• 22 جون, 2025

قرآنی انبیاء (قسط 22)

قرآنی انبیاء
حضرت یعقوب علیہ السلام
قسط 22

حضرت یعقوب علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ یوسف علیہ السلام آپ کے بیٹے تھے۔ آپ کا ذکر قرآن میں نام کے ساتھ دس سورتوں میں سولہ بار آیا ہے۔

(اطلس القرآن از شوقی ابو خلیل صفحہ 62)

حضرت یعقوبؑ کی پیدائش
کے بارے میں خدائی خوشخبری

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ زیر آیت: وَامۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَمِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ ﴿۷۲﴾ (ہود: 72)۔ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابراہیمؑ کی بیوی سن رہی تھیں انہوں نے یہ بات سنی تو گھبرا گئیں۔ اور ایک قوم کی تباہی پر دل میں درد پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ بات بہت پسند آئی اور اسحٰقؑ کی خبر کے ساتھ جو پہلے ان نیک لوگوں کے ذریعہ سے بھی مل چکی تھی حضرت یعقوبؑ کی پیدائش کی بھی خبر دی۔ جس کا یہ مطلب تھا کہ چونکہ بنی نوع انسان پر انہیں رحم آیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ایک ترقی کرنے والی نسل دے گا۔ خداتعالیٰ کا رحم کس قدر وسیع ہے۔ وہ عذاب میں گرفتار ہونے والوں سے سچی ہمدردی کو بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

یہاں سے ایک اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ذبیح کون تھا؟ عیسائی کہتے ہیں کہ اسحاق ذبیح تھا۔ مسلمان کہتے ہیں کہ اسماعیلؑ ذبیح تھا۔ ان کی بحث تو خیر تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر بعض مسلمان بھی غلطی سے حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی غلطی اس آیت سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق ؑ کے ہاں اولاد بھی ہوگی اور ان کا ایک بیٹا یعقوب مقرب الٰہی ہوگا۔ اور جس کی نسبت پہلے سے یہ بتا دیا گیا ہو کہ وہ زندہ رہے گا بڑا ہوکر شادی کرے گا اور اس کا بیٹا پیدا ہوگا جو مقرب الٰہی ہوگا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا ہو۔ اور پھر اس حکم سے دھوکا بھی لگ گیا ہو۔ اگر حضرت اسحاق ؑ کے متعلق ذبیح ہونے کی رؤیا ہوتی تو کیا حضرت ابراہیمؑ دریافت نہ کرتے کہ الٰہی تو نے تو اس کے جوان ہونے اور ایک مقرب بارگاہ بچہ کے باپ ہونے کی خبر دی تھی اب اس کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا اس حکم کا مطلب کچھ اور تو نہیں۔ غرض اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی تھے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ یہودیوں کی محرف مبدل کتب سے ڈر کر ہم حضرت اسحاق کو ذبیح قرار دینے کی کوشش کریں۔

(تفسیر کبیر جلد3 صفحہ225)

حضرت یعقوبؑ کا قرآن کریم کی آیات میں ذکر

وَوَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا (الانعام: 85)۔ اور ہم نے اس (یعنی ابراہیم کو) اسحاق اور یعقوب دئے تھے، ہم نے (ان) سب کو ہدایت دی تھی۔

وَیُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَعَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ اَتَمَّہَا عَلٰۤی اَبَوَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ (یوسف: 06)۔ اور تجھ پر اور یعقوب کی تمام (حقیقی) آل پر (اسی طرح) اپنے انعام کو پورا کرے گا جیسا کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دو بزرگوں ابراہیم اور اسحاق پر پورا کیا تھا۔

وَاتَّبَعۡتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ ؕ مَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نُّشۡرِکَ بِاللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ عَلَیۡنَا وَعَلَی النَّاسِ (یوسف: 39)۔ اور میں نے اپنے باپ دادوں یعنی ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے طریق کی پیروی اختیار کی ہے۔ ہمیں کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرانے کا حق نہیں ہے یہ (توحید کی تعلیم کا ملنا) ہم پر اور دوسرے لوگوں پر اللہ کا (اس کے خاص فضلوں میں سے) ایک فضل ہے۔

وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ ؕ وَکُلًّا جَعَلۡنَا نَبِیًّا ﴿۵۰﴾ وَوَہَبۡنَا لَہُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَجَعَلۡنَا لَہُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِیًّا (مریم: 50-51)۔ تو ہم نے اسے اسحاق اور (اس کے بعد) یعقوب عطا فرمائے اور ان سب کو ہم نے نبی بنایا۔ ور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں سے ایک (وافر) حصہ عطا فرمایا اور ہم نے ان کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا اعلیٰ درجہ کا ذکر خیر مقرر فرمایا۔

وَوَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَجَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالۡکِتٰبَ وَاٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَاِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۲۸﴾ (العنکبوت: 28) اور ہم نے اُسے اسحاق اور یعقوب بخشے، اور اُس کی ذریت کے ساتھ نبوت اور کتاب مخصوص کر دی اور ہم نے اس کو دنیا میں بھی اس کا اجر بخشا۔ اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں میں شامل کیا جائے گا۔

وَوَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ ؕ وَیَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً ؕ وَکُلًّا جَعَلۡنَا صٰلِحِیۡنَ ﴿۷۳﴾ وَجَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَکَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ﴿ۚۙ۷۴﴾ (الانبیاء: 73-74) اور ہم نے اسے اسحاق بھی بخشا اور یعقوب بھی بطور پوتے کے (دیا) اور ہم نے سب کو نیک بنایا۔اور ہم نے ان کو (لوگوں کا) امام بنایا۔ وہ ہمارے حکم سے ان کو ہدایت دیتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکو ۃ دینے کی وحی کی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے۔

سورہ یوسف میں حضرت یوسفؑ اور حضرت یعقوبؑ

قرآنی انبیاء کے اس سلسلے کی آٹھویں قسط میں قارئین کرام حضرت یوسف علیہ السلام کے پورے واقعے سے واقف ہو چکے ہیں جس میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر بار بار آتا ہے یاد دہانی کے لئے بالکل اختصار کے ساتھ کچھ پوائنٹس یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔

•یہ گھرانہ کنعان کا ایک معروف گھرانہ تھا۔ یوسف کے والد یعقوب علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے۔ حضرت اسحق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہونے کے ناطے نیکی اور تقوی آپ کو ورثے میں ملا تھا اور اس ورثے میں سے آپ کے بیٹے یوسف نے بھی حصہ پایا تھا۔ یوسف کی طبیعت اپنے باقی بھائیوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہ دنیا دار قسم کے لوگ تھے جب کہ ان کے بر عکس یوسف کارجحان ابتداء سے ہی دینی امور کی طرف تھا۔ نیکی اور تقوی کے زیور سے مزین یوسف اپنے بھائیوں سے بہت الگ سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے تمام بیٹوں میں یوسف سے سب سے زیادہ محبت تھی۔

