• 9 مئی, 2025

رشتہ داریوں کا تقدس و احترام

کچھ دن گزرے کہ کسی دوست نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں رشتہ داریوں کے تقدس، تکریم اور مضبوطی کے لئے بہت اہم پیغام تھا اور اس میں رشتہ داریوں کو زمانے میں بدلتے برتنوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ایک وقت تھا جب پیتل کے برتن ہوتے تھے۔ زیر استعمال برتنوں کو روزانہ تو دھویا ہی جاتا تھا لیکن سال میں ایک بار ان کی کَس اور مَیل کو دور کرنے کے لئے قلعی وغیرہ کروائی جاتی تھی۔ پھر اسٹیل کے برتن آئے جو نہ ٹوٹتے تھے، نہ خراب ہوتے تھے لیکن کچھ عرصہ استعمال کے بعد ان سے اکتاکران کو پھینک دیا جاتا تھا۔ ساتھ کانچ کے برتن آگئے جو ٹوٹ گئے تو ختم۔ پلاسٹک کے برتن متعارف ہوئے تو وہ زمانہ بھی زیادہ نہ چلا اور اب کاغذ کے برتن آگئے جن کو disposable برتن کہا جاتا ہے۔ زیر استعمال لائے اور dust bin کی نذر ہوگئے۔

یہی کیفیت گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ رشتہ داریوں سے ہوتی گئی۔ ایک وقت تھا کہ رشتے بہت مضبوط اور مربوط ہوتے تھے۔ اگر رشتوں میں کسی وجہ سے دراڑ آجاتی تو فوراً مختلف رشتہ داروں کی وجہ سے دوبارہ جوڑ دئیے جاتے اور پہلے ہی کی طرح زندگی بسر کرتے جیسے پیتل کے برتنوں کو قلعی کرادی ہو۔ پھر جب دوریاں پیدا ہونے لگیں تو رشتوں کو بھی اسٹیل کے برتنوں کی طرح کچھ عرصہ کے بعد اپنے سے الگ کردیا جانے لگا۔ پھر کانچ کے برتنوں کی طرح جب ٹوٹ گئے تو کوئی جوڑنے والی چیز بھی کام نہ آئی۔ کسی مصنوعی چیز سے بھی جوڑا گیا تو شیشہ میں آنے والا بال نہ گیا۔ رشتہ داریاں مختلف مراحل سے گزرتی اب بعض جگہوں پر تو disposable کے طور پر رہ گئی ہیں۔ جب ضرورت پڑی مل لیا پھر رستے جُدا جُدا۔

اس میں کسی حد تک حقیقت تو ہے۔ ممکن ہے بعض خاندانوں میں ابھی بھی یہ رشتے مضبوط ہوں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو بالخصوص جہاں جہاں مشترکہ خاندانی نظام ہے وہاں تو رشتوں میں مضبوطی بھی ہوگی۔ لیکن جوں جوں سوشل میڈیا ہماری زندگیوں پر حاوی ہوتا گیا یا ہم نے خود اسے اپنے اوپر حاوی کرلیا تب سے رشتہ داروں میں دوریاں پیدا ہونے لگیں۔ اب تو ایک ہی کمرہ اور ایک ہی محفل میں بیٹھے بہن بھائی اور ماں باپ آپس میں باتیں اور خوش گپیاں لگانے کی بجائے اپنے اپنے موبائل میں مصروف نظر آتے ہیں اور اگر بڑے چھوٹوں کو کوئی کام کہہ دیں تو بعض اوقات بے توجہی، بے رخی یابدتمیزی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور یوں آپسی محبت و مودت کا پودا مرجھا رہا ہے۔

