حکایات اولیاء
بیان فرمودہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
قسط 2
سچا متقی ایک قسم کا سَتْر چاہتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں۔
میں نے تذکرۃ الاولیاء میں دیکھا ہے کہ ایک مجمع میں ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اس کو کچھ روپیہ کی ضرورت ہے۔کوئی اس کی مدد کرے ایک نے صالح سمجھ کر اس کو ایک ہزار روپیہ دیا۔ انہوں نے روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی تعریف کی۔اس بات پر وہ رنجیدہ ہوا کہ جب یہاں ہی تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخرت سے محرومیت ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آیا اور کہا کہ وہ روپیہ اس کی والدہ کا تھا جو دینا نہیں چاہتی چنانچہ وہ روپیہ واپس دیا گیا۔ جس پر ہر ایک نے لعنت کی اور کہا کہ جھوٹا ہے۔ اصل میں یہ روپیہ دینا نہیں چاہتا۔
جب شام کے وقت وہ بزرگ گھر گیا۔ تو وہ شخص ہزار روپیہ اس کے پاس لایا اور کہا کہ آپ نے سرعام میری تعریف کر کے مجھے محرومِ ثوابِ آخرت کیا، اس لیے میں نے یہ بہانہ کیا۔ اب یہ روپیہ آپ کا ہے، لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں۔بزرگ رو پڑا اور کہا کہ اب تُو قیامت تک موردِ لعن طعن ہوا، کیونکہ کل کا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے روپیہ واپس دے دیا ہے۔
ایک متقی تو اپنے نفس امّارہ کے برخلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھپاتا ہے۔ اور خفیہ رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کر دیتا ہے۔جیسا کہ ایک بدمعاش کسی بدچلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے، اسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی اس کو دیکھ نہ لے۔سچا متقی ایک قسم کا سَتْر چاہتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ19-20 جدید ایڈیشن)
صدق و صبر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’سو جو لوگ بے صبری کرتے ہیں، وہ شیطان کے قبضہ میں آ جاتے ہیں۔ سو متقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے۔
بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مَردُود و مخذول ہے۔ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا اب تو فیصلہ ہو گیا۔اب ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا۔وہ بہت رویا اور کہا کہ میں اُس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ اگر ملعون ہوں، تو ملعون ہی سہی۔غنیمت ہے مجھ کو ملعون تو کہا جاتا ہے۔ابھی یہ باتیں مرید سے ہو رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تُو مقبول ہے۔سو یہ سب صدق و صبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ21 جدید ایڈیشن)
ولی بننے کے لیے ابتلاء ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ایک مجلس میں بایزید وعظ فرما رہے تھے۔ وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا۔اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے۔جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسمٰعیل کو لے لیا۔کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوئے تھے۔
وَتِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ
(آل عمران: 141)
سو اس شیخ زادے کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے کہاں ایسا صاحبِ خوارق آ گیا کہ لوگ اس کی طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے۔یہ باتیں خدا تعالیٰ نے حضرت بایزید پر ظاہر کیں تو انہوں نے قصہ کے رنگ میں یہ بیان کرنا شروع کیا کہ ایک مجلس میں رات کے وقت ایک لمپ میں پانی سے ملا ہوا تیل جل رہا تھا۔ تیل اور پانی میں بحث ہوئی، پانی نے تیل کو کہا تو کثیف اور گندہ ہے اور باوجود کثافت کے میرے اوپر آتا ہے۔میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہوں لیکن نیچے ہوں اس کا باعث کیا ہے ؟ تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں، تو نے وہ کہاں جھیلی ہیں۔ جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی۔ایک زمانہ تھا جب میں بویا گیا، زمین میں مخفی رہا خاکسار ہوا، پھر خدا کے ارادے سے بڑھا۔ بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا۔کولہو میں پیسا گیا۔پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی۔کیا ان مصائب کے بعد بھی بلندی حاصل نہ کرتا؟
یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب و شدائد کے بعد درجات پاتے ہیں۔لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پاس جا کر بلا مجاہدہ و تزکیہ ایک دم صدیقین میں داخل ہو گیا۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 22-23)
ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اصل بات یہ ہے کہ بداعمال کا نتیجہ بداعمال ہوتا ہے۔اسلام کے لیے خدائے تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد آیا تذکرۃ الاولیاء میں مَیں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست بڈھا نوے برس کی عمر کا تھا۔اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر چڑیوں کے لیے دانے ڈال رہا تھا۔کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڈھے تو کیا کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ چھ سات روز سے متواتر بارش ہوتی رہی ہے۔چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں۔اس نے کہا کہ تُو عبث حرکت کرتا ہے۔تُو کافر ہے۔تجھے اجر کہاں؟ بوڑھے نے جواب دیا۔مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا۔بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا تو دور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بوڑھا طواف کر رہا ہے۔اس کو دیکھ کو مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا کیا میرے دانے ڈالنا ضائع گیا یا ان کا عوض ملا؟‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 63)
تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔ اور خدائے تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بڑے اکابر میں سے ہوئے ہیں۔ان کا نفس بڑا مطہر تھا۔ایک بار انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے بہت برداشتہ ہے۔میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشوا تلاش کروں جو مجھے سکینت اور اطمینان کی راہیں دکھلائے۔والدہ نے جب دیکھا کہ یہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا۔اس کی بات کو مان لیا اور کہا اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں یہ کہہ کر اندر گئی اور اسّی مہریں جو اس نے جمع کی ہوئی تھیں اٹھا کر لائی اور کہا کہ ان مہروں میں سے حصہ شرعی کے موافق چالیس مہریں تیری ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی۔اس لیے چالیس مہریں تجھے بحصہ رسدی دیتی ہوں۔یہ کہہ کر چالیس مہریں لے کر اس کی بغل کے نیچے پیرہن میں سی دیں اور کہا کہ امن کی جگہ پہنچ کر نکال لینا اور عندالضرورت اپنے صرف میں لانا۔سید عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے ماں سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کرو۔اس نے کہا بیٹا جھوٹ نہ بولنا۔اس سے بڑی برکت ہو گی۔اتنا سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہوئے۔اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل میں سے ہو کر آپ رحمۃ اللہ علیہ چلے اس میں چند قزاق راہزن رہتے تھے جو مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔اب دور سے ان پر بھی ان کی نظر پڑی۔قریب آئے تو انہوں نے ایک کمبل پوش فقیر دیکھا۔ایک نے ہنسی سے کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟یہ ابھی تازہ وہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہیں بولنا۔فی الفور بولے کہ ہاں۔چالیس مہریں میری بغل کے نیچے ہیں جو میری ماں نے کیسہ کی طرح سی دی ہیں۔اس نے سمجھا ٹھٹھا کرتا ہے۔دوسرے نے جب پوچھا اس کو بھی یہی جواب دیا۔الغرض ہر ایک چور کو یہی جواب دیا۔وہ انہیں امیر دزداں کے پاس لے گئے کہ بار بار یہی کہتا ہے۔امیر نے کہا اچھا اس کا کپڑا دیکھو تو سہی۔جب تلاشی لی تو چالیس مہریں برآمد ہوئیں۔وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے ہم نے کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا۔امیر نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ دے دیا؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں خدا کے دین کی تلاش میں جاتا ہوں۔والدہ نے نصیحت کی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا۔یہ پہلا امتحان تھا۔جھوٹ کیوں بولتا۔ یہ سن کر امیر دزداں رو پڑا کہ آہ! میں نے ایک بار بھی خدا کا کہنا نہ مانا۔چوروں سے کہا کہ اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا۔میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا اور توبہ کرتا ہوں۔اس پرچوروں نے بھی توبہ کی۔