•ایک رات یوسف نے ایک خواب دیکھا اور آپ نے اپنے والد کے پاس اس خواب کاذکر کیا اور بتایا کہ رات میں نے خواب میں گیارہ ستاروں کو دیکھا اور سورج اور چاند کو بھی دیکھا کہ وہ سب کے سب میرے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب جو پہلے ہی یوسف کی نیکی کے قائل تھے اس خواب کا مطلب فورا سمجھ گئے۔ آپ کو پتہ چل گیا کہ اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کو خوب ترقیات عطا فرمائے گا یہاں تک کہ بڑے بڑے وجود اس کی اطاعت کریں گے اس لئے انہوں نے یوسف سے کہا بیٹا یہ خواب تو یقینا بہت اچھا ہے لیکن اپنے بھائیوں کے سامنے اس خواب کا ذکر نہ کرنا۔

•دوسری طرف سوتیلے بھائی اس فکر میں گھلے جا رہے تھے کہ نہ جانے یوسف میں کون سی ایسی بات ہے کہ ابا جان اس سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ یہ بھائی اب سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے لگے تھے۔ چنانچہ ایک بھائی نے یہ مشورہ دیا کہ اگر تم یوسف کو قتل کردو تو یہ تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ قتل کا مشورہ تمام بھائیوں نے تسلیم نہ کیا۔ تب ایک بھائی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یوسف کو قتل کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر تم کچھ کرناہی چاہتے ہو تو ایسا کرو کہ اسے کسی کنویں میں پھینک دو۔

•ایک روز انہوں نے با قاعدہ منصوبہ بنا کر ایسا کرنے کا پختہ فیصلہ کرلیا اور اپنے والد سے کہا والد محترم! یوسف ہمارا بھائی ہے ! اب ہم نے کل کے لئے ایک پروگرام بنایا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم سب بھائی مل کر سیر کے لئے جائیں۔ یوسف بھی ہمارے ساتھ ہو گا اور مزے سے سیر کرے گا۔ کھیلے گا۔ کھائے پئیے گا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے انہیں کہا مجھے معلوم ہے کہ تم اس کے بھائی ہو لیکن یوسف ابھی چھوٹا ہے۔ تم جنگل میں سیر کے لئے جاؤ گے۔ کھیلو کو دوگے۔ ہو سکتا ہے تم یوسف کی حفاظت سے غافل ہو جاؤ اور کوئی درندہ اسے نقصان پہنچادے۔ انہیں میں سے ایک بولا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری موجودگی میں کوئی درندہ اسے نقصان پہنچا دے۔ ہم اتنے سارے بھائی اس کے ساتھ ہوں گے۔ آپ ہم پر اعتبار کریں۔ حضرت یعقوب نے اجازت دے دی۔ لیکن دیکھو یوسف کا خیال رکھنا۔ اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اگلے روز سیر پر جانے کی تیاری کی۔ چنانچہ جنگل پہنچ کر انہوں نے ایک متروک ساکنواں دیکھا اور یوسف کو اٹھا کر اس میں پھینک دیا۔

•بھائی انہیں کنویں میں پھینک کر شام ڈھلے گھر واپس لوٹے اور روتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بتایا کہ یوسف کو جنگل میں بھیٹریا کھا گیا ہے۔ لیکن اسے بھیٹریا کیسے کھا گیا؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں سے پوچھا۔ کہا ہم جنگل میں جاکر کھیلنے کودنے میں مصروف ہو گئے۔ یوسف سے کہا کہ تم یہاں سامان کے پاس بیٹھ جاؤ۔ وہ سامان کے پاس بیٹھا تھا اور ہم دوڑتے ہوئے دور نکل گئے۔ اسی اثناء میں کسی طرف سے ایک بھیٹریا آیا اور یوسف کو کھا گیا۔ یہ دیکھیں اس کی قمیض ہم ساتھ لائے ہیں۔ ایک بھائی نے یوسف کی قمیض نکال کر والد کے سامنے رکھ دی۔ اس قمیص پر آتے ہوئے وہ کسی جانور کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ گو ہم جانتے ہیں کہ اگر چہ ہم سچ بھی بول رہے ہوں آپ کو ہماری بات کا یقین ہر گز نہیں آئے گا۔

•حضرت یعقوب علیہ السلام ایک عقل مند اور ذہین انسان تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں سے بھی صاف صاف کہہ دیا کہ یہ باتیں جو تم بیان کر رہے ہو سچ نہیں ہیں بلکہ تمہارے دل میں شیطان نے کوئی بری بات تمہیں اچھی کر کے دکھائی ہے۔ تم نے جو کچھ بھی کیا اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ پس میں تو اللہ تعالیٰ سے ہی مدد کا طالب ہوں اور صبر کر تا ہوں۔ کبھی نہ کبھی یہ بات ضرور کھل جائےگی۔ دراصل حضرت یعقوب علیہ السلام خداتعالیٰ کی بشارتوں اور خوشخبریوں کی بناء پر یہ یقین رکھتے تھے کہ یوسف ان کا بیٹا ضرو ر ایک عظیم انسان بنے گا۔ خدا تعالیٰ کے مقربین میں بلکہ اس کے انبیاء میں شامل ہو گا۔ اس وجہ سے آپ کو اس کی جدائی کاصدمہ تو تھالیکن مایوسی بہر حال نہیں تھی۔

•حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ زیر آیت: قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ (يوسف: 19)۔ فرماتے ہیں: قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کی بات کو محض فریب سمجھا بلکہ ان کے بیان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مدد چاہی اور مدد چاہنا بتاتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ابھی امید تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام زندہ ہیں۔ ورنہ مستعان کا لفظ کہنا بے فائدہ تھا۔ اس طرح قرآن کریم کا بیان ہی درست ہے اور حضرت یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کو زندہ ہی سمجھتے تھے۔طالمود بھی قرآن مجید کے بیان کی تائید کرتی ہے۔ اس میں بھی لکھا ہے کہ یعقوب کو ان کی بات کا یقین نہ آیا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔۔۔ پھر آگے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مختلف تفاول نکالتے رہتے تھے۔ آخر خدا نے انہیں خواب میں بتایا کہ وہ زندہ ہے۔ (جیواش انسائیکلوپیڈیا)۔ اس سے یہ امر یقینا ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت یعقوبؑ اپنے بیٹوں کے بیان کو سچا نہیں سمجھتے تھے۔

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ291-292)

