ آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں۔ حضرت عمرؓ چونکہ ہاتھ اٹھا چکے تھے اور ان کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور ان کا ہاتھ زور سے ان کی ناک پر لگا اس سے خون بہنے لگا۔ حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کیلئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا جاؤ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کیلئے تیار نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا پھر میں کیا کروں؟ بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے۔ بہن نے قرآن کریم کے اَور اق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی ان کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بےاختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ یہ الفاظ سن کروہ صحابیؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے۔ پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے۔ انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپؐ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے۔ بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جا رہے ہوں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم! میں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں پکا وعدہ کرتا ہوں کہ میں کوئی فساد نہیں کرونگا۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ دینی درس ہو رہا تھا۔ کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا عمر! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے۔ حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا دروازہ کھول دو۔ میں دیکھوں گا وہ کیا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میں مخالفت کیلئے نہیں آیا۔ میں تو آپؐ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے۔ حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ141-143)

حضرت فاطمہؓ نے طویل عُمر پائی۔ اُن کا انتقال اپنے بھائی، امیرالمومنین حضرت عُمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں ہوا اور جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

حضرت ام الفضل لبابۃ الکبریٰ ؓ

آنحضورﷺ کی چچی تھیں۔ ام المؤمنین حضرت میمونہؓ کی بہن تھیں۔ اسلام لانے والی دوسری خاتون کا اعزاز حاصل ہے۔ شعب ابی طالب کے محصورین میں شامل تھیں۔ اسی زمانے میں ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ دلیر عورت تھیں ایک موقع پر ابو لہب کو ظلم کرتے دیکھا تو لکڑی مار کر اس کا سر پھاڑ دیا۔ اولاد کی بہترین تربیت فرمائی۔ سب نے علم و فضل میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

حضرت ام شریک دوسیہ ؓ

آپؓ ایمان لائیں تو ان کے اقارب نے ان کو ایذا دینی شروع کی اور اس کے لیے یہ طریق ایجاد کیا کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتے اور اس سخت گرمی کے ساتھ شہد جیسی گرم چیز کھلاتے اور پانی بالکل نہ دیتے تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے حواس مختل ہو جاتے۔ ایسی حالت میں ان سے کہتے کہ اسلام چھوڑ دو۔ مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ سمجھانے کے لیے وہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے تو و ہ سمجھ جاتیں کہ توحید کا انکار کرانا چاہتے ہیں۔ مگر آپ جواب دیتیں کہ یہ ہرگز نہ ہوگا۔

حضرت خنسا بنت عمرو ؓ

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو حضرت خنساءؓ اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے کہا کہ پیارے بیٹو! تم نے اسلام کسی جبر کی وجہ سے اختیار نہیں کیا اس لیے اس کی خاطر قربانی کرنا تمہار افرض ہے۔ خدا کی قسم میں نے نہ تمہارے باپ سے کبھی خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا۔ یہ دنیا چند روزہ ہے اور اس میں جو آیا وہ ایک نہ ایک دن مرے گا۔ لیکن خوش بخت ہے وہ انسان جسے خدا تعالی کی راہ میں جان دینے کا موقع ملے۔ اس لیے صبح اٹھ کرلڑنے کے لیے میدان میں نکلو اور آخر وقت تک لڑو۔ کامیاب ہو کر واپس آؤ۔ نہیں تو شہادت کا مرتبہ حاصل کرو۔ سعادت مندبیٹوں نے بوڑھی ماں کی اس نصیحت کو گوش ہوش سے سنا اور لڑائی شروع ہوئی تو ایک ساتھ گھوڑوں کی باگیں اٹھائیں اور نہایت جوش کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے کفار پر ٹوٹ پڑے اور چاروں نے شہادت کادرجہ پایا۔ دلاور ماں نے جب بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو ان کو قربانی کا یہ موقع ملنے پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

(اسد الغابہ جلد1 صفحہ560)

حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ

آپؓ آنحضورؐ کی عزیزہ تھیں۔ ایک دفعہ آنحضورﷺ قبا کی بستی میں ان کے ہاں آرام فرما رہے تھے۔ خواب میں دیکھا کہ امت کے کچھ لوگ سمندر میں جہاد فی سبیل اللہ کے لئے آمادۂ سفر ہیں۔ خواب سن کر آپؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ دعا کریں کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہو۔‘‘

آپؐ نے دعا کرکے فرمایا: ’’تم اس جماعت میں شامل ہو‘‘

اس عظیم خاتون کے شوقِ شہادت کے بارے میں آنحضورؐ کا فرمان عہد عثمانی میں پورا ہوا۔ 28 ہجری میں حاکم شام امیر معاویہ نے امیر المؤمنین کی اجازت سے جزیرہ قبرص کی فتح کے لئے بحری بیڑہ روانہ کیا حضرت ام حرامؓ بھی اپنے شوہر عبادہ بن صامتؓ کے ہمراہ اس لشکر میں شامل ہوئیں۔ مسلمان کامیاب ہوئے قبرص فتح ہوا۔ واپسی کے لئے گھوڑے پر سوار ہونے لگیں تو گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئیں اور جانبر نہ ہو سکیں۔ پہلی بحری جنگ میں شہادت کا درجہ ملا۔ قبرص میں مدفون ہیں۔

حضرت ام عمارہ ؓ

آپؓ کا تعلق بنو نجار سے تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ آپؓ مدینہ کے اس وفد میں شامل تھیں جس نے 13 نبوت میں مکہ کی گھاٹی میں آنحضورﷺ کی بیعت کی تھی اور آپؐ کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی تھی۔ آنحضورﷺ کی ہجرت کے وقت آپؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے تو آپؓ استقبال کرنے والوں میں شامل تھیں۔ ہجرت کے تیسرے سال لشکر کفار کی آمد کی خبر کے ساتھ جنگی تیاریاں شروع ہوئیں تو حضرت ام عمارہؓ نے جنگ میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور پانی پلانے کے لئے ساتھ جانے کی درخواست کی جو منظور ہوگئی۔ آپؓ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئیں۔ زخمیوں کو پانی پلاتے ہوئی جب آپؓ نے آنحضورﷺ کو خطرے میں پایا تو مشکیزہ پھینک کر تلوار اٹھائی اور حضورﷺ کے قریب پہنچ کر دفاع شروع کیا۔

کفار آپؐ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بے جگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے۔ آپ کے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے۔ جو آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے۔ ایسے نازک اور خطرناک موقع پر یہ جری خاتون آپؐ کے لیے سینہ سپر تھیں۔ کفار جب آنحضرتﷺ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں۔ آنحضرتﷺ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام عمارہ کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قمیہ جب آنحضرتﷺ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا۔ اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا۔ اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہوجاتا۔

(سیرت ابن ہشام ذکر احد)

بزرگ صحابیات کے واقعات پڑھ کر دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ محض رضائے الہی کے لئے ہمیں بھی جان، مال، وقت، اولاد اور عزت کی قربانی کی توفیق ملے۔ جیسے آج ہم ان کی قربانی کے واقعات پڑھ کر رشک کر رہے ہیں آئندہ نسلیں ہمیں دعائیں دیں۔ آمین اَللّٰھم آمین۔

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ ربوہ کی پیاری یادیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022