’’واقفین نو کو اپنے اندر اسماعیلی صفات پیدا کرنی ہوں گی‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 10جولائی 2022ء کو عید الاضحی کے روز مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈ میں ایک بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد اسی خطبہ کے آخر پر واقفین نو کو اور ان کے والدین کو مخاطب ہو کر چند نصائح فرمائیں۔ اس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
’’واقفین نو جو اس وقت جماعتی خدمات میں آگئے ہیں انہیں اپنے اندر اسماعیلی صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ تبھی اللہ تعالیٰ ان کے لئے ہمیشہ بھلائی اور بہتری کے راستے کھولتا رہے گا۔‘‘
بہت سی اسماعیلی صفات کا تذکرہ حضور نے اپنے اس خطبہ میں ہی فرما دیا تھا جنہیں آگے چل کر قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن یہاں یہ بتاتا جاؤں کہ حضور کی زبان مبارک سے جب خاکسار نے اسماعیلی صفات کے الفاظ سنے تو فوراً بعض صفات ذہن کی تہہ سے باہر آکر خاکسار کو مخاطب کرنے لگے کہ تم بھی تو واقف زندگی ہو یہ صفات تمہارے لئے بھی ہیں۔ چنانچہ خیال آیا کہ کیوں نہ واقفین زندگی اور واقفین/واقفات نو کے لئے وہ تمام اسماعیلی صفات قرآن کریم، احادیث، ارشادات مسیح موعودؑ و خلفاءکرام کے اقتباسات سے ایک جگہ پر جمع کر دی جائیں تا واقفین کے لئے مفید ثابت ہوں۔
قرآن میں مذکور اسماعیلی صفات
سب سے اول قرآن پاک کو دیکھتے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ کا ذکر گیارہ آیات میں ملتا ہے۔ جن میں درج ذیل صفات کا ذکر ہے۔
1: اسماعیلؑ حلیم تھے۔ حلیم بمعنی بردباد۔
(الصافات: 102)
2: اسماعیلؑ صبر کرنے والے تھے۔
(الانبیاء 86) (الصافات: 103)
3: اسماعیلؑ محسن تھے۔
(الصافات: 106)
4: اسماعیلؑ صادق الوعدیعنی وعدہ پورے کرنے والے تھے۔
(مریم: 55)
5: اسماعیلؑ الاخیار یعنی بہترین خوبیوں والے اور چنیدہ لوگوں میں سے تھے۔
(ص: 49)
6: اسماعیلؑ اپنے اہل کو نماز اور زکواۃ کی ادائیگی کا حکم دینے والے تھے۔
(مریم: 56)
7: اسماعیلؑ اللہ کے حضور مرضیّا (پسندیدہ شخصیت) تھے۔
(مریم: 56)
8: اللہ کے گھر کی تعمیر میں حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ شرکت اور اللہ کا گھر تعمیر کرتے وقت رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ کی دعا کرنا۔
(البقرہ: 128)
9: ہم نے اسماعیلؑ پر وحی نازل کی۔
(النساء: 164)
10: اسماعیلؑ کو تما م جہانوں پر فضیلت عنایت کی۔
(الانعام: 87)
11: اسماعیلؑ کا قول افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ یعنی اے میرے باپ!وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے۔ یعنی کامل تسلیم رضا اور اطاعت۔
(الصافات: 103)
12: آپؑ ذبح عظیم تھے۔
(الصافات: 108)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ترجمہ قرآن کے فٹ نوٹ میں تحریر فرمایا ہے کہ ذبح عظیم سے مراد خدا کی راہ میں قربان ہونے والے سب انبیاء کرام سے بڑھ کر عظیم وجود یعنی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جن کا آنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچ جانے پر موقوف تھا۔
13: صاحب علم تھے۔ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ
(الحجر: 54)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں۔ اس پیشگوئی میں اگرچہ حضرت اسحاقؑ اور حضرت یعقوبؑ وغیرہ کا بھی ذکر ہے لیکن اول طور پر یہ پیشگوئی حضرت اسماعیلؑ پر چسپاں ہوتی ہے جن کی جسمانی اور روحانی ذرّیت میں سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونا تھا۔
(تعارف سورۃ الحجر از ترجمہ قرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ424)
احادیث کی رو سے اسماعیلی صفات (مناقب)
- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت امام حسن اور حسین علیہما السلام کے لئے ان ہی دعائیہ الفاظ میں دم کرتے تھے جن الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ اپنے دونوں بیٹوں حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق علیہما السلام کے لئے دم کرتے تھے۔ وہ الفاظ یہ ہیں۔
اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ
(بخاری کتاب الانبیاء)
کہ میں اللہ کے کامل و مکمل کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں موذی شیطان اور جانور (بلا) اور ہر نظر بد سے۔
- المستدرک للحاکم میں حضرت کعبؓ سے ایک روایت مروی ہے۔ جس میں حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی درج ذیل صفات کا ذکر ہے۔
1: وہ ایسے نبی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے صادق الوعد کا نام دیا۔
2: ایسے شخص تھے جن میں حق کے معاملہ میں سختی پائی جاتی تھی۔
3: آپؑ اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے اور اللہ آپؑ کو فتح و نصرت عطا کرتا۔
4: آپؑ کفار کے خلاف بہت زیادہ لڑائی کرنے والے تھے۔
5: کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے۔
6: آپؑ بہت زیادہ طاقتور اور کفار پر بہت زیادہ سخت تھے۔
7: آپؑ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔
8: آپؑ اپنے رب کے ہاں محبوب تھے۔
9: آپؑ کی زکٰوۃ اپنے اہل کے اموال میں سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے تھی۔
10: آپؑ کسی شخص سے کسی چیز کا وعدہ نہیں فرماتے تھے مگر یہ کہ آپؑ اس وعدہ کو ضرور پورا کرتے۔
11: آپؑ اللہ کے سچے رسول اور نبی تھے۔
(الحاکم فی المستدرک603/2 ارقم4033)
آپؑ کا حلیہ
آپؑ متناسب سر، بھاری گردن، لمبے ہاتھوں اور لمبی ٹانگوں والے تھے۔ آپ اپنے ہاتھ حالت قیام میں اپنے گھٹنوں پر مار سکتے تھے۔ چھوٹی آنکھوں، لمبی ناک، چوڑے شانوں، لمبی انگلیوں والے اور لوگوں میں سب سے نمایاں دکھائی دیتے تھے۔
(الحاکم فی المستدرک603/2 ارقم4033)
اسماعیلی صفات از حضرت مسیح موعود علیہ السلام
’’حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر پانی روکا نہ جاتا تو تمام دنیا میں بہہ نکلتا۔ اس قصہ کے بیان سے یہ مطلب ہے کہ اگرچہ ایسی جگہ ہو جہاں دانہ پانی نہ ہو۔جبھی خدا تعالیٰ اپنی قدرت کے کرشمہ دکھاتا ہے۔ چنانچہ پہلا کرشمہ یہ پانی تھا۔ اور اس بات کی طرف بھی اشارہ تھا کہ وہ پانی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلایا۔ اس کی شان یہ ہے کہ اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا (الحدید 18)۔ اس پانی سے تو اسماعیل زندہ ہوا تھا اور اس سے دنیا زندہ ہوئی۔ مدعا یہ ہے کہ جہاں ظاہری تجویز نہ تھی وہاں اللہ تعالیٰ نے بچاؤ کی ایک راہ نکال دی۔ اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے کہ اس کے امر سے زمین و آسمان رہ سکتے ہیں۔ وہ دیکھو وہ جنگل جہاں اسقدر گرمی پڑتی ہے اور ایک انسان نہ تھا اس کو خدا نے کیسا بنا دیا کہ کروڑ ہا مخلوق وہاں جاتی ہے اور ہر ایک جگہ سے لوگ جاتے ہیں۔ وہ میدان جہاں حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ وہی ہے جہاں نہ دانہ تھا نہ پانی۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ241 ایڈیشن 2016ء)
•’’چونکہ اسحاقؑ اور اسماعیلؑ دونوں بھائی تھے اور دونوں میں برکات کی تقسیم مساوی تھیں۔ تصفیہ تقسیم تب ہی ہوتا کہ دونوں سلسلوں میں باہم مطابقت اور عین موافقت ہوتی۔ اسماعیلؑ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا۔ جس کی امت کو
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ
(آل عمران: 111)
کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو۔ کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہو سکتے ہیں۔ پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے۔ اور ان کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق و معارف کو سمجھ سکتے۔ مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اس لئے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہے جو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے۔ اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھا کہ ترقی علوم و فنون اسی زمانہ میں ہوتا۔ بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ42 ایڈیشن2016ء)
