• 28 اپریل, 2024

اصحاب رسولؐ بحیثیت انصار اللہ

خدائے رحمٰن و رحیم جب دنیا میں انبیاء کی بعثت فرماتا ہے تو اُن کی نصرت کے لیے مخلصین کی ایک جماعت بھی انہیں عطا کرتا ہےاور اس لحاظ سے بھی آنحضرت ﷺ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپؐ کو عطا کی گئی جماعت میں وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی اور اس فدائیت اور وارفتگی کا اظہار ہمیں آغاز اسلام سے ہی صحابہ میں نظر آتا ہے۔ سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ نے جو مومنوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی طرح نَحْنُ أَنْصَـارُ اللّٰہِ بننے کی تاکید فرمائی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحابۂ رسولؐ بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس مقام سے پیچھے تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ ﷺ کے انصار کی تھی، اس لحاظ سے علامہ فخر الدین الرازیؒ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے بہت ہی عمدہ معنی بیان فرمائے ہیں، وہ لکھتے ہیں:

قوله: ’’كُوْنُوْا أَنْصَـارَ اللّٰہِ‘‘ أمر بإدامة النصرة والثبات عليه، أي ودوموا على ما أنتم عليه من النصرة، ……. (تفسير مفاتيح الغيب، التفسير الكبير/الرازي (ت 606ھ)۔ سورۃ الصف آیت نمبر 14) یعنی ’’انصار اللہ ہو جاؤ‘‘ میں یہ حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نصرت اور مدد دینے میں مداومت اور ثبات حاصل کرو یعنی نصرت دین کی جس حالت پر تم ہو اِس پر ہمیشہ قائم رہو۔

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو مزید فعّال اور منظّم کرنے کے لیے جب ذیلی تنظیموں میں تقسیم فرمایا تو اس میں مجلس انصار اللہ قائم کرنے کی جہاں اور اغراض تھیں وہاں ایک غرض یہ بھی تھی کہ مجلس انصار اللہ کے ممبران اپنے اندر صحابہ رسولؐ جیسی روح پیدا کریں چنانچہ حضورؓ نے اپنے افتتاحی خطاب بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ 1956ء میں اصحاب رسولؐ کی عظیم الشان قربانیوں کی مثالیں دیتے ہوئے فرمایا: ’’جب ہم انصارؓ کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں اُن کے نقش قدم پر چلیں تو یقینًا اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے….‘‘

(سبیل الرشاد جلد اول صفحہ106)

یہ در اصل معلم و مزکی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی قوت قدسیہ کا اثر تھا کہ صحابہ نے ایسی عظیم الشان تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کیں اور حیرت انگیز قربانیاں پیش کرنے والے ہوئے۔ مجلس انصار اللہ کا عہد ہے کہ ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظامِ خلافت کی حفاظت کے لیے ان شاء اللہ آخر دم تک جد و جہد کرتا رہوں گا اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہوں گا، نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔ ان شاء اللہ۔‘‘ یعنی ہم اپنی زبان سے اس عہد کو دہرا کر اپنے آپ کو یہ باتیں ذہن نشین کراتے ہیں کہ یہ وہ کام ہیں جو ہم نے سر انجام دینے ہیں لیکن اصحاب رسولؐ کے وجود ایسے تھے جنہوں نے عملی طور پر اس عہد کی باتوں کو پورا کر کے دکھایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ (الاحزاب: 24) یعنی اُن میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا کے الفاظ میں خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ پایا۔ اس مضمون میں اصحاب رسولؐ کی زندگی سے چند واقعات پیش کیے جا رہے ہیں جو ہمیں دین اسلام کی مضبوطی، اس کی اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔

