• 9 مئی, 2025

وہی اس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں

چند روز قبل خاکسار کو اپنی بڑی بیٹی کے گھر چند دن قیام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی بڑی بیٹی اور خاکسار کی نواسی پیاری ناجیہ محمود سلمہا اللہ بعمر 7 سال (جو بیٹی کی شادی کے 12سال بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی دعاؤں، خاص توجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ الحمدللّٰہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نظم بار بار ترنم سے پڑھتی دکھائی دی۔ خاکسار بھی محظوظ ہوا اور دوران سماعت مجھے ہر شعر بلکہ ہر مصرعہ نے اپنی طرف متوجہ کر کے اداریہ لکھنے کی طرف بلایا۔ وہ نظم یوں ہے۔

کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
وہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں راہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو
یہی تد بیر ہے پیارو کہ مانگو اُس سے قربت کو
اُسی کے ہاتھ کو ڈھونڈو جلاؤ سب کمندوں کو

(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر5، روحانی خزائن جلد15 صفحہ507)

خاکسار نے جب اس نظم کا سیاق و سباق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بلند پایہ تصنیف تریاق القلوب سے دیکھا تو بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز امور نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ تریاق القلوب نمبر5 کے آغاز پر یہ تین اشعار تحریر فرما کر اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ پیار کے نظاروں کا ذکر فرما کر لکھا ہے کہ اے اللہ! تونے مجھے کہا ہے کہ تو میری نظر میں منظور ہے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ اور بہت سے القابات سے نواز کر اپنی طرف لوگوں کو بلانے کا فریضہ میرے سپرد کیا ہے۔ مگر اس کے مقابل پر لوگوں نے مجھے گالیوں سے نوازا ہے۔ میرا نام کافر، کذاب اور دجال رکھا ہے۔ بس مجھے کوئی نشان دکھلا جس سے سلیم الفطرت لوگ مجھے ( تیرا) مقبول بندہ سمجھنے لگے۔ اور حضورؑ نے جنوری 1900ء سے دسمبر 1902ء تک تین سالوں میں آسمانی نشان دکھلانے کی التجا اپنے اللہ سے کر دی۔ اور لکھا کہ دیکھ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے۔ سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہشمند ہوں۔ اور اس اشتہار کے آخر پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’تیرا قہر تلوار کی طرح مفتری پر پڑتا ہے اور تیرے غضب کی بجلی کذاب کو بھسم کر دیتی ہے مگر صادق تیرے حضور میں زندگی اور عزت پاتے ہیں۔‘‘

(روحانی خزائن جلد15 صفحہ512)

یہی وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام نے اپنے ان تین اشعار میں بیان فرمایا ہے جو اوپر درج ہو چکے ہیں کہ نصرت ہمیشہ نیک بندوں کو ملتی ہے اور دشمن ہمیشہ خائب وخاسر ٹھہرتا ہے۔ گو یہ اشعار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کو مخاطب ہو کر لکھے مگر ہر فرد جماعت کے لئے بھی اس کے اندر عظیم سبق موجود ہے۔

جیسا کہ خاکسار تحریر کرآیا ہے کہ اس نظم کے قریباً ہر شعر بلکہ ہر مصرعہ میں ایک سبق ہے، ایک نصیحت ہے۔ مگر مجھے آج درج ذیل اس شعر میں بیان نصیحت اور سبق پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر اپنے پیارے قارئین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے۔

وہی اُس کے مقرب ہیں جو اپنا آپ کھوتے ہیں
نہیں راہ اُس کی عالی بارگہ تک خود پسندوں کو

اس شعر میں آپؑ نے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک آسان ذریعہ بیان فرمایا ہے اور وہ عاجزی، انکساری اور تواضع ہے۔ دوسرے معنوں میں اپنے نفس کو، اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں مٹانا ہے اور وہ لوگ جو خود پسند ہوتے ہیں اور بات بات میں اپنی تعریف چاہتے ہیں وہ ہر گز اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نہیں پہنچ پاتے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف انداز میں مومنوں کو تواضع اور منکسر المزاج رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے جہاں ’’عباد الرحمٰن‘‘ کی صفات کا ذکر فرمایا ہے وہاں سب سے پہلی صفت کا ذکر یوں فرمایا ہے

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿۶۴﴾

(الفرقان: 64)

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو جو نصائح فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نخوت سے انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھرا کرو۔

گویا اللہ کا مقرب بندہ بننے کے لئے فروتنی، انکساری ضروری ہے اور وہ جھگڑتے بھی نہیں بلکہ سلام کہتے ہوئے راستہ بدل کر چلے جاتے ہیں اور لقمانؑ کے بیٹے کی طرح اکڑتے بھی نہیں۔

اگر اس اہم موضوع کو احادیث کے دربار میں جا کر دیکھیں تو وہاں بھی بہت اعلیٰ درس ملتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ758)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عضباء نامی ایک اونٹنی دوڑ میں کسی کو آگے نہیں گزرنے دیتی تھی۔ ایک دفعہ ایک دیہاتی نوجوان کی اونٹنی نےعضباء کو مات دے دی جس پر ہر مسلمان کو بہت افسوس ہوا۔ حضور ؐ نے اس کو بھانپ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ دنیا میں جو بلند ہوتا ہے بالآخر اللہ تعالیٰ اس کے غرور کو توڑنے کے لئے اسے نیچا بھی دکھاتا ہے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ759)

الغرض عاجزی، انکساری اور فروتنی ہی ایک ایسی عادت ہے جو انسان کو اپنے مقام سے بلند سے بلند تر کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مختلف مقامات پر اس درس کو اُجاگر کرنے کی کوشش فرمائی ہے جیسے ’’جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا‘‘

خود اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا نام سلامتی کا شہزادہ رکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے۔‘‘

(تذکرہ صفحہ677)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے۔ محمدؐ جو جلالی نام تھا اور احمدؐ جوکہ جمالی نام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی نام احمدؐ کی صفت پر ہے اور یہ دَور بھی جمالی یعنی محبت و پیار کا دَور ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فرقہ کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدیہ‘‘ رکھ کر اس کی توجیہ یہ فرمائی کہ
’’اس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ دوسرا احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمدکا ظہور تھا اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی۔ اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سر کوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں۔ سو اے دوستو! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک جو امن اور صلح کا طالب ہو یہ فرقہ بشارت دیتا ہے۔ نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے۔ خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی اُن کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا اُن کا ہو جائے۔ اے قادرو کریم تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ528-527)

میں نے یہاں لندن میں ایک جگہ جہاں انڈوں کی پیکنگ ہو رہی تھی دیکھا کہ وہ ہر انڈے کو پیک کرنے سے قبل ایک تیز نوکیلے کیل نما اوزار کو ہر انڈہ میں چبھوتے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس انڈے کے چھلکے میں اس نوک دار کیل سے سوراخ کر دیا جائے تو وہ ابالتے وقت ٹوٹتا نہیں۔ میرے ذہن کو فوراً یہ سبق ملا کہ یہ اس کی اکڑ مارنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر انسان کو مختلف ضربیں لگی ہوں اور وہ مشکلات میں گھرا ہو تو اس کی اکڑ ختم ہو جاتی ہے اور وہ نرمی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس سے اس میں خوبصورتی آتی ہے اور خوبصورتی خدا کو بہت پسند ہے اور اس طرح وہ اس کا مقرب بندہ بنتا چلا جاتا ہے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

19 واں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ تھائی لینڈ.

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اگست 2022