ایک وقت تھا جو گھروں میں، داروں میں اکٹھا بیٹھا جاتا تھا۔ گاؤں میں ایک حقہ کے اردگرد تمام گاؤں والے باری باری جمع ہو کر کش لگاتے اور محبت کی باتیں کرتے۔ چوپالوں میں جمع ہوکر ریڈیو کی خبریں سنی جاتیں اور تبصرے ہوتے۔ آج بھی سوشل میڈیا یا وی لاگ کے ذریعہ گاؤں کے پرانے مناظر بھلے لگتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بچے اسکولز کی چھٹیوں کا انتظار کرتے اور پروگرامز بنتے تھے کہ اتنے دن پھوپھو، اتنے دن فلاں خالہ اور اتنے دن فلاں ماموں کی طرف چھٹیاں گزاریں گے۔ ایک دوسرے کے گھروں میں آناجانا رہتا تھا۔ اگر شادی ہوتی تو پہلے سے ہی طے پاجاتا کہ گھر کے کام کاج، مہمانوں کی تواضع اور دلہن کے کپڑوں کو گوٹا کناری لگانے کے لئے ہم اتنے اتنے دن پہلے آجائیں گے۔ مل بیٹھیں گے۔ پرانی یادیں تازہ کریں گے اور شادی پر آنے والے مہمانوں کی فہرستیں گھروں میں بنتیں۔ اردگرد محلہ میں، پڑوسیوں اور شادی والے گھر کے قریب دیگر رشتہ داروں سے مہمانوں کے لئے کمرےمستعار لئے جاتے۔ گھروں میں ہر فرد کے ذہن میں مہمانوں کے لئے قربانی کا جذبہ ہوتا۔ اپنے کمرے مہمانوں کے لئے وقف ہوجاتے۔ اڑوس پڑوس سے چارپائیاں، بستر، لحاف، کھیس اور تکیے اکٹھے کئے جاتے اور ان پر لئی (آٹے سے بنائے جانے والی گوند) سے کاغذ پر نام لکھ کر چیپیاں لگائی جاتیں یا کسی کونے کو ڈھونڈ کر اس کا نام لکھا جاتا جس سے یہ بستر عاریۃً لئے گئے۔ ایک رونق ہوتی اور روٹھے ہوئے عزیزوں کو منانے کے لئے وفد بنائے جاتے۔ اگر کوئی نہ مانتا تو بسا اوقات شادی ملتوی کردی جاتی۔ بلکہ میں نے تو ایک جگہ ایک روٹھے ہوئے رشتہ دار کو جو شادی میں شامل ہونے کے لئے آمادہ نہ تھا، کاندھوں پر اٹھا کرلاتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ ‘‘خاندان دی لڑی نوں ٹوٹن نہیں دینا۔ ترے بغیر وی ساڈی شادی ہو سکدی اے؟’’ روٹھے ہوئے کو منانے، راضی رکھنے اور خوش کرنے کے لئے اچھا مقام دینا۔ اس کی عزت افزائی کرنا۔ الغرض رشتہ داریوں کو ایک حصار میں رکھنے کے لئے بہت جتن ہوتے اور بابا دادا کی تمام اولاد کا ایک سائبان ہوتا۔ ایک دوسرے کی طرف آناجانا ہوتا، دعوتیں ہوتیں، مل بیٹھنے کی محفلیں منعقدکرنے کے بہانے تراشے جاتے۔

اب شادی بیاہ کے مواقع پر بظاہر رونق نظر آرہی ہوتی ہے۔ شادی ہالز، میرج سینٹرز پر بُلوا کر، تحائف کا ادل بدل کرکے، میل ملاقات کرکے، مبارکبادیں Exchange کرکے ایک دو گھنٹے اکٹھے مل بیٹھ کر واپسی شروع ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ ایک مہمان نے شادی میں شمولیت کے لئے جو سفر کیا ہے وہی سفر چار سے پانچ گھنٹے کا ہے اور اتنا ہی وقت خرچ کرکے اس نے واپس بھی جانا ہے۔ 10 گھنٹے کے تکلیف دہ سفر کے بعد شادی میں شمولیت کا وقت صرف ڈیڑھ گھنٹہ سے دو گھنٹہ اور اگر سفر کٹھن، تکلیف دہ ہو تو شادی ہال ہی کے ایک کمرے کو دور سے آنے والے مہمان کے لئے بُک کروا دیا جاتا ہے۔ جہاں آکر نہا دھو کر تیاری کرلیں، خواتین بناؤ سنگھار کرلیں۔ گھروں میں بُلانے سے احتراز برتا جاتا ہے۔ گھروں کے بچے، ان ہی کی بہن، بھائی کی شادی پر آنے والے عزیزواقارب کے لئے قربانی کرکے اپنے کمرے وقف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ کسی کو منوا کر شادی پر لائے بھی تو کام نکل آنے پر‘‘ تُو کون اور مَیں کون ’’

شاعر نے کہا تھا:

ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

کچھ اسی قسم کی کیفیت کا شکار ہم اور ہمارا معاشرہ ہوتا جارہا ہے۔ شادی بیاہ تو الگ رہا۔ اب تو عزیزوں میں میل ملاقات بہت دیر بعد ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی طرف آنا جانا بہت کم ہوگیا ہے۔ مہمان نوازی میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگر کسی کی دعوت بھی کرنی ہے تو باہر کسی ہوٹل میں بُلا کر کردی جاتی ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا اور موبائل فونز کا کمال ہے۔ اس فراوانی کی بدولت ہے جو اللہ تعالیٰ نے گھروں میں عطا کی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس فراوانی کی بدولت قربتیں بڑھتیں۔ مہمانوں اور عزیزوں کے لئے وقت، جان کی قربانی کا جذبہ کم ہوا۔ اب تو اگر کوئی ملنے کی خواہش کرے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میں فلاں جگہ جارہا ہوں۔ وہاں آجائیں ملاقات ہوجائے گی۔ تعزیت اور عیادت اب واٹس ایپ میسج کی مرہون منت رہ گئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی خدمت کے تین درجے بیان فرمائے ہیں۔

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَـآءِ ذِى الْقُرْبٰى

(النحل: 91)

