• 28 اپریل, 2024

ایک شہرہ آفاق صداقت انفاس خطیب (قسط دوم۔ آخری)

ایک شہرہ آفاق صداقت انفاس خطیب
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
قسط دوم۔ آخری

(تسلسل کے لئے ملاحظہ فرمائیں الفضل آن لائن موٴرخہ 18؍ اگست 2022ء)

7جون1985ء کو حضور رحمہ اللہ نے ملک کے تمام دانشوروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
• ’’تمام اہل فکر و دانش، تمام سیاستدان ان باتوں پر غور کریں اور جو کچھ میں کہہ رہاہوں اس کے متعلق معلوم کریں کہ یہ سچائی ہے یا نہیں…تم انسانی اقدار کو زندہ کرو، انسانی شرافت کو زندہ کرو، حق کو حق کہنا سیکھو۔باطل کو باطل کہنے کی جرأت اختیار کرو، اس کے بغیر یہ ملک بچتا نظر نہیں آتا۔

یاد رکھیں ایک ہی خطرہ ہے اس ملک کو اور وہ مُلّائیت کا خطرہ ہے جو حدِّ اعتدال سے تجاوز کرکے نہایت ہی بھیانک شکل اختیار کر چکاہے اور سارے عالم اسلام کو لاحق ہو چکاہے۔ تم لوگ اس کا ایک حصّہ ہو… ایک ہی نقصان ہے جو ہوگا وہ تمہارا نقصان ہے، ہوتا رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے، تمہار ی آنکھیں بند پڑی ہیں اور مسلسل ہوتا چلا جائے گا۔تمہاری کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ تاریخ بتا رہی ہے کہ جب قوموں نے اپنے آپ کوبرباد کرنے کا فیصلہ کر لیاتو خدا کی تقدیر یہ اعلان کیا کرتی ہے کہ ہاں تم ہلاک کئے جاؤ گے اور اس میں اسلام اور غیر اسلام کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔بغداد کے وہ مقتول بھی تو مسلمان ہی تھے جو قرآن کو سروں پر لے کر گلیوں میں باہر نکلے تھے اور خدا کے نام پر یہ گواہیاں دے رہے تھے لیکن خدا کی غالب تقدیر نے ان کی ایک نہ سنی۔ کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ ظالم قوم نے خود اپنی ہلاکت کے بیج بوئے ہیں۔ اس لئے تمہاری تویہ تاریخ ہے کوئی نام تمہیں بچا نہیں سکتا۔ جن قوموں پرخدا کے نام پر خداکی خاطر ظلم ہوتے ہیں اور وہ استقامت دکھاتے ہیں ان کو دنیا میں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ اس لئے تم ہماری فکر نہ کرو۔ربّ کعبہ کی قسم وہ خود ہماری حفاظت کرے گا۔ تم اس پیارے وطن کی فکر کرو جو ہمیں بھی عزیز ہے اور تم سے زیادہ اس کے نقصان کا دکھ ہمیں پہنچے گا لیکن ہم اس معاملہ میں بے اختیار ہیں سوائے اس کے کہ ایک حرف ناصحانہ کہہ سکیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 جون 1985ء)

آپؒ نے 20جنوری1989ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
• ’’اگر تمہاری یادداشت چھوٹی ہے، اگر تمہاری نظر کوتاہ ہے تو ہم تمہیں بتا رہے ہیں، ہم تمہیں دکھا رہے ہیں کہ ایسے واقعات پہلے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی اگر تم وہ غلطیاں کرو گے جو پہلے کر چکے ہو تو ویسے ہی نتیجے دیکھوگے جو پہلے دیکھ چکے ہو اور ا س قانون قدرت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔یہ بات ہے جو سمجھانے والی ہے اور ا س کے لئے جماعت کو محنت کرنی چاہئے اور ان لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں اور ہر ایک کی کمزوریوں سے باخبر ہیں۔ ہم جانتے ہیں تم میں سے اکثر ایسے ہیں جن کی نیّتیں ٹھیک ہیں اس لئے تم اپنے مفاد کی خاطر اگر ہمیں آج قربان کرسکتے ہو تو مجبور ہو کر کر رہے ہو، ہمیں یہ بھی احساس ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ اس قربانی کے بعد تمہاری قربانی کا وقت بھی آنے والاہے۔ اس لئے ہم تمہیں متنبّہ کرتے ہیں کہ جس چھری کو تم آج ہماری گردن پر چلنے کی اجازت دو گے، خداکی قسم!وہ چھری ضرور تمہار ی گردن پر چلائی جائے گی۔ یہ وہ تقدیر ہے جس کو تم تبدیل نہیں کر سکتے اور کبھی اس میں تبدیلی نہیں ہوئی۔ لیکن ہماری گردن کی حفاظت کی خدا نے ضمانت دی ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20جنوری 1989ء)

