مورخہ 13 اگست 2022ء کی شام کو مسجد بیت الفتوح لندن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے جلسہ سالانہ برطانیہ پر آئے ہوئے مرکزی مہمانوں کے اعزاز میں عشائیہ تھا اور اس سے قبل ایک مشاعرہ بھی ہوا۔ (جس کی رپورٹ علیحدہ سے الفضل آن لائن کی زینت بن رہی ہے) جو جناب مبارک صدیقی نے Conduct کروایا۔ جناب مبارک صدیقی نے مشاعرہ کے دوران اپنا حق میزبانی سمجھتے ہوئے اپنے بعض قطعات بھی پڑھے۔ ان میں سے ایک قطعہ کا آخری شعر یوں تھا۔
ہزار بھیڑئیے پھرتے ہیں کاٹ کھانے کو
سو عافیت ہے اسی میں کہ قافلے میں رہو
جب اس شعر کے مضمون نے میرے کانوں کو مَس کیا تو ایک عجیب سا ارتعاش میرے جسم میں پیدا ہوا اور دل و روح نے سجدہ کرنے کو دل کیا کہ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ رب العالمین ہم ایک ایسے قافلے میں ہیں۔ جس کی سربراہی ایک نمائندہ رسول خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کر رہے ہیں۔ جس کے توسط سے آج ہم اللہ کے حصار میں ہیں۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی سچ فرمایا ہے۔
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
اگر ہم قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سفر قافلوں کی صورت میں کیا کرتے تھے۔ خواہ وہ سفر نجی یا خاندانی ہوں یا قومی سفر ہوں۔ ایک ان کا نگران ہوا کرتا ہے جو اسلامی دنیا میں امیر کہلایا۔ ا س کا مقصد صر ف اور صرف یہ ہوتا تھا کہ خونخوار جانوروں اور دشمنوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور قافلے کی صورت میں دشمن پر بھی رعب طاری ہو جاتا ہے جو دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر حملہ کرتا ہے۔
قافلے بنا کر چلنے کا طریق ہم جنگلوں میں جانوروں میں بھی دیکھتے ہیں۔ جب تک جانور جھنڈ یا ریوڑ میں ہوتا ہے خونخوار جانور بھی حملہ کرنے سے ڈرتا ہے۔ ہم روزانہ ہی Animal TV پر جانوروں کی تاریخ پر بنی فلموں کو دیکھتے ہیں۔ خونخوار جانور شیر،چیتا اور جنگلی کتوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے کسی جانور کا شکار کرنا ہوتا ہے تو وہ مختلف طریقوں اور ترکیبوں سے اپنے شکار کو جھنڈ سے الگ کرتے ہیں۔ ورنہ خونخوار جانور خواہ وہ بھی قافلے میں ہو دوسرے جانوروں کے قافلے پر حملہ کرنے سے گھبراتے ہیں۔
موٴرخہ 25؍اگست 2022ء کو خاکسار کے اداریہ بعنوان ’’رشتہ داریوں کا تقدس و احترام‘‘ سے متاثر ہوکر مکرمہ امة الباری ناصر نے امریکہ سے اپنی ایک نظم کا یہ قطعہ بھجوایا۔
دوریاں پھر بڑھتے بڑھتے دشمنی ہوجائیں گی
خاندانی گھر کے آنگن میں اگر دیوار کی
کھوج میں سجنوں کی تنہا اڑتے اڑتے تھک گئی
کونج نے اب جان لی ہے قدروقیمت ڈار کی
اس میں آخری مصرعہ ’’کونج نے اب جان لی ہے قدروقیمت ڈار کی‘‘ اسی مضمون کو اجاگر کرتا ہے۔
موصوفہ (شاعر) نے اس مصرعہ میں پنجابی محاورہ ’’کونج وچھڑ گئی ڈاروں تے لبدی سجناں نوں‘‘ کو کمال عمدگی سے ادا کیا ہے۔
