قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ
(اٰل عمران: 111)
تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔
دنیا میں انسان کی پہچان کے مختلف طریق ہیں جن میں سے دو اہم ہیں کچھ اپنی بات چیت سے پہچانے جاتے ہیں اور کوئی اپنے کردار اور عمل سے اپنی پہچان بناتا ہے۔ بالعموم معاشرہ میں دیکھیں تو بعض لوگوں کو اپنی باتوں سے دوسروں کو قائل کرنے کا فن آتا ہے۔ لیکن ثانی الذکر لوگ سیرت و کردار اور اپنے اعمال و اخلاق سے معاشرہ میں پہچان بناتے ہیں۔ انہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مگر ایک کامیاب انسان وہی کہلاتا ہے جو ان دونوں پہلوؤ ں سے اپنی پہچان اور شناخت کے انمٹ نمونے معاشرے میں قائم کرے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’اسلامی معاشرہ میں مردوں اور عورتوں دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے اس لئے اسلام نے عورت کے حقوق و فرائض کی ادائیگی کی بھی اسی طرح تلقین فرمائی ہے جس طرح مردوں کے حقوق و فرائض کی۔ عورت ہی ہے جس کی گود میں آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور عورت ہی ہے جو قوموں کے بنانے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے… اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو … وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی خوبصورت … تعلیم کودنیا میں پھیلانے … میں ہم تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 22جولائی 2005ء)
اسی حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلّمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ صرف گھر کی معلّمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلّمہ کے طور پر بھی۔ …حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو… بعض اوقات آپؓ نے علوم دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہؓ بکثرت آپؓ کے پاس دین سیکھنے کے لئے آپؓ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے۔ پردہ کی پابندی کے ساتھ آپؓ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔‘‘
(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بر موقع جلسہ سالانہ انگلستان 26جولائی 1986ء)
کیسی خوبصورت بات ہے جس میں نہ صرف عورت کے مقام کو اجاگر کیا گیا بلکہ عورت کے علم کے معاملہ میں سبقت لے جانے کی مثال بھی سامنے آتی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں ’’پس آج روئے زمین پر صرف احمدی ہیں، آپ ہیں جو کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ کا مصداق بن کر فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ کو قائم کئے ہوئے ہیں، اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 30نومبر 2012ء صفحہ6)
یہی وجہ ہے کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا مقصد ابتدا ہی سے احمدی مستورات کے پیش نظر ہے اور خاندان مسیح موعودؑ کی خواتین وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کی لازوال قربانیوں اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے نمونوں سے تاریخ احمدیت کے صفحات مزین ہیں۔ سب سے پہلے جس مبارک ہستی کا ذکر کرنا چاہوں گی وہ سیّدہ نصرت جہاں بیگم المعروف حضرت اماں جانؓ ہیں۔ جنہوں نے اپنے کردار اور عمل سے قرون اولیٰ کے دور کی یادتازہ کردی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تصنیف میں حضرت اماں جانؓ کے حوالے سے تحریر فرمایا:
’’… خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی رُوح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اِس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اِس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ275)