14؍اپریل 1989ء کو حضور رحمہ اللہ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
• ’’ہمارا تو Birth Mark آنحضرتؐ اور خدا کی محبت ہے اسے کس طرح مٹاؤ گے۔ ہمارے گھروں کو جلا دو، ہمارے جسموں کو جلا دو، ہمارے اموال لوٹ لو، ہماری عورتوں، بچوں اور مردوں کو فنا کردومگر خداکی قسم!محمد مصطفیؐ کے خدا کی قسم!!اور کائنات کے خدا کی قسم!!! کہ احمدیت کے دل میں محمد مصطفیؐ اور اللہ کی محبت کا جو Birth Mark ہے اس کو تم نہیں مٹا سکتے۔ تمہیں طاقت کیا، استطاعت کیا ہے کہ ان دلوں تک پہنچ سکو؟ تمہاری آگیں جسموں تک جا کر ختم ہو جائیں گی۔ہاں دلوں تک پہنچنے والی ایک آگ ہے جو خدا جلاتاہے اور جب وہ فیصلہ کرے گا تمہارے دل پر بھڑکائی جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس آگ کے اثرات سے بچا نہیں سکتی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اپریل 1989ء)

27ستمبر 1991ء کو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
• ’’اس زمانہ میں عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں اتنی سوچ بھی باقی نہیں رہی کہ وہ باتوں کے آپس میں رشتے تو ملا کر دیکھیں کب سے پاکستان مصیبت میں مبتلا ہواہے؟ جب سے احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالاہے۔ اسلام کے اندر اسلام کی برکت کی یہی ایک ضمانت تھی، یہی ایک تعویذ تھا جس کے نام پر اسلام کا تقدّس جاری تھا اور اس تعویذ کو توآپ نے نکا ل کر باہر پھینک دیا، پیچھے پھر اسلام کی برکتیں کیا، سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے اور مسلسل اس کے بعد سے سیاست گندی سے گندی ہو تی چلی جا رہی ہے، بکتی جارہی ہے۔ Horse Trading کا محا ورہ ایسے کھلے کھلے استعمال ہوتاہے جیسے روز مرّہ کی کوئی بات ہے۔ کوئی شرم وحیا کی بات ہی نہیں رہی۔ کرپشن سر سے پاؤں تک، ناخنوں تک پہنچ گئی ہے۔ کوئی زندگی کا ایسا شعبہ نہیں جہاں بددیانتی کے بغیر کام چل سکے اور بے حیائی ایسی کہ دیکھیں سب کہتے ہیں الحمدللّٰہ اسلام آرہاہے، اللہ کا بڑا ا حسان ہے کہ ہم اسلام کے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہاں اسلام کے قریب ہو رہے ہیں؟ کسی نے کبھی نہیں سوچا۔ اگر یہ ساری بدبختیاں اسلام ہیں تو نَعُوذُبِاللّٰہِ مِن ذٰلِک اس اسلام سے تو دُوری بہتر ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ اسلام نہیں ہے۔ یہ بدبختیاں تمہاری شامت اعمال ہیں۔تم نے احمدیوں پر مظالم کرکے اسلام سے جو دُوری اختیار کی ہے یہ اس کی سزا ہے ورنہ اسلام سے قرب کی تو خدا سزا نہیں دیا کرتا۔ اسلام سے قرب کی تو جزا ہوتی ہے۔ پس یہ ساری مصیبتیں جو تم پر ناز ل ہو رہی ہیں تمہیں کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسلام سے قرب کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اسلام سے دُوری کے نتیجہ میں ہیں۔ اسلام کے بنیادی حسین منصفانہ قوانین کو تم نے بالائے طاق رکھ دیا بلکہ بھاڑ میں جھونک دیا اور کبھی تم نے ضمیر کی ادنیٰ سی کسک بھی اپنے دل میں محسوس نہیں کی کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ مقدّس اسلام کو کیسے استعمال کر رہے ہیں؟ اور مَکْرٌ فِی آیَاتِنَاہے کہ وہ جاری ہے اور مسلسل چلتا چلا جا رہاہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27ستمبر 1991ء)