•ایک قافلے نے حضرت یوسف کو کنویں سے نکال لیا اور مصر میں بیچ دیا۔جہاں ایک گھر میں وہ پلے بڑھے۔ جوان ہونے پراس گھر کی خاتون نے حضرت یوسف کے ساتھ برائی کرنے کی کوشش کی تو آپ نے منع کر دیا جس کے نتیجے میں حضرت یوسف کو جیل جانا پڑا۔ جیل کے ساتھیوں میں سے دو نے اپنی خوابیں آپ کو سنا کر تعبیر پوچھی تو آپ کی بتائی ہوئی تعبیر اسی طرح پوری ہوئی جس طرح آپ نے بیان کی تھی۔ ایک کو سزا ہوئی اور دوسرا رہا ہوا۔ رہا ہونے والے سے حضرت یوسف نے کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا۔ وہ کچھ دیر بھولا رہا۔ پھر بادشاہ نے ایک خواب دیکھی اور اس خواب کی تعبیر پوچھی تو جیل سے رہا ہونے والے کو حضرت یوسف یاد آئے آپ نے تعبیر بتائی۔ تو شاہ مصر نے آپ کوزمینی خزانوں کا انچارج بنا دیا۔ ملک میں قحط پڑا تو دور دراز سے لوگ اناج لینے حضرت یوسف کے پاس آنے لگے۔اسی طرح اناج لینے کے لئے آنے والے لوگوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی بھی تھے۔ ان کے علاقے میں بھی شدید قحط پڑا تھا سو وہ اپنی ضرورت کے لئے اناج لینے آئے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر پہچان گئے۔ لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔

•انہوں نے آپ سے درخواست کی کہ کچھ اناج دے دیں۔ آپ نے انہیں اناج دیا اور باتوں باتوں میں ان سے گھر کے افراد کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دس بھائی ہیں اور ایک ہمارا سوتیلا بھائی بنیامین بھی ہے۔ آپ نے ان سے کہا کہ آئندہ جب تم اناج لینے کے لئے آؤ تو اپنے اس چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لیکر آنا۔ تمام بھائیوں نے وعدہ کیا کہ اگلی مرتبہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیکر آئیں گے۔

گھر واپس پہنچ کر بھائیوں نے تمام ذکر اپنے والد سے کیا اور کہا کہ اگلی مرتبہ ہم بنیامین کو بھی اپنے ساتھ مصر لیکر جائیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا میں کیسے بنیامین کو تمہارے ساتھ بھیج سکتا ہوں جب کہ اس سے پہلے تم یوسف کے بارے میں ایک کو تاہی کر چکے ہو۔ تمہاری غلطی کی وجہ سے یوسف کھو گیا۔ کیا میں اسی طرح اب بنیامین کو بھی کھو دوں۔ انہوں نے جوابا کہا ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ بھجوادیں تو ہم اس کی حفاظت کریں گے اور اگر خدا نے چاہا تو یہ باحفاظت واپس آجائے گا۔ ویسے بھی غلہ لانے کے لئے بنیامین کا جانا ضروری ہے ورنہ وہاں سے اناج ملنے کی امید نہیں ہے۔ ان کی باتوں اور حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو لے جانے کی اجازت دے دی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ زیر آیت: وَقَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ ؕ وَمَاۤ اُغۡنِیۡ عَنۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ ۚ وَعَلَیۡہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُتَوَکِّلُوۡنَ﴿۶۸﴾ (يوسف: 68)۔ فرماتے ہیں: یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یوسفؑ کے پاس جاتے ہوئے الگ الگ دروازوں سے جانا۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ انہیں الہاماً حالات معلوم ہو گئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ بنیامین کو یوسفؑ سے الگ ملنے کا موقعہ مل جائے تاکہ وہ انہیں گھر کے حالات سے مطلع کر دیں۔ علیہ توکلت کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ میرا اصل یقین خدا کی ذات پر ہے نہ اپنی تدبیر اور اپنے لڑکوں کو جو ہمیشہ اپنی تدابیر پر بھروسہ کرتے تھے۔ سبق دیا ہے کہ جب خداتعالیٰ کے نبی جو عقلاً بھی دنیا سے ممتاز ہوتے ہیں الٰہی نصرت کو ہی اصل چیز تصور کرتے ہیں تو دوسرے کیوں ایسا نہ کریں۔(تفسیر کبیر جلد 03 صفحہ338)۔ انہیں چونکہ الہام سے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ حاکم جو غلہ دیتا ہے یوسفؑ ہے انہوں نے الگ الگ ملنے کا حکم دیا تاکہ بن یامین یوسفؑ سے علیحدگی میں مل سکیں۔

(تفسیر کبیر جلد 03 صفحہ339)

•یہ قافلہ مصر کی جانب روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک مرتبہ پھراناج کامطالبہ کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام بنیامین کو لے کر ایک طرف ہو گئے اور اسے بتایا کہ میں تمہارا گمشدہ بھائی یوسف ہوں۔ اب تم فکر نہ کرو جلد ہی حالات اچھے ہو جائیں گے۔ ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ اناج کے بورے بھر دیے گئے اور قافلے کے چلنے کی تیاری شروع ہو گئی۔ اس اثناء میں ایک شاہی ہرکارے نے بردران یوسف کو مخاطب کر کے کہا۔ کہ اے قافلے والو ! تم چو ر ہو !! تم نے شاہی پیمانہ چرالیا ہے کیونکہ ہم اسے گم پاتے ہیں۔ یوسف کے بھائیوں کا اصرار تھا کہ انہوں نے شاہی پیمانہ نہیں چرایا جب کہ شاہی کارندوں کا کہنا تھا کہ پیمانہ تمہارے ہی سامان میں ہے۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ تلاشی لی جائے اور جس کے پاس سے وہ پیمانہ بر آمد ہو اسے یہیں روک لیا جائے۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ اناج ناپتے ہوئے غلطی سے وہ پیمانہ بنیامین کے بورے میں رہ گیا تھا اور کسی کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ بہر حال تلاشی ہوئی تو وہ پیمانہ بنیامین کے بورے میں سے نکل آیا اور قانونًا بنیامین کو مصر میں ٹھہرناپڑ گیا۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ذریعہ تھا بنیامین کو وہاں روکنے کا۔ یوں بنیامین وہیں رک گیا اور باقی بھائی روتے پیٹتے گھر واپس پہنچ گئے۔ اور والد کو بتانا پڑا کہ کیا واقعہ ہوا ہے۔