حضرت اماں جانؓ کی قربانیوں کی نظیر نہیں ملتی۔ کوئی موقع ایسا نہیں کہ اسلام کے لیے کسی مالی ضرورت کا سامنا ہو اور آپؓ نے اس میں حصہ نہ لیا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےجب منارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے ایک اعلان فرمایا۔ آپؑ نے ایک اشتہار ’’اپنی جماعت کے خاص گروہ کے لیے‘‘ شائع فرمایا اور ایک سَو ایک خدام کومخاطب فرمایا کہ وہ ایک ایک سَو روپیہ اس مقصد کے لیے ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خدام کو توفیق دی کہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہیں۔ حضرت اقدسؑ نے مینارے کی تعمیر پر دس ہزار روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔ حضرت اماں جانؓ نے اپنی ایک جائیداد واقع دہلی کو فروخت کر کے اس رقم کا 10/1حصہ ادا کیا۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ113تا117)
یہ واقعہ حضرت اُمّ المومنین کی قربانی کا بے نظیر نمونہ ہے نیز حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑکی ہر تحریک اور کام پر اس قدریقین کامل تھا کہ اس کے لیے اپنے اموال کو خرچ کرنے میں ذرا دریغ نہیں فرماتی تھیں۔
حضرت اماں جانؓ کی زندگی کا ہر لمحہ خواتین اور احباب جماعت کی ترقی اور بہبود میں صَرف ہوتا۔ مدرسۃ البنات کے لیے آپؓ نے اپنےگھر کا ایک حصہ پیش کردیا۔ آپؓ کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مسجد بنانے کی تحریک ہو یا کہیں مبلغ سلسلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو، لٹریچر کے لیے رقم کی ضرورت ہو یا تحریک جدید نے پکارا ہو۔ آپؓ ہر تحریک میں بڑی فراخدلی سے حصہ لیتی تھیں اور سب سے پہلے اپنا چندہ ادا فرماتی تھیں یہاں تک کہ بعض مواقع پر اپنی جائیداد اور زیورات فروخت کرکے خوشی سے امام وقت اور خلیفۂ وقت کے قدموں میں پیش کردیتیں۔ صرف تحریک جدید کے پہلے نو سال میں آپؓ نے مجموعی طور پر 3142روپے پیش کیے۔
(ماخوذ از سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم از یعقوب علی عرفانی صفحہ295-301)
حضرت اماں جانؓ کی مالی قربانیوں کا تذکرہ تاریخ احمدیت میں ان الفاظ میں ہے کہ ’’جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جانؓ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد14 صفحہ105)
اسی طرح تربیت اولاد و نگہداشت کا اہم کام بھی عورت کے ہی سپرد ہے نپولین کا یہ قول تمام دنیا میں مشہور و معروف ہے کہ ‘‘تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’…. علاوہ اپنی روحانی علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔‘‘
(الازھار لذوات الخمار حصہ اوّل صفحہ52)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں
’’بچہ کی سب سے اعلیٰ تربیت گاہ اس کی ماں ہے… اگر ہماری ساری عورتیں یہ ذمہ داری ادا کرنے والی ہو جائیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ’’پچاس فیصد بھی ہو جائیں تو نسلوں کی حفاظت کی وہ ضمانت بن جائیں گی۔‘‘
(ماخوذ از لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے، انوار العلوم جلد17 صفحہ296)
ان کے دین کو سنوارنے والی بن جائیں گی۔ ان کاخدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی بن جائیں گی۔ اسی طرح اپنی اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ماؤں کا کام ہے …ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر قوانین کی پابندی کے لئے تیار کرنا ماؤں کا کام ہے۔ برائی اور اچھائی میں تمیز پیدا کروانا ماؤں کا کام ہے۔‘‘
(الفضل انٹر نیشنل21تا27 اکتوبر 2016ء صفحہ6)
اس پہلو سے بھی جب ہم حضرت امّ المومنینؓ کی سیرت پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ایک بہترین ماں کا نمونہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
استانی سکینۃ النساء بیگم تحریر فرماتی ہیں:
’’… حضرت امّ المومنینؓ اپنے بچوں، بہو، بیٹیوں کی عبادات وغیرہ کے متعلق پوری توجہ سے نگرانی فرماتیں۔ نماز تہجد کا خاص اہتمام فرماتیں اور ہمیشہ خاندان کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنے کی تاکید فرماتی رہتیں۔‘‘
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ حصہ اوّل صفحہ273-274 مصنف شیخ محمود احمد عرفانی)