کہ اللہ تعالیٰ نے عدل، دوسرے نمبر پر احسان اور پھر ایتاء ذی القربیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ان تین مراتب کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اسی واسطے اس نقص اور کمی کی تلافی کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسان سے بھی آگے بڑھو اور ترقی کرکے ایسی نیکی کرو کہ وہ ایتاء ذی القربیٰ کے رنگ میں رنگین ہو یعنی جس طرح ایک ماں اپنے بچے سے نیکی کرتی ہے۔ ماں کی اپنے بچے سے محبت ایک طبعی اور فطری تقاضا پر مبنی ہے نہ کہ کسی طمع پر‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 663)

سنن ابن ماجہ کتاب الادب میں درجہ بدرجہ رشتہ داروں کے بعد تعلق داروں سے حسن سلوک کا ذکر ملتا ہے۔

پیارے آقا ہادی برحق حضرت محمد مصطفیؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا۔
جو شخص رزق میں فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اس کی عمر اور ذکر خیر زیادہ ہو اسے صلہ رحمی کا خلق اختیار کرنا چاہیے یعنی اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھنی چاہیے۔

(صحیح مسلم کتاب البرو الصلہ)

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی اہمیت کے ضمن میں احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے حضور انورایّدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’پھر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بعض رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک نیکی جو ہے جس کا اللہ تعالیٰ ثواب دے رہا ہوتا ہے اُس سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کی نیکی رہے تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں جو رشتے برباد ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، خاوند اور بیوی کی آپس میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ نندوں اور بھابھیوں کی لڑائیاں ہیں، ساس اور بہو کی لڑائیاں ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی قسم کی ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پیدا ہوں، برائیاں پیدا ہوں۔ پس یہ بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے والی مومنات کا کام ہے کہ اپنے رشتوں کا بھی پاس اور خیال رکھیں‘‘

(خطاب فرمودہ 17 ستمبر 2011ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی)

مختلف رشتہ داروں کا خیال رکھنے کے اسلامی حکم پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے نیز اس کی پاسداری نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے عائلی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور انورایدہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا۔

قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی۔ پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھر خاوند کے رحمی رشتہ دارہیں۔ دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرو۔ غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہوبلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو۔ پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دارسے کرناہے جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہو گا‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2007ء خطبات مسرور جلد5 صفحہ225-226)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں۔
’’شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے۔ جب تقویٰ پر چلتے ہوئے میاں بیوی میں اعتماد کا رشتہ ہو گا تو پھر بھڑکانے والے کو چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو یا اس کا بہت زیادہ اثر ہی کیوں نہ ہو اس کو پھر یہی جواب ملے گا کہ میں اپنی بیوی کو یا بیوی کہے گی میں اپنے خاوند کو جانتا ہوں یا جانتی ہوں، آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، ابھی معاملہ صاف کر لیتے ہیں۔ اور ایسا شخص جوکسی بھی فریق کو دوسرے فریق کے متعلق بات پہنچانے والا ہے اگر وہ سچا ہے تو یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اپنے خاوند سے یا بیوی سے میرا نام لے کر نہ پوچھنا، میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ تم پوچھنے لگ جاؤ۔ بات کرکے پھر اس کو آگے نہ کرنے کا کہنے والا جو بھی ہو تو سمجھ لیں کہ وہ رشتے میں دراڑیں ڈالنے والا ہے، اس میں فاصلے پیدا کرنے والا ہے اور جھوٹ سے کام لے رہا ہے۔ اگر کسی کو ہمدردی ہے اور اصلاح مطلوب ہے، اصلاح چاہتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسی بات کرے گا جس سے میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہو۔

پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کااحترام کرنا ہے، ان کو عزت دینی ہے اور جب بھی کوئی بات سنی جائے، چاہے وہ کہنے والا کتنا ہی قریبی ہو میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر پیار محبت سے اس بات کو صاف کریں تاکہ غلط بیانی کرنے والے کا پول کھل جائے۔ اگر دلوں میں جمع کرتے جائیں گے تو پھر سوائے نفرتوں کے اور دوریاں پیدا ہونے کے اور گھروں کے ٹوٹنے کے کچھ حاصل نہیں ہو گا‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء ازخطبات مسرور جلد4 صفحہ565-566)

یہ چند حروف صرف اپنے سے پیار محبت کرنے والوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے تحریر کئے ہیں تاکہ ہم پہلے دور میں لوٹ جائیں اور اسلام کی حسین تعلیم کے نقوش جن پر مرور زمانہ کی وجہ سے گرد آجمی ہے اسے صافیوں اور اپنے مونہوں کی پھونکوں سے صاف کرکے اسلامی تعلیم کا وہ نقشہ قائم کریں جو آنحضورﷺ اور آپ کے محبوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے صحابہ میں نظر آتا تھا تاکہ ہم سب کے مل بیٹھنے سے وہ الاؤ روشن ہو جس کی روشنی سے اپنوں کی آنکھیں خیرا ہوں اور غیر بھی رشک سے دیکھیں۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2022