8مئی 1992ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:
• ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہۡلِکَ الۡقُرٰی بِظُلۡمٍ وَّاَہۡلُہَا مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱۸﴾ (ہود: 118) فرمایا:اگر ہمارے عذاب سے کسی بستی نے بچناہے تو ان کے اہل کو مُصلِحُون ہونا پڑے گا۔ یہ نہیں فرمایا کہ شریعت کا قانون جاری کرنا پڑے گا۔ اگر لوگ بدبخت ہیں، لوگ گندے ہیں، ظالم ہیں، سفّاک ہیں تو شریعت کا قانون کیسے ان کو بچا سکتاہے۔ شریعت کا قانون تو جاری ہو چکا ہے ان بے وقوفوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ انہوں نے جا کر تھوڑا کرناہے۔ وہ تو چودہ سو سال پہلے حضر ت اقدس محمد مصطفیؐ پر نازل ہو کر جاری ہو چکا ہے اور ا س قانون پر عمل کرنے سے دنیا کی کوئی حکومت روک نہیں رہی………… اگر مسلمان شریعت پر عمل نہیں کر رہے اور محمد مصطفیؐ کی شریعت پر عمل نہیں کر رہے تو ضیاء یا نواز شریف کی شریعت پر کیسے عمل کریں گے۔ کیایہ خدا سے بڑے لوگ ہیں۔ ان کو علم ہے کہ شریعت تو محمد مصطفیؐ پر خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھی۔ پھر بھی اگر وہ عمل نہیں کر رہے اور یہ انتظار کر رہے ہیں کہ ضیاء یا نواز شریف کا قانون جاری ہو تو ہم پھر عمل شروع کریں تو اس شریعت پر عمل کرنے سے توبہتر ہے کہ جہنّم میں چلے جائیں کیونکہ جو شریعت خدا کی خاطر نہیں بلکہ بندے کی خاطر اطلاق پاتی ہے تو اس شریعت کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ وہ شرک ہے۔ پس یہ بے وقوفی کی حد ہے۔ اس قوم کو اگر بچناہے تو وہی نسخہ استعمال کرنا ہوگا جو قرآن کریم نے بیان فرمایاہے۔ وہاں نفاذ شریعت کا حکومت کے تعلق میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔نفاذشریعت کا بندوں، انسانوں کے تعلق میں ذکر ملتاہے۔فرمایاہے لوگ مصلح بن جائیں گے، اپنی اصلاح کریں گے اور دوسروں کی اصلاح کریں گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ وہ بچائے جائیں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8مئی 1992ء)

11دسمبر1992ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
• ’’جب خدا کے گھر کا تقدس لوٹنے والوں سے ایک جگہ تم محبت اور پیار کا سلوک کرتے ہو، ان کو اپنی تائید مہیا کرتے ہو، ان کی پشت پناہی کرتے ہو تو کل جب تمہارے ساتھ یہ ہوگا تو کس طرح خدا سے توقع رکھتے ہو کہ خداکی تقدیر تمہاری پشت پر آ کر کھڑی ہوگی۔

یہ تقدیریں وہی ہیں جو ہمیشہ سے اسی طرح چلی آ رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باربار متنبہ کیا کہ دیکھو تم جو حرکتیں کر رہے ہو یہ ضائع نہیں جائیں گی۔ خدا کی تقدیر ضرور تمہیں پکڑے گی۔

؎ قرض ہے واپس ملے گا تم کو یہ سارا اُدھار

تم اپنی مستقبل کی تقدیر بنا رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا خائن عالم ہے جوکل کے مسلمانوں کی بربادی کا ذمہ دار ہے اور کل کا خائن عالم تھا جوآج کے مسلمانوں کی بربادی کا ذمہ دارہے۔ اس خائن کوپکڑو، اس سے حساب لو۔ اگر تم اس خائن سے حساب لو گے تو خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہاری تائید میں اٹھ کھڑی ہوگی اور تمہارے مخالفوں سے حساب لیا جائے گا۔ ورنہ تم تو خود حساب دینے کے مقام پر آکھڑے ہوگئے ہو۔ ایک واقعہ نہیں، دو واقعات نہیں، باربارمساجد کی بے حرمتی کی گئی، ان کوظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ عبادت کرنے والوں کو رستوں میں گھسیٹا گیا، ان کو مارا گیا، ان کو اس بات کی سزا دی گئی کہ کیوں تم خدا کی عبادت کررہے تھے۔ اور اب جب یہ سب کچھ ہو رہاہے تو اچانک غیرت دینی اٹھ کھڑی ہوئی ہے…… پاکستان میں ایک انگلی نہیں اٹھی جس نے اتنی مسجدوں کی شہادت کے وقت ان ظالموں اور بدکرداروں کو روکنے کی کوشش کی ہو… اگر تم باز نہیں آؤ گے، اپنی اصلاح نہیں کروگے اور خدا کے تعلق کی بنا پر اپنی سوچ کی، اپنی قدروں کی اصلاح نہیں کروگے، اگر اپنے قبلے درست نہیں کروگے تو اسی طرح بھٹکتے رہوگے۔اسی طرح ظلم کا شکار رہوگے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 11 دسمبر 1992ء)