• حضرت یعقوب علیہ السلام خداتعالیٰ کی ہر تقدیر پر راضی رہنے والے انسان تھے۔ آپ ان سب سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک گئے۔ رو رو کر التجا کی کہ اے اللہ میں یوسف اور بنیامین دونوں کی گمشدگی پر تیرے حضور التجا کر تاہوں ہمارے دکھوں کے دنوں کو دور کر دے اور ہم پر رحم فرما۔ میرے دونوں گمشدہ بیٹے مجھے عطا کر دے۔ یہ دعائیں کرنے کے بعد آپ دوبارہ اپنے بیٹوں کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ جاؤ بنیامین کی رہائی کے لئے کوشش کرو۔ یقیناکوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ وہ بھائی ایک مرتبہ پر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آ پہنچے۔ ان سے مدد کی درخواست کی۔ اب یوسف نے یہی بہتر سمجھا کہ انہیں سب بات بتادیں۔ آپ نے انہیں کہا کیا تم اس حرکت کو بھول گئے ہو جو تم نے اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کی تھی۔ یہ سن کر بھائیوں نے پوچھا یہ بات آپ کو کیسے پتہ ہے؟ کہیں آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں؟۔ ہاں میں یوسف ہوں ! حضرت یوسف نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ لیکن پریشان مت ہو۔ تم میرے بھائی ہو میں تمہاری غلطیاں معاف کر تا ہوں۔ اب تم ایسا کرو کہ جاؤ اور والد محترم کو لیکر میرے پاس آ جاؤ۔ تاکہ ہم سب پر سکون طور پر یہاں اکٹھے رہ سکیں۔

•دوسری طرف حضرت یعقوب علیہ السلام بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ دعائیں قبول ہونے کا وقت آچکا ہے۔ آپ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ بے شک تم مجھے دیوانہ کہو لیکن نہ جانے کیوں مجھے اپنے بیٹے یوسف کی خوشبو سی آرہی ہے۔ اور پھربالکل ایساہی ہوا اور وہ پیغام لانے والا حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خوشیوں بھرایہ پیغام لے کر آیا کہ یوسف نہ صرف زندہ ہے بلکہ مصر میں ایک معزز عہدے پر فائز ہے۔ آپ بھی چلیں تاکہ یوسف سے ملاقات ہو سکے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی بیوی یوسف کی والدہ دونوں آپ کے پاس پہنچے اور دکھ کے دنوں کا خاتمہ ہو گیا۔ تمام لوگ بہت خوش تھے اور اس خوشی میں خدا تعالیٰ کا بے انتہاء شکر کر رہے تھے۔ گیارہ بھائی اور یوسف کے والدین خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور تب حضرت یوسف نے اپنے والد کو یاد کروایا کہ آج سے بہت سال پہلے جو میں نے خواب بیان کیا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند میرے سامنے خداتعالیٰ کے حضور سجدہ کر رہے ہیں وہ آج پورا ہو گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کے احسانات تھے کہ میں اس مقام تک پہنچا ہوں۔ یوں یہ خاندان مصرمیں رہنے لگا اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں ہی وفات پائی۔

اُولِی الۡاَیۡدِیۡ وَالۡاَبۡصَارِ

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ’’أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‘‘ کی صفات استعمال فرمائی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت ’’وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‘‘ (ص: 46) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دیکھو قرآن شریف میں خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی تعریف میں ’’أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‘‘ فرماتا ہے کہیں ’’أُولِي الْأَلْسِنَةِ‘‘ نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو وہی لوگ پسند ہیں جو بصر اور بصیرت سے خدا کے کام اور کلام کو دیکھتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں بجز تزکیہ نفس اور تطہیر قوائے باطنیہ کے ہر گز حاصل نہیں ہو سکتیں‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 07 صفحہ38)

پھر فرمایا: ’’انبیاء علیہم السلام کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‘‘ جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کام کرنے والے اور دیکھ بھال کر ان راہوں کی طرف بلاتے تھے جن پر خدا تعالیٰ نے انہیں قائم کیا تھا اوروہ تصورات کے پیچھے لگنے والے اور خیالی آدمی نہ تھے وہ عملی آدمی تھے اور علیٰ وجہ البصیرت حق کی طرف بلاتے تھے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد7 صفحہ39)

ایک اور جگہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کے لئے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگرچہ فیصلہ دعاؤں سے ہی ہونے والا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جاوے۔ نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہیے اور قلم کو روکنا نہیں چاہیے۔ نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اسی لیے ’’أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ‘‘ کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں۔ پس چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رکیں اس سے ثواب ہوتا ہے۔ جہاں پر بیان اور لسان سے کام لے سکو کام لئے جاؤ اور جو جو باتیں تائید دین کے لیے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کیے جاؤ وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد7 صفحہ39)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں فرماتے ہیں: ’’وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ۔‘‘ (ص: 46) اور یاد کر ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو، جو بڑے فعال اور دور اندیش تھے۔ ید یعنی ہاتھ کام پر دلالت کرتا ہے پس جن کے بہت ہاتھ تھے درحقیقت وہ بہت کام کرنے والے تھے۔ اور دور اندیش ’’أُولِي الْأَبْصَارِ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کیونکہ بہت سی آنکھوں سے مراد دور اندیشی ہی ہو سکتی ہے۔

حضرت یعقوبؑ کا نام اسرائیل اور اس کی وجہ

قرآن کریم میں ذکر ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِیۡلُ عَلٰی نَفۡسِہٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰٮۃُ‘‘ (آل عمران: 94) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں اس آیت کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:سب کا سب کھانا سوائے اس حصہ کے جو اسرائیل (یعنی حضرت یعقوب) نے تورات کے اتارے جانے سے پہلے اپنے لئےمکروہ قرار دے دیا تھا بنی اسرائیل کے لئے حلال تھا۔ حاشیے میں نوٹ میں لکھا:حضرت یعقوب علیہ السلام کا ایک کشفی نام اسرائیل تھا۔

(پرانا عہدنامہ، پیدائش باب 32 آیت 28)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر کی جلد اول میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 41 کے حل لغات میں ’’بنی اسرائیل‘‘ کے لفظ پر نوٹ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو بائبل کے بیان کے مطابق ان کو ان کی بہادری کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا۔ تورات میں آتا ہے ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔‘‘

(پیدائش باب 32 آیت 28)

عربی لغت سے لفظ اسرائیل کے معنے

عربی اسرائیل کا عبرانی تلفظ یَسْرَائِیْل ہے اور یہ مرکب ہے یسر اور ایل سے۔ یسر کے معنے ہیں جنگجو بہادر سپاہی اور ایل کے معنی ہیں خدا۔ پس یسرائیل کے معنے ہوئے: خدا کا بہادر سپاہی۔ عربی زبان کے لحاظ سے یہ لفظ اسر اور ایل سے مرکب ہے۔ عربی زبان میں اَسَرَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں قَبَضَ عَلَیْہِ وَ اَخَذَہٗ (اقرب) یعنی فلاں شخص اپنے مدمقابل پر غالب آ گیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ان معنوں کے اعتبار سے اِسْر کے معنے ہونگے وہ شخص جس کے اندر بہادری اور قوت ہو اور وہ اپنے مدمقابل پر غلبہ پا کر اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ پس مادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے معنے مندرجہ ذیل ہونگے۔ (1) ازلی ابدی بادشاہ (یعنی خدا تعالیٰ) کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ۔ (2) ازلی ابدی مدبر ہستی کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ۔ (3) بار بار لوٹنے والے کا (یعنی تواب خدا کا) بہادر بندہ۔