میں ’’چوروں قطب بنایا ای‘‘ اسی واقعہ کو سمجھتا ہوں۔الغرض سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ67-68)
تبدیل اخلاق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’حکماء کے تبدیل اخلاق پر دو مذہب ہیں۔ایک تو وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انسان تبدیل اخلاق پر قادر ہے اور دوسرے وہ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ وہ قادر نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ کسل اور سستی نہ ہو اور ہاتھ پیر ہلاوے تو تبدیل ہو سکتے ہیں۔مجھے اس مقام پر ایک حکایت یاد آئی ہے اور وہ ہے۔
کہتے ہیں کہ یونانیوں کے مشہور فلاسفر کے پاس ایک آدمی آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر اندر اطلاع کرائی۔افلاطون کا قاعدہ تھا کہ جب تک آنے والے کا حلیہ اور نقوش چہرہ کو معلوم نہ کر لیتا اندر نہیں آنے دیتا تھا۔اور وہ قیافہ سے استنباط کر لیتا کہ شخص مذکور کیسا ہے کیسا نہیں۔نوکر نے آ کر اس شخص کا حلیہ حسب معمول بتلایا۔افلاطون نے جواب دیا کہ اس شخص کو کہہ دو کہ چونکہ تم میں اخلاق رذیلہ بہت ہیں میں ملنا نہیں چاہتا۔اس آدمی نے جب افلاطون کا یہ جواب سنا تو نوکر سے کہا کہ تم جا کر کہہ دو کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ٹھیک ہے مگر میں نے اپنی عادات رذیلہ کا قلع و قمع کر کے اصلاح کر لی ہے۔اس پر افلاطون نے کہا۔ہاں یہ ہو سکتا ہے۔چنانچہ اس کو اندر بلایا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ اس سے ملاقات کی۔
جن حکماء کا یہ خیال ہے کہ تبدیل اخلاق ممکن نہیں وہ غلطی پر ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملازمت پیشہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کر لیتے ہیں پھر اگر ان کو کوئی سونے کا پہاڑ بھی دے تو اس پر نگاہ بھی نہیں کرتے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 119-120 جدید ایڈیشن)
پوستی کی حکایت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’خلیفہ محمد حسن صاحب
(ایک شیعہ عالم) نے لکھا ہے کہ
فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (الصافات: 108) سے جو قرآن میں آیا ہے امام حسین رضی ﷲ عنہ کا شہید ہونا نکلتا ہے اور اس نکتہ پر بہت خوش ہوئے ہیں کہ گویا قرآن شریف کے مغز کو پہنچ گئے ہیں۔
ان کی اس نکتہ دانی پر مجھے ایک پوستی کی حکایت یاد ائی۔وہ یہ ہے کہ ایک پوستی کے پاس ایک لوٹا تھا اور اس میں سوراخ تھا۔جب وہ رفع حاجت کو جاتا۔اس سے پیشتر کہ وہ فارغ ہو کر طہارت کرے سارا پانی لوٹے سے نکل جاتا تھا۔آخر کئی دن کی سوچ اور فکر کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ پہلے طہارت ہی کر لیا کریں اور اپنی تجویز پر بہت ہی خوش ہوا۔اسی قسم کا نکتہ اور نسخہ ان کو ملا ہے۔
جو فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (الصافات: 108) سے امام حسین رضی ﷲ عنہ کی شہادت نکالتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 163)
متقی اور محسن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’متقی کے معنی ہیں ڈرنے والا۔ایک ترکِ شر ہوتا ہے اور ایک اِفاضۂ خیر۔متقی ترک شر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضۂ خیر کو چاہتا ہے۔ میں نے اس کے متعلق ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک بزرگ نے کسی کی دعوت کی اور اپنی طرف سے مہمان نوازی کا پورا اہتمام کیا اور حق ادا کیا۔جب وہ کھانا کھا چکے تو بزرگ نے بڑے انکسار سے کہا کہ میں آپ کے لائق خدمت نہیں کر سکا۔مہمان نے کہا کہ آپ نے مجھ پر احسان نہیں کیا بلکہ میں نے احسان کیا ہے کیونکہ جس وقت تم مصروف تھے میں نے تمہارے مکان کو آگ نہیں لگا دی اگر میں تمہاری املاک کو آگ لگا دیتا تو کیا ہوتا۔غرض متقی کا کام یہ ہے کہ برائیوں سے باز آوے۔اس سے آگے دوسرا درجہ افاضۂ خیر کا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ166)
(محمد شاہد تبسّم)