دین اسلام کی مضبوطی
اور اس کی اشاعت کے سامان کرنا

دین حق کو قبول کرنے کے بعد اس کی حفاظت اور مضبوطی بہت ضروری امر ہے، روایات میں ایمان کے متعلق آتا ہے ’’يَزِيدُ وَيَنْقُصُ‘‘ کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔ پس ایمان لانے اور دین کو قبول کرلینے کے بعد مومن کا فرض ہے کہ اپنے ایمان کو گھٹنے سے بچائے اور اس کے ازدیاد کی فکر کرے۔ صحابہ رسولؐ اس لحاظ سے اپنا محاسبہ کرتے رہتے تھے چنانچہ حضرت حنظلہ بن ربیع الکاتب رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ وہ حالت جو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ہوتی ہے وہ حالت آپؐ کی مجلس سے اٹھنے کے بعد نصیب نہیں ہوتی پس نَافَقَ حَنْظَلَةُ کہ حنظلہؓ  تو منافق ہوگیا ہے۔ (جامع ترمذی كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله باب نمبر59) پس جہاں ایمان اور دین کی مضبوطی کی اس قدر فکر ہو وہاں کیسے یہ تصور ہو سکتا ہے کہ دین میں کمی واقع ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام صوم و صلوٰۃ وغیرہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ وقت نکال کر اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں پہنچاتے تھے اور آپؐ کی پاکیزہ صحبت سے فیض پاتے تاکہ حضور ﷺ کے فرمودات سنیں اور اُن پر عمل کرنے والے ہوں۔ اس نیک کام کی طرف اتنی توجہ تھی کہ ایک طبقہ صحابہ کا ’’اصحاب الصفہ‘‘ کہلایا یعنی وہ جو حصول دین کی خاطر رسول اللہ ﷺ کے در پہ پڑے رہتے تھے۔ کسب معاش کی ذمہ داری بھی انسان پر واجب ہے لیکن صحابہ جب اس ذمہ داری کے لیے جاتے تو رسول اللہؐ کی مجلس سے غیر حاضری کے ازالہ کے سامان بھی ساتھ کر جاتے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور میرے ایک انصار پڑوسی نے باریاں مقرر کی ہوئی تھیں کہ ایک دن وہ آپؐ کی صحبت میں دن گزارا کرے اور ایک دن مَیں۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کو رسول اللہ ﷺ کی باتیں بتایا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب العلم باب التَّنَاوُبِ فِي الْعِلْمِ)

حضور ﷺ کی محفل میسر نہ آتی تو آپس میں مجلس لگا کر فرمان الٰہی اور فرمان رسول کو دہراتے تاکہ دین کی باتیں ذہن نشین رہیں اور ان میں کوئی سستی واقع نہ ہو۔حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کبار صحابہ میں سے ایک تھے، وہ جب بھی کسی دوسرے صحابی سے ملتے تو کہتے تَعَال نُؤْمِنْ بِرَبِّنَا سَاعَةً (الاصابہ فی تمییز الصحابہ کتاب العین ذکر عبداللہ بن رواحہؓ) یعنی آؤ تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک عظیم المرتبت صحابی تھے، انہوں نے ایک شخص سے کہا اِجْلِسْ بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً. (بخاری کتاب الایمانبَابُ الإِيمَانِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلٰى خَمْسٍ‘‘) یعنی ہمارے ساتھ بیٹھو تاکہ ہم کچھ دیر ایمان والے بن جائیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مومن نہیں تھے بلکہ یہ مراد ہے کہ ایمان کی باتیں کر کے ایمان تازہ کر لیں کیونکہ ایمان افروز باتیں کرنے سے ایمان میں تجدید آجاتی ہے اور از سر نو ایک تازگی اور بشاشت پیدا ہوجا تی ہے اور اپنی دینی حالت کو مضبوط کرنے کی یہ بھی ایک صورت ہے۔