ہم نے بچپن میں درسی کتب میں ایک کہاوت پڑھ رکھی ہے کہ ایک بوڑھے والد نے اپنے بچوں میں اتحاد قائم رکھنے کے لئے لکڑیوں کا گٹھہ منگوا کر بچوں کو توڑنے کا کہا۔ مگر وہ نہ توڑ سکے کیونکہ وہ ایک Bunch میں تھے۔ مگر جب اس Bunch کو کھول کر لکڑیوں کو الگ الگ کر دیا گیا تو ہر بچہ اس کو توڑنے کے قابل تھا جب کہ وہ تمام اکٹھے بھی Bunch کو توڑنے کے قابل نہ تھے۔
یہی کیفیت ہم اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ساتھ ہوتا دیکھتے ہیں۔ اگرہمارے ہاتھ کی اکیلی انگلی کسی کے ہاتھ آجائے تووہ اسے توڑ مروڑ سکتا ہے اور اگر پانچوں انگلیاں آپس میں اتحاد کر لیں تو ایک ایسا Bunch بنتا ہے جو نہ صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے بلکہ اگلے پر حملہ آور بھی ہو سکتا ہے۔
ہم نے 1947ء میں پارٹیشن کے وقت دیکھا جن لوگوں نے قافلوں کی صورت میں انڈیا کو خیر باد کہہ کر پاکستان میں پناہ لی یا پاکستان سے ہندو اور سکھ قافلوں کی صورت میں نکلے وہ محفوظ رہے مگر جن لوگوں نے اکا دکا نکلنے کی کوشش کی وہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی جنگ یا سریہ پر صحابہ کو بھجوایا قافلوں کی صورت میں امیر مقرر فرما کر بھجوایا۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں 1965ء اور 1971ء کی جنگ دیکھی۔ آج قافلہ کو رجمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ جو تازہ دم ہو کر دشمن پر یکجائی صورت میں حملہ آور ہوتی ہے۔
ہم اور ہمارے آباواجداد اس بات کے گواہ ہیں اور یہ بات تاریخ اسلام میں روزروشن کی طرح درج ہے کہ جب تک مسلمانوں نے خلافت کے دامن کو پکڑے رکھا وہ خود بھی محفوظ رہے اور بطور مسلمان انہوں نے فتوحات بھی حاصل کیں اور اسلام کا نام روشن رکھا مگرجب سے خلافت کو خیر باد کہا تب سے قافلہ تو نہ کہلائے، بھیڑ، اژدہام اور ہجوم کے ناموں سے ان کو پکارا گیااور شکست و بد نامی ہی ان کےحصہ میں آئی۔ آج اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو دیکھ لیں وہ امن میں نہیں اور حکومتوں کی سطح پر بڑی طاقتور قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلے جا رہے ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل تک ہم تو محض بھیڑ، ہجوم اور ازدہام کے الفاظ خال خال سنتے تھے آج تو ہر ٹی وی چینل پر قریباً ہر ٹاک شو میں اور وی لاگرز اپنے وی لاگز میں اس طرح کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور خلافت کے قیام کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ مختلف مذہبی تنظیمیں خلافت کے قیام کے لیے اجلاسات، جلسے جلوس بھی نکالتی ہیِں۔
ہفت روزہ ’’المنبر‘‘ میں تسکین جاوید صاحب لکھتے ہیں۔
’’ہم زندہ قوم ہیں کا ایماندارانہ جائزہ لیتے ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس میں زندہ قوم والی کوئی علامت نظر نہیں آتی بلکہ اس میں موجود سب علامتیں ایک ہجوم کا سا منظر پیش کرتی ہیں۔وہ ہجوم جس میں انسانوں کا جمگٹھا تو ہو مگر ان کے ہاں کو ئی واضح مقصد نہ ہو۔ جو گنتی میں تو افراد ہوں مگر تول میں روئی کے گالے۔ جو چل تو رہے ہوں مگر منزل سے بیگانہ۔