حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اپنے نفس کو کس طرح پاک کرناہے یہ جاننے کی کوشش کرو۔آپ نے بیعت میں آنے کے بعدکی اصل غرض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’تم اپنے اندرایک پاک تبدیلی پیدا کرو اور بالکل ایک نئے انسان بن جاؤ۔ اس لئے ہرایک کو تم میں سے ضروری ہے کہ وہ اس راز کو سمجھے اور ایسی تبدیلی کرے کہ وہ کہہ سکے کہ میں اَور ہوں‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ352 ایڈیشن 2003ء)
یعنی جو پہلے تھا، وہ نہیں رہا۔ پس یہ درد ہے جو ہمیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن لوگوں کے لئے کہے جوآپ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ اگر ان کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق نہیں تھا اور کمیاں تھیں تو ہمارے زمانے میں تویہ کمیاں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور ان کو دُورکرنے کے لئے ہمیں کوشش بھی کئی گنابڑھ کر کرنی ہوگی۔ تبھی ہم آپ کے درد کو ہلکا کرنے والے بن سکیں گے۔ اب یہ جو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کی یہ حالت دیکھ کے میری یہ حالت ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک نہ کر لوں کہ کیوں نہیں مومن ہوتے؟ اس کا مطلب غیروں کے لئے تو بے شک یہ ہے کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتے لیکن یہاں آپ کو اپنوں کے لئے فکرہے اور یہ فکرہے کہ وہ مقام حاصل کیوں نہیں کرتے جو ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ قرآن کریم نے ایسے ماننے والوں کے لئے یہ فرمایاہے کہ یہ تو کہوکہ ہم اسلام لائے، فرمانبرداری اختیارکی، نظامِ جماعت میں شامل ہو گئے، یہ مان لیاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ آنے والا مسیح موعود اور مہدی موعود جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی وہ آگیا ہے اور ہم نے اس کی بیعت کر لی ہے اور اُس میں شامل ہو گئے، لیکن ایمان ابھی کامل طورپر تم میں پیدانہیں ہوا۔ ایمان کے لئے بہت سی شرائط ہیں جن کو پوراکرنا ضروری ہے۔ مثلاً مومن سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا مطلب ہے کہ ہر دنیاوی چیز اور رشتے کوخداتعالیٰ کے مقابل پر اہمیت نہ دینا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ ایمان کے ساتھ اعمالِ صالحہ کی شرط رکھی ہے۔ یعنی نیک عمل بھی ہوں اور موقع اور مناسبت کے لحاظ سے بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کومدّ نظر رکھتے ہوئے بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو حکم دیئے ہیں اُن میں عبادت کا حق اداکرنے کے ساتھ جو انتہائی ضروری ہے فرمایا مومن وہ ہے جو اصلاح بین الناس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے آپس میں اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، فساد اور فتنے نہیں ڈالتے۔ ان کے مشورے دنیا کی بھلائی کے لئے ہیں، نقصان پہنچانے کے لئے نہیں۔ مومن وہ اعلیٰ قوم ہیں جو نیکی کی ہدایت کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ مومن وہ ہیں جو امانتوں کا حق اداکرنے والے ہیں۔ جو اپنے عہدکی پابندی کرنے والے ہیں۔ جو سچائی پر قائم رہنے والے ہیں۔ جو قولِ سدیدکے اس قدر پابندہیں کہ کوئی پیچ داربات ان کے منہ سے نہیں نکلتی۔ اپنوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی خاطرقربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ صحابہ نے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کاایسا نمونہ دکھایا کہ اپنی دولت، گھر کا سامان، جائیداد غرض کہ ہر چیزایک دوسرے کے لئے قربان کرنے کے لئے تیارہوگئے۔
پھر مومن کی یہ نشانی ہے کہ حسنِ ظن رکھتے ہیں، ہر وقت بدظنیاں نہیں کر لیتے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے ایک دوسرے کے خلاف دل میں کینے اور بغض نہیں بھر لیتے۔ اگر آپ لوگ، ہرایک ہر فرد جماعت اس ایک بات پرہی سو فیصد عمل کرنے لگ جائے تویہاں ترقی کی رفتاربھی کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔ اگر یہاں جاپانی عورتوں سے جنہوں نے شادیاں کی ہیں ہر ایک بیویوں سے اسلامی تعلیم کے مطابق حسنِ سلوک کرنے لگ جائے تویہ بات اُن کے سسرالی عزیزوں میں تبلیغ کا ذریعہ بن جائے گی۔ پھرمومن ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں اور صرفِ نظر کرنے والے ہیں۔ پھر مومن عاجزی دکھانے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو اپنے ایک شعرمیں یوں بیان فرمایاہے کہ: ؎
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ18)
عاجزی دکھاؤ گے ہرایک سے کم تر اپنے آپ کو سمجھو گے تبھی اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے بن سکوگے۔
(خطبہ جمعہ 8؍نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)