دین کی مضبوطی اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اوامر کی ادائیگی یعنی جن کاموں کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اُن کو بجالانا۔ اور نواہی سے اجتناب یعنی جن کاموں کے کرنے سے دین نے روکا ہے اُن سے اجتناب کرنا۔ حدیث میں آیا ہے: اَلْإِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَةً کہ ایمان کے ساٹھ سے کچھ زائد حصے ہیں۔ (بخاری کتاب الایمان) اصحاب رسولؐ کی زندگی ان تعلیمات کے عملی نمونے سے بھری پڑی ہے۔ توحید کا اقرار اور شرک سے بیزاری، اتباع قرآن، محبت رسولؐ، اطاعت رسولؐ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، والدین کی اطاعت و خدمت، صلہ رحمی، پڑوسیوں سے حسن سلوک، یتامیٰ کی خبر گیری، سلام کو رواج دینا، جنازے کے ساتھ جانا، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا، ان کی تربیت کرنا، تبلیغ اسلام، جہاد، انفاق فی سبیل اللہ، ایثار، حیا وغیرہ یہ وہ سرخیاں ہیں جن پر ایمان اور عمل دین کو مضبوط کرتا ہے اور صحابہ کی سیرت انہی سرخیوں کی عمدہ مثال ہے۔

دین اور ایمان کی مضبوطی کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ معاندین کے پروپیگنڈے اور ان کی فتنہ پردازیوں سے اپنے آپ کو بچا کے رکھا جائے، ان کے پیدا کردہ وساوس اور دی گئی لالچ کو ردّ کر دیا جائے۔ معاندین اور منافقین کی پھیلائی گئی شر انگیزیوں اور فتنوں کا اصل علاج تو واقعہ افک کے ضمن میں مذکور یہی قرآنی فرمان ہے کہ لَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا (النور: 13) یعنی جب تم نے یہ بات سنی تھی تو کیوں نہ مومن مردوں اور عورتوں نے اپنی قوم کے متعلق نیک گمان کیا۔ مزید فرمایا: وَلَوۡلَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۷﴾ یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِہٖۤ اَبَدًا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۸﴾ (النور: 17-18) یعنی کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اِس بات کو سنا تھا تو فورًا کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اِس بات کو آگے دوہرائیں۔ اے خدا! تو پاک ہے یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اس قسم کی بات کے دوبارہ کرنے سے ہمیشہ کے لیے روکتا ہے اگر تم مومن ہو۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی اس مضمون میں نہایت مفید ہے کہ مِنْ حُسْنِ الْاِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهٗ مَا لاَ يَعْنِيْهِ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب التَّثَبُّتِ فِي الْفِتْنَةِ) یعنی بندے کے بہترین اسلام کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ ان باتوں سے دور رہے جن سے اُس کو کوئی کام نہیں۔ پس جب ایمان نصیب ہوگیا ہے تو پھر ایسے پروپیگنڈے، ایسے لٹریچر، ایسے بیانات اور ایسی وڈیوز وغیرہ سے احتراز ہی میں ایمان کی سلامتی ہے ورنہ ایسے پروپیگنڈے کا مقصد صرف اور صرف تعلقات اور ایمان کے رشتوں میں دراڑیں ڈالنا ہے۔ اس ضمن میں حضرت کعب بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ کی نہایت عمدہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ جب وہ بغیر کسی عذر کے غزوہ تبوک میں شامل نہ ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے سزا کے طور پر مسلمانوں سے اُن کا مقاطعہ کرایا، یہ دن اُن کے لیے نہایت سخت تھے، انہی سزا کے دنوں میں حضرت کعبؓ کو غسان کے گورنر کا یہ خط ملا کہ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللّٰہُ بِدَارِ هَوَانٍ وَّلَا مَضْيَعَةٍ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ حِينَ قَرَأْتُهَا وَهٰذِهٖ أَيْضًا مِّنَ الْبَلَاءِ ‏.‏ فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّوْرَ فَسَجَرْتُهَا بِهَا (صحیح مسلم كتاب التوبة باب حَدِيثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ‏) یعنی ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ تمہارے صاحب نے تم سے لا تعلقی کر لی ہے۔ اللہ نے تمہارے لیے بس رسوائی اور ہلاکت کا گھر ہی نہیں بنایا تم ہمارے ساتھ آ ملو ہم تمہاری خیر خواہی کریں گے۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ جب میں یہ خط پڑھا تو اپنے آپ سے کہا کہ یہ (خط) بھی ایک ابتلاء ہے پس میں نے اُسے آگ میں پھینکنے کی نیت کر لی اور اُسے جلا ڈالا۔