اسماعیلی صفات از حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ
فرمایا:
’’سو برس کے قریب کا بڈھا، ایک ہی بیٹا، اپنی ساری عزت، ناموری، مال، جاہ و جلال اور امیدیں اسی کے ساتھ وابستہ۔ دیکھو! متقی کا کیا کام ہے۔ اس اچھے چلتے پھرتے جوان لڑکے سے کہا۔ میں خواب دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کروں۔ بیٹا بھی کیسا فرمانبردار بیٹا ہے۔
قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ
(الصافات 103)
ابا جی! وہ کام ضرور کرو جس کا حکم جناب الٰہی سے ہوا ہے۔ میں بفضلہٖ تعالیٰ صبر کے ساتھ اسے برداشت کروں گا۔ یہ ہے تقویٰ کی حقیقت۔ یہ ہے قربانی۔ قربانی بھی کیسی قربانی کہ اس ایک ہی قربانی میں سب ناموں، امیدوں، ناموریوں کی قربانی آگئی۔‘‘
(خطبات نور صفحہ274)
پھر فرمایا:
’’پھر بیٹا بھی ایسا بیٹا تھا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا بیٹا! اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ (الصافات: 103) تو وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو گیا۔ غرض باپ بیٹے نے ایسی فرمان برداری دکھائی کہ کوئی عزت، کوئی آرام، کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی۔ یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں۔‘‘
(خطبات نور صفحہ26)
اسماعیلی صفات از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔
’’حضرت اسماعیلؑ اور حضرت حاجرہ نے ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ساری دنیا اسماعیل کی نسلوں کے قدموں میں ڈال دی۔‘‘
(خطبات محمود جلد2 صفحہ192)
اسماعیلی صفات از حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ عید الاضحیہ 2اپریل 1966ء میں فرمایا:
’’ہمارے بچے اور نوجوان خدا تعالیٰ کے برگزیدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نظر رکھیں۔ جس نے چودہ سال کی عمر میں بشاشت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر ایسے بیابان میں زندگی گزارنے کو قبول کر لیا تھا۔ جہاں بظاہر حالات زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ جب تک یہ روح ہمارے بڑوں میں ہماری عورتوں میں اور ہمارے نو جوانوں میں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک غلبہ اسلام کے دن نزدیک تر نہیں آسکتے۔‘‘
(خطبات ناصر جلد دہم صفحہ123)
پھر فرمایا:
’’ایک لمبے عرصہ تک حضرت حاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تکلیف برداشت کی۔ ایسے حال میں والدہ کا ہر وقت موت کو اپنے سامنے دیکھنا اور بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا کہ کوئی اس کا وارث ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ اسے اس تکلیف سے کوئی بچانے والا ہے یا نہیں۔ یہ ایک ایسی قربانی ہے جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ ایسی حالت میں ان کا توکل صرف اللہ تعالیٰ پر تھا اور خدا تعالیٰ کا سلوک ان پر یہ ظاہر کرتا تھا کہ انسانوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہمارا پیدا کرنے والا رب ہے وہ تمہارے ساتھ ہے وہ تمہاری ان تکالیف کو دور کر کے ایک قوم یہاں بنا دے گا اور سب دنیا کی نعمتیں یہاں اکٹھی کر دے گا۔‘‘
(خطبہ عید الاضحیہ 12نومبر 1978ء از خطبات ناصر جلددہم صفحہ207-208)
اسماعیلی صفات از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ
’’اس نے بہت پہلے ایک رؤیا میں دیکھا تھا کہ وہ اس بیٹے کو خدا کی خاطر ذبح کر رہا ہے۔ جب یہ بات حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بیٹے سے بیان فرمائی تو دو آیات ظاہر ہوئیں۔ ایک ابراہیمؑ کا خدا کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونا اور تیار رہنا دوسرا اس کے بیٹے کا خدا کی محبت میں اسی طرح ابراہیمؑ، اپنے پیارے باپ کے قدم پر قدم مارنا۔ یہ ایک حیرت انگیز نشان ہے جس کی مثال دنیا کے پردے پر کہیں اور دکھائی نہیں دے گی۔ دنیا کے کسی مذہب کی تاریخ میں آپ کو ایسی اور ادائیں پیار اور محبت اور عشق کی دکھائی نہیں دیں گی کہ باپ بھی خد ا کا عاشق و صادق اور بیٹا بھی خدا کا عاشق و صادق اور دونوں کی اداؤں میں سر مو فرق دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
(خطبات عیدین، عید الاضحیہ 12جون 1992ء)
آپ ؒ مزید فرماتے ہیں
’’جب بعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ صَدَّ قْتَ الرُّءْیَا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تُو تو ہر پہلو سے اس رؤیا کوپورا کر گیا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب تونے ہجرت کی اس وقت بھی تونے رؤیا کو پورا کر دیا اور ایک اب وقت ہے جب ظاہری طور پر تُو بھی تیار ہوا اور تیرا بیٹا بھی اس قربانی کے لئے تیار ہوا۔ تو کامل شان کے ساتھ اپنے ہر پہلو کے ساتھ تو نے اس رؤیا کو پورا کر دیا لیکن یہ تو محض ایک آزمائش تھی۔ میں تیرے بچے کو بھی اس آزمائش میں شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ ہمیشہ کے لئے زمین و آسمان گواہ رہیں کہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجداد ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ دونوں ہی تسلیم و رضا میں درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔‘‘
(خطبات عیدین، عید الاضحیہ یکم جون1993ء)
اسماعیلی صفات
از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ
حضور انور فرماتے ہیں:
’’ہر نوجوان حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نمونے اپنانے کے لیے تیار ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہو گی۔ پھر حقیقی قربانی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ادراک اور تجربہ بھی ہو گا۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلام صادق کو ہم نے مانا ہے تا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ میں حصہ دار بن سکیں اسے بھی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ چنانچہ کئی مواقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً ابراہیم کہہ کر مخاطب فرمایا۔
(تذکرہ صفحہ 82 ایڈیشن چہارم)
(خطبہ عید الاضحیہ 31جولائی 2020ء الفضل انٹرنیشنل 26 نومبر 2020ء)
•حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حالیہ خطبہ عید الاضحی مورخہ10؍جولائی 2022ء میں اسماعیلی صفات کا یوں فرمایا۔
’’حضرت ابراہیمؑ ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانیاں بھی پھل لائی تھیں لیکن اُنہوں نے صبر اور دعا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آنے والے عظیم رسول اور اُن کے صحابہ کی قربانیاں بھی اپنے وقت پر رنگ لائیں اور الله تعالیٰ نے اپنے وعدے پورے فرمائے۔ پس کیا آج وہ سچے وعدوں والا خدا ہمیں چھوڑ دے گا؟یقینًا نہیں!‘‘
پھر اسی خطبہ میں آگے چل کر حضور فرماتے ہیں۔
’’انہیں (واقفین نو کو) یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وقف ایک قربانی چاہتا ہے اور اس قربانی کا معیار کیا ہے؟ یہ وہ معیار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پیش کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے تجھے خواب میں گلے پر چھری پھیرتے دیکھا ہےتو اس نے بیٹے سے پوچھا کہ اے اسماعیل! بتا تیرا کیا ارادہ ہے؟ تو بیٹے نے جس کی تربیت بزرگ اور تقویٰ میں بڑھے ہوئے ماں باپ نے کی تھی فوراً جواب دیا کہ اے میرے باپ! تو اپنی رؤیا پوری کر تو مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے پائے گا۔‘‘
(ابوسعید)