یہ ہجوم بازار میں اکٹھے ہو جانے والے رش سے زیادہ کسی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ خود ہی سوچیے کہ کیا ایسے ہجوم کو قوم بلکہ زندہ قوم کہا جا سکتا ہے؟جو لوگ اپنے مقاصد سے بے خبر ہوں۔ جو اپنے مستقبل سے بے فکر ہوں۔ جو اپنے نصب العین سے محروم ہوں۔ جن کا دامن سنجیدہ جذبوں سے تہی ہو۔جن کی فکری حالت اتنی نا گفتہ بہ ہوکہ بھیڑ بکریوں کی طرح دور سے ہر سبز چیز کو چارہ سمجھ کر دوڑتے چلے آئیں۔بے رائے افراد کی، افراد میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی تو بے رائے قوم کی، قوموں کی صف میں بھلا کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟
(خلافت۔ وقت کی ضرورت از حنیف احمد محمود صفحہ71۔ 72)
اور دوسری طرف یہ تمام مذہبی جماعتیں، جماعت احمدیہ کے نظام سے مرعوب بھی نظر آتی ہیں۔ اور اس امر کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ خلافت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جناب ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت ’’سرراہے‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔
’’اس وقت عالم اسلام کا کوئی لیڈر نہیں ہے اور مسلمان ممالک کے اکثر حکمران امریکہ کے پٹھو بنے ہوئے ہیں۔اس صورت حال میں اللہ ہی سے دعا کی جا سکتی ہے کہ وہ عالم اسلام کو مخلص قیادت عطا فرمائے جو صرف مسلمانوں کے مفاد کو سامنے رکھے اپنے ذاتی مفاد کا خیال نہ کرے۔ جس طرح مسلمان بارش نہ ہونے پر نماز استسقاء ادا کرتے ہیں اسی طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کو کسی ایک روز ’’نماز قیادت‘‘ ادا کرنی چاہئے اور اللہ سے رو روکر دعا کرنی چاہئے کہ وہ انہیں مخلص لیڈر شپ عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
(خلافت۔ وقت کی ضرورت از حنیف احمد محمود صفحہ62)
آج مسلمان کی نجات خلافت ہی میں پوشیدہ ہے۔ جماعت احمدیہ کی قوت،خلافت کا نظام ہے اور بعض عالمی قوتیں بھی اس وقت جماعت احمدیہ کی قوت و طاقت سے مرعوب نظر آتی ہیں۔ یہ نام نہاد مسلمان گھات میں بیٹھ کر نقصان پہنچا سکیں تو الگ بات ہے یا اکیلے اکیلے کسی احمدی کو پا کر اپنے ناپاک عزائم سے وہ کسی احمدی کو شہید کر دیں تو اور بات ہے۔ ورنہ تو بقول جناب مبارک صدیقی ’’ہزار بھیڑئیے پھرتے ہیں کاٹ کھانے کو‘‘
آج اس سالار قافلہ احمدیت حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی ہدایات و نصائح نے ہی ہم احمدیوں کو عافیت میں رکھا ہوا ہے کہ کسی ہنگامہ، توڑ پھوڑ اور جلسے جلوس میں حصہ نہیں لینا۔ ورنہ تو ہم بھی بدنام ہو جاتے۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف سالار قافلہ کو صحت و سلامتی کے ساتھ دراز عمر عطا کرے بلکہ ہم دعا گو ہیں کہ خلافت کا سایہ تا تاقیامت ہمارے سروں پر فگن رکھے۔ ہم قافلے کے ساتھ ہوں او ر قافلے کی برکات ہمارے ساتھ۔
چلو دنیا کی خاطر کام کو آسان کرتے ہیں
وفا گر جرم ہے تو جرم کا اعلان کرتے ہیں
خلافت ہے ہماری زندگی اور جانتے ہو تم
حفاظت جان کی تو ہر طرح انسان کرتے ہیں
در مسرور کا خادم ظفر تنہا نہیں ہر گز!!!
یہ وہ اعزاز ہے جس پر کروڑوں مان کرتے ہیں
(ابو سعید)