دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 41
نماز کیا ہے؟
ایک قسم کی دعا ہے۔جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنادیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے۔ اب ذرا غور کرو۔ نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہوکر لا الٰہ الا اللّٰہ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اول اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے۔ پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے۔ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے۔ اسم اعظم سے مراد یہ ہےکہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا (حٰمٓ السجدہ: 31) یعنی جولوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسم اعظم استقامت کے نیچے جب بیضۂ بشریت رکھا گیا۔ پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا۔ میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے۔ استقامت سے کیا مراد ہے؟ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے۔ مثلاً دور بین کے اجزاء کو اگر جدا جدا کرکے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی۔ غرض وضع الشیء فی محلّہٖ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے۔ پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کرسکتی۔ دعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں۔ اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو۔ جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) کا مزا آجا تا ہے۔
پس میں چاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لئے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اس کی دعا قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیت دعا کے شاکی ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دعا کی قبولیت کی لذت کو کیونکر پاسکیں گے۔ قبولیت دعا کے نشان ہم اسی دنیا میں پاتے ہیں۔ استقامت کے بعد انسانی دل پر ایک برودت اور سکینت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ کسی قسم کی بظاہر ناکامی اور نامرادی پر بھی دل نہیں جلتا۔ لیکن دعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذرا ذرا سی نامرادی بھی آتش جہنم کی ایک لپٹ ہو کر دل پر مستولی ہوجاتی ہے اور گھبرا گھبرا کر بے قرار کئے دیتی ہے۔ اسی کی طرف ہی اشارہ ہے۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ﴿۷﴾ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ﴿۸﴾ (الہمزہ: 7-8) بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تپ بھی نار جہنم کا ایک نمونہ ہے۔
اب یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے وفات پا جانا تھا۔ اس لئے ظاہری طورپرایک نمونہ اور خدا نمائی کا آلہ دنیا سے اٹھنا تھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک آسان راہ رکھ دی کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ (اٰل عمران: 32) کیونکہ محبو ب اللہ مستقیم ہی ہوتا ہے۔ زیغ رکھنے والا کبھی محبوب نہیں بن سکتا اوررسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہوگیا تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے …اس وقت بھی خدایتعالیٰ نے دنیا کو محروم نہیں چھوڑا اور ایک سلسلہ قائم کیا ہے۔ ہاں اپنے ہاتھ سے اس نے ایک بندہ کو کھڑا کیا اور وہ وہی ہے جو تم میں بیٹھا ہوا بول رہا ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے نزول رحمت کا وقت ہے۔ دعائیں مانگو استقامت چاہو اور درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طوپر بلکہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے، اورآپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔
قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں
اول۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ
(اٰل عمران: 32)
دوم۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
(الاحزاب: 57)
تیسرا موہبت الٰہی۔
(ملفوظات جلد9 صفحہ20-23 ایڈیشن 1984ء)
جب تک دعا کرنے اور کرانے والے میں
ایک تعلق نہ ہو دعا متأثر نہیں ہوتی
بعض لوگ دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ میرےلئے دعا کرو۔ مگر افسوس ہے کہ وہ کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے۔ عنایت علی نے دعا کی ضرورت سمجھی اور خواجہ علی کو بھیج دیا کہ آپ جا کر دعا کرائیں۔ کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ جبتک دعا کرانے والا اپنے اندر ایک صلاحیت اور اتباع کی عادت نہ ڈالے دعا کارگر نہیں ہوسکتی۔ مریض اگر طبیب کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتا۔ ممکن نہیں کہ فائدہ اٹھا سکے۔ جیسے مریض کو ضروری ہے کہ استقامت اور استقلال کے ساتھ طبیب کی رائے پر چلے تو فائدہ اٹھائے گا۔ ایسے ہی دعا کرانے والے کے لئے آداب اور طریق ہیں۔ تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دعا کی خواہش کی۔ بزرگ نے فرمایا کہ دودھ چاول لاؤ۔ وہ شخص حیران ہوا۔ آخر وہ لایا۔ بزرگ نےدعا کی اور اس شخص کاکام ہوگیا۔ آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کے لئے کیا تھا۔ ایسا ہی باوا فرید صاحب کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک شخص کا قبالہ گم ہوا۔ اور وہ دعا کے لئے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوہ کھلاؤ اور وہ قبالہ حلوائی کی دوکان سے مل گیا۔
ان باتوں کے بیان کرنے سے میرا یہ مطلب ہے کہ جب تک دعا کرنے والے اور کرانے والے میں ایک تعلق نہ ہو متاثر نہیں ہوتی۔ غرض جب تک اضطرار کی حالت پیدا نہ ہو اور دعا کرنے والے کا قلق دعا کرانے والے کا قلق نہ ہوجائے کچھ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات یہی مصیبت آتی ہے کہ لوگ دعا کرانے کے آداب سے واقف نہیں ہوتے اور دعا کا کوئی بین فائدہ محسوس نہ کرکے خدا تعالےٰ پر بدظن ہوجاتے ہیں اور اپنی حالت کو قابل رحم بنالیتے ہیں۔
بالآخر میں کہتا ہوں کہ خود دعا کرو یا دعا کراؤ۔ پاکیزگی اور طہارت پیدا کرو۔ استقامت چاہو اور توبہ کے ساتھ گر جاؤ کیونکہ یہی استقامت ہے اس وقت دعا میں قبولیت، نماز میں لذت پیدا ہوگی۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ۔
(ملفوظات جلد9 صفحہ23-24 ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)