14؍مارچ1994ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
• ’’میں تمہیں خدا کے غضب سے ڈراتاہوں اور خدا کی قسم! مَیں تمہیں خدا کے غضب سے پھر ڈراتاہوں۔ اگر تم خدا کے سامنے ایسے باغیانہ رویّے سے باز نہیں آئے تووہ ضرور تم سے نپٹے گا۔ اور ہماری ہمدردی کی دعائیں بھی تمہارے کسی کام نہیں آئیں گی۔ مگر میں جماعت کوتلقین کرتاہوں کہ ان لوگوں کی بقا کی خاطر ان لوگوں کوعذاب سے اور عذاب الیم سے بچانے کے لئے دعائیں ضرور کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کوعقل دے اور ہوش دے اور ظالمانہ رویّے تبدیل کئے جائیں۔ آراء میں تبدیلیاں پیدا ہوں اور جو ظلم مسلط ہے وہ ظلم اللہ تعالیٰ کاٹ کر الگ پھینک دے۔ اب تو یہی چل رہا ہے کہ بظاہر مُلّاں کا نام لیا جاتاہے۔ مگر ہمیشہ سیاست ہے جو احمدی خون اور احمدی عزت کو مُلّاں کے ہاتھوں میں فروخت کرتی ہے۔ مَیں نے ہمیشہ دیکھاہے جب بھی ایسی خبر آتی ہے کوئی کہ دیکھو آٹھویں ترمیم کومٹانے کا فیصلہ کر لیاگیا اورپوری کی پوری جائے گی تو مجھے فورًا سمجھ آجاتی ہے کہ بڑا خطرہ درپیش ہے۔ بعض احمدی بھولے پن میں مجھے لکھتے ہیں کہ الحمدللہ وہ وقت آگیاکہ جب جماعت کے اوپرلٹکی ہوئی آٹھویں ترمیم کی تلوار جو ہے وہ کاٹ کر الگ پھینک دی جائے گی۔ میں ان کو سمجھاتاہوں بھولے بچو! خدا کا خوف کرو یہ سودا کیاجارہاہے مارکیٹ میں۔ اعلان کیا جارہاہے، مُلّاں کو مخاطب کرکے بتا یاجا رہاہے۔ یہ ایک چیز ہمارے ہاتھ میں ہے اگر تم باز نہ آئے اور ہم سے تعاون نہ کیا توپھر ہم یہ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ جو وہ ا علان کرتے ہیں اس کی مثال توسودا کے اس فقرے کی یاد دلاتی ہے کہ ’’لانا بے غنچے میرا قلمدان‘‘ تو یہ سیاستدان قلمدان مانگتے ہیں۔اگر تم نے ہم سے تعاون نہ کیا تو ہمارے ہاتھ میں قلم ہے اور نوشتہ ٔ تقدیر ہمارے ہاتھ میں آ ج تھمایا گیاہے۔ ہم نے اس قلم سے اگرتمہاری امیدوں پر سیاہی پھیر دی تو پھر نہ کہنا ہمیں خبر دار نہیں کیا تھا۔چنانچہ ہمیشہ بلا استثناء اس ’’لانا بے غنچے میرا قلمدان‘‘ کی آواز سن کر مولوی دوڑا چلا جاتاہے ان کی چوکھٹوں پر سجدے کرتا ہے۔ کہتاہے جو مرضی کرلو ہم حاضر ہیں، تعاون کریں گے۔ حکومتیں الٹانے میں تمہارے ساتھ ہوں گے لیکن احمدیوں کے متعلق یہ جو تحریر لکھی گئی ہے اس کو منسوخ نہ کریں۔ ایک تو یہ قلم ہے جس کی بات کرتے ہیں۔ایک صاحب لوح وقلم بھی تو ہے جس کے ہاتھ میں لوح بھی ہے اور قلم بھی ہے، جس کی لکھی ہوئی تقدیر کو کوئی کاٹ نہیں سکتا اور کوئی باطل نہیں کرسکتا۔ مَیں اس خدائے لوح و قلم سے تمہیں ڈراتا ہوں۔ خدا کی قسم اگر تم نے اپنے قلم کا غلط استعمال بند نہ کیا تو خدا کا قلم تمہاری قوموں پر تمہاری ذات پر تنسیخ کانقش پھیر دے گا۔ تم تاریخ کاحصہ بن جاؤ گے اوردردناک حصہ بن جاؤ گے، عبرتناک وجود بن جاؤ گے۔‘‘