دوسرے مادہ یعنی یَسْر کے لحاظ سے اسرائیل کے معنے ہونگے اللہ تعالیٰ کا پورا مطیع و فرمانبردار اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لینے والا۔۔۔ یہ لفظ اس خاص حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انبیاء کی فطرت میں پائی جاتی ہے یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے لئے سر تسلیم خم رکھنا۔ گویا اسرائیل اس شخص کو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کے ماننے کے لئے ہر وقت اپنے تئیں تیار رکھے۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 350 تا 352)

اسرائیل کس سے کشتی لڑے تھے

حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران میں رات کے وقت ایک شخص نے کشتی لڑنی شروع کی اور ساری رات کشتی لڑتا رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ کُشتی لڑنے والا خدا تعالیٰ تھا۔ (پیدائش باب 32 آیت 30)۔ صبح کے وقت اس کُشتی لڑنے والے نے حضرت یعقوبؑ سے ان کا نام پوچھا تو انہو ں نے یعقوب نام بتایا اس پر اس نے کہا: ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔‘‘ (پیدائش باب 32 آیت 28)۔ بائبل کے شارحین کُشتی لڑنے والے کو فرشتہ کہتے ہیں گو اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے بہرحال وہ فرشتہ ہو یا خدا تعالیٰ عالم تمثیل میں انہوں نے دیکھا ہو۔ اس نے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام دیا۔ اور اس کے معنے بھی بتا دیئے کہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک وہ قوی سمجھا گیا اور غالب ہوا۔ پس اسرائیل کے معنے بائبل کے بیان کے مطابق ’’خدا کا قوی بندہ‘‘ یا ’’خدا کا غالب بندہ‘‘ ہیں۔ پس حضرت یعقوبؑ کو رویا یا کشف میں اسرائیل کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 354)

قرآن کریم میں تاریخی واقعات
اور قوموں کے اسماء کا حقیقی استعمال

حضرت یعقوب علیہ السلام کےتعارف میں بنو اسرائیل کی تاریخ مختصرا بتا دینے سے اس الزام کی حقیقت معلوم ہو جائے گی جو قرآن کریم پر لگایا جاتا ہے کہ یہ کتاب یہودی مذہب اور اسرائیلی تاریخ سے ناواقف ہے جبکہ یہ کامل کتاب ہر بات کو اس کی درست تفصیلات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر کی جلد اول میں فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم اس امتیاز (یعنی بنی اسرائیل اور یہود کے لفظ) کوصحیح طور پر بیان کرتا ہے یعنی جہاں مذہب کا سوال ہوتا ہے یہودی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ لیکن جہاں ان قومی وعدوں کا ذکر کرتا ہے جو آل ابراہیم یا آل موسیٰؑ یا آل داود سے خاص تھے یا موسوی انبیاء کے مخاطبین کا ذکر کرتا ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرماتا بلکہ بنی اسرائیل کا لفظ استعمال فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ وعدے موسوی دین اختیار کرنے والوں سے نہ تھے بلکہ ان بنی اسرائیل سے تھے جو خدا تعالیٰ کے عہد کو قائم رکھیں۔ خواہ موسوی دین پر ہوں خواہ اس کے بعد آنے والے کسی اور الٰہی دین پر ہوں جیسے کہ مسلمان ہونے والے بنی اسرائیل۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ان معترضین کا جو قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگاتے ہیں یہ حال ہے کہ ان کی مذہبی کتب تک اس بارہ میں غلطی کر جاتی ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 358)

بنو اسرائیل کا لفظ قرآن کریم میں اڑتیس جگہ استعمال ہوا ہے اور یہودی کا لفظ نو جگہ اور ھود یہود کی جمع کے معنو ں میں تین دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ان مقامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی یا ھُوْد جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ ھود کا لفظ جن تین جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ گویا یہودی مذہب اور نصرانی مذہب کے متبعین کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہود کا لفظ جن نو مقامات میں استعمال کیا گیا ہے ان میں سے بھی آٹھ مقامات میں نصاریٰ کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے۔ جس سے واضح ہے کہ وہاں اسرائیلی قوم مراد نہیں بلکہ موسوی مذہب مراد ہے۔ باقی ایک مقام میں نصاری کا لفظ ساتھ استعمال نہیں۔ یعنی مائدہ میں (مراد ہے اس آیت میں: ’’وَقَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ‘‘ (المائدہ: 65) اس کی بھی سب آیتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اس جگہ یہودی مذہب کے پیرووں کا ذکر ہے نہ کہ کسی نسل کے لوگوں کا۔ کیونکہ اس میں عقائد پر بحث ہے۔ اس کے بالمقابل بنی اسرائیل کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اور قرآن کریم کے کسی ایک مقام پر بھی اسے نصاریٰ کے مقابل پر استعمال نہیں کیا گیا۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 355)

حضرت یعقوب ؑ ابراہیمی طیور میں سے ایک طیر

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا سے مکالمہ محفوظ کیا ہے جیسا کہ فرمایا: وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾٪ (البقرہ: 261) ترجمہ: اور (اس واقعہ کو بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے رب! مجھے بتا کہ تو مردے کس طرح زندہ کرتا ہے۔ فرمایا کہ کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ (ابراہیم نے) کہا۔ کیوں نہیں (ایمان تو بیشک حاصل ہو چکا ہے) لیکن اپنے اطمینان قلب کی خاطر (میں نے یہ سوال کیا ہے) فرمایا۔ اچھا! تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے ساتھ سدھا لے۔ پھر ہر ایک پہاڑ پر ان میں سے ایک (ایک) حصہ رکھ دے۔ پھر انہیں بلا۔ وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ چلے آئیں گے اور جان لے کہ اللہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ظاہری کلام نہیں بلکہ مجازی کلام ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی احیاء موتی ٰکا جو کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اسے پورا کر کے دکھا اور مجھے بتا کہ میری قوم میں زندگی کی روح کس طرح پیدا ہو گی؟ جبکہ میں بڈھا ہوں اور کام بہت اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے وعدہ کیا ہے تو یہ کام ہو کر رہیگا۔ حضرت ابراہیمؑ نے عرض کیا کہ ہوکر تو ضرور رہے گا۔ مگر میں اپنے اطمینان کے لئے پوچھتا ہوں کہ یہ مخالف حالات کس طرح بدلیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تو چار پرندے لے کر سدھا۔ اور ہر ایک کو پہاڑ پر رکھدے۔ پھر ان کو بلا اور دیکھ کہ وہ کس طرح تیری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ یعنی اپنی اولاد میں سے چار کی تربیت کر۔ وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئےاس احیاء کے کام کی تکمیل کریں گے۔