یہ نیک نمونے مختلف پہلوؤں سے ہمیں آپ کی بیٹیوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگمؓ کے پردہ کے حوالے سے امتہ الودودصاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ’’آپؓ پردہ کی بڑی سختی کے ساتھ پابندی کرتی تھیں۔ آپؓ بیمار تھیں اور روزانہ ڈاکٹر آپؓ کو دیکھنے آتا تھا۔ لیکن حتی الامکان ڈاکٹروں سے پردہ کرتی تھیں۔ ایک دفعہ کسی نے عرض کی کہ ڈاکٹر تو آپ کوروزانہ دیکھنے آتا ہے۔ اور بیماری کی حالت میں اس نے آپ کودیکھا بھی ہے اس لیے اگر آپ ڈاکٹر سے پردہ نہ کریں تو کیا حرج ہے۔ فرمانے لگیں۔ اللہ کا حکم ہے عورت غیر مرد سے پردہ کرے اس لیے میں کیوں اللہ کے حکم کی نافرمانی کروں بیماری اور بے ہوشی کی حالت میں پردہ نہ کر سکنا تو ایک مجبوری ہے۔ چنانچہ آپ کا معمول تھا کہ جب ڈاکٹر آتا تو آپ اپنا چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اسی طرح آپ کے پاس جو لڑکیاں آپ کی خدمت کے لیے رہتی تھیں انہیں پردہ کرنے کی تلقین فرماتیں۔ اور چھوٹے ڈوپٹے اوڑھنے سے منع کرتی تھی۔ فرماتیں کہ تم گھر میں بھی بڑی چادر اوڑھا کرو اس میں وقار ہے۔‘‘
(دخت کرامؓ صفحہ407-408)
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے گھر والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ عنایت ہونی چاہئے کہ ہم بھی آپؑ کی صحبت سےکچھ فیض حاصل کریں۔ اس سے پہلے حضور علیہ السلام نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی جو بطور در س تھی، چند روز بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ اور مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں۔
(ماخوذ از سیرت مہدی، جلد اول، حصہ سوم صفحہ776-777)
کسی نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے کہ
Education is not only education but formation.
کہ تعلیم صرف حصول تعلیم کا نام نہیں بلکہ اپنے کردار و سیرت کو سنوانے اور اس تعلیم کواپنے اوپر لاگو کرنے کا نام ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت میں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم نے خلیفہ وقت کی سرپرستی اور خوا تین مبارکہ کی مقدس قیادت میں اپنے اندر روحانی تبدیلی پیدا کرنے اور دینی تعلیم و تربیت میں پرورش پانے کے لیے مساعی شروع کی اور مختلف دینی مہمات میں صفِ اوّل کی مجاہدات ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان اعلیٰ خدمات کا اظہار اپنوں نے ہی نہیں بلکہ غیروں نے بھی کیا کہ احمدی عورتیں اصلاحِ معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
حضرت ام ناصر صاحبہ کی عظیم الشان قربانی جو تاریخ احمدیت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اخبار الفضل کا اجرا 18جون 1913ء کوہوا۔ آپ خواتین میں علم پھیلانے کی اپنے شوہر کی لگن کو خوب سمجھتی تھیں۔ آپ نے اپنا گھر، اپنی صلاحیت،اپنا وقت سب کچھ وقف کر دیا اور مال تو بہت زیادہ قربان کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ اپنی اس حرم اور اپنی بیٹی صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے بے نظیر ایثار اور قربانی کا ذکر اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ …انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔‘‘
(یادایام، انوار العلوم جلد8 صفحہ369)
ایک موقع پہ حضرت مصلح موعو رضی اللہ تعالیٰ عنہ احمدی مستورات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ …میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگروہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے۔‘‘
(الازھار لذوات الخمار،حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ صفحہ411-410)
ایک موقع پہ حضرت مصلح موعو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’امۃ الحئی اپنی ذات میں بھی نہایت اچھی بیوی تھیں… ان کا علمی مشغلہ، وہ بیماری اور کمزوری میں عورتوں کو پڑھانا، وہ علمی ترقی کا شوق نہایت درجہ تک جاذب قلب تھا۔