(خطبہ عیدا لفطر 14؍مارچ 1994ء)

1997ء میں پاکستان میں ایک شدید آئینی بحران پیدا ہوا۔ا س موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےخطبہ جمعہ 28 نومبر اور پھر 5دسمبر 1997ء میں روشنی ڈالی اورقوم کے دانشوروں کو قائد اعظم کے تصو ّر انصاف کی طرف لوٹنے کی نصیحت فرمائی۔ ذیل میں اس 5دسمبر خطبہ جمعہ سے اقتبا س ہدیہ ٔقارئین ہے۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:

• ’’میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ اگر یہ آئین جس کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ اسی طرح رہنے دیا گیا اورکوئی اور تبدیلی کا دور ایسا نہ آیا کہ اس آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دے تو یہ آئین ملک کو برباد کر دے گا اور اگر یہ آئین توڑا گیا تو بہتر ہے ورنہ یہ آئین ملک کو توڑ دے گا۔ اس لئے آخر ی بھلائی اور خیر سگالی ملک کی ہے۔ یہ بات ایسی ہے جس میں کوئی شک نہیں…یہ وجہ ہے جو میں یقین سے کہتاہوں کہ اگر یہ قانون یا یہ بنیادی ملک کا قانون جماعتی حقوق کو اسی طرح نظر انداز کرتا رہا اوراس میں مناسب تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو پھر یہ قانون خود اس ملک کو چاٹ جائے گا جس ملک نے ہمارے حقوق چاٹے ہوئے ہیں۔ اس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں، کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس ملک کے قانون بنانے والوں کا خود اب آئندہ اس میں امتحان ہے کہ وہ ناجائز، غیر منصفانہ قانون کو ملک پر ٹھونسے رکھیں گے یا اسے تبدیل کریں گے۔

……انقلاب اگر قانون یعنی موجودہ آئین کو بہا نہ لے گیا تو پھر وہی بات ہوگی کہ آئین اس ملک کو بہا لے جائے گا۔ یہ فکر ہے جس کے لئے میں جماعت کو بھی متوجہ کرتا ہوں کہ دعاؤں میں اس ملک کو یاد رکھیں۔ اکثر احمدیوں کا وطن نہیں ہے کیونکہ بھاری اکثریت احمدیوں کی اب دوسرے ملکوں میں پیدا ہو چکی ہے۔ لیکن اگر میرا وطن ہے یا ان کا وطن ہے جن کی کوششوں اور قربانیوں سے دراصل ساری دنیا میں احمدیت پھیل رہی ہے تو پھر تمام دنیا کو اس ملک سے اس قدر ہمدردی ہونی چاہئے کہ اسے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کی بھلائی فرمائے اورملک کی رائیں اور آئین تبدیل ہو لیکن ملک ہاتھ سے نہ جاتا رہے۔ یہ وہ دعا ہے جس کی طرف میں سمجھتا ہوں کہ توجہ کرنا لازم تھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5دسمبر 1997ء)

12دسمبر1997ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان فرمودہ مضمون کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے پاکستان کے دردناک حالات کا ذکر کرکے کھلاکھلا انذار فرمایا۔تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضورؒنے سورۃالانعام کی آیات66تا68 کی تلاوت کی اور فرمایا:

قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ اَوۡ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّیُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۶۶﴾ وَکَذَّبَ بِہٖ قَوۡمُکَ وَہُوَ الۡحَقُّ ؕ قُلۡ لَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ﴿ؕ۶۷﴾ لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسۡتَقَرٌّ ۫ وَّسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۸﴾