دین کی اشاعت میں بھی صحابہ کا کردار نہایت اعلیٰ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تاکید فرمائی تھی بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ اٰيَةً (بخاری کتاب أحاديث الأنبياءباب مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ) یعنی میری باتیں آگے پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ یا فتح مکہ کے موقع پر حاضر صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَآئِبَ یعنی جو یہاں حاضر ہیں وہ (میرا یہ پیغام) غیر حاضر لوگوں کو پہنچادیں۔ چنانچہ صحابہ نے ہمیشہ اس حکم نبویؐ کی تعمیل میں قرآن اور رسولؐ کے پیغام کی اشاعت میں اپنی زندگیاں بسر کیں چنانچہ مؤخر الذکر حکم رسولؐ کی پیروی میں ہی حضرت ابو شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کے دور میں ایک مرتبہ امیر مدینہ عمرو بن سعید کوجبکہ وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا، کہا کہ اے امیر! مجھے اجازت دیں، میں آپ کو ایک ایسی بات بتاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے اگلے دن فرمائی تھی جسے میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے محفوظ رکھا …. (صحیح مسلم کتاب الحج باب تَحْرِيمِ مَكَّةَ وَصَيْدِهَا وَخَلَاهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَام۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ باب الکنی ذکر أبو شریح الخزاعیؓ) اشاعت دین کا یہ جوش اور جذبہ آخر عمر تک صحابہ میں موجزن رہا۔ حضرت عبادہ بن صامت الانصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی موت کے قریب کی حالت میں ایک شخص سے فرمایا کہ اللہ کی قسم ہر حدیث جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی جس میں تمہارے لیے بھلائی تھی وہ میں نے تمہارے سامنے بیان کر دی ہے سوائے ایک حدیث کے جو میں آج تمہیں بتاؤں گا جبکہ میں موت کی گرفت میں ہوں….

(صحیح مسلم کتاب الایمانباب مَنْ لَقِيَ اللّٰهَ بِالإِيمَانِ وَهُوَ غَيْرُ شَاكٍّ فِيهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحَرُمَ عَلَى النَّارِ)

خلافت کی حفاظت میں صحابہ کا نمونہ

صحابہ رسولؐ نے آپؐ کی حفاظت اور سلامتی کے لیے اپنا تن، من اور دھن سب کچھ قربان کردیا۔ جانوں کی قربانی کا جو نمونہ اصحاب رسولؐ نے دکھایا کسی نبی کی امت میں ایسا نمونہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے قیام اور اس کی حفاظت اور استحکام کے لیے بھی ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہ کیا۔ قیام خلافت کے لیے جدو جہد کے ذکر میں امام ابن حجر العسقلانیؒ نے اپنی شرح بخاری میں یہ بات درج فرمائی ہے کہ ’’اَنَّ اِقَامَۃَ الْخَلِیْفَۃ سُنّۃٌ مُّؤَکَّدَۃٌ …. و بِأَنَّھُمْ تَرَکُوْا لِأَجْلِ اِقَامَتِھَا أَعْظَمَ الْمُھِمَّاتِ وَ ھُوَ التَّشَاغُلُ بِدَفْنِ النَّبِیِّ ﷺ حَتّٰی فَرَغُوْا مِنْھَا۔‘‘ (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب فضائل الصحابہ باب قول النبی ﷺ ’’لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا‘‘) یعنی خلافت کا قیام ایک سنت مؤکدہ ہے …. اور یہ کہ انہوں (صحابہ) نے اس (خلافت) کے قائم کرنے کی خاطر بعض عظیم الشان کام بھی چھوڑ دیے جن میں سے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی تدفین بھی تھی، جب تک کہ وہ اس (قیام خلافت) سے فارغ نہیں ہوئے۔ جب خلافت کا قیام عمل میں آگیا تو پھر اس کی کامل اطاعت اور اُس سے کامل وابستگی کا عمدہ نمونہ دکھایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے پُر جوش لوگ بھی خلافت کے آگے سر تسلیم خم کیے نظر آئے، آنحضرت ﷺ کی وفات کے موقع پر جب خلافت کے قیام کا عمل ابھی جاری تھا اور انصار سے بات کرنے کا مرحلہ جاری تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر بات کرنی چاہی اور اس کے لیے میں نے بڑی اچھی تیاری کر لی تھی یہاں تک کہ مجھےلگتا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ بھی اس حد نہیں بول پائیں گے لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھے خاموش کرا دیا اور جب خود خطاب کیا تو لوگوں میں سے سب سے زیادہ بلیغ خطاب کیا۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل الصحابہ باب قول النبی ﷺ ’’لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا‘‘) پھر قیام خلافت کے بعد خلیفہ کے آگے اپنی رائے ضرور دیتے لیکن جو فیصلہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کرتے، اپنی رائے کو چھوڑ کر اُس فیصلہ کی پاسداری کرتے چنانچہ مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھی باغیوں کے منع زکوٰۃ وغیرہ معاملات کے نتیجے میں جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن سے جنگ کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ یعنی آپ کیسے ان لوگوں سے جنگ کر یں گے، وہ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی کلمہ پڑھ لے تو پھر اس کی جان و مال کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔ لیکن جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وجہ بتاکر اپنا فیصلہ سنایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں یہی کہنے لگے کہ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ‏ یعنی میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔

(بخاری کتاب الزکوٰۃباب وُجُوبِ الزَّكَاةِ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اہل کوفہ کی تعلیم و تربیت کے لیے بطور مربی مقرر فرمایا۔ بعد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آپ کو کوفہ کا امیر مقرر فرما دیا۔ بعد ازاں حضرت عثمان غنیؓ نے بعض مصالح کی بنا پر آپ کو امارت سے ہٹا کر مدینے واپس آنے کا فرمایا تو اہل کوفہ نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں رہیں اور ہم ہر ایسی بات کو روک دیں گے جسے آپ ناپسند کریں گے۔ تو آپؓ نے فرمایا: ’’اِنّ لہٗ عَلیَّ حق الطاعۃ، و لا أحِبّ أن أکون أوّل من فتح باب الفتن‘‘ یعنی ان (خلیفہ وقت) کی اطاعت مجھ پر واجب ہے اور میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اُن کی نافرمانی کر کے میں فتنہ کا کوئی دروازہ کھولوں۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ کتاب العین ذکر عبداللہ بن مسعود بن غافل)

چنانچہ آپ خلیفہ وقت کی اطاعت کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہوئے اہم عہدہ چھوڑ کر مدینہ واپس آگئے اور اپنے ذاتی نمونہ سے خلافت کے مقام و مرتبہ اور اس کی حفاظت کا درس لوگوں کو دے آئے۔

خلافت راشدہ اولیٰ کے زمانہ میں منافقوں نے جب خلافت پر نکتہ چینیاں شروع کیں اور خلافت کی قدر و منزلت کم کرنے کے لیے افواہوں کے ذریعہ وساوس کا جال بچھایا تو صحابہ نے ان فتنوں کا ہر طرح سے مقابلہ کیا اور مقام خلافت اور اس کی اہمیت کا احساس بار بار ان لوگوں کو دلایا۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کےخلاف لوگ اپنی شر پسندی سے باز آنے والے نہیں تو انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: يَا قَوْمِ لَا تَسُلُّوْا سَيْفَ اللّٰهِ فِيْكُمْ، فَوَاللّٰهِ إِنْ سَلَلْتُمُوهُ لَا تُغْمِدُوهُ! ….. إِنَّ مَدِينَتَكُمْ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَلَآئِكَةِ فَإِنْ قَتَلْتُمُوهُ لَيَتْرُكُنَّهَا (الکامل فی التاریخ المعروف ابن اثیر۔ سنہ35 للھجرۃ۔ ذکر مقتل عثمان) یعنی اےلوگو! تم اپنے اوپر اللہ کی تلوار کو نہ نکالو۔ خدا کی قسم اگر تم اس تلوار کو نیام سے باہر نکال لو گے تو تم اسے نیام میں نہیں رکھ سکو گے …. تمہارا مدینہ ملائکہ کی حفاظت میں ہے پس اگر تم نے ان (حضرت عثمانؓ )کو قتل کیا (اور نظام خلافت کو مٹانا چاہا) تو پھر وہ ملائکہ اس شہر کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔

ایک اور عظیم المرتبت صحابی حضرت حنظلہ بن ربیع الکاتب رضی اللہ عنہ نے خلافت جیسی نعمت خداوندی کی ناشکری ہوتے دیکھی تو تعجب کے ساتھ فرمایا:

عَجِبْتُ لِمَا يَخُوْضُ النَّاسُ فِيْهِ
يَرُوْمُوْنَ الْخِلَافَةَ أَنْ تَزُوْلَا
وَلَوْ زَالَتْ لَزَالَ الْخَيْرُ عَنْھُمْ
وَلَاقَوْا بَعْدَهَا ذُلًّا ذَلِيْلَا
وَكَانُوْا كَالْيَھُوْدِ وَكَالنَّصَارَى
سَوَآءً كُلُّھُمْ ضَلُّوْا السَّبِيْلَا

تاب الکامل فی التاریخ لابن اثیر۔ سنۃ خمس و ثلاثین۔ ذکر مقتل عثمانؓ)

ترجمہ: مجھے حیرت ہے کہ لوگ کن باتوں میں پڑ گئے ہیں، وہ خلافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر اُسے مٹانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ (خلافت) مٹ گئی تو پھر ان سے خیر و برکت بھی مٹ جائے گی اور اس کے بعد شدید ذلّت میں جا پڑیں گے اور یہود و نصاریٰ کی طرح ہوجا ئیں گے اور راستہ سے بھٹکنے کے لحاظ سے وہ سب برابر ہوجائیں گے۔

غرضیکہ صحابہ نے خلافت کی حفاظت اور اس کے مقام و مرتبہ کو اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اطاعت خلافت کا حسین نمونہ پیش کرتے ہوئے پوری جد وجہد سے اس کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کی۔ جماعت احمدیہ میں مجلس انصار اللہ کا قیام ہمیں انہی نَحْنُ أَنْصَـارُ اللّٰہ ِ کے مصداق اصحاب رسولؐ کے نقش قدم پر چلنے کا سبق دیتا ہے۔ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’…… آنحضرت ﷺ کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا کہ كُوْنُوْآ أَنْصَـارَ اللّٰہِ کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ، تو کیا مہاجرین اور کیا انصار سب ہی اس اعزاز کو پانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور وہ کارہائے نمایاں دکھائے، ایسے ایسے کام کیے کہ ان کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہم غیر معمولی قربانیوں کے معیار اور اپنی حالتوں کو یکسر بدلنے کے نظارے صحابہ میں دیکھتے ہیں یہ اللہ اور اس کے رسول سے غیر معمولی محبت کی وجہ سے تھا، جو محبت صحابہ کے ایمانوں کی ترقی نے پیدا کر دی تھی۔ ان کی عبادتوں کے معیار بھی ایسے تھے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں، ان کے دین کی خاطر جان، مال، وقت کی قربانی کے معیار بھی ایسے تھے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں، ان کی آپس کی محبت اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کے معیار بھی ایسے تھے کہ حیرت ہوتی ہے ….. جب نَحْنُ أَنْصَـارُ اللّٰہِ کا اعلان کیا تو اپنا سب کچھ اللہ، رسول اور اس کے دین پر نچھاور کر دیا۔ پس یہ نمونے ہیں جو آج آپ انصار اللہ کہلانے والوں نے دکھانے ہیں۔‘‘

(خطاب بر موقع اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ5 نومبر 2006ء
بحوالہ الفضل 12؍جنوری تا 18؍جنوری 2007ء صفحہ 3،4)

(غلام مصباح بلوچ۔ نائب صدر صف دوم مجلس انصار اللہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

مجلس انصاراللہ کی بنیادی ذمہ داری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اگست 2022