تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب الوحی
قسط 2
سوال: ابو سفیان اور ہرقل کا حضورؐ کے بارہ میں کیا مکالمہ ہوا؟
جواب: قریش مکّہ کا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں دمشق ملکِ شام میں تھا، جب حضورؐ کا خط مبارک ہرقل کو ملا، تو ہرقل نے معلومات کے لئے عرب تاجروں کو تلاش کروایا۔ تو ہرقل کے سرکاری اہلکار ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو ہرقل کے پاس ایلیاء لے گئے، جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا ہوا تھا۔ اور اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو ہرقل نے اپنے ترجمان کو بلوایا، اور ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
ہرقل: تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی ہے؟
ابوسفیان: جی، میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں۔
یہ سن کر ہرقل نے حکم دیا کہ اس (ابوسفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھا دو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (مدعی نبوت) کے حالات پوچھوں گا۔ اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم جو اس کے عربی ساتھی ہو اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔
ہرقل: اس شخص (مدّعی نبوت) کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟
ابوسفیان: وہ (نبیؐ) تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں۔
ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟
ابوسفیان: نہیں۔
ہرقل: اس (نبیؐ) کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔
ہرقل: بڑے لوگوں نے اس (نبیؐ) کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟
ابوسفیان: بڑوں نے نہیں، بلکہ کمزوروں نے قبول کیا۔
ہرقل: اس (نبیؐ) کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی اس کے دین سے پھر بھی جاتا ہے؟
ابوسفیان: وہ بڑھ رہے ہیں اور اس کا کوئی ساتھی دین سے نہیں پھرتا۔
ہرقل: کیا اس (نبیؐ) نے اپنے دعویٰ سے پہلے کبھی جھوٹ بولا ہے؟
ابوسفیان: نہیں۔ البتّہ ابھی حال ہی میں ایک صلح کا معاہدہ ہوا ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ (ابوسفیان کا بیان ہے) میں اس بات کے سوا اور کوئی جھوٹ اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔
ہرقل: کیا تمہاری اس (نبیؐ) سے کبھی لڑائی بھی ہوئی ہے؟
ابو سفیان: ہاں۔
ہرقل: پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے؟
ابوسفیان: ہمارے درمیان لڑائی ڈول کی طرح ہے، کبھی وہ ہم سے جیت جاتے ہیں اور کبھی ہم ان سے۔
ہرقل: وہ (نبیؐ) تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟
ابوسفیان: وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔
سوال: ہرقل نے ابو سفیان کے جوابات پر کیا تبصرہ کیا
جواب: ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس (نبیؐ) کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے! تو پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ یہ بات (دعویٰ نبوت کی) تمہاری قوم میں اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی؟ تو تم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تب میں نے سوچا تھا، اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے،؟ تم نے کہا کہ نہیں۔
تو میں نے خیال کیا تھا، ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ شخص اس بہانہ سے اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی نبوت کا دعویٰ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پہ دروغ گوئی کا الزام لگایا ہے؟
تم نے کہا کہ نہیں۔ تو میں جان گیا کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے۔ تو حقیقت یہی ہے کہ کمزور لوگ ہی پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں۔
تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت بھی یہی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ، آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے؟ تم نے کہا نہیں، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں۔؟ تم نے کہا نہیں، تو سن لو پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں؟ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔ یعنی انبیاء کی تعلیمات تو ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔
سوال: ہرقل نے ابو سفیان کو کس بات آگاہ کیا؟
جواب: ہرقل نے ابو سفیان کے سامنے یہ پیشگوئی کی کہ اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔ یعنی ملک شام کا مالک ہوجائے گا۔ اور اس نے کہا مجھے معلوم تھا کہ وہ پیغمبر آنے والا ہے۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا۔ یعنی پیغمبر کے مبعوث ہوجانے پر ہی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس جگہ سے اور کس قوم میں سے نبی چنتا ہے۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کی قدم بوسی کرتا۔
سوال: خط سننے کے بعد اہل روم کا کیا ردّعمل ہوا؟
جب ہرقل خط پڑھ سن کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغا ہوا، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو باہر نکال دیا گیا۔
سوال: ابو سفیان نے اس واقعہ پر کیا تبصرہ کیا؟
جواب: ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ِابوکبشہ کے بیٹے یعنی نبی ؐ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔اس سے تو بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق کبشہ نام کا شخص حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے اجداد میں سے تھا، تو قریشِ مکّہ حقارت کی وجہ سے حضورؐ کو اس نام سے پکارتے تھے۔
سوال: ابو سفیان کو اس واقعہ سے حضورؐ کے بارہ میں کیا یقین ہوا؟
جواب: ابو سفیان نے کہا مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا۔
سوال: ہرقل کس علم کا ماہر تھا؟
جواب: ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا بڑا پادری تھا اس کا بیان ہے ہرقل جب ایلیاء آیا اور ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں۔ ہرقل علم ِنجوم کا ماہر تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ مختونوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے۔
سوال: ہرقل کے وزیروں مشیروں نے کیا تجاویز دیں؟
جواب: مشیروں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ سو اس وجہ سے آپ پریشان نہ ہوں۔ سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ کربھیج دیں کہ وہاں جتنے یہودی ہیں سب قتل کر دئیے جائیں۔
سوال: ہرقل کے پاس شاہِ غسان کا نمائندہ کیا پیغام لایا؟
جواب: اہلِ عرب میں سے ایک آدمی نے اسلام کا پیغام شاہِ غسان کو دیا اور شاہِ غسان نے اس آدمی کو ہرقل کے پاس بھیج دیا۔ اور ہرقل نے اس آدمی سے تمام حالات سنے۔ اور بطورِخاص اس شخص سے ختنہ کے حوالہ سے عربیوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ غسان، عرب اور شام کے درمیان ایک سلطنت تھی اس کا بادشاہ ہرقل کا باز گزار ہوا کرتا تھا۔
سوال: ہرقل نے ختنہ کی تصدیق کے بعد کیا رائے قائم کی؟
جواب: ہرقل نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہی محمد ؐ اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔
سوال: ہرقل نے مزید تصدیق کے لئے کسے خط لکھا؟
جواب: ہرقل نے اپنے ایک دوست رومیہ کو خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم کا ماہر تھا۔ اس نے جواب میں لکھا کہ اس کی رائے بھی نبی ؐ کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق ہے کہ محمد ؐ ہی وہ پیغمبر ہیں، جس کا ظہور متوقع تھا۔
سوال: ہرقل نے رومیہ کی تصدیق کے بعد کیا قدم اٹھایا؟
جواب: رومیہ کی تصدیق کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس نے حکم دیاکہ محل کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔ پھر وہ اپنی راہائش سے باہر آیا۔ اور کہا اے روم والو!
کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو پھر اس نبی (محمدؐ) کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ۔
سوال: ہرقل کے سامنے اہل روم کا کیا رو عمل ہوا؟
جواب: ہرقل سے مسلمان ہونے کی تلقین سن کر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے مگر انہیں بند پایا۔ ہرقل نے ان کی یہ نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا۔
سوال: ہرقل نے عوام کو مطیع رکھنے کی کیا چال چلی؟
جواب: ہرقل نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو وہ میں نے دیکھ لی ہے۔ تب وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔
بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔ کہ اس نے اپنے ایمان کو دل میں ہی چھپائے رکھا۔
(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللہ)
(مختار احمد)