(الانعام: 66-68)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے، تو ان سے کہہ دے کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے بھی عذاب نازل کرے اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے بھی یا تمہیں ایک دوسرے کے خلاف آپس میں مختلف گروہوں کی صورت میں لڑا دے اور تم میں سے بعض کی طرف سے بعض کو تکلیف پہنچائے۔ دیکھ ہم دلیلوں کو کس طرح باربار بیان کرتے ہیں تا کہ وہ سمجھیں۔ اور تیری قوم نے اس امر یعنی پیغام محمد رسول اللہ کو جھوٹا قرار دیا ہے حالانکہ وہ سچاہے۔ تو ان سے کہہ دے کہ مَیں تمہارا ذمہ دار نہیں۔ ہر ایک پیشگوئی کی ایک حد مقرر ہوتی ہے اور تم جلد ہی حقیقت کو جان لو گے۔

یہ سورۃ الانعام کی وہ آیات ہیں جن کا آج کل ہمارے ملک پر بعینہ اطلاق ہو رہا ہے۔ اور اس قوم نے جو اپنے وقت کے امام کو جھٹلایا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیؐ کا سچا نمائندہ تھا تو عملاً انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ کی پیشگوئیوں کا انکار کر کے آپؐ ہی کی تکذیب کی ہے خواہ یہ منہ سے مانیں یا نہ مانیں، اس حقیقت سے کوئی انکار ممکن نہیں۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ حضرت اقدس محمد رسول اللہؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوئے تھے، جیساکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ آپؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی ظاہر ہوئے، تو پھر آپؐ کا انکار آنحضرتؐ کے فرمودات کا انکار ہے اور اس انکار کے نتیجہ میں جو کچھ خدا تعالیٰ ایسی قوم سے سلوک فرمایا کرتا ہے ان آیات میں اسی کا ذکر ہے۔

……قُلۡ ہُوَ الۡقَادِرُ عَلٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَ عَلَیۡکُمۡ عَذَابًا مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ اَوۡ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِکُمۡ ان کو بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے سر کے اوپر سے بھی عذاب لے آئے اور پاؤں کے نیچے سے بھی عذاب نکال دے یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے، گروہ در گروہ بانٹ دے یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّیُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ اور تم میں سے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے کو تکلیف پہنچے اور آپس میں لڑائی پیدا ہو اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَفۡقَہُوۡنَ دیکھ ہم کس طرح کھول کھول کر اپنے نشانات کو بیان کرتے ہیں تا کہ یہ لوگ سمجھ سکیں۔ وَکَذَّبَ بِہٖ قَوۡمُکَ وَہُوَ الۡحَقُّ اور تیری قوم نے تجھے جھٹلا دیا حالانکہ جو بات تو لے کر آیا وہ حق تھی۔ قُلۡ لَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ان سے کہہ دے کہ میں تم پر نگران نہیں ہوں۔ اللہ کی تقدیر جو فیصلہ کرنا چاہے گی وہ کرے گی اور میں اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ تمہیں اللہ کی تقدیر سے نہ میں بچاسکتا ہوں نہ کوئی اور بچا سکتاہے۔ یہ مفہوم ہے قُلۡ لَّسۡتُ عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ کا۔ تم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہو، ان اعمال کی سزا چکھو گے تو مجھے ذمہ دار قرار نہ دو۔ لیکن اِس قوم کو دوسری قوموں کی طرح یہ عادت پڑ چکی ہے کہ اپنے گناہوں کی پاداش کو دوسروں کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ وہ ذمہ داری خود قبول کرنے کی بجائے کسی دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں….