… سارہ بیگم کی زندگی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ ان تینوں لفظوں میں آجاتا ہے پیدائش پڑھائی اور موت۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی پڑھنا شروع کیا اور شادی سے پہلی پڑھائی تو غالباً علم کی خاطر ہوگی لیکن شادی کے بعد ان کی پڑھائی فقط دین کی خدمت کی خاطر تھی ….دوسری عورتیں اپنے نفس یا اپنی قوم کیلئے تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے اپنے آخری سالوں میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے، اسلام کی خدمت کیلئے تعلیم حاصل کی۔ اس لئے اس بوجھ کو اٹھایا کہ جماعت کی مستورات کی دینی اور دنیوی ترقی کیلئے مفید ہو سکیں۔ … اُن کی وفات پر درد صاحب کی ہمشیرہ نے مجھے پیغام بھجوایا کہ بیماری کی حالت میں کہتی تھیں کہ میں نے توسیع مسجد اقصیٰ کے لئے ایک سَو روپیہ چندہ دینے کی نیت کی ہوئی ہے اور اپنا گلو بند بیچ کر اس میں سے اس رقم کو ادا کرنا ہے اگر میں مر گئی تو حضرت صاحب سے کہنا کہ میری طرف سے میراگلو بند فروخت کر کے سو روپیہ چندہ تو سیع مسجد اقصیٰ میں دے دیں۔‘‘
(میری سارہ، انوار العلوم جلد13 صفحہ83-90)
’’1946ء کے الیکشن میں حضرت سیدہ ام داؤدؓ کی نگرانی میں ہنگامی بنیادوں پر خواتین کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام ہوا۔ قادیان اور اس کے نواحی دیہات میں خواتین نے نمایاں کام کیا۔‘‘
(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ629 ایڈیشن 2009ء)
قربانی و ایثار کے باب میں مردوں کے دوش بدوش احمدی مستورات نے بھی کئی اہم سنگ میل نصب کیے ہیں۔ مسجد فضل لندن، مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) اور مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی تعمیر کے تمام تر اخراجات خواتین نے ہی برداشت کیے ہیں-
لجنہ اماء اللہ کی طرف سے حضرت سیّدہ امۃ الحئی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عید کے موقع پر ان راجپوت عورتوں کے لیے دوپٹوں کے تحفے بھیجے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔
(ماخوذ ازتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ122-123 ایڈیشن2009ء)
1927ء میں لجنہ اماء اللہ کو تحریکِ تحفظ ناموسِ رسولؐ میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ آریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول جیسی اشتعال انگیز کتاب لکھ کر اہل غیرت کو للکارا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پُر زور تحریک چلائی اور خواتین سے اپیل کی کہ وہ چندہ جمع کریں۔ خواتین نے بہت جلد مطلوبہ رقم جمع کی اس کے علاوہ 22جولائی 1927ء کو حضرت سیّدہ سارہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی زیر صدارت ایک جلسہ کر کے نَو ریزولیوشنز (RESOLUTIONS) پاس کیں جس کی نقل ہزایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھی بھیجی گئی۔ یہ ریزولیوشنز خواتین کی بیدارمغز ی، بہادری، جرأت اور دلیری کی آئینہ دار ہیں۔
(الفضل قادیان 26؍جولائی 1927ء صفحہ10)
اسی طرح تبلیغ میں بھی خواتين کسی سے پيچھے نہ تھيں۔ 20فروری 1934ء کے الفضل ميں حضرت سيدہ اُمّ طاہرؓ کی جانب سےا يک رپورٹ شائع ہوئی جس ميں آپ تحرير فرماتی ہيں:
’’لجنہ کو خدا کے فضل سے تبليغی کام کی طرف خاص توجہ ہے اور ممبرات اپنے اپنے حلقہ ميں تبليغ کا کام کرتی رہتی ہيں۔ سال زير رپورٹ ميں حسبِ دستور سيرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ قاديان ميں زيراہتمام لجنہ منعقد ہوا۔ اور خدا کے فضل سے بہت کامياب رہا۔ حاضرات کی تعداد جن ميں غيرمسلم عورتيں بھی کثرت سے شامل تھيں۔ سات آٹھ سو کے قريب تھی۔ يوم التبليغ ميں بھی لجنہ نے خاص طور پر حصہ ليا۔ ہندو اور سکھ خواتين کے ہاں جانے کے علاوہ اچھوت کہلانے والی قوم کے محلہ ميں بھی ممبرات اور دوسری بہنوں نے جا کر انفرای طور پر تبليغ کی۔ جس کے نتيجہ ميں خدا کے فضل سے بہت سی عورتوں نے اسلام قبول کيا۔ اور کئی غيراحمدی عورتوں نے بيعت کی، فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔‘‘
(الفضل قادیان 20فروری 1934ء صفحہ5)
ان کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مضمون ’’میری مریم‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں آپؓ بیان کرتے ہیں:
’’مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا مَیں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا۔ ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سِوا اِس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں کو اِس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ اِنہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا…جب سارہ بیگم فوت ہوئیں تو مریم کے کام کی روح اُبھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا۔ جماعت کی مستورات اِس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امۃ الحئی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے۔‘‘
(میری مریم، انوار العلوم جلد17 صفحہ353-354)
حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی ازواج کو تعلیم دے کر احمدی خواتین کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی خدمت پر لگا دیں۔ حضرت سیدہ امۃ الحئیؓ حضرت سیدہ سارہ بیگمؓ اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ کے عرصۂ حیات مختصر ہونے کی وجہ سے یہ شوق آپؓ کے بلند عزائم کے مطابق پورا نہ ہوسکا۔ اور یہ سعادت حضرت چھوٹی آپا کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔ آپ نے تیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضورؓ کی خوشنودی حاصل کی۔ تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔ حضورؓ نے 1947ء کے بعد بالعموم اپنےخطوط، مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔
(گلہائے محبت صفحہ95)
حضرت سیدہ ناصرہ بیگم حضرت مصلح موعودؓ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے بعد دوسرے نمبر پر تھیں۔ آپ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ جو حضرت اُمّ ناصرؓ کے نام سے جانی جاتی ہیں اُن کے بطن سے اکتوبر 1911ء میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی دنیاوی اور دینی تعلیم پر اُس وقت کے حالات کے مطابق زور دیا، آپ کو پڑھایا، آپ کو ایف۔ اے تک تعلیم دلوائی، پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت سیدۃ امۃ الحئی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات پر اظہار فرمایا تھا کہ میرے ذہن میں عورتوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق ایک سکیم آئی ہے اس کا عملی اظہار 17مارچ 1925ء کو ہوا جب ایک مدرسہ کھولا گیا اور میری والدہ بھی اس مدرسہ کی ابتدائی طالبات میں سے تھیں۔ 1929ء میں اس مدرسے کی کل سات خواتین نے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور سب کامیاب رہیں جن میں آپ بھی شامل تھیں۔
سیدہ ناصرہ بیگم کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’میری والدہ وہ تھیں جنہوں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تو نہیں دیکھا لیکن ابتدائی زمانہ دیکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیار اور دعائیں حاصل کیں۔ صحابہ اور صحابیات سے فیض پایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب کے زمانے کے زیرِ اثر اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی بیٹی اور بچوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے براہِ راست فیض یاب ہونے والوں کی صحبت کا اثر اُن میں نمایاں تھا۔ آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، بول چال، رکھ رکھاؤ میں ایک وقار تھا اور وقاربھی ایسا جو مومن میں نظر آنا چاہئے۔ ….لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اس کے لئے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں۔ نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں۔ یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیارکی ہو۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل مؤرخہ 26 اگست تا یکم ستمبر 2011ء صفحہ5-9)
