• 27 اپریل, 2024

فقہی کارنر

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ممبرات لجنہ اماءاللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ اسے محنت کے بدلہ میں کچھ ملے۔ جس کام کے بدلے میں کچھ نہ ملے وہ کام نہیں لغو سمجھا جاتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص یہ تقاضا کرے کہ اُسے نماز کے بعد کیا ملا۔ تو اُس کا یہ تقاضا صحیح ہوگا۔ اسی چیز کی طرف خدا تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الفَحْشَآ ءِ وَالْمُنْکَر۔ نماز بے حیاؤں اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔ اسی طرح روزے کے متعلق فرمایا۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تا تمہارے اندر تقویٰ کی طاقت پیدا ہو جائے۔ اسی طرح زکوٰة سے بھی دل میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں سب اصول بیان کر دئے گئے ہیں۔ اور اصول ہی چیز ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی پینے سے پیٹ بھر جاتا ہے۔ لیکن بخار والے مریض کا پانی سے پیٹ نہیں بھرتا۔ بلکہ وہ پانی مانگتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح نماز کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ نا پسندیدہ باتوں سے روکتی ہے اور نیکی کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ اگر ہمیں وہ طاقت حاصل نہیں ہوتی تو ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ ہماری روحانی صحت میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ جس طرح بخار والا غذا قبول نہیں کرتا یا غذا کھانے سے اُسے اسہال شروع ہو جاتے ہیں قے ہو جاتی ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُس کے اندر بیماری پیدا ہوگئی ہے۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اُس بیماری کا علاج کرواتے ہیں اگر علاج نہ کروایا جائے تو مرض بڑھ جاتا ہے۔ اسی روحانی غذاؤں سے اگر روحانی طاقت حاصل نہیں ہوتی اور پھر تم اس کا فکر نہیں کرتیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم روحانی طور پر مر جاؤ گی۔ اس لئے کہ تمہارے اندر بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن اس کےنتیجہ پر غور نہیں کرتے، روزہ رکھتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔ ہم اندھا دُھند چلے جاتے ہیں۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح جسم غذا جذب نہیں کرتا تو وہ مرجاتا ہے اسی طرح ہماری رُوح غذا جذب نہ کرنے کی وجہ سے مرجاتی ہے۔ انسان کو اس کی نگرانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ روحانی غذائیں اُس کے تن لگتی ہیں کہ نہیں۔ اِن غذاؤں سے اُسے روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ ان غذاؤں سے پیدا شدہ تغیرات کو نہ دیکھیں تو ہو سکتا ہے ہمارے اندر کوئی بیماری پیدا ہو جائے اور ہم وقت پر اس کا علاج نہ کریں اور ہلاکت میں مبتلا ہو جائیں۔

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد2 صفحہ56-57)

(مرسلہ:داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایک قابل توجہ امر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2022