یہ چار روحانی پرندے حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوبؔ اور حضرت یوسفؑ ہیں۔ ان میں دو کی حضرت ابراہیمؑ نے براہ راست تربیت کی اور دو کی بالواسطہ۔ پہاڑ پر رکھنے کے معنی بھی یہی تھے کہ ان کی نہایت اعلیٰ تربیت کر۔ کیونکہ وہ بہت بڑے درجہ کے ہونگے۔ گویا پہاڑ پر رکھنے میں ان کے رفیع الدرجات ہونے کی طرف اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بلندیوں کی چوٹیوں تک جا پہنچیں گے۔ اسی طرح چار پرندوں کو علیحدہ علیحدہ چار پہاڑوں پر رکھنے کے یہ معنے تھے۔ کہ یہ احیاء چار علیحدہ علیحدہ وقتوں میں ہو گا۔ غرض اس طرح احیاء قومی کا وہ نقشہ جو حضرت ابراہیمؑ کے قریب زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا انہیں بتا دیا گیا۔

اسی طرح بعد کے زمانہ کے لئے بھی اس میں حضرت ابراہیمؑ کی قوم کی چار ترقیوں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ ایمان تو ہے ’’وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ‘‘ یہ زبان کا ایمان ہے، میں دیکھتا ہوں کہ آ پ مر دوں کو زندہ کر تے ہیں اور اقرار کر نا پڑتا ہے کہ کر تے ہیں۔ مگر دل کہتا ہے کہ یہ طا قت میری اولاد کی نسبت بھی استعمال ہو۔ میں چا ہتا ہوں کہ یہ نشان اپنے نفس میں بھی دیکھوں۔ اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری قوم چار دفعہ مردہ ہو گی اور ہم اسے چار دفعہ زندہ کریں گے۔چنا نچہ ایک دفعہ حضرت موسٰےؑ کے زمانہ میں۔ ان کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز بلند ہوئی اور یہ مردہ زندہ ہوا۔پھر حضرت عیسٰیؑ کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز بلند ہوئی اوریہ مردہ زندہ ہوا۔ پھر آنحضرتؐ کے ذریعہ وہی آواز بلند ہوئی اور اس مردہ قوم کو زندگی ملی۔ اور چو تھی بار حضرت مسیح مو عودؑ کے ذریعہ ابراہیمی آواز پھیلی اور وہی مردہ زندہ ہوا۔ چار دفعہ ابراہیمی نسل کوحضرت ابراہیمؑ نے آ وازیں دیں اور چا روں دفعہ وہ دوڑ کر جمع ہو گئی۔

پہلا پر ندہ جسے حضرت ابراہیمؑ نے بلا یا اور اطمینان قلب حا صل کیا وہ مو سوی اُمّت تھی دوسرا پر ندہ عیسوی اُمت تھی۔ تیسرا پر ندہ آنحضرتؐ کے جلا نی ظہور کی حا مل اور مظہر محمدی جما عت تھی۔ اور چو تھا پر ندہ آ پ ؐ کے جما لی ظہور کی مظہر جماعت احمدیہ ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قلب کو راحت پہنچائی اور آ پ نے کہا کہ واقعی میرا خدا زندہ کرنے والا ہے۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پر خدا تعالیٰ نے اپنا خاص فضل نازل کیا۔ اور انہیں روحانی لحاظ سے زندہ کر دیا غرض اس میں قریب اور بعید دونوں زمانوں کیلئے پیشگوئی کی گئی تھی۔ جو اپنے اپنے وقت میں بڑی شان سے پوری ہوئی۔ اور خداتعالیٰ کا عزیز اور حکیم ہونا ظاہر ہوگیا۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ602-604)

حضرت یعقوبؑ کی وصیتیں
پہلی وصیت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بچوں کو اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے بچوں کو وصیت کرنے کا ذکر یوں ملتا ہے: وَوَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَیَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۳﴾ (البقرہ: 133)۔ اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) اس بات کی تاکید کی (اور کہا کہ) اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لئے چن لیا ہے۔ پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (اللہ کے) پورے فرمانبردار ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں: ’’فرماتا ہے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور ابراہیمؑ کے پوتے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اِس بات کی تاکید کی تھی کہ تم اپنی خیر خواہی صرف اپنی ذات یا اپنی قوم تک محدود نہ رکھنا بلکہ اُسے وسیع کرتے چلے جانا اور ساری دنیا کو اِس میں شامل کرنا۔ اس جگہ دین سے مراد وہی لائحہ عمل ہے جس میں تمام جہان کی بہتری مد نظر ہو۔ گویا ابراہیمؑ نے اپنے پڑپوتوں تک کو ہدایت دی کہ اپنے آپ کو صفت رب العالمین کا مظہر بنانا اور دنیا کی کسی قوم کو اپنی خیر خواہی سے محروم نہ رکھنا۔

’’فَلَا تَمُوْ تُنَ اِلَّا وَاَنْتَمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ کے دو معنے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر وقت اسلام پر قائم رہو۔ کیونکہ موت کے متعلق کوئی انسان نہیں جانتا کہ وہ کب آجائے۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ہمیشہ رب العالمین کے فرمانبردار رہو۔ اور خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اپنی زندگی بسر کرو۔ تاکہ جب موت آئے تو وہ تمہیں اطاعت کے سوا اور کسی حالت میں نہ پائے۔

دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق بڑھاؤکہ وہ تمہاری تباہی کو برداشت ہی نہ کر ے۔ اور اُسوقت تم کو موت دے جبکہ تم کامل مومن بن چکے ہواور اس کی خوشنودی حاصل کر چکے ہو۔

قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی رہتی ہے۔ کہ دنیا جہاں کو بھلا دیتا ہے اور کبھی دوسری چیزوں کی طرف اُسے اتنی توجہ ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو منافق ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کس طرح !اُس نے کہا۔ یا رسول اللہ میں آپ کے پاس آتا ہوں تو میری اور حالت ہوتی ہے اور جب میں گھر جاتا ہو تو میری اور حالت ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا۔ یہ کوئی گھبراہٹ والی بات نہیں۔ مگر ہر وقت ایک جیسی حالت رہے تو انسان مر جائے۔ دراصل قبض اور بسط کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں۔ کامل مومن کی جو حالت ہوقبض ہوتی ہے وہ اس سے نچلے درجے والے کیلئے بسط کی حالت ہوتی ہے۔ اِسی طرح انبیاء پر بھی قبض و بسط کا دور آتا رہا ہے مگر نبیوں کی قبض صدیقوں کی بسط ہوتی ہے۔ اِسی لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ ’’حَسَنَاتُ اْلَا بْراَرِ سَیِّئَاتُ اْلُمقَرِ بینَ‘‘۔ یعنی نیک لوگوں کی نیکیاں بھی مقربین کی بدیاں ہوتی ہیں۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ اوسط درجہ کے لوگ جس کو نیکی سمجھتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے نزدیک بعض دفعہ بدی بن جاتی ہے اور اوسط درجہ کے لوگوں کی بدیاں ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی نیکیاں ہوتی ہیں۔ پس چونکہ یہ دو حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں اور موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے فرمایا کہ تم خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق بڑھاؤ کہ تم پر موت ایسے وقت میں آئے جو تمہارا بہترین وقت ہو اور ملک الموت تمہاری اسوقت جان نکالے جب تمہارا خدا تعالیٰ سے ایک سچا اور مخلصانہ تعلق قائم ہو چکا ہو۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ202-203)

دوسری وصیت

دوسری وصیت اس آیت سے اگلی آیت میں یوں بیان ہوئی ہے: اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَاِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾۔ (البقرہ: 134) کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب پر موت (کی گھڑی) آئی (اور) جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے (جواباً) کہا کہ ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادوں ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے عبادت کریں گے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔

تفسیر: حضر یعقوب الموت ایک محاورہ ہے جو جان کندنی کیلئے نہیں بلکہ موت کے قریب آجانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ورنہ جان کندنی کے وقت تو انسان کلام ہی نہیں کر سکتا۔۔۔ تو حَضَرَیَعْقُوْبَ الْمَوْتُ سے مراد یہ ہے کہ اُن کی موت کا وقت قریب آگیا تھا۔۔۔ اور اپنی اولاد سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی پرستش کروگے؟ ’’قَالُوا نَعْبُدُ إِلٰهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ‘‘ اس آیت پر عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ تو اُن کے آباء میں سے نہ تھے۔ بلکہ چچا تھے۔ پھر انہیں اَبْ کیوں کہا؟ مگر یہ اعتراض اُن کی زبان سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ عربی زبان میں اَبٌ کا لفظ چچا کیلئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب انہوں نے ’’نَعْبُدُ إِلٰهَكَ‘‘ کہد یا تھا تو پھر ’’إِلٰهَ آبَآئِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلٰهًا وَاحِدًا‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ جویعقوبؑ کا معبود تھا وہی ابراہیمؑ کا معبود تھا وہی اسمٰعیلؑ اور اسحاق ؑ کا معبود تھا۔ پس ’’إِلٰهَكَ‘‘ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ’’إِلٰهَ آبَائِكَ‘‘ کہنا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کرتے ہوئے ابراہیمؑ  اسمٰعیلؑ اور اسحاق ؑ کے الفاظ بڑھانا کیا معنے رکھتا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے جو انسان کو نظر نہیں آتی۔ ہم رب، رحمٰن اور رحیم وغیرہ الفاظ تو استعمال کر لیتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی پوری حقیقت صرف ان چند الفاظ سے واضح نہیں ہوتی اور جب انسان یہ چاہتا ہو کہ وہ کسی بات کو کھول کر بیان کرے تو اس کی وضاحت کے لئے مختلف طریق اختیار کرتا ہے۔ جیسے اگر انسان اپنے کسی محسن کا احسان یاد دلائے تو وہ کہتا ہے کہ فلاں کا مجھ پر احسان ہے اور پھراُس کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُس نے کیا احسان کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جلال اور اُس کے جمال کا اظہار مختلف تجلیات میں ہوتا ہے۔ کوئی تجلی حضرت ابراہیمؑ پر ہوئی،کوئی تجلی حضرت اسحاق ؑ پر ہوئی،کوئی تجلی حضرت اسماعیلؑ پر ہوئی۔ پس اُن کی اولاد نے ضروری سمجھا کہ وہ اپنے اُن آباء کا نام لے کر کہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ان تجلیات سے خوب آگاہ ہیں جو اُن کے وجود سے ظاہر ہوئیں۔ ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی زندگی بھی دیکھی ہے اور خداتعالیٰ کی وہ تجلی بھی دیکھی ہے جو حضرت ابراہیمؑ پر ظاہر ہوئی تھی۔ اسی طرح ہم نے وہ تجلی بھی دیکھی ہے جو حضرت اسمٰعیلؑ پر ظاہر ہوئی تھی۔ پھر حضرت اسحاق ؑ والی تجلی سے بھی ہم ناواقف نہیں۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے تفصیلی علم کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ کیا اتنے جلوے دیکھنے کے بعد بھی ہم بے ایمانی کر سکتے ہیں؟۔۔ حضرت یعقوبؑ کی اولاد نے بھی یہی جواب دیا۔ چونکہ ان کے ایک حصہ نے حضرت یوسفؑ کی مخالفت کر کے عدمِ ایمان کا ثبوت دیا تھا۔ اور پھر مصر میں بُت پرستی بھی عام تھی اس لئے حضرت یعقوبؑ نے اُن سے آخری وقت میں پوچھا کہ میری زندگی میں تم میری پیروی کرتے رہے لیکن اب بتاوٴ کہ میرے مرنے کے بعد تم کیا رویہ اختیار کرو گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایمان اب پختہ ہو چکا ہے اور ہم پر تمام تجلیات ظاہر ہو چکی ہیں اب ہم خداتعالیٰ کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ وہ نادانی کا وقت اور تھا جبکہ ہم نے یوسف علیہ السلام کی مخالفت کی اور اُن کو کوئیں میں ڈال دیا تھا۔ اب ہم سے یہ حماقت نہیں ہو سکتی۔

’’إِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘ چونکہ انہوں نے مختلف ناموں یعنی ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ اور اسحٰقؑ کی طرف اِلٰہ کو منسوب کیا تھا اس لئے خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کئی اِلٰہ ہوں اس شبہ کے ازالہ کے لئے بتایا کہ وہ ایک ہی خدا ہے۔ (اس کا ایک اور معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ) اس حال میں کہ ایک ہی خدا ہے صرف اس کی تجلیات مختلف ہیں۔ درحقیقت اس میں یہود کو توجہ دلائی گئی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تو مرتے وقت بھی ایک خدا کی پرستش کی تاکید کرتے گئے ہیں پھر اُن کی نسل آج اپنی ہواوہوس کے پیچھے کیوں پڑرہی ہے۔