میں قوم کو دوبارہ متنبّہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیؐ کو مخاطب کر کے قرآن کریم نے جو کچھ فرمایا ہے یہ آپ کے ساتھ ہورہا ہے اور مزید ہوگا۔ اگر آپ کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو آپ کی ایک دوسرے سے منافقت اور مناقشت نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کی متحدہ دعائیں ہی آپ کو بچا سکتی ہیں۔ جو بچانے والے ہیں ان کو تو آپ نے اپنا دشمن سمجھ لیا ہے۔ جن کی دعائیں خدا کے حضور، خدا کی بارگاہ میں قبولیت کے ساتھ دیکھی جاتی ہیں ان کوآپ نے اپنا دشمن بنا رکھا ہے اور آپ تو دعا کے مضمون سے ہی ناواقف ہیں۔ صرف چیخ وپکار اورایک دوسرے کو گالیاں دینا، ایک دوسرے کے گریبان چاک کرنا یہ آپ کا شیوہ بن گیاہے۔اس لئے اس ملک سے بدبخت ملّاں کو نکالو، یہ آپ کی گردنوں پرسوار ہے یہی بحران لاتاہے اور اگر آئندہ کوئی بحران مزید آیا تو یہی مُلّاں لانے کاسبب بنے گا۔ اس لئے اپنے دشمن کو پہچانو اور عقل کرو۔ اگر پاکستان سے ملّائیت کا خاتمہ کردیا جائے تو یہ ملک دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، یہ ایک ایسا بیان ہے جسے قلم زد نہیں کیا جا سکتا۔ آپ چیخیں چلّائیں جومرضی اس کے خلاف کہیں لیکن اس بات کواپنے دلوں پر، اپنے سینوں پر لکھ لیں کہ اس ملک سے اگر مُلّاں کا فساد دُور کر دیا جائے اور اسے اس ملک کے امور سلطنت میں دخل اندازی سے کلّیۃً الگ کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ بہت بڑا عظیم ملک بن کرابھر سکتا ہے۔ پس ہماری یہ تمنا ہے اوریہ دعائیں ہیں۔ اب انہیں جس طرح چاہیں غلط رنگ میں آپ پیش کرتے رہیں۔ مگر وہ غلط رنگ میں ا ن کا پیش کرنا آپ کے خلاف جائے گا۔ کیونکہ ہمیں ایک قادر مطلق پر ایمان ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اوروہ ہمارے دل کی آہوں کو سنتاہے۔ اور تمہاری یاوہ گوئی جو سنتا ہے تو تمہارے خلاف ردّعمل کے لئے سنتا ہے، تمہاری یاوہ گوئی کو خود تمہارے خلاف استعمال کرنے کے لئے تمہاری باتیں سنتا ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کی تائید میں ہمیشہ ہماری پشت پناہی پہ ہمارا خدا کھڑا ہے اورہمیشہ کھڑا رہے گا آپ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12دسمبر 1997ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں آپؒ کے اندازِ بیان میں جلا ل اور سچائی اپنی چمک دکھاتی ہے۔آپؒ کے کئے گئے انذارسے قوم نے فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ رفتہ رفتہ اس کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی تقدیر بن کر ظاہر ہوا کہ ساری قوم اس کے نتائج سے کراہنے لگی۔ اس انذار میں آپؒ کی کہی ہوئی ایک ایک بات پوری ہوئی۔یہ تو اس قوم کا نصیبا تھا لیکن جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اپنی قلبی کیفیت کا تعلق ہے، آپؒ اپنی قوم کو حقیقی خطرات اورامڈتے ہوئے عذابوں سے بچانے کے لئے بار بار اور مسلسل آگاہ فرماتے رہے۔ خدا کے برگزیدوں کے انذار بھی خد اتعالی کی رحمتوں کے راستے سے روکیں دور کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔وہ برکتیں اور رحمتیں جو یہ قوم سمیٹ سکتی تھی ان کے لئے آپ انہیں سالہا سال متوجہ کرتے رہے۔مگر قوم نے خوشخبریوں کے اس اصل پیغام پر نہ توجہ دی اور نہ ہی اس انذار سے فائدہ اٹھایا۔چنانچہ وہ پستیوں کی ڈھلوانوں پر اترتی چلی گئی حتّٰی کہ حقیقی مصائب کا شکار ہو گئی۔آپؒ نے بار بار اپنی جماعت کو بھی اس ملک اور قوم کے لئے دعاؤں کی اپیل کی اور خود بھی شب وروز دردمندانہ دعائیں کیں۔

آپؒ کو اپنے وطن پاکستان سے بیحد ہمدردی تھی اوراس کے اندازیہ تھے کہ ایک طرف اس کے لئے دل سے اُٹھی ہوئی بے چین دعائیں آپؒ کے لبوں پر مچلتی تھیں تو دوسری طرف ان کی بہبود کے لئے درجِ ذیل قسم کی تمنّائیں کروٹیں لیتی تھیں۔آپؒ فرماتے تھے:
’’اللہ تعالیٰ قوم کومعاف فرمائے اورعذابوں اور تکلیفوں سے نجات بخشے۔ ویسے میرا ذاتی ایمان یہ ہے کہ جب تک اس ملک میں احمدیت کی عزت واحترام کو قائم نہیں کیا جاتا اور غیر مسلم قرار دیا جاتا ہے، خداتعالیٰ کی ناراضگی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ اس وجہ سے فکر بھی پیدا ہوتا ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔ خدا کرے یہ قوم ہدایت پائے اور قوم کا مقدر جاگ اٹھے اور دنیا کی عظیم الشان قوموں میں شمار ہونے لگے۔ امر واقع یہ ہے کہ اس وقت اگر غریب کی سچی ہمدردی کہیں پائی جاتی ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ میں ہے….. ہر شخص غریب کوسیڑھی بنا کر حکومت کی مسند پر بیٹھتا ہے اور جھوٹے وعدوں سے اس کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے کراچی کے غریب مصیبت زدہ لوگوں کے حالات پڑھ کر سخت دکھ ہوتا ہے۔میرے بس میں ہوتا تو ان کی نئی بستیاں بناتا اور جب تک غرباء کی بہترین آبادیاں تیار نہ ہوجاتیں کراچی کی ترقی کی تمام دوسری سکیمیں بند کردیتا۔‘‘