حضور انور اپنی خالہ صاحبزادی امۃ النصیر بیگم کی وفات پر انکا ذکر خیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’صاحبزادی امۃ النصیر بیگم جو میری خالہ بھی تھیں… ان کی پیدائش اپریل 1929ء میں حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہؓ کے بطن سے ہوئی تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی حرمِ ثالث تھیں، تیسری بیوی تھیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات جب ہوئی ہے تو صاحبزادی امۃ النصیر بیگم صرف ساڑھے تین سال کی تھیں۔ تو آپ کے بچپن کے جذبات اور احساسات کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک مضمون میں کھینچا ہے۔ وہ ایسا نقشہ ہے جسے پڑھ کر انسان جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مَیں اپنے آپ پر بڑا کنٹرول رکھتا ہوں۔ کم از کم علیحدگی میں جب پڑھ رہا تھا تو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بہر حال اُس میں سے کچھ حصے جو ان کے بچپن سے ہی اعلیٰ کردار کے متعلق ہیں مَیں بیان کروں گا۔ اور اس میں بھی ہر ایک کے لئے بڑے سبق ہیں۔ جیسا کہ میَں نے کہا کہ ان کی عمر صرف ساڑھے تین سال تھی جب ان کی والدہ فوت ہوئیں۔ لیکن اُس بچپنے میں بھی ایک نمونہ قائم کر گئیں۔ اور وہ مضمون جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لکھا ہے بڑا تفصیلی مضمون ہے۔ …میری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری خالہ کو اُن کی والدہ کی وفات کے بعد حضرت امِ ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کر دیا تھا …اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اُس وقت میری والدہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ان کا خیال رکھنا۔ میری والدہ ان سے تقریباً 19سال بڑی تھیں اور بچوں والا تعلق تھا۔ جب میری والدہ کی شادی ہوئی ہے تو اُس وقت ہماری یہ خالہ سات آٹھ سال کی یا زیادہ سے زیادہ نو سال کی ہوں گی۔ جب میری والدہ کی رخصتی ہونے لگی تو خالہ نے ضد شروع کر دی کہ میَں باجی جان کے بغیر نہیں رہ سکتی میَں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پھر سمجھایا تو خیر سمجھ گئیں۔ خاموش تو ہو گئیں اور بڑی افسردہ رہنے لگیں لیکن وہی صبر اور حوصلہ جو ہمیشہ بچپن سے دکھاتی آئی تھیں اُس کا ہی مظاہرہ کیا۔ بہر حال پھر بعد میں حضرت اماں جان اُمُّ المؤمنین کے پاس رہیں۔
1944ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک کی تو آپ نے اپنا تمام زیور اس میں پیش کر دیا۔ تیرہ سال کی عمر میں قادیان میں منتظمہ دارالمسیح کا فریضہ انجام دیا۔ سیکرٹری ناصرات قادیان بھی رہیں۔ ہجرت کے بعد رَتن باغ اور پھر ربوہ میں خدمات سرانجام دیں۔ اُن کو ہر طرح مختلف موقعوں پر خدمت کا موقع ملا اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ اُن کو کسی عہدے کی خواہش ہو۔ عہدہ رکھتے ہوئے بھی اگر ایک معمولی سا کام کہا گیا تو فوراً اُس کے لئے تیار ہو جاتی تھیں۔ علمی اور انتظامی لحاظ سے، دینی تعلیم کے لحاظ سے بڑی باصلاحیت تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ رَتن باغ لاہور میں ممانی جان حضرت صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ رات کو دورہ کرتی تھیں اور جن کے پاس اوڑھنے کو کپڑا نہیں ہوتا تھا اُن کو کمبل دیا کرتی تھیں… مسجد مبارک ربوہ کی سنگِ بنیاد کی تقریب میں ایک اینٹ پر دعا کرنے والی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواتین میں شامل تھیں۔ جب ربوہ آباد ہوا تو کچے مکان تھے۔ ان کو وہاں بھی ربوہ کے کچے مکانوں میں لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر ان کو صدر لجنہ حلقہ دارالصدر شمالی بڑا لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ ہر موقع پر جو بھی خدمت ان کے سپرد ہوئی، جو بھی عہدہ تھا بڑی عاجزی سے خدمت کیا کرتی تھیں۔
(خطبہ جمعہ 18؍نومبر 2011ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی زندگیوں کو ایسے خوبصورت کردار سے مزین کرنے کی توفیق دے تاہم بھی ان پاک نمونوں کو دیکھتے ہوئے اپنے خدا کے محبوب بندے بن سکیں۔ آمین۔
(درثمین احمد۔ جرمنی)