’’نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک ہر سچا پرستار مسلم ہے۔ چنانچہ پہلے کہا تھا۔ ’’فَلَا تَمُوْ تُنَ اِلَّا وَاَنْتَمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ اور اس جگہ انہوں نے خود کہا ہے ’’نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ‘‘ حالانکہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کا سچا پرستار مسلم ہے اور اسی بنا پر تمام پہلے مذاہب کے پیرو جو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم پر سچے دل سے عمل کرنے والے تھے وہ بھی مسلم ہی تھے۔ کیونکہ جو بھی خدااور اس کے نبی پر ایمان لاتا ہے وہ مسلم بن جاتا ہے۔ مگر ان میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ اُن کا نام مسلم نہ تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے لوگ مسلم نام سے پکارے جاتے ہیں۔ پہلی امتوں کے افراد بے شک اطاعت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مسلم تھے مگر لفظ مسلم نام کے طور پر وہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اور نہ اس نام سے وہ پکارے جاتے تھے۔ لیکن اس ا ُمت کے لوگ اس نام سے پکارے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے مذاہب منسوخ ہونے والے تھے لیکن اسلام نے کبھی منسوخ نہیں ہونا تھا۔ پس اس کو یہ نام دیا گیا تاکہ گڑبڑ واقع نہ ہو۔ اور اُسی مذہب کے پیرو مسلم کہلائیں جس نے قیامت تک قائم رہنا ہے۔پھر سابق مذاہب کے پیروٴوں کو اس وجہ سے بھی مسلم کا نام نہیں دیا گیا کہ نام پانے کا مستحق کامل مذہب ہی ہوتا ہے پس جب وہ مذہب بھیجا گیا جو اپنے کامل ہونے کی وجہ سے تمام مذاہب سے افضل تھا تو اس کا نام بھی اسلام رکھ دیا گیا۔ تاکہ اس کا نام ہی اس کی غرض دغایت پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہو۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ203-206)

کیا حضرت یعقوبؑ نے وصیت کی تھی؟

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی تھی یا نہیں؟ اور اگر کی تھی تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس بارہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم اس کا تورات سے ثبوت پیش کریں۔ یہ تو عقلی بات ہے کہ ہر راستباز اپنی اولاد کو اس قسم کی نصیحتیں کرتا اور اُن پر عمل کرنے کی تاکید کیا کرتا ہے۔ خصوصاً موت کے وقت اپنی اولاد کو وصیت کرنا توایک ایسی عام بات ہے جس کا نظارہ ہمیں لاکھوں آدمیوں کی زندگیوں میں نظر آتا ہے اور پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے تو یہ بات اور بھی ضروری تھی کیونکہ وہ حصہ جو ٹھوکر کھا چکا ہو اس کے متعلق والدین کو ہمیشہ فکر ہوتی ہے کہ اُسے نصیحت کی جائے۔ پس یہ ایک فطری بات ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا لیکن اگر انہوں نے وصیت کی بھی تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا بنی اسرائیل نے بائیبل میں یہ وصیت رہنے دینی تھی؟ جن لوگوں کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے اتنا بغض ہے کہ راستہ چھوڑ کر بھی اُن کی عیب جوئی کر لیتے ہیں اگر اُن کا ذکر آجاتا تو انہوں نے اُسے کہاں رہنے دینا تھا۔ مگر باوجود اِس کے کہ اُن کی کُتب انسانی دست بُرد سے محفوظ نہیں۔ اس وصیت کے کچھ کچھ نشان ہمیں مل جاتے ہیں اور یہ نشان بھی خود عیسائیوں نے مہیا کیا ہے۔ کئی عیسائیوں نے قرآن کریم کے ترجمے کئے ہیں۔ اُن میں سے ایک مترجم راڈول بھی تھا۔ اُس نے اپنے مترجم قرآن کریم میں اس آیت کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ مدارش رباہ میں جو طالمود کا حصہ ہے پیدائش باب49 آیت02 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ: ’’اُس وقت کہ ہمارے باپ یعقوب نے اس دنیا کہ چھوڑا اُس نے اپنے بارہ بیٹوں کو اکٹھا کیا اور اُن سے کہا اپنے باپ اسحق کی بات کو سُنو۔ کیا تمہارے دلوں میں قدوس خدا کے متعلق کوئی شبہ ہے؟ انہوں نے کہا سُن اے اسرائیل ہمارے باپ جس طرح تیرے دل میں کوئی شبہ نہیں اسی طرح ہمارے دل میں بھی نہیں۔ کیونکہ وہ آقا ہمارا خدا ہے اور وہ ایک ہے۔‘‘

(MIDS RABBAH ON GENESIS PAGE:98, DEUT PARA 2)

پس حضرت یعقوب علیہ السلام کا اپنے بیٹوں کو جمع کرنا اور انہیں نصیحت کرنا اور پھر ان کا اقرار کرنا ثابت ہے گو اس کی ساری تفصیل نہیں۔ اور یہی فرق ہے جو قرآن کریم کی عظمت کو دوبالا کرتا ہے قرآن کریم 1900 سال کے بعد نازل ہو کر صحیح تفصیل بیان کر دیتا ہے مگر بائیبل اپنے زمانہ کی بھی صحیح تفصیل نہیں بتاتی۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ206-207)

حضرت یعقوب ؑکے بارے میں ایک شبہ
اور اس کا ازالہ

بعض انبیاء کے بارے میں خوف اور حزن کے کلمات قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بعض جگہ جو انبیاء کی نسبت خوف (حضرت زکریا کی نسبت آتا ہے ’’وَاِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ‘‘ (مریم: 6) اور حزن ’’وَابۡیَضَّتۡ عَیۡنٰہُ مِنَ الۡحُزۡنِ‘‘ (یوسف: 85) کا لفظ استعمال ہوا ہے اس جگہ خوف اور حزن ان کی اپنی ذات کے متعلق نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کی نسبت ہوتا ہے اور دوسروں کی نسبت خوف اور حزن کا پیدا ہونا عذاب نہیں کہلاسکتا۔ بلکہ یہ تو ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے کہ انسان دوسروں کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھے۔ اور ان کے درد میں شریک ہو۔ انہی معنوں کے رو سے حزن کا لفظ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہے۔ وہ حزن اپنی ذات کے متعلق نہ تھا۔ بلکہ اپنی اولاد کی نسبت تھا۔ جو گنہ گار ہوکر خدا سے دور جارہی تھی۔ اور یہ حزن عین رحمت تھا۔ اسی طرح حضرت زکریا کی نسبت آتا ہے: ’’وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي‘‘ (مریم: 6)۔ اپنے بعد میں اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں کہ میرے کام کو خراب نہ کردیں۔ یہ خوف بھی ثواب کا موجب اور نیکی کا اعلیٰ نمونہ ہے کیونکہ یہ خوف اپنی ذات کی نسبت نہیں بلکہ اس امر کے متعلق ہے کہ لوگ گمراہ نہ ہوجائیں۔

(تفسیر کبیر جلد3 صفحہ100)

(مرزا خلیل احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اگست 2022