آپؒ اپنے ملک و قوم کے لئے خود بھی دست بدعا تھے اور تمام احمدیوں کو بھی جو پاکستان میں مقیم تھے یا بیرونی ممالک میں آئے ہوئے تھے، دردمند دل کے ساتھ دعا کی باقاعدہ تحریک فرماتے تھے۔آپؒ کی یہ دعائیں اوردعا کی بار بار تحریکات اپنے اندر وہ پیغمبرانہ سوز رکھتی تھیں جو ایک نقصان اور تباہی کی طرف جانے والی قوم کو روکنے کے لئے سچائی اور درد کے ساتھ کی جاتی ہیں۔چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’پس آج کا پیغام میرا یہی ہے کہ ہمارا وہ ملک جس کے دکھوں کے ستائے ہوئے آپ لوگ یہاں آئے تھے جب خدا کی رضا آپ کو حاصل ہو گئی، جب اللہ نے اپنے پیار کی جنت آپ کو عطا کر دی تو اس کی بخشش کے لئے، اس کی ترقی کے لئے اور اُس کے استحکام کے لئے دعائیں کریں۔ اس کے سوا اپنے دل میں کچھ نہ رکھیں۔

کیونکہ خدا آپ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ جب تم نے خدا کی رضا پالی، تمہیں خدا کا پیار مل گیا تو پھر اس کے بعد کسی کا شکوہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ تم ان لوگوں کو معاف کر دو، ان سے محبت کا سلوک کرو۔ ان کے لئے دعائیں کرو اور دعا کرو کہ یہ محروم بھی تمہارے ساتھ مل کر الٰہی جنتوں میں داخل ہو جائیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم دکھ دینے والوں کو معاف کر دو گے تو میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ایسے احسان کرنے والوں سے اللہ بہت ہی محبت کرتا ہے۔ تمہیں اللہ کی محبت کا مقام نصیب ہو جائے گا جو رضائے الٰہی کا بہت ہی پیارا اور آخری مقام ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں رہیں اور خدا کی محبت اور پیار کی نظریں ہم پر پڑتی رہیں ہم جس حال میں اور جس ملک میں رہیں رضائے باری اور محبت الٰہی کی جنت ہمیں حاصل رہے اور یہ جنت ہم سے کوئی چھین نہ سکے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 14 اکتوبر1982ء مطبوعہ روزنامہ الفضل 13؍ اکتوبر1983ء)

الغرض حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے قبل از خلافت اور بعد از خلافت پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں علمی انفاس کاایک خاکہ الگ باب ’’سوانحی خاکہ‘‘ میں پیش کیا جارہا ہے۔یہ جہاں آپؒ کے علم و خطابت کی کثرت کے اندازے مہیّا کرتا ہے وہاں آپؒ کی روشن صفت ِ خطابت کی اثر انگیزی، لذ ّت اور علوشان کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

تقاریب آمین، اعلانات نکاح، مجالس و تقریبات میں صدارتی خطابات، مساجد اور جماعتی مراکز کے سنگ بنیاد کی تقاریب پرخطاب یا کلمات، سکولوں، اداروں، مساجد، دفاتر وغیرہ وغیرہ کے افتتاحوں پرخطاب یا کلمات، ان کے علاوہ بھی بہت سے خطاب ہیں جو اس شمار میں نہیں آسکے۔اسی طرح بعض جگہوں پر تو خطباتِ جمعہ کا ذکر ہو چکا ہے لیکن اکثر کا ذکر نہیں بھی ہوسکا جبکہ حضورؒ نے اپنے دورخلافت میں سوائے آخری علالت کے دنوں کے، تمام خطبات جمعہ ارشاد فرمائے۔بہرحال آپؒ کے علمی انفاس کے بنیادی اور بڑے حصّے کی اس ریکارڈ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ ہربیان ہی ایک علمی خزانہ ہے جو آپؒ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوا۔

(ہادی علی چوہدری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

نگران ہیومینیٹی فرسٹ آئیوری کوسٹ میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اگست 2022